Home / Socio-political / طالبان کے خلاف جنگ

طالبان کے خلاف جنگ

گذشتہ ایک ہفتے سے پاکستان  میں طالبان اور فوج کے درمیان تصادم کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں ۔ہزاروں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں اور اب بھی لوگ کسی بھی طرح سے اپنی جان بچا کر سوات اور مالاکنڈ سے نکلنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن اب طالبان کی جانب سے اس پر بھی پابندی لگ چکی ہے کیونکہ اس سے قبل طالبان ہی یہ کہہ رہے تھے کہ جو لوگ اس نظام عدل کے خلاف ہیں وہ اس علاقے سے نکل جائیں ، نتیجہ یہ ہے عوا م کے بڑی آبادی امن وامان کی تلاش میں نکل پڑی ۔ پاکستان کی تاریخ میں  نقل مکانی کا یہ سب سے بڑا سانحہ ہے ۔ پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت دس لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جن کی ٹرانسپورٹ ، خوراک اور سر چھپانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ طویل کرفیو کی وجہ سے لوگ اپنے رشتہ داروں کی لاشیں بروقت دفنا نہیں سکے۔ انٹر امتحان کیلئے آنے والے بچے اور سٹاف ممبران شہید کیے گئے۔ابھی موسم بھی موافق نہیں ہے یہ لوگ سردموسم سے گرم موسم کی جانب یجرت کر رہے ہیں ، جہاں ان کے پاس نہ تو کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی حکموت نے ابھی تک کوئی انتظام کیاہے۔ ابھی حکموت کی پلی ترجیح یہ ہےکہ طالبان کو نیست و نابود کیا جائے ۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیاتھا کہ عوام محفوظ مقامات پر نقل مکانی کر سکتےہیں تاکہ وہ طالبان کے شر سے محفوظ رہ سکیں ۔لیکن طالبان نے اب ایک اور لائحہ عمل مرتب کیا ہے ۔انھوں نے  مالاکنڈ ، ضلع سوات کے اکثر علاقوں میں طالبان نے وہاں پر موجود لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے علاقے سے نقل مکانی سےگریز کریں۔ طالبان کے دوسرے درجے کے کمانڈرز مقامی آبادی کے مکینوں کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ علاقہ نہ چھوڑیں۔کیونکہ حکومت پاکستان نے طالبان کے خلاف آخری فیصلہ کن کاروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور یہ خبر طالبان کے حلقوں میں پریشان کن ہے۔اس لیے وہ اپنی حفاظت کے لیے اب مقامی آبادی اور معصوم شہریوں کا ڈھال بنا کر اپنی جان بچانا چاہتے ہیں ۔

