Home / Articles / دعوت و تبلیغ میں عقلی دلائل کی اہمیت

دعوت و تبلیغ میں عقلی دلائل کی اہمیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

غلام مصطفی رضوی، مالیگاوٴں


فلاسفہ کے نزدیک کائنات مختلف اجزا کا مرکب ہے اور کائنات قانون کی ایک ریاست، جہاں ہر چیز اپنے طے شدہ اصول پر گام زن اور رواں دواں ہے۔ سائنس کے مطابق ان کی زندگی ”قوانینِ فطرت“ کی تابع ہے۔ قوانین الٰہی کی اتباع کی بنا پر ان کی زندگی اسلام کی زندگی ہے دوسرے الفاظ میں کائنات کا ہر جزخدا کے احکام کی متابعت کی بنیاد پر ”مسلم“ ہے:

وَلَہٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ ۱#

”اور اسی کے حضور گردن رکھے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے اور اسی کی طرف پھریں گے“ (کنزالایمان)

انسان کو اشرف بنایا گیا اسے عقل سے امتیاز بخشاگیا۔ کائنات کا نظام تو مشینی انداز میں متعین کر دیا گیا لیکن انسان کو فہم و ادراک، فکر و شعور، سوچ و دانائی سے کام لینے کی صلاحیت ودیعت کی گئی۔ یہی عقل جب صراط مستقیم سے رو گرداں ہو بیٹھے تو ٹھوکر کھا جاتی ہے، اس کے فیصلے غلطی کا شکار ہو جاتے ہیں، اندازے بے کار ثابت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں: ”عقل بھی اگرچہ حجت ہے لیکن حجت ہونے میں ناتمام ہے اور مرتبہٴ بلوغ تک نہیں پہنچی ہے۔ حجت بالغہ انبیاے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی بعثت ہے جس پر آخرت کا دایمی عذاب و ثواب وابستہ ہے۔“ ۲#

یہاں انبیا کی بعثت و ضرورت کا مقصد خوب سمجھ میں آتا ہے کہ انبیا حق کی راہ کو ظاہر کرتے ہیں، اچھائی و برائی کا فرق بتاتے ہیں اور عقل کو قانون فطرت کی اتباع کی ترغیب دیتے ہیں اس لیے عقل ”توحید“ اور ”رسالت“ کی تائید کرتی ہے۔

اسلام ایک عالم گیر مذہب:

اسلام کی صداقت و سچائی کے دلائل پوری کائنات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ نظامِ قدرت، اجرام فلکی اور سیاروں کی دنیا، جمادات و حیوانات اور نباتات کی دنیا، شجر و حجر اور بحر کی دنیا، سائنس و فلسفہ کے مشاہدات و تجربات کے نتائج، عالم مشاہدہ و عالم ارواح کے حقایق وغیرہ وغیرہ۔ یوں ہی موسموں کا تبدیل ہونا، فصلوں کا بارآور ہونا،پھولوں کا کھل اٹھنا، خوش بوؤں کا پھیل جانا، باد بہاری کا چلنا، بادلوں کا برسنا اور زمین کا سیراب ہونا، چشموں کا جاری ہونا، فضا میں پرندوں کا بلند ہونا، مہ و خورشید کاچمکنا، شفق کا حسن افق کا جمال یہ سب اپنے صانع ”اللہ “کے وجود پر دلیلیں ہیں۔ معلوم ہوا کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ اگر مشاہداتِ کائنات و مظاہر فطرت، تجربات و وقائع اور سائنسی حقائق کی روشنی میں کی جائے تو”ایمان و ایقان“ کی روشنی ملنی ہی ہے۔

دین فطرت صرف اسلام ہے ۔ وہ مذاہب جو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں وہ چند توہمات و مفروضات کا مجموعہ ہیں اور عقل و روحانیت کسی ذرائع سے ان کی تائید نہیں ہوتی۔ جب کہ اسلام کا حسن نکھر تا جاتا ہے اس لیے کہ یہ ”خدائی دین“ ہے اور دین مبین:

اِنَّ الدِّ یْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ ۳# ”بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے“ (کنزالایمان)

اسلام شک و شبہے سے بالا تر ہے اور سادا و عام فہم بھی بہ آسانی اس کی تعلیمات سمجھ میں آتی ہیں اور دل تسلیم کرتا ہے عقل یقین پر خود کو مائل پاتی ہے، امام شرف الدین بوصیری رحمةاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں #

لَمْ یَمْتَحِنَّا بِمَا تَعْیَی الْعُقُوْلُ بِہ

حِرْصًا عَلَیْنَا فَلَمْ نَرْتَبْ وَلَمْ نَہِم

ترجمہ: انھوں نے ہماری بھلائی کے پیش نظر ایسے دین اور شریعت سے ہمیں امتحان میں نہ ڈالا جس کے فہم سے عقلیں عاجز ہوں، یہی وجہ ہے کہ ہم کسی شک اور وہم کاشکار نہ ہوئے۔۴#

غور و فکر کی تعلیم:

قرآن مقدس میں عقل و خرد رکھنے والوں کو مختلف انداز میں تعلیم فرمائی گئی، کہیں عناصر فطرت میں غواصی اور فکر کا حکم دیا گیا تو کہیں اپنی نشانیاں اور نوع بہ نوع عجائب دکھائے گئے، کہیں کائنات کے مطالعہ کی ترغیب دلائی گئی۔ دوسری طرف ہمارا یہ حال کہ ہم قرآن مقدس نہیں دیکھتے اس کے بحر حکمت میں غواصی نہیں کرتے، قرآن کے احکامات پر عمل نہیں کرتے ورنہ اسرار و غوامض کھلتے اور فکر و نظر کی تطہیر کا بہت کچھ سامان ہوتا۔ کیسی سچی اور شبہے سے ورا باتیں ہیں کہ عقل کو روشنی ملتی ہے اور شعور کی گرہیں کھل جاتی ہیں:

(الف)  وَیُرِ یْکُمْ اٰیٰتِہ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ۵# ”اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل ہو“ (کنزالایمان)

(ب)   قَدْ بَیَّنَّا لَکُمْ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ۶# ”ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنا دیں اگر تمہیں عقل ہو“ (کنزالایمان)

(ج)    اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لّاُِولِی الْاَلْبَابِ ۷# ”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے“ (کنزالایمان)

(د)      وَلِیَعْلَمُوْآ اَنَّمَا ھُوَاِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّلِیَذَّکَّرَ اُولُواالْاَلْبَابِ ۸# ”اوراس لیے کہ وہ جان لیں کہ وہ ایک ہی معبود ہے اور اس لیے کہ عقل والے نصیحت مانیں“ (کنزالایمان)

دعوت حق اور نرمی:

اسلام اچھائی کے فروغ اور برائی سے اجتناب و دوری کی تعلیم دیتا ہے۔ جہاں اچھائی ہو گی وہاں برائی نہیں پنپ سکتی، جہاں نرمی و آسانی اور ملاحت و شفقت ہو وہاں شدت و سختی نہیں ہوگی۔ اجتماع ضدین جس طرح محال ہے اسی طرح دہشت گردی و شدت پسندی نیز غیر انسانی رویوں کا اسلام میں دخل محال ہے۔ جو شدت پسندی کو اسلام کا لازمہ جانتے ہیں وہ ”نور“ کو ”ظلمت“ اور ”انسانیت“ کو گویا ”حیوانیت“ قرار دینے پر بہ ضد ہیں۔ حالاں کہ ”آفتاب آمد دلیل آفتاب“۔جو دین خود سچا اور دلائل سے آراستہ ہو اسے” شدت و سختی اور جبر“ کی کیا ضرورت؟ پھر کیا جامع فکر دے دی گئی جس میں وسعت ہے اور روشنی بھی:

وَلٰتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِوَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ۹#

”اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے“ (کنزالایمان)

”بھلائی“اور ”اچھائی“ سے ”نرمی“ کا قرب ہو گا نہ کہ ”سختی و شدت“ اور ”وحشت و دہشت“ کا ۔ حق کی راہ کو خوب واضح کیا گیا ،کہیں جبر و تشدد نہیں ہاں صداقت و سچائی کا عنصر غالب ہے:

لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَالْغَیِّ ۱۰# ”کچھ زبردستی نہیں دین میں بے شک خوب جدا ہو گئی ہے نیک راہ گم راہی سے“ (کنزالایمان)

اسلام کی دعوت و تبلیغ کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کی حکمت و دانش اور تدبر و تفکر نیز سائنسی و تجرباتی علوم و فنون کے میدان میں ترقی و عروج نے کتنے ہی دلوں سے شرک و کفر کا غبار دور کر دیا اور اسلام کے نظام حکمت و دانش نے دعوتی میدان میں کام یابیوں کے عَلم لہرائے۔ مسلمانوں کی سائنسی موشگافی اور خدمت علم و فن اور تحقیق و تدقیق نے شرک و کفر کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا جیسا کہ اسلامی تاریخ اس کی غمازی کرتی ہے، حقایق کی جستجو اور حکمت و فہم کے میدان میں مسلمانوں کی مسلسل ترقی نے بھی اشاعت اسلام کے کام کو مزید آگے بڑھایا اور اس جہت سے جنھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا وہ عرفان خالق کائنات کی دولت سے مشرف ہو کر مسلمان بن گئے۔

عقلی استدلال کی چند مثالیں:

مبلغ کا اسلام کے اصول ومبادیات کے ساتھ ساتھ زمانے کے حالات و ضروریات سے باخبر ہونا ضروری ہے۔ زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ تقاضے بھی سر ابھارتے ہیں اورفتنوں کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں اور ان کے طریقے بھی، اسلام کے مقابل جتنے فتنے وجود پاتے ہیں وہ نئی نئی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ باطل نت نئے ہتھ کنڈوں سے لیس ہو کرسامنے آتا ہے ۔ قرآن مقدس وہ کتاب ہدایت ہے کہ مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے تمام اعتراضات، فتنوں، ایہام، ازموں اور لادینی فکروں کا جواب اس میں موجود و مذکور ہے۔

یہ بھی مشیت کا اہتمام و انتظام ہے کہ جس عہد میں دین کے مقابلے میں جس طرح کا معاملہ سامنے آیا اور باطل نے سر ابھارا اس کے جواب کے لیے اہل حق کو ایسی دلیل عطا کی گئی کہ باطل کے لیے وہ مسکت و دنداں شکن ثابت ہوئی اور بالآخر غلبہ اسلام کو ہی ملا۔جب فلسفہٴ یونان نے اپنی فتوحات کے نتیجے میں فکر غلط کا شکار ہو کر وجود باری تعالیٰ کو جھٹلانے کے در پے ہوا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیحائی عطا کی گئی، فرعونِ مصر کے طلسم ساحری کے بت کو پاش پاش کرنے کے لیے عصائے موسوی سامنے آیا، اور قوم عرب جن کو زبان و بیان پر ملکہ حاصل تھا جو اپنی فصاحت و بلاغت پر نازاں و شاداں تھے ایسے کہ دوسروں کو بے زباں جانتے اور” عجمی“ کہتے، خاتم الانبیا سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر جب قرآن مقدس کا نزول ہواتو وہ بے زباں ہو کر رہ گئے۔ رب تعالیٰ کے کلام کے آگے ہر دعوے دم توڑ گئے #

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے

کوئی جانے منھ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

قرآن مقدس کی ہدایت و رہ نمائی اور عظمت و شان ہر شعبہ ہائے حیات میں مسلّم ہے، زمانے کے اعتبار سے ماضی و حال کے ساتھ ساتھ یہ مستقبل کو بھی رہ نما ہے۔ یہ جہاں ناقابل تردید روحانی دلائل رکھتا ہے وہیں پر ظہور میں آنے والے افکار و نظریات، تجربات و مشاہدات، خیالات و رجحانات کے مقابل حق و صداقت کی تائید و نصرت میں استدلال کی ناقابل تردید قوت بھی رکھتا ہے، ضرورت اس سے استفادے کی ہے، اس کے بحر عرفان میں غواصی کی ہے۔موقع کے مناسب دعوت حق سے متعلق دو قرآنی دلیلیں پیش کیے دیتا ہوں۔

(۱) نظام کائنات اور دعوت حق:

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحَرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَاوَ بَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلّ ِ دَآبَّةٍ وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۱۱#

”بے شک آسمانوں اورزمین کی پیدائش اوررات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اوروہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواوٴں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کاباندھا ہے ان سب میں عقل مندوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں۔“ (کنزالایمان)

مطالعہٴ کائنات میں حکمت ودانش کاجو پہلو ہے وہ بندے کوحق آشنا کرتا ہے۔ مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی نے ٹوکیو(جاپان) میں عقلاے زمانہ کے روبرو جو دعوتی خطاب فرمایا تھا اس کا ایک گوشہ بڑا معنی خیز اور لایق غور ہے نیز فکرانگیز بھی، آپ فرماتے ہیں: ”اسلام میں مسلمانوں کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اطراف میں پھیلی ہوئی کائنات کا بہ نظر عمیق مطالعہ کریں تاکہ یہ سائنسی مطالعہ خالق حقیقی کی جانب رہ نمائی کا موجب بنے۔ اسلام میں سائنسی مشاہدات منزل نہیں ہیں بلکہ حقیقی منزل اور زندگی و روشنی کا ماخذ صرف ”اللہ“ کی معرفت ہے اور یہی در اصل انسانیت کی حقیقی منزل ہے۔“ ۱۲#

(۲) حکمت و تدبر:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ۱۳#

”اپنے رب کی راہ کی طرف بلاوٴ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہترہو“ (کنزالایمان)

خزائن العرفان میں ہے: ”پکی تدبیر سے وہ دلیل محکم مراد ہے جو حق کو واضح اور شبہات کو زائل کردے اور اچھی نصیحت سے ترغیبات و ترہیبات مراد ہیں۔“ ۱۴#

حکمت و موعظت اوراستدلال و براہین سے دعوت کا جو اصول دیا گیا ہے وہ مستحکم اور جامع ہے جس سے اسلام کی آفاقی حیثیت اجاگر ہوتی ہے اور یہ کہ یہ دین ہی ایسا کامل ترین ہے جو کہ ساری انسانیت کی رہ نمائی کرتا ہے اور اپنی حقانیت کی دلیل بھی رکھتا ہے۔ اس کی تبلیغ موٴثر و ہمہ گیر ہے اسے عام کرنا فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام کے فروغ میں جہاں روحانی دلائل درکار ہوتے ہیں وہیں عقلی بھی اس سلسلے میں راقم اپنے تاثرات و تجزیے سے گریز کرتے ہوئے مبلغ اسلام عالمی داعی علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی کے دعوتی مشاہدات سے چند جھلکیاں پیش کیے دیتا ہے۔ آپ نے جن دلائل کو دعوت اسلام کے دوران استعمال کیا ہے وہ آسان و ٹھوس ہونے کے ساتھ ساتھ بھاری بھرکم اور ناقابل شکست ہیں۔

(۳) جنت و دوزخ کی عقلی توضیح:

مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی سے ایک مکالمے کے دوران مغربی دنیا کا مشہور دانش ور جارج برنارڈشا کہتا ہے کہ :”آپ نے نیروبی میں اسلام اور سائنس کے موضوع پر تقریر کی میرے لیے یہ سمجھنا دشوارہے کہ آپ قرآن کی روشنی میں ایسے لوگوں کے سامنے جنت اور دوزخ کا تصور کیسے پیش کرتے ہیں جو سائنس سے شغف رکھتے ہیں، ان کے ذہن بغیر دیکھے اور محسوس کیے کسی بات کو قبول نہیں کرتے۔“

علامہ میرٹھی نے فرمایا :”جیسا کہ قانون ہے کہ ہر چیز آگے بڑھ رہی ہے اور مائل بہ ترقی ہے تو اس ترقی کو بھی لا محالہ کوئی معراج ہونا چاہیے جہاں یہ رک جائے اور مزید ترقی کا امکان ختم ہو جائے۔ آرام و خوشی اور تکلیف و رنج ایسی دو چیزیں ہیں جن کا سابقہ دنیا میں انسان کو پڑتا رہتا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ان دونوں حالتوں کا کوئی انتہائی مقام ہو۔ خوشی کی معراج ”جنت“ اور تکلیف و اداسی کی معراج ”دوزخ“ کہلاتی ہے۔ جس طرح دنیا میں کچھ مادی ذرائع ایسے ہیں جو یا تو خوشی کا باعث بنتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں اسی طرح ایسے ذرائع بھی یقینی ہونے چاہئیں جو دوسری دنیا میں مسرت اور غم کی کیفیت کو دوبارہ پیدا کر سکیں خوشی پہنچانے والے ذریعے کا نام ”جنت“ اور تکلیفوں کے مسکن کا نام ”دوزخ“ رکھ دیا گیا ہے۔ انسان کا وجود جسم وروح ، اس کی سرگرمیوں کا ذمہ دار ہے لہٰذا روح اور جسم مل کر دوسری دنیا میں اپنے کیے کا بدلہ پائیں گے۔“

علامہ میرٹھی چندجملوں کے بعد ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اگر ایک سائنس داں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ بغیرکسی ٹھوس ثبوت کے یہ بات تسلیم کرے کہ ایک اوسط الیکٹرون ہر سیکنڈ میں اپنے نیوکلیس کے گرد کروڑوں چکر لگاتا ہے اور اپنی شعاعوں کے ذریعے ٹھوس اجسام کی طرح حرکت کرتا ہے تو اسے یہ اندازہ لگانے میں بھی دشواری نہیں ہونا چاہیے کہ کس طرح انسان کا جسم و روح دوسری دنیا کی تکلیف و مسرت جھیلنے کے لیے کیا روپ دھاریں گے۔“ ۱۵#

مبلغ کو اپنی دعوت کی بساط پر حکمت و دانش اوردلائل و براہین کا فانوس روشن کر لینا چاہیے اس کی روشنی سے معترض کی نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی اور وہ جلد قبول حق ہر آمادہ نظر آئے گا یا سائل کی تشفی ہو کر رہے گی۔

(۴) انبیا اور تربیت انسانیت:

نبی کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ دنیا میں کسی سے پڑھا ہوا نہیں ہوتا اس لیے کہ دنیا میں جو بھی پڑھانے والا ہو گا اس کے علم کو کامل اور عیب سے بری نہیں قرار دیا جا سکتا اور انسانی ہدایت کے لیے کامل وبے مثل علم و ضابطہ ضروری ہے۔ اس لیے یہاں ”امی“کی حکمت بہ آسانی سمجھ میں آتی ہے اور یہ نبی کے لیے اعزاز و شرف کی بات ہے نیز صداقت و حقانیت کی دلیل واثق بھی۔ علامہ میرٹھی فرماتے ہیں:

”اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد نبوت کی دو نا گزیر صفات یا خصوصیات کو واضح کرنا ہے۔ پہلی یہ کہ وحی الٰہی کے وصول کنندہ یعنی انبیا و رسل جن کی ارواح کو اللہ تعالیٰ نے خاص مقصد کے لیے پیدا فرمایا تھا کو اس دنیامیں پائی جانے والی کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے امتیازی سانچے میں پہلے ہی سے ڈھلے ہوئے ہوتے تھے اور اپنے علم اور اس کی تحصیل کے لیے کسی انسان کے محتاج نہیں ہوتے تھے۔ ذرا سی وضاحت تمہیں مطمئن کردے گی کہ ایسا نظم و نسق بہر حال ناگزیرتھا کیوں کہ اگر انھوں نے تجربے اور علم کے منافع اپنے ہی جیسے انسانوں سے سیکھے ہوتے یا اگر کسی انسان نے انھیں کوئی سبق سکھایا ہوتا تو ان کی اصلاح و اضافے کے ذمہ دار مصادر کو اپنے تربیت یافتہ اشخاص یعنی انبیا و رسل کے مقابلے میں لازماً زیادہ لائق عقیدت سمجھا جاتا۔“ ۱۶#

انبیاے کرام انسانیت کی تعلیم و تربیت فرماتے ہیں دوسرے الفاظ میں ”عرفان الٰہی“ کا فریضہ انبیا انجام دیتے ہیں اور اس فطری حقیقت کی طرف رہ نمائی کرتے ہیں جسے ”اسلام“ کہا جاتا ہے۔ علامہ عبدالعلیم میرٹھی اپنے دعوتی خطبے میں فرماتے ہیں:

”ہم نے دیکھا کہ ایک مشین کو بنانے والا اپنی بنائی مشین کو خوب جانتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اگر ایک غیر معین شخص اسے چلانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ یقینا اسے نقصان پہنچائے گا، شاید اسے تباہ بھی کر بیٹھے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تعلیم و تربیت انسانیت کے کام کو خاص انداز اور اس کی جسمانی و روحانی مشینری کو احکام الٰہیہ کے ذریعے با اہتمام چلانے اور خود ان پر عمل کر کے نمونہ بہم پہنچا کر پورا کر نے کے لیے گروہ انبیا کو پیدا فرمایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انبیا و رسل کوہر دور میں خالق کائنات کے قوانین کو بنی نوع انسان تک پہنچانے کے مقصد وحید کی خاطر بھیجا گیا تا کہ انبیا کی تربیت گاہ میں تربیت پا کر وہ اپنے جسم نامی کو عادلانہ کردار اور باقاعدہ چلانے کے لیے نظریاتی اور عملی معلومات کو قبول کر سکیں۔“۱۷#

یہاں یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ نبی با اختیار ہوتا ہے اور نقص وعیب سے بری و منزا اور علم کامل سے نوازا جاتا ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حاکمیت و اختیارات اور کو مجدد اسلام امام احمد رضا محدث بریلوی (م ۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ء) ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ”وہ بالا دست حاکم کہ ماسوی اللہ، ان کا محکوم اور ان کے سوا عالم میں کوئی حاکم نہیں۔“ ۱۸#

خلق کے حاکم ہو تم رزق کے قاسم ہو تم

جو ملا تم سے ملا تم پہ کروروں درود

(۵) رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور قرآن کا آخر میں ہونا حکمت سے خالی نہیں:

علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی اس بارے میں مثال سے پر اپنا مشاہدہ بیان فرماتے ہیں:

”ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور یہ کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے مستند اور مکمل پیغام کا حامل ہے۔ جب ایک بار میں ملایا (Malaya)سے سیلون (Ceylon) کا سفر کر رہا تھا جہاز پر میری ملاقات ایک امریکی سے ہوئی جس نے مجھے اسی نکتے پر چیلنج کیا۔ اس نے کہا: ”تم دعویٰ کرتے ہو کہ محمد آخری نبی ہیں اور یہ کہ قرآن آخری کتاب ہے“ اگر یہ سچ ہے تو اللہ نے محمد کو اپنے پیغام کے ساتھ اس دنیا کے آغاز ہی میں کیوں نہ مبعوث کیا؟ کیا یہ بات یقینی نہیں کہ اگر اللہ ایسا کر دیتا تو ہم اتنے زیادہ ادیان جن میں سے ہر ایک اپنے سچا ہونے کا مدعی ہے کے بکھیڑوں سے بچ نہ جاتے؟ میں نے اسے کہا کہ کیا تمہیں اسکول میں اپنا بچپن کا زمانہ یاد ہے جب تم بھی دوسروں کی طرح اپنی کتابیں پھاڑ دیا کرتے تھے؟ پھر میں نے اسے کہا کیا تمہیں وہ دن یاد ہیں جب تم سیکنڈری اسکول کے ایک طالب علم کی حیثیت سے نصابی کتابوں سے خود نوٹس بنا کر یاد کیا کرتے تھے؟ اس نے میرے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف یونی ورسٹی کے دن تھے اور اس کے بعد بھی جب میں نے کتابو ں کو محفوظ کرنا سیکھا۔ یہی طریقہ جسے ہم اپنی اور دوسرے مردوں اور عورتوں کی زندگیوں میں دیکھتے ہیں انسانیت کی زندگی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے بچپن میں انسانیت وحی الٰہی کی کتب کی اہمیت کا ادراک نہیں کر سکتی تھی؛ جب انسانیت جوان ہوئی اس نے عطا کردہ کتب سے نوٹس بنائے؛ اور یہ جب پختہ ذہنی کی عمر کو پہنچی تو صرف اس وقت کتاب اللہ کی قیمت جان پائی۔ یہی وجہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی انبیا کی کتب محفوظ نہیں رکھی گئیں۔ جب حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہماالسلام آئے تو لوگوں نے ان کے اقوال سے نوٹس بنائے اور قرآن مجید صرف اس وقت نازل کیا گیا جب لوگوں نے عطا کی جانے والی کتاب کی اہمیت کو جان لیاتھا۔“ ۱۹# قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّالَہ لَحٰفِظُوْنَ ۲۰# ”بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں“ (کنزالایمان)

(۶) یوم الآخر پر ایمان:

علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی فلاسفہ کی مادے پر بحث کو مثال دے کر یوم آخرت کی توضیح اس انداز میں فرماتے ہیں:

”اگر ہم مادہ پر فلسفے کے نقطہٴ نظر سے غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ فلاسفہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دنیا ہرروز تبدیل ہو رہی ہے۔ یہ مفروضہ فلاسفہٴ یونان کاقائم کردہ ہے اور اسے دوسرے تمام فلاسفہ نے قبول کیا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو تبدیل ہو رہی ہے کسی نہ کسی طرح ایک دن اپنے اختتام کو پہنچے گی اور غائب ہو جائے گی۔ اس طرح ہمارے پاس دو مقدمات ہیں: دنیا تبدیل ہو رہی ہے اور تبدیل ہونے والی ہر شے کو ختم ہو جانا ہے۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کو ختم ہو جانا ہے۔

عقل سلیم پر مبنی ہماری یہ دلیل ظاہر کرتی ہے کہ ساری مخلوق ایک دن کافور ہو جائے گی۔ سائنس داں کہتے ہیں کہ جب وہ توانائی کہ جس پر مادہ باقی ہے ختم ہو جائے گی تو تمام اشیا مفقود ہو جائیں گی۔ فلاسفہ بھی کہتے ہیں کہ ایک دن سب چیزیں ناپید ہو جائیں گی۔ اور اخیر میں تمام ادیان و مذاہب بالخصوص ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی تعلیمات اور قرآن مجید میں ہے وہ بھی ہمیں یہی سمجھاتی ہیں کہ ایک آخری دن ”یوم الآخر“ ہوگا۔ اسی لیے یوم الآخر پر ہمارا ایمان لانا نا گزیر ہے۔“ ۲۱#

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِذَارُجَّتِ الْاَ رْضُ رَجًّا oوَ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا o فَکَانَتْ ھَبَآءً مُّنْبَثًّاo ۲۲# ”جب زمین کانپے گی تھر تھرا کر اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے چورا ہو کر تو ہو جائیں گے جیسے روزن کی دھوپ میں غبار کے باریک ذرے پھیلے ہوئے“ (کنزالایمان)

خلاصہٴ کلام:

عناصر فطرت پر جستجو و تحقیق اور غور و فکر کا دائرہ جس قدر وسیع ہو گا اسلام کی صداقت و سچائی اور حقانیت اتنی زیادہ ظاہر ہو گی اور نکھر کر سامنے آئے گی اور عقل قبول حق پر مجبور ہو گی۔ ہر مشاہدہ اور ہر تجربہ، سائنس و فلسفہ کی ہر مثبت موشگافی اللہ کہ پہچان و معرفت کی طرف دعوت دیتی ہے اس لیے زمانی حالات و مادی ترقیاں اسلام کی دعوت و اشاعت میں ہرگز رکاوٹ نہیں بلکہ ہر عقلی و نقلی ذرائع کو حدود شرع میں رہ کر دین کی اشاعت و تبلیغ کے لیے بہ روئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایک مسلمان کاجدید علوم و زمانی فنون کا حاصل کر لینا حسن نیت کے جوہر کے ساتھ ہو تودین فطرت کی اشاعت بجا طور پر کام یابی کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا ہر ہر گوشہ دلیل قطعی رکھتا ہے جسے کوئی تحریک چیلنج کی تاب نہیں رکھتی چہ جاے کہ عقلاے زمانہ اس کی صداقت کو انگلی دکھا سکیں یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن تمام قوتوں اور طاقتوں نے جھوٹے پروپیگنڈوں کا سہارا لیا اور بدگمانی کا زہر اگل کر اسلام کی افق تابی کی رعنائی چھپانی اور مسخ کرنی چاہی تا کہ مائل فکروں کو جادہٴ اسلام سے منحرف کر دیا جائے لیکن اگر مسلمان جاگ جائیں تو باطل کے تمام عزائم خاک میں ملتے نظر آئیں گے اور دلوں کی دنیا میں ایمان کی چاندنی پھیلتی جائے گی ۔

حوالہ جات:

(۱)      سورة آل عمران:۸۳

(۲)     مکتوبات امام ربانی،مترجم:محمد سعید نقش بندی،مولانا،ج۲،مکتوب ۲۶۶،طبع اسلامک پبلشرز دہلی،ص۱۱۰

(۳)     سورة آل عمران:۱۹

(۴)     نفیس احمد مصباحی،مولانا، کشف بردہ، طبع المجمع القادری مبارک پور، ص۲۰۸

(۵)     سورة البقرة:۷۳

(۶)     سورة آل عمران:۱۱۸

(۷)     سورة آل عمران:۱۹۰

(۸)     سورة ابراہیم:۵۲

(۹)     سورة آل عمران:۱۰۴

(۱۰)    سورة البقرة:۲۵۶

(۱۱)     سورة البقرة:۱۶۴

(۱۲)    شاہ عبدالعلیم صدیقی،علامہ،Cultivation of Science by the Muslims،مترجم:رضا فاروقی،مشمولہ تبرکات مبلغ اسلام،طبع اویسی بک اسٹال گوجراں والہ،ص۵۲۶

(۱۳)    سورة النحل:۱۲۵

(۱۴)    محمد نعیم الدین مرادآبادی، علامہ،خزائن العرفان، مشمولہ کنزالایمان،طبع رضا اکیڈمی ممبئی،ص۴۵۰

(۱۵)    A Shavian and a theologian،مترجم:سید طارق علی،مشمولہ تبرکات مبلغ اسلام، ص۴۶۷تا ۴۷۰

(۱۶)    شاہ عبدالعلیم صدیقی ،علامہ ،تبلیغ اسلام کے اصول و فلسفہ (How to Preach Islam) ، مترجم:خورشید احمد سعیدی، طبع تحریک فکر رضا ممبئی، ص۳۵

(۱۷)    مصدر سابق،ص ۳۶

(۱۸)    احمد رضا خاں، امام، اعتقادالاحباب، عرفی نام:دس عقیدے، طبع برکاتی پبلشرز کراچی،ص ۱۶

(۱۹)    شاہ عبدالعلیم صدیقی ،علامہ ،تبلیغ اسلام کے اصول و فلسفہ، ص۴۴۔۴۵

(۲۰)    سورة الحجر:۹

(۲۱)    شاہ عبدالعلیم صدیقی ،علامہ ،تبلیغ اسلام کے اصول و فلسفہ، ص۹۲

(۲۲)    سورة الواقعہ:۴تا۶

*****

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *