Home / Book Review / (جاگتے الفاظ(نعتیہ دیوان

(جاگتے الفاظ(نعتیہ دیوان

(نام کتاب:جاگتے الفاظ(نعتیہ دیوان

شاعر: حفیظ محمودبلند شہری

ضخامت:  176صفحات

قیمت    :  200روپے

مطبع:فرید پرنٹنگ پریس

9720247202:رابطہ نمبر

مبصرـ:امتیاز انجم

صنف نعت ،جملہ اصناف شعروسخن میںسب سے دشوار گزار کام ہے ۔چوں کہ دیگر اصناف شرعی حدود و قیود سے آزاد ہیں لہذا شعرا بھی اظہارخیالات کرنے میں مکمل آزاد ہیں۔فکر وخیال کی سطح پر ان کی پرواز کا دائرہ لامحدود ہے ۔غزل اور قصیدہ میں اس بات کی گنجائش ہے کہ شاعر اپنے محبوب و ممدوح کی تعریف وتوصیف میں زمین و آسمان کی قلابیں ایک کردے اور اسے مجازی خدا بنا دے۔تاہم نعت میں اس کی قطعی گنجائش نہیں ۔یہاں خیال کو ایک دم سے بے لگام نہیں کیا جاسکتا کہ شرک کی سرحدوں میں داخل ہوجائے اور نہ ہی اس کا دائرہ اس قدر محدود کیا جاسکتا ہے کہ شان رسالت مآب میں تنقیص کا پہلو شامل ہو جائے ۔نعت میں فکر وخیال اور توازن و اعتدال کے مابین ہم آہنگی قائم رکھنا ضروری ہے ۔ تاکہ شاعر افراط و تفریط سے دامن بچاکر ثواب دارین کا مستحق قرار پائے ۔اسی سلسلتہ الذہب کی ایک انمول کڑی زیر تبصرہ کتاب ’’جاگتے الفاظ ‘‘ہے۔

 نعتیہ مجموعہ’’روشن افکار ‘‘کے شاعر حفیظ محمود بلند شہری لمبے عرصے کے بعد اردو شاعری میں ’’جاگتے الفاظ‘‘لے کر وارد ہوئے ہیں۔ یہ ان کا تازہ ترین نعتیہ دیوان ہے ۔اس میں نعتوں کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے اس لحاظ سے یہ ایک مکمل دیوان ہے۔اس دیوان کا آغاز ایک خوب صور ت حمد سے کیا گیا،جس کے اشعار خدا کی عظمت وقدرت کی گواہی دیتے ہیں۔

  زمین کا سبزہ زار ہونا پھلوں کا پھلنا گلوں کا کھلنا

خرد سے آگے کی ہیں یہ باتیں کہ کس قدر ہے کمال تیرا

بیاں سے بڑھ کر ہے تیری عظمت چہار سو رونما ہے قدرت

وہ شرق تیرا وہ غرب تیرا جنوب تیرا شمال تیرا

حفیظ محمود بلند شہری ان خوش بختوں میں سے ہیں جو شاعری کو مدحت سرکار سے پاکیزگی بخشتے ہیں اوراسے ذکر رسول کی خوشبو میں بساتے ہیں ۔مگر افسوس کہ نعت گو شعرا کے لیے اردو ادب میں کوئی خاص جگہ نہیں ۔شاید اس کا بدلہ انہیں آخرت میں ملے ۔ یہی ان کی شاعری کاحاصل ہے اور محرک بھی ۔نیزیہی جذبہ انہیں نعت کہنے پر اکسا تاہے اور نجات کا رستہ بھی دکھلاتا ہے۔ یہ اشعار دیکھیں:

غزل کی دنیا میں کوئی رہے تو رہنے دو

مجھے تو نعت رسول کریم کہنے دو

یہ خوش نصیبی مبارک ہو اہل قسمت کو

جو ان کے نام پر غم سہہ رہے ہیں سہنے دو

اور یہی جذبہ جب عشق کی سرحدوں میں داخل ہوکردوآتشہ بن جاتا ہے تو بے اختیار زبان سے نکلتا ہے۔

تمہیں پسینہ بہانے میں بھی تامل ہے

نبی کے عشق میں خوں بھی بہے تو بہنے دو

 حفیظ محمودطویل بحروں اورٍٍمشکل زمینوں کو بھی بہ آسانی کام میں لاتے ہیں ۔فنی لوازمات کو بہ خوبی نبھاجاتے ہیںاور اپنی قادرالکلامی کے نقوش ذہن پرثبت کر جاتے ہیں۔یہ خوب صورت اشعار ملاحظہ ہوں:

وہ جس کے فیض کرم سے سیراب ہیں جہاں کی تمام چیزیں

خدائے کون ومکاں کی رحمت کے اس سمندر کی نعت لکھوں

چوم لوں ہونٹوں سے آنکھوں کو بچھا دوں ان پر

کاش مل جائے کہیں آپ کے قدموں کے نقوش

 حفیظ محمود نے ردیف کا استعمال بھی کمال ہنر مندی سے کیا ہے۔عام طور پر جن ردیف کا برتنابہت مشکل ہے بلکہ عام شعرا نے اسے بہت کم استعمال کیا، ان پر بھی حفیظ محمود نے عمدگی کے ساتھ نعتیں لکھی ہیں۔مثلا’رٹ ،لاڈ،سکھ وغیرہ کوبطور ردیف انھوں نے بہ خوبی برتاہے جو ان کی کہنہ مشقی پر دال ہے۔

ہونٹوں پہ ہو عیاں عیاں صل علی نبی کی رٹ

قلب میں بھی نہاں نہاں صل علی نبی کی رٹ

و ہ جان ابو طالب و مطلب

وہ فخر بشر جس پہ دنیا کا لاڈ

’’جاگتے الفاظ ‘‘کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی کہنہ مشق سخنور اور قادر الکلام شاعر کا دیوان ہے ۔جس میں پاکیزگی خیال کے ساتھ ساتھ لطافت زبان بھی بھرپور ہے اورفنی نزاکت سے مالا مال بھی۔مظفر حنفی کے الفاظ میں’’رشک آتاہے حفیظ محمود کی جسارت پر کہ بے تکان نعتیں کہتے ہیں اور شرعی حدود کے باہر قلم نہیں بڑھاتے۔نئی نئی زمینوں میں عشق نبی اور عقیدت رسول سے لبریز ان کا نعتیہ کلا م جذبے کی شدت اور فکر کی لطافت کے ساتھ زبان کی نزاکتوں کے رنگین پھول بھی کھلاتا ہے اور محبان تاج الانبیا کے دلوں کو فرحت اور تسکین بھی بخشتاہے۔‘‘

در اصل ان کا فکری تگ وتاز عشق رسول میں گم ہے اور یہی عشق ان کی شاعری کا محور ہے جو انہیں بے تکان نعتیں لکھنے پر ہر لحظہ اکساتا ہے۔بلکہ باعث سعادت بن جاتاہے ۔

فکر سخن میں فکر تمہارا شعر وسخن میں ذکر تمہارا

نعت کا کہنا میری سعادت صلی اللہ علیہ و سلم

اردو میں نعتیہ شاعری کی ایک صحت مند روایت ہے اوربلا شبہ اس نے اردو شاعری کو وسعت بخشی ہے۔اس کے باوجود اس صنف کو یکسر نظر انداز کردیا گیا اور ’باادب شاعری ‘کو ادب میں کوئی مقام نہیں ملا ۔حالاں کہ قصیدہ اور مرثیہ کے مقابلے میں نعت زیادہ وسیع ، کار آمد اور زندئہ جاویدصنف ہے۔ مگر افسوس کہ نقاد نے اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا ،جس کی وجہ سے ادب میں وہ مقام نہیں مل پا یا جس کی یہ مستحق تھی۔جاگتے الفاظ شاید نقاد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہو پائے۔

خوبصورت ٹائٹل پیج گنبد خضری کو اپنے سینے میں بسائے ہوئے ہے، جس کے مینارئہ نور سے یہ صداآرہی ہے ۔

ایک امی لقب نے بخشے ہیں

سوتی دنیا کو جاگتے الفاظ

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *