Home / Socio-political / چاہ کن را چاہ در پیش

چاہ کن را چاہ در پیش

چاہ کن را چاہ در پیش

                                                                                            ابرار احمد اجراوی

۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی نت نئے تنازعات کے حصار میں گھرتی جارہی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایک تنازع ختم نہیں ہوتا کہ دوسرانیا اور سنگین تنازع سر ابھار لیتا ہے۔۲۰۰۹ء میں جناح پر کتاب لکھنے کے جرم میں سینئیر لیڈر جسونت سنگھ کو پارٹی سے باہر کا راستہ دکھایا گیا، اسی سال مودی کے دباؤ میں قومی مجلس عاملہ سے سنجے جوشی نے استعفی دیا اور پارٹی کو خیر باد کہا، تجربے کار لیڈر نتن گڈکری کو دوسری مدت صدارت سے دور رکھا گیا، پارٹی کے خلاف بیان بازی کی پاداش میں رام جیٹھ ملانی کو بھی پارٹی کو الوداع کہنا پڑا، غرض یہ کہ معمولی معمولی باتوں پر اتنے اختلافت جنم لے رہے ہیں کہ بعض مبصرین کے مطابق بی جے پی اختلافات اور تنازعات کا معجون مرکب بن کر رہ گئی ہے۔ مارچ میںجو مودی کی ۷۶؍ رکنی نئی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، وہ بھی تنازعات کے گرداب میں پھنس کر رہ گئی تھی،کیوں کہ اس میں سینئر رہ نماؤوں کو نظر انداز کرکے ان چہروں کو فوقیت دی گئی تھی، جو مودی کے محبوب نظر اور مصاحب خاص تھے۔ در اصل جب سے آر ایس ایس کے منظور نظر شدت پسند لیڈر راج ناتھ سنگھ کے ہاتھوں میں بی جے پی کی کمان آئی ہے، برابر ان لوگوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جن پر کبھی بی جے پی انحصار کرتی تھی۔ اس وقت ایک اور بڑا بحران بی جے پی کے سر پر بادل کی طرح منڈلا رہا ہے۔ وہ ہے نریندر مودی کو انتخابی مہم کا سربراہ منتخب کرنے اور سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی کو حاشیے پر رکھنے کا معاملہ۔ گرچہ یہ بات پہلے سے طے تھی کہ گوا میں منعقدہ قومی مجلس عاملہ کی میٹینگ میں کئی بڑے فیصلے لیے جائیں گے اور نریندر مودی کو ہی انتخابی تشہیر مہم کا سربراہ مشتہر کردیا جائے گا، لیکن اڈوانی جی اور ان کے حامی لیڈران نے اخیر وقت تک انتظار کیا اور جب تمام فہمائش کے باوجود مودی کے ہاتھوں میں کمپین کمیٹی کی زمام کار سونپ دی گئی، لال کرشن اڈوانی نے اس قدم کو اپنی توہین کے مترادف تصو رکرتے ہوئے بی جے پی کے تمام عہدوں سے استعفی سونپ دیا، جوںہی استعفی کی خبر کا دھماکہ ہوا، بی جے پی کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سمیت بی جے پی کے تمام بڑے رہ نما اڈوانی کو منانے میں لگ گئے، آنا فانا پریس کانفرنس ہوئی،استعفی کا ڈرامہ بھی راتوں رات ختم ہوگیا، مگر دروں خانہ اقتدار کی یہ لڑائی کب تک جاری رہے گی اور یہ باہمی تنازع بی جے پی کو کس قیامت سے گزارے گا، کوئی ماہر نجومی بھی اس کی پیشین گوئی نہیں کرسکتا۔راج ناتھ سنگھ نے اپنے عہد صدارت میں اقتدار اور طاقت کی غیر منصفانہ تقسیم کی جو آگ لگائی ہے، وہ سرد ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

آج اگرخود پسند اور فرقہ پرست لیڈر مودی کوتجربے کار اڈوانی کے مقابلے میں اہمیت دی جارہی ہے، تو اس میں بی جے پی سربراہان سے زیادہ قصور خود اڈوانی کا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادت کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری نے راج دھرم نبھانے میں ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے مودی کو وزارت اعلی کی کرسی سے ہٹانے کی تجویز رکھی تھی تو اڈوانی نے ہی مضبوط ڈھال بن کر مودی کے کردار اور طریقہ حکومت کا دفاع کیا تھا، اڈوانی ہی وہ شخص تھے، جس نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مودی کی بر طرفی کی مخالفت کی تھی۔ اڈوانی نے ہی مودی نام کے سانپ کو خوراک دے کر تنو مند و توانا بنایا ہے، جو آج انھیں چہار جانب سے ڈس رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہر عروج کے لیے زوال ہوتا ہے۔ کبھی اڈوانی بی جے پی کا نمایاں چہرہ ہوتے تھے۔ ان کے بغیرپارٹی کا تصور بھی نا ممکن تھا۔ بی جے پی کوایک چھوٹی پارٹی کے گوشہ گمنامی سے اس کو قومی پارٹی کی معراج تک پہنچانے میں اڈوانی نے ہی خون پسینہ بہایا ہے۔ بی جے پی جو کبھی دو تین سیٹیں جیتا کرتی تھی، اڈوانی کی تگ و تاز سے مرکز کے اقتدار تک پہنچی اور بی جے پی والے کئی سال تک اقتدار کا مزہ لوٹتے رہے۔ پارٹی کو اتنی ترقی دینے کا لازمی تقاضا تھا کہ اڈوانی کو وزرات عظمی کے منصب پر فائز کیا جاتا، لیکن ہر بار قسمت کی دیوی اڈوانی سے روٹھ جاتی تھی۔جب نوے کی دہائی میں وزرات عظمی کے منصب کی سپردگی کا مسئلہ سامنے آیا، تو باجپائی کے قد اور تجربے کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا، اس لیے اڈوانی وزارات عظمی کی خواہش پہ دم ہی بھرتے رہے۔ ۲۰۰۴ء میںدراز عمر ی کے سبب اٹل جی کو حاشیے پر رکھ کر اس مقصد سے انتخاب لڑاگیا کہ اگر قومی جمہوری محاذ  فتح کا پرچم لہراتا ہے تو اڈوانی جی ہی وزرات عظمی کرسی پر متمکن ہوں گے، لیکن بی جے پی کے درخشاں ہندستان کے نعرے کی ہوا نکل کر رہ گئی اور بی جے پی کو عام انتخابات میں ایسی شکست فاش ملی جس کا بی جے پی اور ان کی حلیف پارٹیوں کو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ خیر خدا خدا کرکے معمر لیڈر اڈوانی نے پانچ سال اور بن باس کی زندگی گزاری، ۲۰۰۹ء آیا، اس بار کا الیکشن مکمل طور پر اڈوانی کی سربراہی میں لڑا گیا، لیکن اڈوانی کی قسمت کا ستارہ اس بار بھی گردش میں ہی رہا،انھیں من موہن کی ٹیم کے سامنے پسپائی پر مجبور ہونا پڑا اور اس شکست پرچہار جانب اتنی نکتہ چینی ہوئی کہ اڈوانی کو بی جے پی کی صدارت سے مستعفی ہونا پرا۔بلکہ کئی سیاسی پنڈتوں نے تو اڈوانی کو سرگرم سیاست سے کنارہ کش ہوجانے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔اس بار بھی اڈوانی سمیت کئی بی جے پی رہ نماؤوں کے دروں میں وزارت عظمی کی خواہش جنم لے رہی ہے،اس لیے وہ لوگ مودی کے بڑھتے قد سے خائف ہیں۔ اڈوانی تو ہر حال میں ۲۰۱۴ء میں اپنی اس حسرت کی تکمیل کرلینا چاہتے ہیں۔مودی سے اختلاف کی جنگ کسی اصول ، پارٹی اور ملک کے مفاد کی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ سرتاسر حصول اقتدار کی جنگ ہے، جس میں اپنے آپ کو پچھڑتا دیکھ کر اڈوانی جی اور ان کے حامی اتنا پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔

آج اگراڈوانی کو اتنے برے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں، تو یہ سب ان کے کالے کرتوتوں کی دین ہے۔ انھوں نے نوے کی دہائی میں رتھ یاترا نکال کر پورے ملک میں نفرت کا زہر گھولا، ان کی موجودگی میں کار سیوکوں کی مدد سے بابری مسجد شہید کردی گئی، پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، بی جے پی اور آر ایس ایس میں تو اڈوانی کا قد بڑھ گیا، لیکن پورے ملک میں اڈوانی نے اپنا قد چھوٹا کرلیا۔ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں فرقہ پرستی کا ننگاناچ ہوا، منظم طور پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، لیکن اڈوانی اس وقت بھی مودی کی وکالت کرتے رہے، اس کے بعد بھی جتنے انتخابات ہوئے، وہ ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اگلتے رہے،وہ مدارس کو دہشت گردی کی آماج گاہ قررا دیتے رہے، وہ ہر جلسے اور ہر کانفرنس میں یہ راگ الاپتے رہے کہ ہر مسلمان تو دہشت گرد نہیں ہوتا، لیکن سارے دہشت گرد مسلمان ہی ہوتے ہیں، اس طرح انھوں نے نہ صرف اقلیتوں کی دشمنی مول لے کراپنے پیروں پر کلھاڑی مار لی، بلکہ اس ملک کے سیکولر اور انصاف پسند طبقوں میں بھی اپنی شبیہ خراب کرلی۔ ہر ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ملتا ہے، اڈوانی بھی اسی عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔

۲۰۰۵ء تو خاص طور پر اڈوانی جی کو یاد ہوگا، جب انھوں نے ملک کے عوام کو اپنے سیکولرازم کا ثبوت دینے کے لیے نہ صرف مملکت خداداد پاکستان کا دورہ کیا، بلکہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر حاضری بھی دی اور جناح کی تعریف میں چند جملے ادا کردیے، اب کیا تھا کہ آر ایس ایس والوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، اڈوانی اپنی زبان کے پکے ہیں، اس لیے انھوں نے اپنے بیان کی سیاسی تاویل و توجیہ تو کی، مگر وہ اپنے بنیادی بیان سے منحرف نہ ہوئے۔ آر ایس ایس والوں نے اس جرم کی پاداش میں ان کے سیاسی پر کترنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔انھیں بی جے پی کے عہدہ صدارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔آر ایس ایس کے اشارے پر بی جے پی نے انھیں ۲۰۰۹ء میں وزارت عظمی کا امیدوار تو اعلان کردیا، لیکن جب شکست ملی تو ان لوگوں نے عملی طور پر انھیں سرگرم سیاست سے الگ کرنے اور باجپائی کی طرح پارٹی کا سرپرست بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔ سشما سوراج کو لوک سبھا اور ارون جیٹلی کو راجیہ سبھا کا لیڈر بناکر یہی جتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اب اڈوانی وزارت عظمی کی دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں۔

اڈوانی کو مودی سے اتنی نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ سب سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ اگر اڈاوانی کو واقعی مودی سے اختلاف ہوتا اور بات اصول اور صابطے کی ہوتی تو وہ شب بھر میں اپنا استعفی واپس نہ لیتے۔ آخر کون سا ایسا معاہدہ ہوا ہے جس نے اڈوانی کو استعفی واپس لینے اور دوبارہ قومی جمہوری محاذ کو متحد کرنے پر مجبور کردیا۔ اس بات کو اب تک پردہ خفا میں کیوں رکھا گیا ہے۔ اگر اڈوانی واقعی اصول پرست سیاست داں ہوتے، تو وہ موہن بھاگوت اور راج ناتھ سنگھ سے ہونے والی خفیہ ملاقات اور وعدہ وعید کا دکر ضرور کرتے۔ اگر قومی جمہوری محاذ کو بچانا ہی مقصود تھا، تو اتنی جلد بازی میں استعفی کا قدم کیوں اٹھا یا؟اور جب موہن بھاگوت نے گوا کی مجلس عاملہ کے بعد یہ اعلان کردیا تھا کہ جو بھی فیصلہ لیا گیا ہے وہ حرف آخر ہے اس میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ، تو پھر اڈوانی نے کن ایشوز پر موہن بھاگوت سے مصالحت کی ہے ؟لگتا ہے دال میں کچھ کالا ہے۔ در اصل بی جے پی اور اس کے سارے حوالی موالی آر ایس ایس کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گئے ہیں، وہ ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر اپنی دم بھی نہیں ہلا سکتے۔ بات صاف ہے کہ اڈوانی نے آر ایس ایس کے کنبے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اپنی شکست فاش تسلیم کرلی ہے۔ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔استعفی نے سیاسی حلقوں میں اڈوانی کا قد اونچا کردیا تھا، لیکن استعفی کی واپسی نے نہ صرف یہ کہ بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، بلکہ اس سے اڈوانی کی تضحیک اور توہین کا پہلو بھی بر آمد ہوتا ہے۔

جہاں تک مودی کو انتخابی تشہیر کمیٹی کا سربراہ بنانے کا سوال ہے، تو بہت جلد عوام کے سامنے اس کا انجام سامنے آجائے گا۔ مودی گجرات کے محبوب اور ترقی پسند لیڈر ہوسکتے ہیں جہاں وہ خوف اور دھمکی کی سیاست کے سہارے اقتدار کی کرسی پر متمکن ہوجاتے ہیں۔ لیکن آر ایس ایس کنبے کو یہ بات گرہ باندھ لینی چاہیے کہ پورا ملک گجرات نہیں ہے۔ گجرات کی ترقی کے ماڈل کا چہرہ بھی سوا ارب عوام کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں جیت کا پرچم لہرانے کے لیے شمال سے لے کر جنوب اور مشرق سے لے کر مغرب تک کے ہندستان کو فتح کرنا پڑتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بی جے پی صرف مدھیہ پردیش اور گجرات اورجزوی طور پر پنجاب و بہار تک محدود ہوکر دہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ریاست میں ان کی دال نہیں گلتی۔ بہار جہاں بی جے پی اقتدار میں شمولیت کی روٹی کھا رہی ہے، وہاں بھی اس کے قدم ڈانوا ڈول ہو رہے ہیں، نتیش کمار بہت جلد بی جے پی سے علاحدگی کا اعلان کرنے جارہے ہیں۔کرناٹک بی جے پی والوں کا گڑھ تھا، لیکن یدی یورپا کی بعاوت نے وہ جوتم پیزار مچائی ہے کہ سابقہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کا وہاں سے صفایا ہوگیا ہے۔ دہلی کے تخت تک پہنچنے کے لیے بہار، بنگال، مہاراشٹر اور اتر پردیش کو بھی فتح کرنا پڑے گا، جہاں کی علاقائی پارٹیاں اتنی مضبوط ہیں کہ مودی اور ان کی ٹیم کی ایک نہیں چلے گی۔مرکز کے اقتدار تک پہنچنے کے لیے تقریبا ۲۰۰ سیٹیں جیتنی پڑیں گی، جو ظاہر سی بات ہے مودی کے لیے چنے چبانے کے مترادف ہوگا۔ مودی نوجوانوں کے محبوب لیڈر ہیں، مگر مودی کے حامیوں کے عقل کے ناخن لینے چاہییں کہ ان کی تعداد کتنی ہے، اور وہ کون لوگ ہیں ۔ میڈیائی مقبولیت کے سہارے عوام کے دلوں کو فتح کرنا ممکن نہیں ہے۔بی جے پی کو اس خام خیالی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ مودی ان کے لیے ۲۰۱۴ء میں ترپ کا اکا ثابت ہوسکتے ہیں۔ چلیے یہ فرـض کرلیتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں مودی ایک محبوب لیڈر ہیں، لیکن میڈیا سے باہر عام لوگوں میں ان کی کیا امیج ہے؟ اگر عام انتخابات میں بھی بی جے پی بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے، تو بھی مودی کی شخصیت کے اندر اتنی کشش نہیں ہے کہ وہ دوسری علاقائی پارٹیوں کو اپنے اتحاد کی چھتر چھایہ میں لا سکیں گے۔بی جے پی والوں کو ۲۰۰۴ اور ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات سے سبق لے، تو اس کی صحت کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔ جس پارٹی میں حصول اقتدار کی خواہش خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلے، اس کو مرکز کے اقتدار کی رسائی کا خواب دیکھنا بند کردینا چاہیے۔

بی جے پی کا حالیہ بحران ملک کی سیکولر طاقتوں کے لیے نیک شگون سے کم نہیں ہے۔ انھیں وقت اور حالات کا تجزیہ کرکے ہی کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ نہ تو انھیں نریندر مودی کے بھوت سے خوف کھانا چاہیے اور نہ ہی اڈوانی کی مظلومیت کے بہکاوے میں آنا چاہیے۔ ایک طبقے کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ سب کچھ اڈوانی کی شبیہ کو صاف ستھرا کرنے کے لیے ایک منظم سازش کی طرح اسٹیج کیا جارہا ہے۔ تاکہ سیکولر عوام سب کچھ بھول کر اڈوانی کی حمایت میں کود سکیں۔ یاد رکھیے کہ مودی اور اڈوانی دونوں ہی ایک ہی چکے کے دو پاٹ ہیں۔ فرقہ پرستی، نفرت اور تشدد سے ہی دونوں کا خمیر تیار ہوا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ بی جے پی مکمل طور پر آر ایس ایس کے ہاتھوں کا کھلونا ہے، وہ آر ایس ایس کا ایسا مہرہ ہے، جسے وہ سیاست کی بساط پرجب اور جہاںچاہے بٹھا سکتی ہے۔ کمپین کمیٹی کا سربراہ مودی ہو یا اڈوانی، اس سے عام آدمی کو کسی معالطے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔آج سے ۲۰؍ سال قبل اڈوانی بھی مودی کی طرح ہی فائر برانڈ لیڈر تھے جو تشدد اور تعصب کی سیاست پر یقین رکھتے تھے، اس لیے اس قسم کے تنازعوں اور مودی بنام اڈوانی جنگ سے کسی سادہ لوحی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اس ملک کے لیے جتنے خطرناک مودی ہیں، اس سے کم اڈوانی بالکل بھی نہیں۔ نہ تو لوہ پروش اڈوانی اس کثیر قومی اور کثیر ثقافتی ملک کے مفاد میں ہیں اور نہ ہی نفرت کی سیاست میں یقین رکھنے والے وکاس پرش نریندر مودی۔

ABRAR AHMAD

ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL

JNU NEW DELHI 110067

MOB:9910509702

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *