سیلاب اور عوامی ردعمل
عباس ملک
سیلاب کی تباہ کاریوں کے ساتھ عوام کا جذبہ ترحم کیوں بیدار نہیں ہو ا۔ اس سے پہلے عوام نے زلزلہ زدہ علاقوں کے عوام کیلئے دل کھول کر عطیات دئیے اور ذاتی طور پر اس عمل میں شامل ہوئے ۔سب سے پہلا اور اہم ترین عنصر یہ ہے کہ زلزلہ کا دائرہ کار وسیع علاقے لیکن ایک سیلا ب کے مقابلے میں محدود تھا ۔زلزلہ ملک کے شمالی علاقہ جات کشمیر کے علاقے میں آیا لیکن سیلاب سے ملک کے چاروں صوبے اور کشمیر سمیت ہر حصہ متاثر ہو ا۔ اس ے بعد دوسرا عمل جو زیادہ اثراندازہو رہا ہے وہ یہ کہ زلزلہ کی تباہ کاری محدود مدت کیلئے تھی جبکہ سیلا ب اس کے مقابلے میں کئی ہفتوں پر محیط ہے ۔دونوں قدرتی آفات کا ت قابل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دونوں کا دائرہ عمل اور طریقہ کا ر مختلف ہے ۔زلزلہ زدہ علاقوں میں بھی ریسکیو آپریشن اور تعمیر و بحالی کا کام ہماری فطری نا اہلی اور دیگر عوام کی وجہ سے مﺅثر نہیں تھا اور اس طرح سیلا ب زدہ علاقوں میں بھی ریسکیوآپریشن ہماری روایتی کوتاہیوں کی وجہ سے مصائب کے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ہمارا حکمران طبقہ عوام کے مصائب و تکالیف میں بیانات کی حد تک تو شامل ہوتا ہے لیکن عملی طور پر یا ان کی شکایات کو حل کرنے کی عملی کوشش نہیں کی جاتی ۔عوام نے مختلف مواقع پر حکو مت کو دل کھول کر مالی عطیات دئیے لیکن وہ عطیات اپنی جگہ پر خرچ ہونے کی بجائے کاغذی منصوبہ جات کی نذر ہو گئے ۔اس سے عوام میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی ۔عوام کے حکومت پر اعتماد میں کمی واقع ہوئی۔عوام کو حکومت پر یقین نہیں کہ وہ ان کے عطیات کو واقعی انہی مقاصد کیلئے استعمال کرے گی جس کیلئے وہ پیش کیے گئے ۔قرض اتارو ، ملک سنوارو ،سکیم سے لیکر زلزلہ زدگان تک عوام نے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور دوست اسلامی و دیگر ممالک نے کثیر سرمایہ فراہم کیا ملک آج تک قرض کی لعنت سے لیکر ہر مرض میں گرفتار ہے ۔ایسے میں جمہوری حکمرانوں سے ہمدردی کی توقع رکھتے تھے لیکن حکمران مصیبت کی گھڑی میں بھی غیر ملکی دوروں کو اہمیت دیکر عوام کی آرزوں کو پامال کر گئے ۔حکومتی اکابرین اور عمائدین صرف فوٹو سیشن کیلئے سیلاب زدہ علاقوں تک آئے ۔ پاکستان آرمی شروع دن سے ہی اس آفت کی گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ مصروف کا ر ہے۔ملک کے دیگر ادارے اس مصیبت کی گھڑی میں عوام کے دکھوں میں بروقت کیوں شامل نہیں ہو پارہے ۔خاص طور پر سیاسی عمائدین جو یہ دعویٰ کرنے میں ذرابھی تامل نہیں کرتے کہ وہی اس ملک کی سب سے اعلی ترین مخلوق ہیں ۔ان سے زیادہ اس ملک اور قوم کا کوئی ہمدرد نہیں ۔صدر تو منتخب عوامی نمائیندے نہیں لیکن کیا وہ آئیندہ یہ دعوی کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے کہ ملک کی ایک سیاسی جماعت کے شریک چیئرپرسن ہیں ۔چیئرمین صاحب تو ملک سے دور اپنی دنیا بنانے میں مگن ہیں ۔اور انہیں ذرا بھی ملال نہیں ہوا کہ انکے ملک پر کیا آفت آن پڑی ہے ۔ان کی جماعت کے کتنے ورکرز اور ووٹر ز اس آفت نگہانی میں کس کرب اور دکھ سے سے گذر رہے ہیں ۔چیئرمین اور شریک چیئرمین کی اپنے ملک اور ووکرز سے انسیت کا یہ عالم ہے تو باقی نے بھی جوتے کپڑے گیلے ہونے سے بچا کر ملک کے خزانے کو ضائع ہونے سے بچایا ۔الیکشن کمپین پر کروڑوں لگانے والوں نے سرمایہ کاری کیلئے موسم کو غیر موزوں جانتے ہوئے قدم اگے بڑھانے سے گریز رکھا ۔میاں نواز شریف نے سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیر کیلئے ایک نیا ادارہ اور اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز کیونکر دی۔اس سے پہلے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی آخر کس لیے قائم کی گئی تھی ۔میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے اس بات کی تحقیق کی جانی چاہیے کہ ہماری لیڈر شپ کہاں اور کیسے کھو گئی ہے ؟ان میں فراست کا فقدان کس سبب ہے ۔یہ ہمیشہ الٹی طرف سے کان پکڑنے کی کوشش میں وقت اور سرمایہ کیوں ضائع کرتے ہیں ۔پہلا ادارہ زلزلہ زدگان کی مدد کرنے اور ان کی بحالی میں کتنا ممدد و معاون ثابت ہواہے ۔اس کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ ایک ادارہ اور ایک اتھارٹی رکھنے والا ادارہ قائم کرنھے کیلئے کیا یہ وقت موزوں ہے ۔اگر کا لا باغ اور دیگر ڈیموں کیلئے یہ بات کرنے کا موقع نہیں تو پھر کیا اداروں کے قیام کا یہ کون سا موقع ہے ۔ ادارے کو افرادی قوت ،سرمایہ اور مشینری دینے کیلئے کس در سے بھیک مانگی جائے گی ۔ اگر سیلاب زدگان کیلئے موصول شدہ امداد اس ادارے کی بنیادیں اٹھانے پر خرچ کردی گئی تو پھر سیلاب زدگان کیا حاصل کریں گے ۔جب ایک ادارہ موجود ہے تو پھر اسے استعمال کرنے میں کیا قباحت ہے ۔سابق جج اور بیوروکریٹ کسی ادارے اور بھی ہنگامی امداد کے ادارے کو کس طرح ہینڈل کر یں گے ۔جبکہ وہ دلا ئل اور فائل کے قائل ہوتے ہیں ۔انہیں دلیل پسند آئے تو ہی وہ قدم اگے بڑھائیں گے ۔ایسے میں لاہور ڈبوتا ہے تو ڈبوتا رہے ۔ادارے کو ایک مسلمہ ایسے فرد کی ضرورت ہے جو قدرتی آفات اور ان کی روش اور انداز سے واقفیت رکھتا ہو۔اس کے مطابق وہ منصوبہ بندی کرے ۔ جیالوجسٹ اور محکمہ انہار و آبپاشی اور فوج کے تعاون سے ہی سیلاب کی تباہ کاریوں کے اگے بند باندھا جا سکتا ہے ۔جیالوجسٹ اور محکمہ انہار و آبپاشی والے منصوبہ بندی کریں اور فوج عمل کرے تو ہی ممکن ہے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ پائے ۔جب تک ڈیم تعمیر نہ ہونگے اس وقت تک سیلاب کی تباہ کاریوں سے نجات کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ پائے گا ۔دریاﺅں کے پانی کی گذرگاہوں پر ہاﺅسنگ سوسائٹیز بناکر سیلاب کو دعوت عام دی جا رہی ہے ۔سیلاب کیوں آتے ہیں اور ان کا تدارک کس طرح ممکن ہے اس کا جواب ججز اور بیور کریسی نہیں بلکہ محکمہ موسمیات ،جیالوجسٹ اور محکمہ انہار و آ] ]>