Home / Socio-political / اضطراب یاعذاب

اضطراب یاعذاب

جب بہت دن ہوگئے․․․․․․․․․․خاموش بالکل چپ چاپ․․․․․․․․․․رویا ،گایا نہ کچھ بولا تب انہوں نے مجھ سے پوچھا بہت پریشان ہوکر: بہت چپ لگ گئی ہے اسے، بہت خیال رکھنا اس کا بہت برسے گا وہ اب ،سنبھالنا مشکل ہوگا لیکن تیرا تو یار بیلی ہے ناں، تیری مان لیتا ہے۔ پھر انھوں نے مجھے تنبیہ کی: بہت دھیان سے رہنا کسی بھی وقت اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹ جائے گا ،پھر بہت زور کا برسے گا۔ آخر بندہ بشر ہے کب تک بھرتا رہے ․․․․․․․․․․کبھی تو چھلکتا ہی ہے۔ وہ ہم سب سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ہمارا یار بیلی سب سے بازی لے گیا تھا۔ وہ بس دیتا رہتا تھا کبھی مانگتا نہیں تھا۔ بہت مختصر سی گفتگو کرتا۔ اس میں خدمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ سب کا خیال رکھنے اور راتوں کو جاگتے رہنے والا۔ آپ جب چاہیں اسے آواز دیں وہ جی کہہ کر لپکتا تھا سر جھکائے ہوئے کسی پھل دار شجر کی طرح۔

اس کی کہانی بھی عجیب تھی باپ تو اسے کاروبار میں لگانا چاہتا تھا مگر اس کی مٹی تاجرانہ نہیں فقیرانہ تھی۔ میں گداگرانہ نہیں فقیرانہ کہہ رہا ہوں۔ بس ایک در کا سوالی۔ اپنے دل کی ساری باتیں وہ میرے آگے ڈھیر کرتی رہتی اور مسکراتی رہتی۔ اسے دیکھ کر مجھے کبیرداس جی بہت یاد آتے: ”کبیرا بیچ بجار میں سب کی مانگے کھیر، نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر“۔ برسات کے موسم میں وہ مجھے یاد آتی ہے۔ جمعہ کو تو بس ہلکی سی بارش ہوئی تھی جس سے سردی کی شدت کچھ کم ہوگئی تھی ۔ کل میں اپنے ایک پروگرام میں شرکت کیلئے جارہا تھا کہ میرے سیل فون پر ایک پیغام موصول ہوا۔ میں نے گاڑی سڑک کے کنارے روکی۔ یہ اس بچی کا پیغام تھا جس سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی ،کبھی کبھار اس کا دعائیہ پیغام مجھے ملتا ایک آدھ مرتبہ اس نے مجھ سے بات کی تھی کہ وہ یہاں لندن میں ماس کمیونی کیشن کی طالبہ ہے۔

اس نے مجھ سے لکھنے کے لیے عنوان پوچھا تھا جو میں نے اسے بتا دیا تھا۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے ماں باپ ایک کارحادثے میں انتقال کرگئے تھے جس کے بعداس کی پھوپھوجوخودبھی بیوہ تھی اورسرطان جیسا موذی مرض ان کودن بدن کھائے جارہاتھا،ان کی محبت بھری فرمائش کومیں ٹھکرانہ سکی اورانہی کے گھر چلی آئی۔انہوں نے میری اٹھارہ سال کی عمر میں ہی یہ کہہ کرشادی کردی کہ میراکوئی بھروسہ نہیں کب بلاوہ آجائے اورمیں نے سرتسلیم خم کردیا اور اب وہ دو چھوٹے سے معصوم بچوں کی ماں ہے۔ میں اس کی ہمت کی داد دیتا اور دعائیہ کلمات پر بات ختم ہوجاتی۔ یہ پیغام اسی کا تھا اور مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ”مجھے ٹارچر کیا جاتا رہا میں برداشت کرتی رہی ،عزیزواقارب کو کبھی نہیں بتایا۔ اب اس نے مجھے طلاق دے دی ہے اوربچوں کولیکرپاکستان چلاگیاہے اوروہاں سے مجھے دہمکیاں دے رہاہے کہ اس کاخاندان پاکستان میں انتہائی طاقتوراورسیاسی اثرورسوخ کامالک ہے، لیکن میں مقابلہ کروں گی انشااللہ اور سرخرو ٹھہروں گی“۔

میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔پروگرام ختم ہونے کے بعد میں نے اسے پیغام دیا کہ وہ مجھ سے بات کرسکتی ہے۔ آخر ایک نمبر مجھے موصول ہوا اور گھر پہنچ کر میں نے اس سے بات کی۔ تفصیل رہنے دیجیے۔ میں وقت آنے پر اس پر نہ صرف بات کروں گا بلکہ اس کے سنگ یہ جنگ بھی لڑوں گا۔ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ میں ایک ماں سے مخاطب تھا جس کے بچے ڈیڑھ ماہ سے باپ کی تحویل میں تھے۔ کتنا آسان ہے یہ ڈیڑھ ماہ کہہ دینا․․․․․․․․․ایک ایسا باپ جو مذہبی ہونے کا بھی دعوی کرتاہے، اس نے معصوم بچے ماں سے چھین لیے تھے۔ اسے طلاق نامہ بھجوا دیا تھا بس اتنا کہہ کر کہ بدسلوکی کی وجہ سے طلاق دے رہا ہوں اور اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا، اس کی یونیورسٹی فرینڈز کے نمبرز پر یہ تشہیر کی گئی۔ ادھوری سچائی پورے جھوٹ سے بھی بدتر ہوتی ہے۔

ہم سب خاندانی نظام کو بچانے کے دعویدار ہیں اور ہمارے آس پاس کیا ظلم ہورہا ہے کبھی ہم سوچتے بھی ہیں؟ اب یہ کیس عدالت میں ہے۔ کل اس کی سماعت تھی۔ موصوف تشریف نہیں لائے کہ وہ یہاں موجودہی نہیں تاکہ سچائی بیان کی جاسکتی۔ یک طرفہ سچائی نہیں ،پوری سچائی۔ اس بہادر بچی نے پوری سچائی بیان کرنے کی ٹھان لی ہے۔ وہ سماج کو آئینہ دکھانے پر تل گئی ہے۔ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے حقوق کے لیے میدان میں اتر آئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ یہ جنگ جیت کر دکھائے گی اور سماج کے لیے مثال بنے گی۔ جو اپنی مدد کرنے پر تل جائے، اللہ جی اس کی مدد کے لیے اسباب پیدا کرتے ہیں۔ سچائی اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ کوئی دھونس کوئی دھمکی اب اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ظلم چاہے کتنا بااثر ہو، کمزور ہوتا ہے۔ ظالم چاہے کوئی نقاب اوڑھ لے، پہچانا جاتا ہے ۔کوئی اس کا ساتھ دے نہ دے رب اس کے سنگ ہے۔

ہفتے کو بارش نے مجھے آن گھیرا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کتنے دن سے خاموش تھا یہ میرے یار بیلی کی طرح۔ آج برس رہا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان کے آنسوں کی شدت میں اس بہادر بچی کی للکار بھی ہے۔ ایک ایسی ماں جس سے اس کے بچے چھین لیے گئے ہوں جسے جرمِ بے گناہی میں گھر سے نکال دیا گیا ہو جس کے ہاتھ میں ایک سیاہ ورق تھما دیا گیا ہو: جا تمہیں دھتکارا جاتا ہے۔ جرمِ بے گناہی کی سزا دینے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ خدائے زندہ بزرگ و برتر اپنے مظلوم بندوں کی آہ سنتا ہی نہیں ہے اس پر فیصلہ بھی صادر کرتا ہے۔ سانس کی ڈور نہیں ٹوٹی تو میں انشااللہ پھر کبھی تفصیل سے بات کروں گا۔ مجھے وہ عرب شاعر یاد آرہا ہے۔ بے شک دن اور رات زمانے کے تابع ہیں سمے جوں جوں گزرتا ہے اِس گزرنے کے بیچ کی زندگی مختصر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب انسان غموں میں گرفتار ہو تو چھوٹی راتیں بھی بہت طویل اور صبر آزما ہوجاتی ہیں۔ اور خوشیاں ہوں مسرت ہو تو طویل راتیں بھی مختصر ہوجاتی ہیں۔

سچائی اپنی راہ خود نکالتی ہے۔ حق کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو اپنی مدد کرنے پر تل جائے رب اس کے سنگ ہوتا ہے زمانہ چاہے کتنا ہی مخالف ہوجائے سچائی کاچراغ جلتا رہا ہے جلتا رہے گا۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا بس نام رہے گامیرے رب کا۔

میرے خدا تو مرا اضطراب جانتا ہے

گزر رہے ہیں جو جاں پر عذاب، جانتا ہے

منافقوں نے لکھے خامہ ستم سے جو حرف

محبتوں نے دیا جو جواب، جانتا ہے

قارئین محترم!جیساکہ آپ کوعلم ہے کہ میری انتہائی مخلص ومتقی رفیقِ حیات فالج کی بناء پرلندن کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج ہیں اورآپ میری قلبی کیفیت سے بھی ضرورآگاہ ہونگے کہ میں اس وقت کس قدرکرب سے گزرہاہوں۔میں اپنے رب کریم سے پرامیدہوں کہ وہ اپنے بندوں کی دعاوٴں کوکبھی ردنہیں کرتااوراس وقت انہیںآ پ سب کی دعاوٴں کی اشد ضرورت ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *