Home / Socio-political / شیطانی تہوار ویلن ٹائن ڈے

شیطانی تہوار ویلن ٹائن ڈے

شیطانی تہوار ویلن ٹائن ڈے

تحریر: نجیم شاہ

                ہر سال 14فروری قریب آتے ہی موبائل کمپنیوں کی طرف سے ٹیکسٹ میسج آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ اپنے چاہنے والوں کو پیار بھرا پیغام بھیج دیجئے، الیکٹرانک میڈیا پر اس دن کے حوالے سے خصوصی پروگرام ہوتے ہیں، ڈرامے اور ٹیلی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ موبائل فون کمپنیاں مختلف ترغیبات کے ذریعے اپنے صارفین کے بیلنس پر ہاتھ صاف کرتی ہیں جبکہ ٹی وی چینل والوں کو اپنے ناظرین کو بے وقوف بنانے کا ایک اور موقع مل جاتا ہے۔ہر سال 14فروری کو ایک پادری ویلن ٹائن کے بدکاری کی سزا میں مارے جانے کی یاد میں دنیا بھر کے جنسی بے راہ لوگ ’’یوم محبت‘‘ مناتے ہیں۔ لادین مغرب کی اندھی تقلید نے ہماری عقلوں پر جالے بن دیئے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے ویلن ٹائن ڈے جیسے مغرب کے حیاباختہ دنوں اور تہواروں کو مسلم ممالک میں جس جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، اس سے ہماری ثقافتی اقدار کو سخت خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ بالخصوص ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ کے موقع پر آوارگی، اوباشی، بے حیائی، بے ہودگی اور فحاشی جس طرح اپنے عروج پر ہوتی ہے، وہ ہماری اخلاقی اور تہذیبی اقدار و روایات کے لیے کسی طرح بھی موت سے کم نہیں۔ ویسے ہمارے معاشرے میں رائج بہت ساری رسومات کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے، مگر ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ کے جواز کا تو ہماری تہذیب میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دین اسلام ہمیں اللہ تعالیٰ، رسول اللہ اور پوری انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے، جس کے اظہار کے لیے ہمارے پاس سال کا ہر دن اور ہر لمحہ موجود ہے اور اس کا اظہار ’’ویلن ٹائن ڈے‘‘ کے موقع پر سرخ پھولوں اور تحائف سے نہیں، بلکہ احکام الٰہی اور اسوہ رسول پر عمل کرنے سے ہوتا ہے۔ جو لوگ جس قوم اور مذہب کا تہوار مناتے ہیں ان کا حشر ان ہی کے ساتھ ہوگا۔ مسلمانوں کو ویسے بھی یہ دن نہیں منانا چاہئے کیوں کہ اس میں غیر مذہب کی تقلید ہے، جسے اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔ اس وقت حکومت اور عوام دونوں ایک ہی ڈگر پر چل نکلے ہیں، جس کا نتیجہ اخلاقی بگاڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس طرح کے لایعنی تہوار وہ لوگ مناتے ہیں، جن کی اپنی کوئی تہذیب یا ثقافت نہیں ہوتی۔ الحمد اللہ ہماری اپنی جداگانہ خوب صورت تہذیب اور ثقافت ہے۔ ویلن ٹائن ڈے جہاں ایک غیر مذہب کی ثقافت کو رواج دینے کی چال ہے وہاں نوجوان نسل کو بے حیائی کی طرف دھکیلنے کی ایک سازش بھی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم غیر مسلموں کے تہوار مناتے پھریں۔ اسلام ہی سچا دین ہے اور مسلمان قوم ہی دنیا کی دیگر اقوام سے ہر لحاظ سے افضل و برتر ہے لیکن افسوس کہ ہماری قوم کے اکثر افراد غیر مسلموں کی تقلید کرکے خود کو کم تر ثابت کر رہے ہیں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم کسی مذہب کے پیروکار، کسی نبی کی اُمت اور کسی قوم سے وابستہ ہیں۔ ہمیں ہر معاملے میں صرف اور صرف اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور اسلامی تہواروں کو خاص اسلامی طریقے سے منانا چاہیے۔ یہی ہمارے لیے باعث فخر ہے، نہ کہ بسنت اور ویلن ٹائن جیسے غیر اسلامی تہواروں کو منانا اور فروغ دینا۔ ہمیں اپنا امتیاز، اپنی پہچان اور اپنا وقار قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کے غیر اسلامی تہواروں کو منانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر اظہارِ محبت ہی کرنا ہے تو کسی مخصوص دن نہیں بلکہ ہر دن اپنے ماں باپ سے کیجیے، بچوں سے کیجیے، بہن بھائیوں سے کیجیے، اساتذہ سے کیجیے، ہسپتالوں میں پڑے بیماروں سے کیجیے۔ محبت صرف یہی نہیں جس کا اظہار دو غیر محرم مخالف جنسوں کے درمیان ہو، بلکہ محبت کے اور بھی بہت سے رُخ ہیں، کبھی اس طرف بھی سوچئے۔ اگر چودہ فروری کا دن منانا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر اس کا نام بدل کر ’’یومِ نکاح‘‘ رکھ لیں اور پھر شادی شدہ جوڑے اس دن کو یوم محبت کے طور پر منائیں، جبکہ غیر شادی شدہ افراد کی اجتماعی شادیاں ہوں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *