یروڈا جیل پونہ کے انتہائی حفاظتی سیل میں گزشتہ دنوں کئی بم بلاسٹ میں ماخوذ ملزم قتیل صدیقی کا جس طرح بھگوا دہشت گردوں نے قتل کیا اس سے کئی ایک سوالات ابھرتے ہیں۔ جس سے قانون کے رکھوالے بہ آسانی پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ آزادی کے بعد سے متواتر مسلم اقلیتوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ بہ نظرِ غائر تجزیہ کرنے پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسلسل مسلمانوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنا کر فرقہ پرست قوتیں اپنے ناپاک مقاصد کے حصول میں کامیاب ہیں۔ کبھی اجتماعی طور پر مسلم کشی کے لیے فسادات کروا دیئے جاتے ہیں تو یہی خاکی وردی میں موجود افراد فسادیوں کی پشت پناہی کر کے دہشت گردی کا ننگا ناچ ناچتے ہیں۔
گجرات میں جو کچھ ماضی میں ہوا اس میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کوئی باہر سے نہیں آیا تھا بلکہ فرقہ پرستوں کو معاونت انھیں لوگوں نے دی تھی جس گروہ کی نگرانی میں قتیل صدیقی کی جان لی گئی۔ تو کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ دہشت گردانہ وارداتوں کے لیے بھگوا دہشت گردوں کے ساتھ خاکی وردی والے بھی ذمہ دار ہیں؟ اگر ان خاکی وردی میں ملبوس بھیڑیوں کا احتساب کر لیا جائے تو ملک سے بہت سی فرقہ وارانہ وارداتوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور ملک کی جمہوری اقدار کو تحفظ بھی فراہم ہو سکتا ہے۔ در اصل پولس والوں کی مسلمانوں سے جو نفرت ہے اس پر اس طرح لگام کسنے کی ضرورت ہے کہ ان کی فکری تربیت کی جائے کہ وہ جب قانون کی محافظت کے لیے متعین کر دیئے گئے تو وہ اب ایک ذمہ دار ہندوستانی شہری ہو گئے جہاں مذہبی عصبیت کی قطعی گنجائش نہیں باقی رہی۔اب اگر وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر خود ہی مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی سزا دینے میں لگ جاتے ہیں تو یہ ایک طرف تو جمہوریت کا گلا گھوٹنا ہوگا دوسری طرف اسے دہشت گردی ہی کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں جہاں جہاں پولس نے اقلیتوں کے ساتھ تعصب کا مظاہرہ کیا وہاں خاطیوں کو عدلیہ ایسی سخت سزا سنائے کہ انھیں پھر کسی مظلوم پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہ ہو سکے۔اور ملک کی عدلیہ کا وقار بھی محفوظ رہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ چوں کہ پولس کی تحویل میں قتیل صدیقی کو مارا گیا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ اس میںپولس کی سازش ضرور ہے، بغیر ان کے رول کے ایسا بھیانک واقعہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اب اگر لیپا پوتی کے لئے پولس ایسے بیان جاری کرتی ہے کہ جنھوں نے اسے قتل کیا ان سے قتیل صدیقی کی پرانی رنجش تھی تو یہ اپنے جرم کو چھپانا ہے، اپنے عیب پر پردہ ڈالنا ہے۔ بایں سبب سی بی آئی کی طرف سے اگر شفاف تحقیق ہو جاتی ہے تو بہت سے خوشنما چہرے اس بدنما واردات میں سامنے آئیں گے جنھوں نے ملک کی عدلیہ کا وقار خاک میں ملانے کی کوشش کی۔ اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہندوستان کی عدلیہ پر ایسے لوگوں کو بھروسہ نہیں جنھوں نے قتیل صدیقی کو قتل کیا۔
ہمارے ملک کی دنیا بھر میں ایک منفرد شناخت رہی ہے۔ جب فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کا آغاز ہوا اس وقت ہمارے ملک نے مظلوموں کی حمایت کی، عراق و افغانستان کے معاملے میں بھی ہندوستان نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی۔ لیکن ان انسانیت نواز کاموں پر جس طرح سے بھگوا توا قوتیں کلنک لگا رہی ہیں یہ ملک کی امیج کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ اور اس میں پولس کا بدنما چہرہ بھی کھل کر سامنے آچکا ہے۔جسے کسی طرح بھی چھپایا نہیں جا سکتا۔قانون کے رکھوالے ہی قانون کا گلا گھونٹ دیں تو وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟ اس حقیقت پر وفادار ہندوستانیوں کو غور کرنا چاہیے؟
پولس کا ایک اور غیر جمہوری عمل یہ ہے کہ کسی بھی واردات میں کسی مسلمان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اس پر جرم ثابت ہونے سے قبل ہی ’’دہشت گرد‘‘ کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے جو واقعی دہشت گرد نہیں ہے اسے اگر یہ وردی والے دہشت گرد کہیں تو یہ ملک کے قانون کے ساتھ کھلواڑ ہی تو ہے کہ ایک شریف ہندوستانی کو محض الزام کے تحت دہشت گرد قرار دیا جائے۔ جس طرح سے اس تعلق سے بے گناہ ثابت ہوئے مسلم نوجوانوں پر ماضی میں اعلیٰ پولس افسران نے دہشت گردہونے کا الزام لگایا ہے، اس کی بھی تحقیق کے لیے مسلمانوں کو حکومت سے ڈیمانڈ کرنی چاہیے تا کہ بہت سے سفید پوش بے نقاب ہوں اور ملک کی جمہوری قدروں کو تحفظ مہیا ہو۔ اور آئندہ کسی فرقہ پرست کو یہ ہمت نہ ہو کہ وہ جب اور جیسے چاہے مسلمانوں کو بد نام کرے، یا قتل کرے، یا ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ بن کر فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دیتا پھرے۔ اس تعلق سے سنجیدگی کے ساتھ موثر اقدام کی ضرورت ہے۔ مسلم لیڈروں کو اس موضوع پر بجائے ریلی یا دھوم دھڑاکہ کرنے کے سیدھے اپنے سیاسی پاورکا استعمال کرنا چاہیے، سیاست چمکانے کے اور بھی مواقع ہیں۔ یہ موقع کام اور عمل کا ہے یہاں بھی اگر بے حسی کا ثبوت دیا جائے گا تو پھر مسلم اقلیت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ آئندہ چناؤ میں ایسوں کو ان کی حیثیت و وقعت یاد دلا دیں۔
٭٭٭