        طالبان کے خلاف فوجی آپریشن میں اس وقت تیزی آئی ہے اور ایسی کہ اب ہر طرف لاش ہی لاش نظر آرہی ہے۔ سوال یہ ہےکہ حکومت نے اتنی جلدی میں یہ فیصلہ کیوں لیا ۔نہ صرف یہ بلکہ خود آطالابن کے ساتم مفاہمت اور معاہدے میں بھی جلدی کی تھی ۔ اس وقت بھی امریکہ اس معادہے سے خوش نہیں تھا مگر حکومت پاکستان یہ سمجھ رہی تھی کہ اس سے خاطر خواہ نتائج نکلیں گے ۔ مگر اس معاہدے سے مزید خون خرابہ ہوا اور ہو رہاہے ۔حکومت کو پہلے سے معلوم تھا کہ پاکستان کے طالابن بتدریج طاقر ور ہورہے ہیں ۔ لیکن اس وقت کسی کی بات بھی اس سلسلے میں پاکستان کوبری لگتی تھی ۔ لیکن یہ اچانک کیاہواکہ صدر مشرف امریکہ گئے اور پاکستان کے وزیراعظم نے یہ سخت اقدام اٹھائے انھوں نے فوری طور پر پاکستان کی آرمی کو اس علاقے میں طلب کر لیا ۔اور جواز میں کیہ باتیں کہیں جو ابھی تک خود پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھ میں نہیں آرہاہے ۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’پاک سرزمین کے تقدس’ قومی وقار کی سربلندی اور عسکریت پسندی کے خاتمے کیلئے مالاکنڈ ڈویژن اور سوات میں فوج طلب کرلی گئی ہے۔عسکریت پسندوں کی مذموم سرگرمیاں امن و امان کو تباہ کرنے کی کوششیں اس نازک مرحلے پر آن پہنچی ہیں جہاں پر حکومت کیلئے فیصلہ کن اور انتہائی اقدام کے طور پر ملٹری آپریشن کا فیصلہ ناگزیر ہوکر رہ گیا ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں کی فلاح و بہبود کیلئے ایک ارب روپے کے فنڈز فراہم کئے جارہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت کی نیک نیتی اور امن پسندی کو اس کی کمزور تصوری کیا گیا۔ نظام عدل معاہدے کے نفاذ کے بعد سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں مکمل طو رپر امن قائم کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا مگر عسکریت پسندوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور نظام عدل معاہدے کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بدستور جاری رکھا جس پر حکومت نے متاثرہ علاقوں میں فوج طلب کرلی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ میں اس موقع پر عوام سے ، نوجوانوں سے، خواتین سے، سول سوسائٹی سے، میڈیا سے اور ہر اُس شخص اور ادارے سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس مرحلے پر حب الوطنی کے تقاضوں کے تحت متحد ہو کرحکومت اور افواج پاکستان کا ساتھ دیں۔ میں خاص طور پر علماء و مشائخ حضرات سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اسلام کا اصلی اور حقیقی روپ نمایاں کرنے کے لیے آگے بڑھیں اور دُنیا پر یہ حقیقت اُجاگر کریں کہ اسلام میں خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام حقیقی معنوں میں امن اور بھائی چارے کا دین ہے۔ اسلام تو غیر مسلموں کے ساتھ بہتر سلوک کا درس دیتا ہے۔ اسلام میں جبر اور زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام خواتین کے ساتھ مہذب اور شائستہ رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے‘‘۔

وزیر اعظم، کے اس اعلان اور اقدام کی ملک میں مخالفت بھی ہورہی ہے اور مواقفقت بھی بعض پارٹیاں خاموش تماشائی بھی ہیں ۔ ہیں جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے کہا کہ حکومت امن وامان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہے۔ بیرونی اشارے پر فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا جس سے بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوگا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے منور حسن نے کہا کہ وزیراعظم نے نہایت عجلت اوربغیر مشورے کے اعلان کیا ہے واشنگٹن سے صدر آصف علی زرداری کو ہدایات دی گئی ہیں جس کے بعد وزیراعظم نے یہ اعلان کیا۔ امیر جماعت اسلامی صوبہ سرحد سر اج الحق کی طرف سے قومی رہنماؤں کے نام ایک کھلے خط میں بتایا گیا ہے کہ مالاکنڈ سے لوگوں کی کثیر تعداد ہجرت کر رہی ہے۔ سراج الحق کے مطابق مالا کنڈ ڈویژن پر نا معلوم مقاصد کیلئے جنگ مسلط کی گئی ہے ۔معاہدہ امن اور عدل ریگولیشن کو قصداً عمداً سبو تا ژ کیا گیا ۔ ایک این جی او کی تیار کردہ جعلی ویڈیو کیسٹ چلائی گئی پھر کمشنر ما لا کنڈ ڈویژن جس نے معاہدہ امن کرانے میں اہم کردار ادا کیا کو ہنگامی طور پر تبدیل کیاگیا ، اسی طرح دار القضاء کے لئے ہائی کورٹ کے ججز کا اعلان کرکے بھی عوام کو مایوس کیا گیا۔ وزیر اعظم بر طانیہ کی آمد کے موقع پر ضلع دیر پائین میں آپریشن شروع کیا گیا اور صدر صاحب کے دورہ امریکہ سے قبل پورے ملا کنڈ ڈویژن کو تختہ مشق بنا یا گیا نتیجتاً پورے ڈویژن کے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔ آپریشن میں عام آبادی متاثر ہو رہی ہے ۔اشیاء خوردونوش نا پید ، ہسپتال بند ، ٹرانسپورٹ کا نظام معطل اور تعلیمی اداروں میں امتحانات ملتوی کر دیئے گئے ۔ غیر محفو ظ عوام نما ز ادا کرنے مساجد تک نہیں جا سکتے ۔مسلم لیگ ن کے رہنما صدیق الفاروق نے کہا ہے کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے فوجی آپریشن کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کو اعتماد میں نہیں لیا تاہم ملکی سلامتی کے لئے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امن معاہدہ پوری قوم کو اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر کہا گیا تھا نظام عدل ریگولیشن مولانا صوفی محمد کے ساتھ نہیں بلکہ علاقے کے عوام کے ساتھ اور آئین کے مطابق ہے ۔اس کو قائم رہنا چاہیے جو لوگ

آئین اور قانون کو نہیں مانتے حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں اسلام کے نام پر غیر اسلامی فوج نافذ کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف فوجی ایکشن ہونا چاہیے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ ایم کیو ایم پہلے سے ہی اس معاہدے کے خلاف تھی پارلیمنٹ میں بھی اس کی توثیق کے موقع پر بائیکاٹ کیا۔ وزیراعظم کا فیصلہ خوش آئند ہے متحدہ پورا پورا ساتھ دے گی اگر افواج پاکستان کو متحدہ کے کارکنوں کی ضرورت پڑی تو ہزاروں کارکن ملک کی حفاظت کے لئے حاضر ہوں گے۔ حکومت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔جمعیت علماء پاکستان کے رہنما فضل کریم رکن قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ طالبان نے اسلام کے اصل چہرے کو مسخ کردیا ہے یہ لوگ عقل اور علم سے پیدل تھے اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا حکومت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے صوبہ سرحد کے وزیراطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا خطاب قوم کی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔

ظاہر ہے یہ کاروائی ایک منطقی نتیجے کی طرف اشارہ تو ضرور کرتی ہے لیکن اس سے کئی سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ اگر حکومت نے بر وقت ان عناصر کو روکا ہوتا اور ان کی طاقت کو بڑھنے نہ دیتی تو یہ دن نہیں دیکھنے کو ملتا لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ پہلے ان کی طاقت کو تسلیم کیا جاتا ہے ، پھر ان سے معاہدہ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد کاروائی کر کے انھیں ہی نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ آخر یہ خون تو پاکستان کا ہی خون ہے جسے پانی کی طرح بہایا جا رہے ہے ، اس سے گریز کرنے کی صورت یہی تھی کہ روز اول سے ان کو موقع فراہم نہ کیا جاتا تو یہ خون خرابہ نہ ہوتا ۔اس سے  ایک عام تصور  یہ ابھرتا ہے کہ اس خون خرابے کے اصل ذمہ دار وہ سیاسی اور حکومتی طاقت بھی ہے جس نے ان کو بڑھا وا دیا ۔ اس لیے اس آُریشن کے بعد ایسے لوگوں کا بھی مواخذہ ہونا چاہیے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

2 comments

  1. طلعت فاطمہ

    اب جو پاکیستانی فوج کی کاروائی طالبان کے خلاف چل رہی ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ امریکہ کے دباو پہ ہو رہا ہے، کیا پاکستان کا اپنا رویہ ایسا ہونا چاہئے؟
    مجھے لگتا ہے کہ یہ امریکہ ہی ہر سازش میں شامل ہے۔ پہلے میں نے کہیں پڑھا ہے کہ طالبان کو امریکہ نے روس کے خلاف خوب بھڑکایا تھا اور اب اسی کی مخالفت کر رہا ہے۔ کون جانے اب بھی امریکہ ہی طالبانیوں کو طاقت اور ہتھیار مہیا کرا رہا ہو۔

  2. فردوس خاتون

    پتہ نہیں پاکستان میں کس قسم کی سیاست ہو رہی ہے، وہان تو عوام اپنا گھر بار سب چھوڑ چھاڑ کر شفٹ کر رہے ہیں ۔
    آج تک وہاں کی سیاست استقلال نہیں مل سکا ہے۔
    در اصل لوگوں میں بھی کوئی فکری ارتقاء نہیں ہے شاید اسی لئے سیاست داں فائدہ اٹھا تے چلے جا رہے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *