سمیع اللہ ملک,لندن
ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں کا چکر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ بس میں کا چکر۔ دھوکا ہی دھوکا اور خود فریبی۔ دربارِ عالیہ میں مسندِ نشین خوشامد پسند حکمران اورچاپلوس مشیرانِ کرام… راگ رنگ کی محفلیں، ناؤنوش کا دور اور عوام کا درو و غم یکساں کیسے ہو سکتے ہیں! ہو ہی نہیں سکتے۔ نہیں جناب آپ نے بجا ارشاد فرمایا… آپ ہی تو صحیح فرماتے ہیں… آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں آپ کے ارشاداتِ عالیہ۔ دُرنا یاب ہیں آپ، نجات دہندہ اور زمین پر خدا کا سایا۔ رحمتِ باری تعالیٰ اور اوتارِ زمانہ ہیں آپ سرکار آپ جئیں ہزاروں سال سدا جئیں کا نعرہ۔ اور خود فریبی میں رچا بسا فریب خوردہ انسان۔ اتنی آوازوں میں کون اپنے آپ میں رہتا ہے۔ جامے سے باہر ہو ہی جاتا ہے۔
لیکن کون جیاہے سدا! کوئی بھی نہیں۔ سب کو چلے جانا ہے۔ زندگی پر موت کا پہرہ ہے۔ نہیں بچا کوئی۔ کوئی بھی تو نہیں بچا۔ لیکن کون سمجھائے جب قلب سیاہ ہو کر پتھر بن جائے چاہے دھڑ کتا ہی ہو، اس سے کیا ہوتا ہے! ہاں پتھر تو پتھر ہوتا ہے۔ فریب ہی فریب اور دھوکا ہی دھوکا۔ زمین پر پاؤں ٹکنے ہی نہیں دیتا یہ دھوکا۔
چاہے کچھ کر لیں… ہاں کچھ بھی،نہیں بچ سکا کوئی بھی موت کے منہ سے۔ بے حس و سفاک موت، کسی کو خاطر میں نہ لانے والی۔ ہاں وہ کسی کی بھی دھمکی نہیں سنتی، کسی کے نام و نسب، منصب و جاگیر سے اجنبی موت۔ لیکن پھر بھی جیئے جیئے سدا جیئے کا خمار۔ ایسا نشہ جو سارے نشے کو دو آتشہ اور سہ آتشہ کر دے۔ آہٴ نہیں بچا کوئی۔
آگ و خون کی بارش کرنے والے بھی اور مظلوم، معصوم اور مقہور بھی۔ نہیں کوئی نہیں بچا۔ لیکن پھر سب ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ تب خیال آتا ضرور ہے لیکن ساعت و لمحات بیت چکے ہوتے ہیں، سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاتا ہے، پھر پل کی خبر نہیں ہوتی حالانکہ سامان سو برس کا دھرا ہوتا ہے۔
وہ مجھے اکثر کہتا ہے کوالٹی لائف ہونی چاہیے۔ ہاں وہ اسی طرح کی زندگی بسر کرتا ہے۔ہرچیز و افراور وقت نپا تلا۔ لیکن کیا یہ ہے کوالٹی لائف! اچھی نوکری کے لیے بہترین تعلیم حاصل کرنا۔ پھر پیسے جمع کرنا اور کرتے ہی چلے جانا۔ پھر ایک خوب صورت لڑکی سے شادی۔ ایک آسائشوں بھر ا گھر اور اس کے لان میں بچھی ہوئی آرام دہ کرسی پرجھولتے ہوئے گپ شپ۔
بس یہ ہے آج کی کوالٹی لائف۔ کیا یہی ہے زندگی! میرا ایک دیہاتی دوست بہت ہنستا اور کہتا تھا: کچھ لوگوں کی زندگی پتا ہے کیسی ہوتی ہے؟ میں کہتا نہیں پتا۔ تو کہنے لگتا: ان کی زندگی ہوتی ہے” نہ ہم کسی کے نہ ہمارا کوئی“۔ کسی سے کوئی مطلب ہی نہیں… بس میں، میں اور میں کا چکر۔
زندگی موت کی امانت ہے۔ان کا یہ جملہ ہر وقت میری سماعتوں میں رس گھولتا ہے۔ میں اکثر ان سے ملتا تھا۔ بس ہر وقت ایک ہی بات تھی ان کی ،پیٹ کی نہ ماننا یہ کبھی نہیں بھرتا۔ دنیا بھر کی نعمتیں اس پیٹ میں ڈال لے، اگر ایک وقت کا فاقہ آگیا تو ہٹ دھرمی سے کہنے لگتا ہے میں نے تو آج تک کچھ کھایا ہی نہیں۔ پیٹ بھی ایک جہنم ہے ۔ کیا تشبیہ ہے یہ۔ زندگی موت کی امانت ہے ،مت بھولنا۔
ہم اگر بھول بھی جائیں تب بھی کیا ہو گا؟ کچھ نہیں ۔ خود کو فریب دیں گے۔ موت تو ہمیں نہیں بھولتی۔ زندگی کے ساتھ ہم سفرموت، کبھی نہیں مہلت دیتی۔آکر رہتی ہے۔
بس ایک فرق ہے۔ کس نے کس طرح موت کا استقبال کیا۔ بس یہ ہے اصل ۔ ایک دن انہوں نے مجھے کہا تھا: دیکھ، سامان اول تو ہونا ہی نہیں چاہیے اور اگر ہو بھی تو بس مختصر۔ دیکھ، موت کی گاڑی زندگی کے ساتھ ہی روانہ ہوتی ہے، تجھے کسی اسٹیشن پرجانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا کوئی وقت ہی نہیں جو تجھے معلوم ہو۔ لیکن آتی بروقت ہے۔ اس لیے بس چھوٹی سی گٹھڑی سے زیادہ جمع نہ کرنا ، موت کی ٹرین آئے تو بس ہنس کھیل کر سوار ہو جانا۔ ہونا تو ہے، تو پھر ہنس کھیل کر کیوں نہیں۔ اور پھر ان کا نعرہٴ مستانہ گونجتا ” کوئی بھی نہیں بچے گا، آ آ مجھے تو تیار پائے گی“۔ انسان اور بندہٴ عاجز لیکن طاقت کے زعم میں لتھڑا ہوا۔ فریب خوردہ سمجھ ہی نہیں پاتا، بس اتنی طاقت کے نشے میں چُور چلاتا رہتا ہے : یہاں سے ماریں گے، وہاں ماریں گے، کوئی نہیں بچے گا، نہیں چھوڑیں گے، بس ماریں گے ہم، ہلاک کر دیں گے۔اور پھر آگ و خون کی بارش برستی ہے اور موت کا ہر کارہ پروانہٴ اجل تقسیم کرنے لگتے ہے، اور پھر سب رخصت ہو جاتے ہیں، سب نے ہونا ہے رخصت۔
مجھے یاد آیا، اُس کی گردن تن سے جدا کرنے لگے تو پکارنے لگا: رب کعبہ کی قسم، میں تو کامیاب ہو گیا۔ ہاں یہ بھی ایک موت ہے، بارود کی بارش میں معصومیت کا قتل عام۔ کوئی بھی نہیں بچے گا جناب۔ زندگی موت کی امانت ہے اور مہلتِ عمل بہت تھوڑی۔
دنیادھوکا ہے، سراسر دھوکا۔ کسی کی رہی نہ رہے گی، اپنے اپنے حصے کی آگ اور اپنے اپنے حصے کے پھول لے کر سب چلے جائیں گے۔
بس دیکھ کہیں تُو اپنے لیے آگ ہی آگ توجمع نہیں کر رہا۔ اس کی ماں نے اس ریگستان کی ٹھنڈسے بیتاب ہو کر اس سے کہا تھا: جا آگ لا۔ بہت دیر بعد وہ خالی ہاتھ لوٹا اور ماں کے حضورر دست بدستہ عر ض گزاری:
”ماں کہیں سے آگ نہیں ملی“
تب ماں نے تلخ ہو کر پکارا ” جا کر جہنم سے ہی لے آتا۔“ تو پھر اپنا سر خم کیا اور عرض کی ” ماں وہاں بھی گیا تھا، میں نے وہاں کے نگراں سے کہا مجھے کچھ آگ درکار ہے، تب اس نے مجھے کہا جا اپنا رستہ لے، ہر انسان اپنی آگ دنیا سے خود لے کر یہاں آتا ہے ۔“
سنا ہے ارضِ کشمیرکے شکاری نیاجال لیکر آرہے ہیں۔ابطہ کار سمجھتے ہیں کہ کشمیرکی اٹانومی پر کچھ رعائت دیکر مسئلہ کشمیرکوختم کردیاجائے ،اس طرح پاکستان کے روشن دماغ اورعالمی برادری کواپناہمنوابناکراس خطے میں امن کی بانسری بجانے کا عمل شروع کیا جائے ۔اطلاع ہے کہ نیشنل کانفرنس والے اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل پربہت نازاں ہیں حالانکہ ان نادانوں کواس کی خبر نہیں کہ اس سے کہیں زیادہ اختیارات تو ان کے رہنما شیخ عبداللہ کے پاس موجود تھے اوران دنوں کشمیریوں کی قربانیوں کی تاریخ میں ایسے قابل رشک کارنامے ہائے بھی نہیں تھے لیکن کیاکشمیریوں کومطمئن کیا جاسکا؟ہرگز نہیں۔خود شیخ عبداللہ اپنی معزولی اورگیارہ سال جیل کی زندگی کاذمہ دار پنڈت نہرو کوقراردیتے رہے۔کیاعبرت کیلئے کچھ اوردیکھنامقصود ہے؟مسئلہ کشمیرکوجلد یا بدیر حل ہوناہے بلکہ اب تو اس کے حل کا وقت تو بہت قریب ہے۔عالمی سامراج اس علاقے سے اپنا بوریا بستر گول کرنے کی مکمل تیاری کرچکے ہیں۔وہ پتے جن پر بھروسہ تھاوہ اب ہوادینے لگے ہیں۔اب تو ان مظالم کاحساب دینے کا وقت آن پہنچاہے۔ میرارب ان ظالموں کی رسی کومزیدڈھیل نہیں دے گا۔ایک لاکھ سے زائد مظلوم کشمیریوں کی قربانیاں راستہ روک کر کھڑی ہیں۔حکومت کے مزے تو عارضی ہیں ،اس دوستی کاحساب بھی تو آخر دیناہوگا! مجھے بھی اپنے دس ہفتوں کی غیرحاضری کا حساب دینا ہے۔ایک ایک لمحہ آپ سب کا یاد کرتا رہا ہوں۔ اسی کا حساب دینے کیلئے آج حاضرہوگیا ہوں ۔آپ کو فیصلہ کرناہے لیکن ان کویاددہانی کروادوں جواقتدارکے نشے میں سب کچھ بھول چکے ہیں!
جناب اب بھی وقت ہے، نہ جانے مہلتِ عمل کب ختم ہو جائے۔ زندگی کی ہمسفر ہے موت۔ نہ جانے کہاں اچک لے۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔
کبیر سریر سرائے ہے، موت سو وت تُو دن رین