ایاز محمود
پاکستان میں ایک نئی امریکی ریاست کا قیام۔۔؟
ہلیری کلنٹن ۔اوبامہ کو ناکام بنانے میں پیش پیش۔۔۔!
امریکی وزیر خارجہ محترمہ ہلیری کلنٹن صاحبہ نے پاک افغان سرحد کو دھشت گردی کا مرکز کہ کر پاکستان اور افغانستان کے درمیان دونوں کے سرحدی علاقوں کو یکجا کرکے وہاں گویا اس طرح امریکی ریاست کے قیا م کا اعلان کردیا ۔ ؟ اور یہ اسرائیل کے طرز کی ریاست ہوگی۔ اور یہاں عیسائیوں کا غلبہ ہوگا۔ اور یہودی یہاں بے روک ٹوک آجاسکیں گے۔
القاعدہ و طالبان کے حوالہ سے یہ بات واضع ہوگئی ہے۔ کہ وہ اس حوالہ سے دوسرے ملکوں میں مداخلت کا راستہ بناتے ہیں۔ اور اس کو ختم کرنے کے نام پر گھستے ہیں ۔ اور پھر اپنے مفاد کی تکمیل کرلیتے ہیں۔ چونکہ اب امریکہ کے پاس ایران کو تباہ کرنے کا پلان ہے۔ تو اب ایران پر طالبان کو تربیت دینے کی باتیں اجاگر کی جارہی ہیں۔ اور آہستہ آہستہ یہ لوگ ایران کو دھشت گردی کا مرکز بتاکر اس کے تیل پر قبضہ کرلینے کی کوشیش کریں گے۔ امریکی انسداددھشت گردی کے اہل کاورں نے اخباری اطلاعات کے مطابق یہ کام شروع کردیا ہے۔ اور اب ان کو شبہ ہونے لگا ہے۔ کہ ایران ریولوشنری گارڈس ۔ طالبان کو ہتھیار فراہم کراتے ہیں۔ اور انہیں ا مریکی فوج کے خلاف لڑنے کیلئے تربیت دیتے ہیں۔ یہ ایک نئی حکمت تیار کی گئی ہے۔
چونکہ مسز ہلیری کلنٹن صاحبہ اب مسٹر بارک حسین اوبامہ کو ناکام صدر ثابت کی کوشیشوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے پاک افغان سرحد کو دھشت گردی کا مرکز بتا کر مذید امریکی فوج کو وہاں بھیجنے کا راستہ ہموار کررہی ہے۔ جبکہ مسٹر اوبامہ دوسرے ملکوں میں مداخلت کے سخت خلاف ہیں۔ اور وہ سب کا یکسان احترام چاہتے ہیں۔ لیکن مسز ہلیری اور ری پبلیکن بضد ہیں۔ اور زیادہ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے۔ ڈیموکریٹ کی وزیر خارجہ اپنی حریف جماعت ری پبلیکن کی زبان میں بول رہی ہیں۔ جس سے کہ سرحدی علاقوں میں امریکی فوج اتاری جائیں۔ تقریباََ دو سے تین لاکھ فوج یہاں جمع کردی جائے۔ان کو خیمہ زن کرنے کیلئے اس مقصد کے تحت یہاں آباد شہریوں پر ڈرون طیاروں سے حملے کرکے ان میں دھشت پھیلاکر ان کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ جس سے یہ علاقے خالی ہوجائیں۔ اور پھر یہاں مذکورہ فوج جمع کرکے اس علاقہ کو ایک امریکی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ جس سے یہ ایک عیسائی ریاست بن سکے۔ان علاقوں کو دھشت گردی کا مرکز بتا کر اس پر قبضہ کرنے کا خوبصورت پلان چل رہا ہے۔ ان علاقوں میں ڈروں طیاروں کے حملے اس وقت ہی روکیں گے۔ جب امریکی انتظامیہ کو یہ یقین ہوجائے گا۔ کہ علاقے مکمل طور پر خالی ہوچکے ہیں۔ اور یہاں بسنے والے مسلمان لوگ یہاں سے بھاگ چکے ہیں۔ یہاں ایک عیسائی ریاست بنانے کا جو خواب مسٹر جارج بش نے دیکھاتھا۔ اس کو پورا کرنے میں مسز ہلیری کلنٹن بھی اب لگتا ہے شریک ہوگئیں۔ جس سے یہ واضع ہوتا ہے۔ کہ وہ مسٹر اوبامہ سے زیادہ مسٹر بش کی جماعت کی وفادار ہیں۔۔۔؟ اور وہ ایسا اپنے ذاتی سیاسی فائدے کیلئے بھی کررہی ہیں۔؟
مسز ہلیری کلنٹن صاحبہ کے جاری بیان سے یہ صاف ہوتا ہے۔ کہ وہ سرحدی علاقوں میں امریکی افواج اور ری پبلیکن کی پالسی کا تحفظ چاہتی ہیں۔ جس سے جب وہ امریکی فوج ان علاقوں میں داخل ہوتو ان کو کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔وہ اسی تحفظ کیلئے ڈروں حملوں کی بش کی روایات کو زندہ و جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی فوجی کمانڈر با ر بار افغانستان میں امریکی فوج کے اضافہ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ تویہ ری پبلیکن کی پلاننگ کا حصہ ہے۔ ان پر ان ہی کا دباؤ ہے ۔ ساتھ ہی مسز ہلیری کلنٹن کا دباؤ بھی ہوسکتاہے۔ ۔۔؟اس کے علاوہ امریکی کمانڈر وں کے اعلانا ت کہ” افغان جنگ میں ہماری شکست کے دن قریب “ کا جھانسہ دے کر اوبامہ پر دباؤ بنارہے ہیں۔ کہ وہ امریکہ کی مذید فوجی یہاں بھیجے پر رضامند ہوجائیں۔ ہلیری کلنٹن صاحبہ اپنی جماعت کے لوگوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں۔ کہ افغانستان سے القاعدہ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ لیکن اگر افغانستان پر دوبارہ طالبان کا کنٹرول ہوا۔ تو القاعدہ جتنی تیزی سے واپس آئے گا۔ اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ ہلیری کلنٹن صاحبہ القاعدہ و طالبان کی زبان بول کر مسٹر بارک حسین اوبامہ کو اپنی ان دھمکیوں سے قائل کررہی ہیں۔ کہ وہ راہ راست پر آجائیں۔ ورنہ پھر القاعدہ ہے۔ جس طرح مسٹر بش صاحب القاعدہ و طالبان کے ذریعہ دنیا کے عوام کو گمراہ کرتے تھے۔ اور ان کو ڈراتے تھے۔ مسز کلنٹن بھی ان کے ذریعہ سے اب اپنی جماعت کو گمراہ کررہی ہیں۔۔؟ اور ساتھ میں ڈرا دھمکا بھی رہی ہیں۔ جبکہ القاعدہ و طالبان تحریک مکمل طور پر تخلیقی ہے۔ اور اس کو ری پبلیکن نے اپنی جماعت کے سیاسی فائدے کیلئے پیدا کیا ہے۔ اور وہ اس کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ اس تحریک کا اصل مقصد دنیا میں مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنا اور اس کو دھشت گرد بنا کر پیش بھی کرنا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا۔ کہ امریکہ میں بش اور جان کیری کے صدارتی انتخاب میں مسٹرکیری کو مسٹر بش پر فوقیت تھی۔ اعداد وشماران کی جیت یقینی بتارہے تھے۔مگر وہاں چناؤ پرچار ختم ہوتے ہی القاعدہ کی تخلیقی کیسٹس کو سیاسی استعمال کیلئے منظر عام پر لاگیا۔ جس میں امریکہ اور ری پبلیکن قیادت کیلئے دھمکیاں بھری پڑی تھیں۔اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ۔ کہ فوقیت کی طرف جانے والا شخص یک دم صرف ایک دن میں شکست کی طرف دھکیل دیا گیا۔تخلیقی کیسٹوں کی یہ نمائش صرف اور صرف سیاسی فائدے کیلئے تھی۔جس کا فائدہ مسٹر بش نے بھر پور طور پر اٹھایا۔حالیہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں بارک اوبامہ نے کتنے خطرنا ک بیانات تخلیقی دھشت گردوں کیلئے دئے اورکتنی دھمکیاں القاعدہ اور اس کی قیادت کو دیں۔مگرری پبلیکن کی قیادت کو دھمکیاں دینے کیلئے مخصوص اوسامہ بن لادن نے اس کے جواب میں ڈیموکریٹ کو دھمکیاں دینے سے گریز کیا۔ اس بار القاعدہ کی دھمکیوں کا پلان مسٹر اوبامہ نے چوپٹ کردیا ۔جس کی وجہ سے ری پبلیکن کو کراری شکست دستیاب ہوئی۔ری پبلیکن نے القاعدہ کی تخلیقی دھمکیاں حاصل کرنے کیلئے امریکہ اور برطانیہ میں الجزیرہ کے انگریزی چینلوں کا قیام کیا تھا۔ انگریزی زبان میں تحریرکردہ دھمکیوں والے بیانات پڑھنے کیلئے القاعدہ کے تخلیقی لیڈروں کا انتظام بھی کیا تھا ۔ مگر وہ سب پلان دھرا کا دھر رہ گیا۔
اب جرمنی کے تازہ انتخاب میں القاعدہ کی تخلیقی دھمکیوں کا سیاسی استعما ل کیا جارہا ہے۔جرمنی نے افغانستان میں جو اپنے فوجی رکھے ہیں۔ وہ سیاسی فائدے کیلئے ہی رکھے ہیں؟۔ اگر جرمنی کے فوجی یہاں نہ رکھے ہوئے ہوتے تو القاعدہ کی سیاسی دھمکیاں نہیں آتیں۔امریکی کمان میں جن ممالک کے فوجی ہیں۔ ان فوجیوں کا سیاسی استعمال ہورہا ہے۔اور مسٹر بارک اوبامہ فوجیوں کے سیاسی
استعمال کے سخت خلاف ہیں۔اور انہوں نے یہ واضع کردیا کہ ان کا ملک اب کسی بھی ملک پر اپنی بات مسلط کرنا نہیں چاہتا۔لیکن ری پبلیکن کے لیڈروں کا دباؤ ڈیموکریٹ کے کچھ لیڈروں پر ہے۔یا ان کی باہمی مفاہمت ہے ۔ اس لئے پاکستان میں ڈروں حملے ابھی بھی جاری ہیں۔یہ دوسرے ملکوں میں مداخلت کی حکمت عملی ہے۔امریکی انتظامیہ کی یہ بے تکی پالیسی دانشتہ یا غیر دانشتہ ہے۔جس سے مسٹر اوبامہ کو لاعلم رکھا گیا ہے۔یا وہ خو د امریکی پالیسی کے تحت ان حرکات سے لاعلم ہیں۔؟؟؟
بہرحال ۔ اب پاکستان میں ایک نئی امریکی ریاست کے قیام کیلئے جس جہد میں مسز کلنٹن شریک ہیں۔ اس کو افسوس ناک اور شرمناک کہنا وقت کا تقاضہ ہے۔ پاکستان کے عوام شاید ان تازہ مکاریوں سے لاعلم ہیں۔ کہ ان کے ملک کے ایک سرحدی علاقہ میں فضائی حملوں کے ذریعہ عیسائی ریاست قیام کیلئے کوشیشیں تیز ہوں ۔ اور عوام تو عوام ،حکمراں تک خاموش رہیں ۔ تویہ کسی المیہ کم نہیں۔ پاک افغان سرحد پر ڈروں فضائی حملے ایک گہری سازش کا ہی نتیجہ ہے۔جس پر ہم افسوس اور وہاں ڈرون حملوں کی وجہ سے ہورہی انسانی شہادت پر اظہارِ تعذیت کرتے ہیں۔
ayaz_mehmood_newdelhi@yahoo.com ایاز محمود۔ ۱۰، ایس ایل ہاؤس ، آصف علی روڈ، نئی دہلی۔۲