Home / Socio-political / ذراسوچواگر منظربدل جائے تو کیاہوگا

ذراسوچواگر منظربدل جائے تو کیاہوگا

اگرسننے والے مزاج آشناہوں تو گفتگو کرنے کامزاآتاہے اوران سب کی سننے کی خواہش بھی مزا دیتی ہے لیکن پتہ نہیں ان دنوں طبیعت کیوں بوجھل سی رہتی ہے۔اردگرد سناٹا سامحسوس ہوتاہے اورجذبات کی شائیں شائیں نے کپکپی طاری کررکھی ہے۔اسی لئے گزشتہ چندنوں سے ٹیلیفون کاگلہ دباکرسب کے ساتھ رابطہ منقطع کئے خاموش بیٹھا ہوں۔ اچانک کل صبح ایک بچی نے گھرکادروازہ زورزور سے پیٹناشروع کردیا۔دروازہ کھولاتوشکائت شروع کردی کہ اتنی دیرسے ٹیلیفون کررہی تھی لیکن کسی نے اٹھانے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی توسوچاخودہی دیکھ آوٴں۔ منافقت بھری مسکراہٹ سے آنے کامقصددریافت کیاتوبولی : مجھے تقریر کرنی ہے لکھ دیں۔ میں نے انکارکردیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر اس نے بات کی۔ اصرار بڑھا تو میری ڈانٹ اس کے منہ کا مزا کرکرا کرگئی۔ اچھا خود لکھ لوں گی لیکن ․․․․․․․․ لیکن کیا؟ آپ اسے دیکھ تو لیں گے ناں۔ ہاں ضرور دیکھ لوں گا۔ اب یہ میرے سامنے ہے ․․․․․․․․یوم آزادی جمہوریت پر ایک مباحثہ ․․․․․․․․ہنسی آتی ہے اب تو۔ خیر ایک بچی کے خیالات پڑھ لیجیے۔ اس سے متفق ہونا کیا ضروری ہے ،معلوم نہیں۔

جناب اسپیکر! ایوان میں موجود افراد کی تقاریر آپ نے سنیں جن میں انہوں نے آزاد ملک کے آزاد شہریوں کی پرکیف زندگی کے بڑے سہانے مناظر دکھائے ہیں۔ ان تمام حضرات کی تقاریر سے میں محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یقین ہوگیا ہے کہ بینائی اس حد تک کمزور ہوسکتی ہے ،معلومات کا اس قدر فقدان ہوسکتا ہے یا ہم حقائق سے نظریں چراتے ہیں!ہماری خود میں مصروف زندگیاں ہمیں اجازت نہیں دیتیں کہ ہم عوام کی اس دھندلائی ہوئی تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں جہاں صرف دکھ ہے، درد ہے ،محرومی ہے، احساسِ غلامی ہے، اپنے تمام اور مکمل وجود کے ساتھ بھی بے دست و پائی ہے، آزاد ملک کے شہری ہونے کے باوجود احساسات تک پہرے میں ہیں، زندگی کی ہر سانس مقروض ہر فکر پہ پہرہ ہرجنش پر چیک ہربات کی نگرانی۔ یہ تو ایک مڈل کلاس اورکچھ سوچنے سمجھنے والے کا حشر ہے اور یہ بھی عوام کی زندگی کا ایک رخ ہے۔

آپ کو سن کر بہت اچھا لگے گا میرے قابل احترام ساتھیوں کو بہت خوشی ہوگی سن کر، یہاں ہر ایک آزاد ہے۔ دال کھائے، چٹنی کھائے، کھا سکے تو کھائے ورنہ آزاد ہے کہ رات کو بھوکا ہی سوجائے۔ اگر اس کا معصوم بچہ بیمار ہے اور اس کو دوا کی ضرورت ہے تو وہ بالکل آزاد ہے چاہے اس کو بخار سے سلگ کر مرنے دے، چاہے پانچ روپے کی میٹھی گولیاں لادے ․․․․․․․․ جس طرح چاہے مرنے دے اس پرکوئی پابندی نہیں۔ وہ کسی کی ذمہ داری نہیں ہے، اس کی موت کسی کا بوجھ نہیں ہے۔ اگر اس وطن کے شہری کو بڑھاپے یا ادھیڑ عمری نے آلیا ہے، اس کو کوئی تکلیف ہے تو وہ بالکل آزاد ہے چاہے اپنی کھولی میں دم توڑے، سڑک کے کنارے کھانس کھانس کر مرجائے یا چلتی ہوئی کسی منی بس سے اترتے ہوئے اس کے پہیوں تلے کچلا جائے اور ہاں اگرکوئی مقروض ہے، اولادوں کا بوجھ ہے، ذمہ داریاں ہیں، قرض اتارنا ہے تو وہ بالکل آزاد ہے گردہ بیچ ڈالے، اپنا لہو فروخت کردے اپنی ایک آنکھ بیچ دے۔ اگر عورت ہے تو اپنا جسم بیچ دے، عزت و آبرو سربازار نیلام کردے کیونکہ وہ آزاد وطن کی آزاد شہری ہے۔

اگر کوئی نوجوان اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے شہر میں دن بھرآوارہ گردی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اسے مکمل آزادی ہے۔ وہ جب تک اور جتنا چاہے سڑکیں ناپ لے اور جب چاہے جس طرح چاہے خودکشی کرلے۔ ریل کی پٹری پر لیٹ جائے گھر میں پنکھے سے لٹک جائے زہر پی لے ․․․․․․․․اس پرکوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کی اپنی زندگی تھی اپنی موت ہے، وہ آزاد ہے جس طرح چاہے مرجائے۔ ایک اوردلچسپ بات ہے جو میرے تمام فیوڈل ساتھیوں کو پسند آئے گی کیونکہ ہمارا ایوان زیادہ تر فیوڈلز سے ہی بھرا ہوا ہے ناں۔ ان کی خوشی کے لیے یہ پہلو بھی اجاگرکرنا مناسب سمجھتی ہوں کہ ہمارے ہاں ہرطرح کی آزادی ہے ہم جس کی بہن بیٹی بیوی کو جب چاہیں اور جہاں سے چاہیں اٹھا لیں اور اس کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں ․․․․․․․․اور پھر جس طرح چاہیں کہانی ختم کرادیں۔ خواہ ہم اسے کاری کہہ دیں اس کو زندہ دفن کردیں چاہیں تو اس کو ختم کرنے سے پہلے کتوں سے نچوا بھی سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ہم آزاد ہیں۔

لوگوں کی یہ بات قطعی غلط ہے کہ ہم پرکوئی چیک لگا سکتا ہے اور جو ہمارا سماج ہے ناں اس میں تو مزید آزادی یہ بھی ہے کہ جب جس کا بس چلے وہ دوسری خاتون کو جلا دے۔ یہ نہیں کرسکتا تو کم ازکم اس پر تیزاب تو پھینک سکتا ہے ناں۔ ہمارا قانون ہماری پولیس بھی بالکل آزاد ہیں ان کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا نہ ہاتھ پکڑسکتا ہے نہ پوچھ سکتا ہے ،وہ جس کو چاہیں مجرم بنادیں اور جس کو چاہیں معصوم۔ اسی آزادی کی وجہ سے آج یہ ایوان وجود میں آیا ہے جس میں صرف مراعات یافتہ لوگ ہی براجمان ہوسکتے ہیں۔ مگر جناب اسپیکر!میرے معزز اراکین یقینا اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ آزادی اور جمہوریت کے راگ الاپنے والے تمام لوگ کس طرح ایوان تک پہنچتے ہیں۔ حالت جب یہ ہوکہ عوام کے نمائندگان کو نمائندگی دینے کا فیصلہ بھی کہیں اور سے ہوتا ہوتو کیا یہ آزاد عوام کی نمائندگی ہے؟ جہاں الیکشن کمیشن اس بات کااعتراف کرے کہ ساڑھے تین کروڑسے زائدووٹ جعلی ہیں تومنتخب اسمبلیوں کی کیاحیثیت باقی رہ جاتی ہے۔

جناب اسپیکر!میں پوچھتی ہوں جس ملک میں صابن اور ڈٹرجنٹ سے لے کر تمام کی تمام اشیاصرف غیرملکی کمپنیاں بناتی ہوں اور ملک میں روٹی سے لے کر پٹرول اور تیل وگیس کی قیمتیں تک آئی ایم اور ورلڈ بینک طے کرتے ہوں اس ملک کو کیا آپ آزاد کہہ سکتے ہیں؟ آزادی کسی دیوی پری یاکسی مجسمہ کا نام تو نہیں ہے کہ وہ آپ نے نصب کردیا اور سب نے تالیاں بجادیں۔ اس کے بعد زندگی پہروں میں رہے سانس بھی قید میں ہو ․․․․․․․․ہم نے صرف لفظ ِجمہوریت کا لولی پاپ عوام کو پکڑادیا کہ خوش ہوجائیے۔ آزادی تو اپنی سرزمین پر اپنے عقیدے نظریے کے ساتھ اپنے وسائل کو خود استعمال کرکے اپنی مٹی پر آزادی سے چل کر پیٹ بھرکر روٹی کھانے اور نیند بھرکر سونے کا نام ہے۔ آزادی میں اپنے حال اور مستقبل کے فیصلے خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ آزاد وطن میں ہر ایک اپنا نقطہ نظر بیان کرنے اور اپنی مرضی سے جینے میں آزاد ہوتا ہے۔

جمہوری وطن کے لوگوں اور بچہ جمہورا میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ کاش یہ ہمارے مظلوم اور پسے ہوئے عوام کو پتا ہوتا۔ اگر وہ یہ جان جائیں تو جو منظر آج ہے وہ نہ ہو۔ جس آزادی کے راگ ہم اور آپ الاپتے رہتے ہیں وہ اگر حقیقتا ًعوام کو نصیب ہوتی تو ہماری اور آپ کی بڑی مشکل ہوجاتی۔ ہماری یہ پرتعیش زندگی جس کا ہر ہر پل غریب عوام کے خون سے نچڑکر بنا ہے ،مجھے ان بڑے بڑے ایوانوں لمبی لمبی ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں بلند و بالا سیمینار ہالوں سے غریب عوام کے جلے ہوئے خون اور بھنے ہوئے گوشت کی بوآتی ہے۔ میرا دل لرزتا ہے کہ جن کے ٹیکسوں سے ہم نے عیاشی کی ،جنہیں مہنگائی کے عذاب نے پیس ڈالا، غریب عوام کی کھال تو کیا ان کی چربی اورگوشت کی تہہ کو بھی جلاکر یہ سارا کاروبار ہم نے سجالیاہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن ہم سب اس میں دفن ہوجائیں۔

خالقِ ارض و سما ان کابھی رب ہے، آزادی کے نعروں میں جس دن اس نے چاہا رنگ بھردیا تو ہم اور آپ عوام سے بچ کر کہاں جائیں گے؟ اس لیے کہ جس کا خو ن، جس کا پسینہ جس کا ووٹ اور جس کا نوٹ ہے اس کا کوئی اختیار نہیں۔ آپ چاہے بجلی دیں چاہے نہ دیں اورخود ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ان کو صبر اور اولو العزمی کادرس دیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ سب کچھ ہم پر عوام کا قرض ہے جو انہوں نے اپنی کمرتوڑ کر ہمیں دیا ہے۔ ہمیں یہ لوٹانا ہوگا۔ جناب اسپیکر!آزادی عوام کے لحاظ سے یہ چند پہلو تھے جو مختصرا ًمیں نے آپ کے سامنے رکھ دئیے۔ وقت کی کمی کے باعث اختصار برتا ہے۔ آزادی کیا ہوتی ہے کیسی ہونی چاہیے؟ آپ تھوڑی دیر کے لیے خود کو عوام سمجھ کر محسوس کیجیے پھرہم میں سے کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ عوام آزاد ہیں یا نہیں۔ میں آزادی اورغلامی کا فیصلہ آپ پرچھوڑتی ہوں کہ کیا وزیراعظم کاعدالتِ عالیہ میں فقط پیش ہوجانا جمہوریت کی معراج ہے؟

***

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *