میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ نو (۹) سال کے دوران انڈیا کی بہت ترقی ہوئی ۔ شہروں میں بڑے بڑے شاپنگ مالس، بنیوں، افسران اور لیڈروں کے بڑے بڑے فارم ہاؤس، بڑی بڑی لگزری گاڑیاں اور ان کی جائدادوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ نیوز چینلوں کی تعداد میں جو دو چار تھی اس وقت سو سے اوپر ہے۔ اخبارات و رسائل کی اشاعت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کاغذوں پر بڑی بڑی اسکیموں کا اعلان کیا گیا لیکن ’بھارت‘ میں اس کا نفاذ نہیں ہوا ۔ انڈیا اور بھارت کا فرق نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ہندوستان تیزی سے معاشی ترقی کرنے والا ملک ہے یہاں کروڑپتیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ گولڈا مین سیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرہندوستان کی معاشی ترقی کی یہی رفتار جاری رہی تو آئندہ عشر ے میں وہ اٹلی249 فرانس اور برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دے گا اور آئندہ پندرہ برسوں میں اوسطاً چار گنا امیروں کی تعداد بڑھ جائے گی جب کہ کار خرید نے والوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہوگا۔ لیکن بے پناہ معاشی ترقی کے باوجود ابن آدم کو یہاں دو وقت کی دال روٹی آسانی سے میسر نہیں ہوتی ۔ انڈیا میں جہاں ہر چہار سو ترقی کی گنگا جمنا بہہ رہی تھی وہیں بھارت ان ترقیوں سے کوسوں دور رہا۔ کسانوں کی حالت میں کوئی سدھارنہیں ہوا ۔ مسلمان پہلے سے زیادہ ظلم کے شکار ہوئے۔ مسلمانوں کو اخلاقی، نفسیاتی اور دماغی طور پر قعر مذلت میں دھکیلنے کیلئے ان کے پرو فیشنل اور عصری تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پورے ہندوستان سے پکڑا گیا۔ ایک ایک کیس میں 70,70 نوجوانوں کوزنداں میں ڈالا گیا ۔ اس مقصد کے تحت ان کی کسی طرح سے ضمانت نہ ہو انہیں سارے بم دھماکوں میں ملوث کردیا گیا۔ہندوستانی وزیر خارجہ چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر بیان دینے میں آگے رہے لیکن جیسے ہی معاملہ مسلمانوں کامعاملہ سامنے آیا سانپ سونگھ گیا۔ میانمار، تھائی لینڈ، لندن اور دیگر ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوتا رہا لیکن ہندوستانی وزیر خارجہ (سلمان خورشید) نے لب سی لئے ۔ ’بھارت ‘میں غریب مزید غربت کے شکار ہوتے گئے ، بنکروں کے گھروں میں اندھیرا چھایا رہا مگر چراغ جلانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کچھ رقم کیلئے غریب اپنے بچوں کو فروخت کرتے رہے لیکن انڈیا میں ترقی کا ڈھول پیٹا جاتا رہا۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے غریب مریض دم توڑتے رہے لیکن حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ حکمرانوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کی ضروریات کاَ خیال رکھیں۔ ان کی بنیادی ضروریات ان تک پہنچائی جائیں لیکن بدعنوانی، فرقہ پرستی، مسلم دشمنی ، اقربا پروری اور سنگھی جال میں پھنسی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت (یو پی اے )نے اپنی دوسری میعاد کے دوران صرف مایوس کیا ہے ۔ اگر کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو وہ بنیاکی ٹولی ہے۔ نیکر دھاری کی جماعت ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ گجرات کے معاملے میں شور مچانے والی کانگریس کی حکومت ممبئی فسادات کے معاملے میں شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ پر اب تک عمل نہیں کرسکی۔ سمجھوتہ ایکسپریس، مالیگاؤں، مکہ مسجد، اجمیر ، نانڈیڑ اور دیگر دھماکوں میں سیکڑوں مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کرنے والے افسران پر کارروائی کیوں نہیں کی۔ یو پی اے دوم کی چار سالہ حکومت مسلمانوں کے نہایت مایوس کن رہی ہے ۔ اس دور حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جس کی توقع پر فرقہ پرست حکومتوں سے بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔
متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت (دوم)نے جیسے تیسے کرکے چار سال پورے کرلئے ہیں۔ ان چار برسوں میں اس حکومت کو جنتی ذلت ورسوائی ملی ہے شایداب تک کسی حکومت کے حصے میںآئی ہو۔ ٹوجی اسپیکٹرم،کامن ویلتھ کھیل گھپلے، کوئلہ بلاک الاٹمنٹ گھپلہ، دفاعی ہیلی کاپٹر گھپلہ، ریلوے رشوت معاملہ، مضبوط لوک پال اور کالا دھن کے معاملے پر ٹیم اناہزارے اوربابارام دیوکاحکومت کاقافیہ تنگ کرنا، ریاستی مسائل اور دیگر موضوعات پر ہر وقت یوپی اے حکومت اپوزیشن کے نرغے میں رہی اوریہاں تک کے پارلیمنٹ کا کوئی بھی سیشن ڈھنگ سے نہیں اختتام پذیر نہیں ہوسکا۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے حکومت مسلسل وعدے کرتی رہی کہ ایک دو مہینے میں ختم ہوجائے گی یا اس پر قابو پالیاجائے گالیکن حکومت کا ہر وعدہ ہرجائی محبوب کا وعدہ ثابت ہوا۔ تمام خوردنی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آزاد تجارت کے نام پر بنیوں کو عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کی کھلم کھلام چھوٹ دے دی گئی ہے۔تاجروں کو تجارتی خسارہ ہورہا ہے لیکن ذاتی دولت میں کوئی کمی نہیں ہورہی ہے۔ فیکٹری مالکان دو روپے کی لاگت والا سامان بازار میں دس روپے میں فروخت کرتے ہیں۔کوئی دیکھنے والا نہیں ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ حکومت کے پاس روک تھام کے لئے ایسا میکانزم نہیں ہے جو ان لوگوں پر نظر رکھ سکے ۔ سب کچھ ہے لیکن عزم کی کمی ہے اور بدعنوانی کا بول بالاہے۔ تاجر اس طرح کے محکمہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے یہ کام انجام دیتے ہیں اوراس طرح قوم کا خسارہ ہوتا ہے۔ ہندوستان میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے یہاں کے لوگوں کو پیٹ بھرنے کے لئے دوسرے ملکوں کی طرف نظر گڑائے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اگر ہم ترقی پسند اتحاد حکومت کے نو(۹)سالہ دور اقتدار کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوگا کہ یہ حکومت مہنگائی عبارت ہے اور اس پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے ۔ تقریباً تمام اشیاء خورد و نوش کی قیمت ان برسوں کے دوران دوگنی سے بھی زائد ہوگئی ہے ۔پبلک اسکولوں کو عوام کی جیپ پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ لوور مڈل کلاس کا بجٹ ہر مہینہ کے پندرہ تاریخ کو جواب دے جاتا ہے ۔جو لوور کلاس ہیں ان کے بارے میں سوچنا ہی کیا وہ کس طرح سے زندگی گزارتے ہیں۔ اتنی آمدنی نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک سے پیٹ بھر کھانا کھاسکیں۔ دنیا کے مالدار ترین افراد میں ہندوستانیوں کا شمار ہوتا ہے لیکن ہندوستان میںآج بھی غربت قبیح صورت کے ساتھ منہ پھاڑے ہمارا مذاق اڑاتی نظر آتی ہے۔ چند روپیوں کی خاطر بچوں 249 بچیوں اور لڑکی کی شادی نہ کرپانے پر لڑکیوں کی فروخت کے واقعات آئے دن اخبارات کے زینت بنتے ہیں۔
متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت اپنی دوسری میعاد کے چارسال پورے ہونے پر اپنی کامیابیاں بھی گنوائی ہیں۔ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس موقع پر کہا کہ میں پہلا شخص ہوں جو کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اور اچھا کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہم نے اچھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے۔بین الاقوامی اقتصادی ماحول مخالف ہونے کے باوجودہندوستانی معیشت 2011۔12 میں تقریبا 7 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتار معیشت میں سے ایک ہے۔اس اعلی شرح کی ترقی نے ہمیں مجموعی اور یکساں ترقی کے ہمارے ایجنڈے کو جاری رکھنے اور تعلیم اور صحت جیسے سماجی شعبے کے لئے زیادہ وسائل جمع کرنے کے قابل بنایا ہے۔ حکومت کی مدت شروع ہونے سے پہلے غربت جس سطح پر تھی، اس سے دگنی شرح پر کم ہوئی ہے۔زراعت میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ 11 ویں پنج سالہ منصوبہ میں زراعت کی ترقی کی شرح 3.3 فیصد سالانہ اضافہ ہوا ہے جبکہ 10 ویں پنج سالہ منصوبہ میں یہ 2.3 فیصد سالانہ تھی۔ دیہی مزدوروں کے اجرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کسانوں کو ان کی فصلوں کی اچھی قیمت دی گئی ۔ اجناس کی ریکارڈ پیداوار ہوئی اور یہ ہماری تاریخ میں پہلی بار 250 ملین ٹن سے تجاوز کر گئی ہے۔دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ رقم 2.75 کروڑ کسانوں کو قرضوں کی شکل میں تقسیم کی گئی۔ ہم نے گزشتہ دو سالوں میں 51000 اسکول کھولے ہیں اور 6.8 لاکھ اساتذہ کو مقرر کیا ہے۔بین الاقوامی ایجنسی عالمی صحت کی تنظیم نے ہندوستان کو پولیو آزاد قرار دیا ہے۔مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم اب ملک کے ہر پانچ خاندانوں میں سے ایک خاندان میں پہنچ گئی ہے۔ہندوستان دنیا کا سب سے تیز رفتار دوسرا ٹیلی کمیونیکیشن مارکیٹ بن گیا ہے۔ہم نے پچھلے سال تقریبا 10 کروڑ نئے ٹیلیفون کنکشن دیئے ہیں جن میں سے 4 کروڑ سے زیادہ دیہی علاقوں میں ہیں۔ہم نے گزشتہ سال 20 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی نئی صلاحیت تیار کی ہے جو کہ 10 ویں سالہ منصوبے کی پوری مدت کے دوران تیار کی گئی صلاحیت کے تقریباََ برابر ہے۔ ہم نے گزشتہ سال ہندوستان کے دیہی علاقوں میں بجلی کے 35 لاکھ نئے کنکشن دئے۔درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، دوسرے پسماندہ طبقوں، اقلیتوں اور عورتوں کے لئے مواقع کی توسیع میں مددگار مثبت اقدامات یو پی اے حکومت کی اولین ترجیح رہی ہے۔کشمیر میں پنچایتی انتخابات کا پرامن اختتام ہونا اور ان میں بڑی تعداد میں ووٹروں کے حصہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں صورتحال بدل رہی ہے. تاہم، نکسل ازم اب بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس مسئلہ کی تشخیص کے لئے میں منسلک تمام ریاستی حکومتوں کے تعاون کی درخواست کرتا ہوں۔ ہمارے پڑوسی ممالک، خاص طور پر بنگلہ دیش، پاکستان اور میانمار کے ساتھ ہمارے تعلقات قابل ذکر طور پر بہتر ہوئے ہیں۔ نئی دہلی میں منعقد ہ برکس سربراہ کانفرنس کی کامیابی سے عالمی سطح پر ہندوستان کی ابھرتی ہوئی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ذمہ دار رکن کے طور پر ہم نے دنیا کے مسائل کی تشخیص میں اہم کردار ادا کئے ہیں۔اس کے وزیر اعظم نے دیگر حصولیابیاں بھی شمار کروائیں۔
عام انتخابات سے پہلے کے آخری سال کے لئے پیش اس رپورٹ کارڈ میں متحدہ ترقی پسند اتحاد کی دونوں دور کی ترقیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور حکومت کے مختلف پروگراموں کی معلومات دی گئی ہے۔حکومت کی یہ رپورٹ کارڈوزیر اعظم کی رہائش گاہ پر ڈاکٹر منموہن سنگھ اور کانگریس صدر سونیا گاندھی نے جاری کیاہے۔انتخابی سال میں منموہن سنگھ حکومت کو کئی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے میں ظاہری طور پر حکومت کی توجہ اپنی تصویر کو بہتر بنانے کی کوششوں پر ہے اور عام آدمی کو روٹھنے سے بچانے کے لئے بھی اسے وسائل جھونکنے ہوں گے۔اس کے علاوہ اس رپورٹ میں داخلی سیکورٹی سے لے کر خارجہ پالیسی اور زرعی پیداوار سے لے کر اقتصادی ترقی اور اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے لئے کئے گئے کاموں کا تخمینہ دیا گیا۔اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ اقلیتوں کی ترقی کے لئے ہونے والے اخراجات میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔ایک سال کے اندر متعدد اسمبلی انتخابات کے ساتھ لوک سبھا کے عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ اسی لحاظ سے رپورٹ کارڈ جاری کیا گیا ہے۔ اس کارڈ میں مسلمانوں کے بارے میں کوئی خاص ذکر نہیں ہے۔ اقلیتوں کا ذکر ضرور کیا گیا ہے لیکن اقلیت میں صرف مسلمان نہیں ہیں۔ اس میں سکھ، عیسائی، بڈھسٹ، پارسی، جین بھی شامل ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ان کی نمائندگی مسلمانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اسی لئے اقلیتی اسکیموں سے سب سے زیادہ انہی طبقوں کو پہنچتاہے۔ نام استعمال ہوتاہے مسلمانوں کا۔ جب بھی بات کی جاتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے مسلمانوں کیلئے فلاں فلاں اسکیمیں جاری کی ہیں اور اس کے اتنا فنڈ دیا ہے درحقیقت یہ فنڈ ان تمام لوگوں پر تقسیم ہوجاتا ہے اور مسلمان جہاں تھے اس سے بھی زیادہ پستی میں چلے جاتے ہیں۔ حکومت نے بہت چالاکی کے ساتھ لفظ اقلیت استعمال کرکے پوری دنیا کو بے وقوف بنایا ہے۔ باہر جب اقلیت کا لفظ استعما ل کیا جاتا ہے تو اس سے مراد لوگ مسلمان لیتے ہیں جبکہ معاملہ یہ ہے کہ کسی اقلیتی اسکیم سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ 90 اقلیتی اضلاع قرار دئے گئے تھے جو کہ اب 120ہے لیکن نفاذ نہ ہونے کے سبب سارے فنڈ واپس آجاتے ہیں جہاں کام بھی ہوا ہے تو اکثریتی علاقوں میں ہوا ہے۔ کیوں کہ نہ حکومت کا نہ ہی افسران کا ارادہ نفاذ کرنے کا ہوتا ہے۔ اولاً نفاذ کے بارے میں لوگوں کو کوئی جانکاری ہی نہیں ہوتی لیکن جب تک اس کے بارے میں معلوم ہوتا ہے اس وقت تک وقت نکل چکا ہوتا ہے۔افسران طرح طرح کے خود ساختہ ضابطہ کا حوالہ دیکر مسلمانوں کو ناکام واپس کردیتے ہیں۔
ترقی پسند اتحاد کے اس چار سالہ دور حکومت کو مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کرنے کیلئے بھی یاد کیا جائے گا۔ پورے ہندوستان سے چن چن کر مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار (اغوا) کیا گیا ۔بہار کے دربھنگہ کو دہشت گردوں کا نیا ٹھکانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور قومی میڈیا نے خفیہ ایجنسیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ مسلمانوں کے نمائندے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے دفتروں کا چکا لگاتے رہے لیکن وعدے اور وعید کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ قصاب اور افضل گرو کو پھانسی دی گئی۔ افضل گرو کو پھانسی دینے میں جو طریقہ اپنایاگیاوہ نہ صرف وحشیانہ تھا تمام قومی اور بین الاقوامی ضابطوں کے خلاف تھا۔پولیس کی حراست میں خواجہ یونس، قتیل صدیقی، فیض عثمانی، جاوید علی او رخالد مجاہد کو جس بے دردی سے قتل کیا گیایہ نہ صرف مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھانے کے لئے تھی بلکہ یہ کھلم کھلا یہ پیغام تھا کہ ہم تو ایسا ہی کریں گے تم سے کچھ بن پڑے تو کرلو۔ ممبئی بم دھماکوں کے الزام میں درجنوں افراد کو موت کی سزا سنائی گئی لیکن عدالت نے اس کے اسباب پر کبھی غور نہیں کیا اور اس سے پہلے پیش آنے والے مسلم کش فسادات کے مجرمین کو مسلمانوں پر ظلم و تشدد روا رکھنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ مسلمان اگر دہشت گرد ہیں اور واقعی بم دھماکوں میں ملوث ہیں تو انہیں پھانسی سے کم سزا نہیں ہونی چاہئے لیکن اگر کوئی افسر غلط طریقے سے کسی مسلم نوجوان کو پھنساتاہے تو اسے بھی پھانسی کی سزا ہونی چاہئے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے۔ سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے افسران کا نارکوٹسٹ اور جھوٹ پکڑنے والی مشین (لائی ڈیٹکٹر مشین)سے گزارا جائے اس میں صاف پتہ چل جائے گا مسلم نوجوان واقعی گناہ گار ہیںیا یہ خفیہ ایجنسیوں کے افسران کسی کے اشارے پر جان بوجھ کر مسلم نوجوانوں کی زندگی تباہ کر رہے ہیں۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com