کہیں دیرنہ ہوجائے؟
اس مقتل میں کون ہمیں لے آیا ہے!
بھیانک تضادات سے بھری پڑی ہے ہماری زندگی۔ آپ ناراض نہ ہوں، میں بھی تو آپ ہی میں سے ہوں۔
بہت پہلے مجھے ایک دانا نے کہا تھا:تسلیم کرنا سیکھو۔بحث کرتے کرتے میں نڈھال ہوگیا لیکن پھر ماننا ہی پڑا۔بالکل ٹھیک ہے یہ بات کہ تسلیم کیا جائے اپنی ہر کوتاہی کو،ہر غلطی کو۔اگر انسان کی دل آزاری کی ہے تو اس سے معافی طلب کرو، کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو رب سے۔ہاں ندامت دھوتی ہے گناہو ں کو۔اس سے رجوع کرنا ہی بندگی ہے۔اپنی نہیں، رب کی ماننے میں ہی عافیت ہے،سکون ہے، قرار ہے۔ اپنی دانش وری کو کچھ دیر کے لئے ہم کیوں ترک نہیں کرتے!
ہماری عجیب سی عادت ہے، ہر وقت تبصرہ کرنا۔ مجھے معلوم ہو نہ ہو، میں دانش وری ضرور بگھارتا ہوں۔ سیدھی سی بات سے ہر انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ انسان سب کچھ جان سکے!میری انا کوکتنی ٹھیس پہنچتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ میں نہیں جانتا،لیکن میں تسلیم نہیں کرتا۔کوئی بھی بات ہو میدان میں اتر آتا ہوں اوراپنی بلند کے زور پر دوسروں کو چت کرڈالتا ہوں۔ اور پھر اس پر اتراتا پھرتا ہوں۔
جب میرا کوئی دوست،عزیز بیمار ہوجائے تو میںسر توڑ کوشش کرتا ہوں کہ کوئی ماہر اس کا علاج کردے۔ مجھے گوارا ہی نہیں کہ اُسے کسی ایرے غیرے کے سپرد کردوں۔جب میں دوا لیتا ہوں تو اس پر دوا کی میعاد ضرور دیکھتا ہوں۔ میں اپنے بچوں کے لئے معیاری درس گاہ دیکھنے میں اپنی صلاحیت اور وسائل کھپا دیتا ہوں۔ میں اپنے کپڑوں کی سلائی کے لئے بہترین درزی کا انتخاب کرتا ہوں۔ اپنے بالوںکی نگہداشت کے لئے اچھے شیمپوز کی تلاش میں ہلکان رہتا ہوں۔مکان بنوانا ہو تو میں ایک ماہر نقشہ نویس کو ڈھونڈتا ہوں اور اعلیٰ معمار کی خوشامد کرتا ہوں۔اسے زیب و زینت دینے کےلئے ماہرین آرائش و زیباش کے در پرپہنچ جاتا ہوں۔ بس میں اعلیٰ معیار اور بہترین ہنر مند سے ہی رجوع کرتا ہوں اور اپنی پوری زندگی اس میں صرف کرڈالتا ہوں۔ ایسا ہی ہے ناں!!
یہ سب تو خارجی چیزیں ہیں جن کے لئے ہلکان ہوں۔اور وہ جو میرا باطن ہے، اول تو میںاس پر دھیان ہی نہیں دیتا، اوراگر کبھی دینا پڑ جائے تو ہر ایک سے پوچھتا پھرتا ہوں۔ عجیب تضاد ہے ناں یہ….جو اصل ہے اس پر میری نگاہ ہی نہیں جاتی اور جو رہ جانے والا ہے اس پر میں جان لڑا دیتا ہوں۔
اسلام تو نام ہی سلامتی کا ہے، امن کا ہے،آشتی کا ہے،بھائی چارے کا ہے، قربانی و ایثار کا ہے، تسلیم کا ہے، رضا کاہے، رحمت کا ہے، اسلام دینِ فطرت کا نام ہے ۔ رحمت اللعالمین ﷺ کی زندگی ہی روشنی ہے۔ آپ کا اسوہ ہی راہ نجات ہے۔ میرے آقا و مولاﷺنے تو اپنے جانی دشمنوں کو معاف کردیا۔ فتح مکہ کے موقع پر اپنے دشمنوں کے گھروں کو بھی جائے پناہ بنایا۔ اسلام تو وہ دین ہے جس نے جنگوں کے بھی اصول بتائے۔عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔فصلوں اور درختوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، دوسرے مذاہب کے دینی رہنماﺅں سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ جو تم سے نہ لڑے اُسے امان دی جائے گی۔ بس انہی کا مقابلہ کیا جائے گا جو دو بدو مقابلے پرآجائیں۔
مجھے تو بچپن میں یہی بتایا گیا تھا‘اب نجانے کیا کیا سنتا رہتا ہوںجس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیںوہ اسلام کا سپاہی بنا گھومتا ہے۔ کوتوا ل بنا دندنا تاپھررہا ہے۔ بالکل ٹھیک ہے کسی نے کہا تھا‘ ہر انسان کو اپنے حصے کے بیوقوف اور احمق مل جاتے ہیں۔ طر ح طرح کی تشریحات اور قسم قسم کی تفسیریں۔ہر ایک اسلام کا شارح بنا پھر رہا ہے۔ ہم عطائی ڈاکٹروں سے بچتے ہیں اور خود ساختہ، جعلی اور انا پرستوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ جہاں دین کا مسئلہ ہو تب میں کسی ماہر کو کیوں نہیں تلاش کرتا؟ اقبالیات خواجہ میں ہے کہ اقبالؒ سے کسی نے پوچھا: ”سب سے مظلوم کون ہے؟“تو بابے نے کہا: ”قرآنِ عظیم سب سے زیادہ مظلوم ہے“۔وہ حیرت سے بولا :”جناب وہ کیسے ؟“تو اقبالؒ بولے: ”جنہیں عربی کی قواعد تک نہیں آتی وہ قرآنِ عظیم کی تشریح کرتے پھررہے ہیں۔“ہاں بالکل ایساہی ہے۔ آپ تو میری تلخی سے درگزر کرتے رہتے ہیں‘آپ کی اسی محبت نے مجھے بے ساختگی سے اپنی بات کہنے کوحوصلہ بخشاہے۔
ایک بارپھر تین مذاکرات کاروں کومسئلہ کشمیر کے الجھے ہوئے دھاگے کوسلجھانے کاکام دیا گیاہے۔ایسی ہی لاحاصل کوشش بیس سال پہلے بھی کی گئی تھی لیکن معاملہ وہی پراٹکاہوا ہے ۔ہم اس بات کوکیوں تسلیم نہیں کرتے کہ ہم نے کبھی بھی اخلاص کے ساتھ اس مسئلے کوحل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔طاقت کے بل بوتے پرپچھلے تریسٹھ سالوں سے پانچ لاکھ سے زائد مسلح سیکورٹی فورسزکوخصوصی قوانین کے تحت ظلم وجبرکی اجازت دیکراپناغلام بنانے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں۔ماورائے عدالت ایک لاکھ سے زائدنہتے کشمیریوں کوصفحہ ہستی سے مٹاکربھی ان کے جائزحق خودارادیت کے مطالبے کودبانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔آج تک کشمیر میں ہزاروں بے روزگاروں کوروزگارکا لالچ اورکبھی کشمیرمیں ترقیاتی کاموں کاجھانسہ دیکرفریب دینے کی کوشش بھی دل جیتنے میں کارگر ثابت نہیں ہوسکی۔
اب اس بات پربغلیں بجائی جارہی ہیں کہ اقوام متحدہ نے اس سال کشمیرکواپنے ایجنڈے میں جگہ نہیں دی۔ساری دنیااس بات سے واقف ہے کہ اقوام متحدہ اب چندطاقتوں کی ایک لونڈی کی حیثیت اختیارکرچکی ہے جوان طاقتوںکی مرضی ومنشاءکے مطابق فیصلے صادرکرتی ہے۔ساری دنیامیں عراق میں فوج کشی کے خلاف مظاہرے ہوئے بلکہ خوداقوام متحدہ بھی اس فیصلے کے خلاف تھی‘لیکن ہواکیا؟طاغوتی طاقتوں نے ایک ہنستے بستے ملک کوآن کی آن میں ایسا تاراج کردیا کہ اب اس کی تعمیرمیں صدیاں درکارہیں لیکن پھر بھی فتح کی بجائے ذلت ورسوائی حصے میں آئی۔عراقیوں نے بھی طاقت کے سامنے ہتھیارنہیں ڈالے اوراب قصر سفیدکافرعون بمعہ اپنے تمام ساتھیوں کے اپنابوریابسترباندھ کررخصت ہونے کی تیاری میں مصروف ہے۔فلسطینی نوجوان بچوں نے پتھروں کے ساتھ اسرائیلی ٹینکوں کوواپس جانے پرمجبورکردیااوراب تمام مغربی اقوام کی بھرپورحمائت بھی اسے حزب اللہ کے ہاتھوں رسوائی سے نہ بچاسکی۔ ایسی ہی حماقت روس نے افغانستان میں کی ‘وہ افغانیوں کوتوزیرنہ کرسکالیکن خوداپنی عظیم ریاست کے کئی ٹکڑے کرواکراپنے زخموں کوسہلارہا ہے۔حیرت ہے کہ امریکاکونوسال کے بعد بارہ کھرب ڈالرآگ میں جھونک دینے اوراپنے ہزاروں فوجی مروانے کے بعدسمجھ آئی ہے اوراب وہ اپنی جان چھڑانے کےلئے دن رات کوشاں ہے۔
لیکن ان تمام انسانی المیوں کے باوجوددلی سرکارتاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنے کوتیارنہیں ۔بیس سالوں کے بعدایک دفعہ پھر متعصب ذہنیت‘جارحانہ قومی اناکی پرورش کی خاطرظلم وستم اورقتل وغارت کے سلسلے کودرازکرنے کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔آج تک کشمیرمیںحقیقی جمہوری قدروں‘سیاسی وعوامی تائید کوکچلنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی گئی۔کبھی آٹھ نکاتی پروگرام کااعلان کیاجاتاہے اورکبھی مذاکرات کاجھانسہ دیکر کشمیریوں کی تحریک کوسردکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جب بھارت کے اپنے دانشوردلی سرکار کی ان پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے ہوش کے ناخن لینے کامشورہ دیتے ہیں تواسی جمہوری ملک میں ان کے خلاف غداری کامقدمہ چلانے کی دھمکی دیکران کوخاموش اورخوفزدہ کرنے کی مہم جاری کردی جاتی ہے۔آج بھی کشمیرمیں دلی سرکار کے گماشتے روایتی فوجی بے رحمی کوروکنے میں ناکام ہوچکے ہیں اورخودبی جے پی کے رہنما کشمیرمیںبھارت کے سالانہ نوسوچالیس ارب روپے کے اخراجات پرکڑی تنقیدکرتے ہوئے اسے ایک بوجھ قراردے چکے ہیں لیکن دلی سرکار ابھی تک اس بے پناہ فوجی اخراجات کے علاوہ دنیابھر میں دن بدن عالمی خجالت کاشکار ہو رہا ہے اوراس عالمی خجالت کورفع کرنے کےلئے کروڑوں ڈالر جھونک رہا ہے۔
دلی سرکاراگر اخلاص کے ساتھ چاہتی ہے کہ اس خونی مسئلے کاحل ہواوریہ خطہ مستقبل میں کسی ایٹمی تصادم سے محفوظ ہوجا ئے تواسے کشمیری رہنماسیدعلی گیلانی کاہاتھ تھامنے میں کسی تاخیر سے گریزکرناچاہئے ۔دنیاکے تمام مسائل بالآخر ایک میزپر بیٹھ کر ہی حل ہوئے ہیں۔اگر دلی سرکار نے اب بھی حیلوں بہانوں سے وقت حاصل کرکے کشمیریوں کوفریب دینے کی کوشش جاری رکھی تو مجھے شدید خدشہ ہے کہ کشمیری لیڈر یٰسین ملک کی وہ پیش گوئی ضرورپوری ہوگی کہ کشمیری آخری حربے کے طورپرفدائی حملوں کاراستہ اختیارکرلیں گے جس کاتدارک آج تک دنیاکی کسی طاقتورحکومت کے پاس بھی نہیں!
آج انسان کا چہرہ تو ہے سورج کی طرح روح میں گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں