Home / Socio-political / تاریخ شاہد ہے

تاریخ شاہد ہے


اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے کئی عشروں سے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے بلوچستان کے معاملے کواس قدرالجھادیاہے کہ اس کوسلجھانے کاسراڈھونڈنے میں کافی دقت ہورہی ہے لیکن حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے ساتھ ساتھ متعصب سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی اس معاملے کوخاصابگاڑکررکھ دیاہے اورجب سے یہ میڈیامیں یہ اطلاع گردش کر رہی ہے کہ امریکی کانگرس میں بھی بلوچستان زیربحث ہے،اس سے ان لکھاریوں اورتجزیہ نگاروں کی باچھیں کھل اٹھی ہیں کہ شائداب ان کے دیرینہ خوابوں کوتعبیرملنے جارہی ہے جوانہوں نے اس مملکت کے وجودمیں آتے ہی دیکھناشروع کردیئے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی رنگ،نسل یازبان یاعلاقے کے حوالے سے کوئی آوازاٹھاتا ہے تو ایسے تبصرہ نگاریاسیاستدان فوری طورپرکسی چینل پرآکرپاکستان کے مخدوش مستقبل کی دہائی دیتے ہوئے قوم میں مایوسی پھیلاناشروع کردیتے ہیں۔

بلوچستان کے بارے میں انہی لکھاریوں، سیاستدانوں،ریٹائرڈبیوریوکریٹوں اورقانون نافذکرنے والوں کی اپنی ذاتی تعصب ،ذاتی پسنداورناپسند،کم علمی معلومات اورتجزیات پرمبنی جائزوں کی بناء پر ساٹھ لاکھ بلوچوں کے بارے میں اٹھارہ کروڑپاکستانیوں کوگمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے معاملہ مزیدالجھ کررہ گیاہے کچھ ناعاقبت اندیش ٹی وی اینکرزاپنے چینل کی مقبولیت بڑھانے کیلئے ان کی معاونت کیلئے ہروقت تیاررہتے ہیں۔ان کویہ معلوم نہیں کہ آدھاسچ کس قدرخطرناک ہوتاہے جومعصوم اورمحب وطن بلوچوں کوپاکستان کے وجودکی حفاظت کرنے والوں سے متنفرکرنے کاسبب بن رہاہے جس کے نتائج انتہائی سنگین ہوسکتے ہیں لیکن یادرکھیں پاکستان کے ماتھے پررب ذوالجلال کے نام پرایساجھومرسجاہواہے جس کیلئے لاکھوں جانوں اورہزاروں عصمتیں قربان ہوگئیں۔مجھ جیسے کروڑوں پاکستانیوں کواپنے رب کی بادشاہت پرایساغیرمتزلزل یقین ہے کہ پاکستان تاقیامت تک قائم رہے گا اور پاکستان کی طرف میلی نگاہ اٹھانے والوں کاانجام نہ صرف عبرتناک بلکہ شرمناک بھی ہوگا۔میرے اس وجدان کی نفی پران کویہ حق ہے کہ مجھے گریبان سے پکڑکرہرقسم کی سزاصادرکردیں اوراگرمیں دنیامیں نہ رہاتومیری قبرکواکھاڑکرپاکستان سے باہرپھینک دیں۔

بلوچستان کے مسئلے پراسٹیبلشمنٹ کالفظ،ان کی زیادتیوں اورغلطیوں کو اس تواترسے استعمال کیاجارہاہے کہ محب وطن پاکستانی اس یکطرفہ رویے پرخاصے مضطرب نظرآتے ہیں لیکن کیاوجہ ہے کہ پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے ایک عرصے سے بلوچستان میں غیرملکی مداخلت کاشورمچارہے ہیں مگرحکومت کی طرف سے کوئی ٹھوس ردعمل سامنے نہیں آرہا ۔اب بالآخرجب عالمی سطح پربلوچستان کے معاملے کودانستہ ہوادی جارہی ہے اورمقامی سیاستدان بھی میڈیاپرآکرقوم کوگمراہ کررہے ہیں تومجبوراًبلوچستان میں تعینات آئی جی ایف سی نے حکومت کی نااہلی اورکرپشن کابھانڈہ پھوڑدیاہے کہ بلوچستان کی تعمیروترقی کیلئے ہررکن اسمبلی کودیاگیا۲۵کروڑکابجٹ سوفیصدکھالیاگیاہے اورکسی ایک بھی رکن اسمبلی نے ایک روپیہ بھی عوام کی فلاح وبہبودکیلئے خرچ نہیں کیاجبکہ اس سے ہٹ کرترقیاتی بجٹ بھی ارکان اسمبلی نے باہم تقسیم کرلیااوربلوچی عوام کواس نام نہادجمہوریت سے ایک پائی کافائدہ نہیں ہوا۔

چارسال گزرنے کے باوجودوفاق نے کسی کے خلاف کاروائی نہیں کی اورنہ ہی صوبے کے وزیراعلیٰ کے کان پرکوئی جوں رینگی ہے جبکہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال کیلئے صوبائی حکومت نے ہی ایف سی مددطلب کی تھی۔کم وبیش گزشتہ تین سالوں سے سیکورٹی فورسزسول جمہوری حکومت کوباقاعدہ تحریری طورپرتجاویزارسال کررہے ہیں کہ محض انتظامی اقدامات کافی نہیں بلکہ سیاسی عمل کے ذریعے ناراض لوگوں سے بات چیت شروع کی جائے مگراس مقصدکیلئے کمیٹیاں بنانے اورتنخواہیں حاصل کرنے کے سواکوئی ایک بھی قدم بلوچستان کی بہتری کیلئے نہیں اٹھایاگیا۔ ادھربراہمداغ بگٹی جوافغانستان میں پھنسابیٹھاتھااوربھارتی پاسپورٹ پرسفرکرنے پرمجبورتھا،اسے اقوام متحدہ کے ایک اہلکارجان سولینگی کے اغواء کے بعدرہائی کے بدلے میں اقوام متحدہ نے سوئٹزرلینڈپہنچادیا۔اس موقع پرپاکستانی حکومت نے بجائے اس کے کہ اس پراحتجاج کرکے اس کاراستہ روکتی بلکہ حیرت انگیزطورایک اہم شخصیت کے حکم پرپاکستان میں موجوداس کے اہل خانہ کوبرہمڈاغ بگٹی سے مذاکرات کے نام پراس کے اہل خانہ کواس کے پاس دبئی بھجواکراسے فرارہونے میں ایک طرح کی سہولت فراہم کردی گئی۔

دوسری طرف یہ بھی الزام ہے کہ باغی بلوچ ہیربیاری کے خلاف چونکہ ریڈوارنٹ جاری ہوچکا تھا اوراسے لندن میں دوبرس قبل گرفتارکرکے برطانوی حکومت نے پاکستان سے اس کے خلاف ثبوت مانگے تھے مگرجہاں وزارت داخلہ میں فائل کودبالیاگیاوہاں برطانیہ میں موجودپاکستانی سفارتی ذمہ دارون نے دانستہ اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی جو کہ ملکی وفاداری کے ساتھ ایک مجرمانہ فعل ہے۔مقررہ وقت تک پاکستان کی طرف سے کوئی بھی ثبوت فراہم مہیانہ کرنے کی وجہ سے برطانیہ کونہ صرف ہیربیاری کورہاکرناپڑابلکہ اسے برطانیہ میں سیاسی پناہ بھی دے دی گئی۔یقینااس دانستہ مجرمانہ غفلت یااس سازش کی پشت پناہی کی ذمہ دارموجودہ حکومت ہے نہ کہ سیکورٹی فورسز !

ایک طرف امریکی سی آئی اے پیسے کی فراوانی اورایک سازش کے تحت بلوچستان میں نیٹوکے غائب کئے گئے جدیداسلحے سے بھرپورکنٹینرزکے ذریعے دہشت گردوں کی مددکر رہا ہے اور دن بدن ایف سی کے نوجوانوں کی شہادتوں میں بھی اضافہ ہورہاہے وہاں دوسری طرف سوئٹزرلینڈمیں امریکی چھتری تلے بلوچستان کااعلان ِ آزادی تیارکرنے کی سازش کوآخری شکل دی جارہی ہے۔اسلام آبادکے اہم ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ براہمداغ بگٹی کی بلوچ ری پبلکن آرمی،ہیربیارکی بی ایل اے،ڈاکٹراللہ نذرکی بی ایل ایف ، جاویدمینگل کی یونائٹیڈ فرنٹ اوراس کے بیٹے بھورل مینگل کی لشکربلوچستان کوجہاں ایک طرف بھاری اسلحے کی کھیپ فراہم کی جارہی ہے وہاں دوسری طرف امریکی سی آئی اے کے زیراہتمام چلنے والے مختلف تھنک ٹینکس اورسی آئی اے کے اہلکارباغی بلوچ تنظیموں میں اختلافات ختم کرواکے ایک مشترکہ کمان کیلئے ان کوآمادہ کررہے ہیں ۔امریکیوں کی شدیدخواہش ہے کہ ان باغی بلوچوں کی قیادت کے منصب کیلئے کسی ایسی شخصیت کوسامنے لایاجائے جوسیاسی اورعسکری میدان میں اپنااثرورسوخ رکھتی ہوجسے عالمی سطح پرپذیرائی مل سکے۔

اس سلسلے میں اطلاعات کے مطابق سی آئی اے کے زیراہتمام کام کرنے والے سات تھنک ٹینکس اورامریکی کانگرس کے زیراہتمام کام کرنے والاایک تھنک ٹینک اس سارے کام کی نگرانی پرمامورہے۔ان تھنک ٹینکس میں انسٹیوٹ آف ورلڈپالیٹکس برلن اوراس کے سربراہ جان لینوسزسکی(John Lenezowski) اورسرگرم ممبر ”پال بیحرنڈز (Paul Behrendz) پیش پیش ہیں اورچندروزقبل داوٴدسلیمان نے اپنے دیگرساتھیوں کے ہمراہ ان سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔اس کے علاوہ دیگرتھنک ٹینکس میں امریکن فرینڈز آف بلوچستان(AFB) ،جیوش انسٹیوٹ آف لندن،بلوچ ہیومن رائٹس کوتل کینیڈا،کارنیگی انڈونمنٹ فارانٹرنیشنل پیس،بلوچستان سوسائٹی آف نارتھ امریکا،یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیوٹ آف پیس(USIP) اورمڈل ایسٹ انسٹیوٹ آف امریکاشامل ہیں۔

یہ تمام تھنک ٹینکس پاکستان کے بعض بااثرصحافیوں اوردیگررائے عامہ ہموارکرنے والے اداروں کواپنے ساتھ شامل کرنے میں مصروف ہیں جس کی مثال (USIP)کے بلوچستان پرسیمیناروں میں اعجازحیدرنامی ایک پاکستانی صحافی کی شرکت ہے اوران دنوں بھی (USIP)ہی امریکی سفارت خانے میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستانی میڈیا کے بعض کرداروں کوبلوچستان میں استعمال کررہاہے۔ ان میں ماضی میں بلوچستان میں مسلح جنگ میں شریک رہنے والے ایک صاحب میڈیاپرپیش پیش ہیں۔موصوف ہ۷ء کی دہائی میں میرچاکرکے نام سے بلوچوں کے ساتھ مل کرلڑتے رہے ہیں۔سی آئی اے پروپیگنڈہ کوبڑھانے اورسفارتی حمائت میں متحرک کردارکے ذریعے آئندہ دنوں میں بلوچستان کامسئلہ اچھالنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں اوراس حوالے سے سوڈان فارمولہ ٹھونسنے کی بات کی جارہی ہے۔

ادھردوسری جانب کوئٹہ میں ہروقت پاکستان کی بات کرنے والے ایک محب وطن سیاستدان نے بعض وجوہات کی بناء پراپنانام نظاہرنہ کرنے کی درخواست کے ساتھ انکشاف کیاکہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں چونکہ سیاسی حکومت کہیں تھی نہیں،لہنداسیکورٹی فورسزسے بھی غلطیاں ہوئی ہیں جن سے غیروں نے فائدہ اٹھایا۔ڈاکٹراللہ نذراس کی مثال ہے کہ اسے ۲۰۰۵ء میں گرفتارکرکے ایک برس تک لاپتہ رکھاگیااورپھرقانونی سقم کے سبب عدالت نے ۲۰۰۶ء میں اسے رہابھی کردیاجس کے بعدوہ پاکستان کا بڑادشمن بن چکاہے۔علاوہ ازیں بلوچستان میں تمام وزاراء نے پچھلے تین برسوں سے اپنے اپنے لشکربنارکھے ہیں جوبھتہ لینے کے ساتھ ساتھ قتل وغارت میں بھی ملوث ہیں۔انٹیلی جنس نے کئی مرتبہ ان کے غیرقانونی حرکات کی تفصیلات بھی صوبائی اوروفاقی حکومت کومہیاکی ہیں لیکن آج تک نہ صوبائی حکومت اورنہ ہی وفاق نے کسی قسم کے اقدامات اٹھائے ہیں۔

مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے اس ذمہ دارنے بڑے دکھ کے ساتھ کہاہے کہ لگتاہے کہ صوبائی یاوفاقی حکومت کوبلوچستان سے کوئی دلچسپی نہیں رہی البتہ اسے بلیک میلنگ پوائنٹ بناکرہرکوئی زیادہ سے زیادہ رقم اکٹھی کررہاہے ۔ایوان اقتداراسلام آباد میں براجمان حکمران صرف سیاسی بیانات سے ملک کے دوسرے صوبوں کے عوام کوگمراہ کررہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی تصدیق کی کہ سارے بلوچستان کے حالات خراب نہیں بلکہ صرف پانچ اضلاع سبی،خضدار،تربت،کوئٹہ اورڈیرہ بگٹی میں جان بوجھ کرحالات خراب کئے جارہے ہیں اورباقی ۲۵اضلاع میں حالات مکمل کنٹرول میں ہیں لیکن نجانے کیوں اس کی آڑمیں سارے بلوچستان کوشورش زدہ ظاہرکرکے ایک ہیجانی کیفیت پیداکی جارہی ہے۔

افغان صدرحامدکرزئی اورایرانی صدراحمدی نژادکی آمد سے پہلے دوڈرون حملوں میں ۲۷سے زائدافرادکوہلاک اورقبائلی علاقے کرم ایجنسی کے صدرمقام پاراچنارمیں ہونے والے بم دہماکے میں ساٹھ سے زائدافرادکوہلاک کرکے امریکانے ان سہ فریقی مذاکرات سے پہلے اپنی ناپسندیدگی کاایک واضح اورسخت پیغام دیاہے کہ وہ افغانستان میں اپنی شکست کابدلہ پاکستان سے لیناچاہتاہے۔ وفاق اوربلوچستان میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے اوران کی عدم دلچسپی کی بناء پردن بدن حالات خراب ہورہے ہیں اوراگرکچھ مزیدوقت گزرگیاتوشائد مذاکرا ت بھی کارگرنہ ہوں۔ اس لئے یہ بہت اہم ہے کہ موجودہ حکومت بلوچستان کے خراب حالات کی طرف فوری توجہ دے وگرنہ تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کوجس کسی نے بھی دانستہ نقصان پہنچانے کی جسارت کی ہے وہ عبرتناک اورشرمناک انجام سے ضروردوچارہواہے ۔

بارش سنگ ملامت سے خیال آیاہے

بس یہی ایک ہنرتھاکف اغیارکے پاس

***

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *