ابھی اس بات کا پتہ چلنا باقی ہے کہ کابل میں ہونے والا دہشت گردانہ حملہ، جس میں 6 ہندوستانیوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے تھے، اور قندھار میں چھپ کر کیا گیا حملہ جس میں 4 پاکستانی مزدور ہلاک ہوئے تھے، ان کے درمیان کیا تعلق ہے، پاکستانی میڈیا نے افغانستان میں شرپسندی پیدا کرنے کے لیے ہندوستان پر الزامات کی بارش شروع کردی ہے۔پاکستان کے ایک مشہور انگریزی روزنامہ، دی نیشن کے مطابق ہندوستانی اہل کاروں نے اپنے افغانی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر 15 سے 20 وانٹیڈ القاعدہ جنگجووٴں کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا ہے، جو اس وقت بگرام اےئر بیس میں قید ہیں۔اخبار کا کہنا ہے کہ ڈیل کے مطابق ان قیدیوں کو پوچھ گچھ کے دوران ان کی سخت سزا اور ٹارچر میں کچھ راحت دی جائے گی اور کچھ پیسے بھی دیے جائیں گے۔اس کے بدلے میں حراست میں لیے گئے یہ جنگجو ہندوستان کو ’افغانستان میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ ‘ کو دوبارہ حاصل کرنے میں مدد کریں گے۔اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سرحد میں چھپے ہوئے افغان طالبان لیڈروں کے خلاف پاکستان کی حالیہ کارروائی سے ’ہندوستان خوش نہیں ہے، اور افغانستان اور ہندوستان دونوں نے طالبان کے کلیدی لیڈروں کے خلاف اسلام آباد کی کامیاب کارروائیوں کو کم کرکے آنکنا شروع کر دیا ہے اور وہ 26 فروری کو کابل میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے لیے لشکر طیبہ کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ”افغانستان اور ہندوستان دونوں نے کابل حملہ پر یکساں رد عمل کا اظہار کیا اور دونوں نے ایک ہی ممنوعہ عسکریت پسند گروپ کو قصوروار ٹھہرایا۔ یہ رد عمل واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ پہلے سے سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔“اس سے قبل، دی نیوز نے ”چند معتبر ذرائع“ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کابل میں ہندوستان کے سفیر جینت پرساد اور چند اعلیٰ ہندوستانی سفارت کاروں نے گذشتہ ماہ کابل کے ایک گیسٹ ہاوٴس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد افغانستان کی خفیہ تنظیم ریاستِ امنیتِ ملی (رام) کے چیف امر اللہ صالح کے ساتھ تین سے زیادہ خفیہ میٹنگ کی تھی۔اخبار میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے قومی سلامتی صلاح کار، شو شنکر مینن، جنھوں نے حالیہ دنوں کابل کا دورہ کیا، افغانستان کی انٹیلی جنس سروس کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ لگاتار رابطے میں رہے ہیں۔یہاں پر قابل ذکر ہے کہ رام کے ترجمان سعید انصاری نے ایک مغربی نیوز ایجنسی کو بتایا تھا کہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ لشکر طیبہ کے اردو بولنے والے پاکستانی جنگجو کابل حملہ میں ملوث تھے اور یہ کہ افغان طالبان، جس نے 26 فروری کے دہشت گردانہ حملہ کے فوراً بعد اس کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی، اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے۔
افغانستان میں ہندوستانی شہریوں پر لگاتار ہونے والے دہشت گردانہ حملوں نے اب یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی حمایت یافتہ دہشت گرد اور وہاں کی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی سے کس قدر خوفزدہ ہے اور نہیں چاہتی کہ ہندوستان وہاں پر اپنا مثبت رول ادا کرے۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان کے قومی سلامتی صلاح کار شو شنکر مینن نے افغانستان کا دورہ کرکے وہاں کی صورت حال کا جائزہ لیا اور حکومت ہند کی جانب سے یہ فیصلہ لیا گیا کہ وقتی طور پر افغانستان میں ہندوستان کے طبی مشن کے کاموں کو روک دیا جائے۔ ہندوستان نے ساتھ ہی یہ بھی صاف کردیا ہے کہ یہ فیصلہ جز وقتی ہے اور جب تک افغانستان میں ہندوستانی ڈاکٹروں کی حفاظت و سلامتی کے مناسب انتظامات نہیں کر لیے جاتے تب تک یہ کام معطل رہے گا۔ لیکن دوسری جانب افغانستان کے عوام ہندوستان کے اس فیصلہ سے کافی پریشان ہیں کیوں کہ اندراگاندھی چلڈرنس ہاسپیٹل افغانستان میں بچوں کے علاج و معالجہ کا واحد اسپتال ہے جہاں پر ہندوستانی ڈاکٹر کام کرتے ہیں۔ اب ان ڈاکٹروں کے وہاں سے واپس چلے آنے کے بعد افغانستان کے بچوں کا مستقبل کچھ وقت کے لیے خطرے میں پڑ گیا ہے، کیوں کہ پاکستان بھلے ہی ظاہری طور پر افغانستان کی فلاح و استحکام کے لمبے چوڑے دعوے کرے لیکن اس کی ہی خفیہ سازشوں کی وجہ سے افغانستان میں ہندوستان کے ڈاکٹروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ 26 فروری کو کابل میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں ایک ہندوستانی ڈاکٹر سمیت کئی ہندوستانی فوجی افسروں کی بھی موت واقع ہوگئی تھی جب کہ دیگر کئی ڈاکٹر زخمی بھی ہوئے تھے۔ شو شنکر مینن کے افغانستان کے دورہ کے وقت افغانی حکام نے انھیں اس حملے کی جاری تفتیش کے بارے میں اطلاعات فراہم کیں اور ان کے سامنے اس بات کا شبہ ظاہر کیا کہ اس دہشت گردانہ حملے میں پاکستانی دہشت گرد تنظیم، لشکر طیبہ سمیت آئی ایس آئی کے بھی چند اہل کار ملوث تھے۔ لیکن اپنی اس سازش کو چھپانے کے لیے پاکستان نے اب ہندوستانی اہل کاروں پر الزام لگانا شروع کردیا ہے کہ انھوں نے افغان جیلوں میں قید افغان طالبان اور القاعدہ کے چند عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر یہ ڈیل کی ہے کہ اگر انھوں نے پاکستانی شہریوں اور مزدوروں وغیرہ پر حملہ کرنے میں ان کا ساتھ دیا تو وہ ان کی سزا میں تخفیف دلانے میں ان کی مدد کریں گے۔
اب یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ ہندوستان جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں اپنی تعمیراتی کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے بین الاقوامی برادری کی پذیرائی حاصل کرے۔ اسی لیے سیاسی سطح پر پاکستانی قائدین کی جانب سے ہندوستان پر بار بار یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایجنٹ افغانستان کو اپنا مرکز بناکر پاکستان کا محاصرہ کرنے اور خطہ میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستانی قائدین کے ان بیانات سے یہ بات تو صاف ہو ہی جاتی ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندر ہندوستانی تعمیراتی کاموں کو دیکھنا نہیں چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہندوستان وہاں سے اپنا بوریا بستر جلد باندھ لے۔ شاید اسی لیے ہندوستانی شہریوں کو افغانستان میں بار بار دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لیکن افغانستانی حکومت اور عوام کی خواہشوں کے مطابق ہندوستان نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اس قسم کے حملے ہندوستان کے عزائم کو متزلزل نہیں کرسکتے اور وہ دہشت گردوں کے سامنے کبھی نہیں جھکے گا اور افغانستان میں اپنے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھے گا۔
ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے پاکستان کو تو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ اس کے پڑوسی ملک افغانستان کا کوئی غیر اسلامی ملک مدد کر رہا ہے اور وہاں پر ترقیاتی کاموں میں اپنا بھرپور تعاون پیش کر رہا ہے۔ افغانستان میں ہندوستان کی ان تعمیراتی سرگرمیوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ایسا کرکے پاکستان کا محاصرہ اور جنوبی ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتا ہے، بالکل غلط ہے۔ پاکستانی عوام اور پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے ہندوستانپر بار بار یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کو اپنا مرکز بنا کر بلوچستان اور دیگر پاکستانی علاقوں میں پاک مخالف شرپسندی کو ہوا دے رہا ہے۔ لیکن افسوس اور حیرانی کی بات ہے کہ ان لوگوں کے پاس ہندوستان کی ان سرگرمیوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے، ورنہ وہ ان ثبوتوں کو دنیا کے سامنے ضرور پیش کرتے۔ درحقیقت پاکستانی حکومت بلوچستان اور اس جیسے دیگر قبائلی علاقوں میں ترقیاتی عمل کو جاری کرنے میں پوری طرح ناکام رہی ہے، لہٰذا وہاں کے عوام کی طرف سے اٹھائی جانے والی آواز کو دبانے اور اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑنے کے لیے اس نے بہت سیدھا سادہ حربہ یہ اپنا رکھا ہے کہ ہر بات کے لیے ہندوستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ افغانستان کو ہندوستان کی جانب سے ملنے والی امداد اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان افغانستان کے اندر استحکام پیدا کرنے کے لیے کس قدر کوشاں ہے۔ لیکن پاکستان کو ہندوستان کی یہ کوشش راس نہیں آرہی ہے۔ پاکستانی قائدین کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام کی فضا ہموار کرنے میں بین الاقوامی برادری کی مدد کریں اور ہندوستان پر الزامات لگانے سے گریز کریں اور صرف انسانیت کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچیں۔