تفوبرتواے چرخ گرداںتفو
سمیع اللہ ملک
لندن
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (Transparency International)والوں کونجانے کیا سوجھی کہ اپنی حالیہ اورتازہ رپورٹ میں پاکستان کو بددیانت ملکوں کی فہرست میں ۴۳ویں نمبر پرکھڑا کر دیااوراس بات کی اطلاع بھی فراہم کی کہ پہلے اس کانمبر ۲۴واں تھا۔گویاملک میں بدعنوانی اور کرپشن کوایسی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کہ ہرسال ملکی دولت کے تین سوارب روپے سے زائد لوٹ لئے جاتے ہیں۔کچھ سال پہلے میڈیا نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مایہ نازبحری فوج کے ایک سربراہ کے بارے میں انکشاف کیا کہ موصوف ایک محتاط اندازے کے مطابق نیوی کےلئے خریدے گئے سازوسامان میں ۵۳لاکھ ڈالرسے زائدرقم کمیشن کے طورپرلے اڑے تھے توتھوڑی دیرکےلئے میڈیامیں ہاہاکارہوئی لیکن وقت کے ساتھ معاملہ فراموش کردیا گیا۔کچھ سالوں کے بعدموصوف امریکا سے واپس آئے اورلوٹی ہوئی رقم کاکچھ حصہ لوٹاکراب پاک پوترہوکرزندگی کے باقی ایام عیش وعشرت سے گزاررہے ہیں۔
ماضی قریب میں ہمہ مقتدرشخصیات کے چندہونہار‘نونہال آج نہ صرف اربوں پتی ہیں بلکہ کھلے بندوں اپنی بیش بہادولت کابھرپورفائدہ ابھی اٹھارہے ہیں۔ کتنے ہی اعلیٰ عہدوںپرفائزسرکاری افسر‘سیاستدان‘ٹیکنوکریٹ بیرونی ممالک میں دادِ عیش دے رہے ہیںحالانکہ ان میں سے کئی ایک کے خلاف بھاری رشوت اورسنگین بدعنوانی کے مقدمات اب تک زیرالتواءہیں جن میں انہیں مفرورقراردیاجاچکاہے۔چندایک مقدرکے سکندرایسے بھی ہیںجواب بھی ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پربراجمان ہیںاورکچھ ایسے جوپہلے مملکت خدادادپاکستان کے مالیاتی شعبے کے نگران بھی تھے اورپالیسی ساز بھی ۔جب تک ہواکارخ موافق رہاوہ سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ان کواپنااوران مہربانوں کامفادجن کے وہ ممنون احسان تھے اس قدرعزیزتھاکہ ستم رسیدہ عوام کی بھلائی کاخیال تک دل سے بھلا بیٹھے‘ملک توکیاآنے والی نسلوں کوبھی گروی رکھتے گئے۔ اشرافیہ کوعیش وعشرت کی لت ڈال گئے۔ہم سے ایک سال بعد آزادہونے والے پڑوسی ملک چین کی مثال ٓپ کے سامنے ہے جس کے عظیم ترین لیڈرمازو
¿ئے تنگ نے سادگی‘کفات شعاری اورخودکفالت کورواج دیا‘وہ اوران کے تمام ساتھی سختیاں جھیلتے رہے۔جن اصولوں پرقائدین خودکاربندہوں‘عوام کےلئے انہیں دل وجان سے قبول کرنااوران پر بخوشی عمل کرنابہت آسان ہوجاتاہے۔ انقلاب کے بعد پہلی نسل کی قربانیاں رنگ لائیں اوراب چین دنیاکاعظیم ترملک بن چکاہے۔
پڑوسی ملک ہندوستان میں پنڈت نہرونے بھی اپنے دورِ حکومت میں چین کی طرح سادگی‘کفات شعاری اورخودکفالت کی بنیادرکھی اورآج بھارت اس کے ثمرسے کسی حدتک مستفیذہورہاہے۔بھارت کے متعلق ماہرین کی رائے ہے کہ باوجوداندرونی اوربیرونی مشکلات کے اکیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں وہ دنیاکے تیسرے یاچوتھے نمبرپرآجائے گااورہمہاتھ میں کشکول لئے پھرتے ہیں کوئی پوچھتانہیں۔امریکاکی بارگاہ میں سربسجودہیں ‘جس کے منشی اورکارندے ہم پرحکم چلاتے ہیںاورہم بلاچوںچراحکم بجالاتے ہیں۔ستم بالائے ستم ان کارندوں میں سے بہت سے ہماراہی کھاتے ہیں اورخوب کھاتے ہیںمانگ تانگ کے ،کئی دفعہ ناک سے لکیریں کھینچ کر۔جوقرضہ ہم غیرممالک یامالیاتی اداروں سے لیتے ہیں اس میں سے یہ” فرشتے“مشاورت اورخدمات کے نام پربہت کچھ ہتھیالے جاتے ہیں۔مالِ غنیمت میں سے کچھ سکے وہ ”مقامی ہمجولیوں“ کی جھولی میں بھی ڈال دیتے ہیںتاکہ نہ صرف اصل کھیل پردوں کے پیچھے چھپارہے بلکہ سنہری کلغیوں والے مرغانِ چمن بہارکے گیت اس وقت تک گاتے رہیںجب تک حکومت نہ بدل جائے۔
حکومت بدلتے ہی یہ موسمی مینڈک تھوڑی دیر کےلئے یوں خاموش ہوجائیں گے جیسے دلدل میں گھس گئے ہوں مگرجلدہی پھرنکل آئیں گے۔راگ پھرسے شروع ہوگامگرسرتال پہلے سے مختلف۔اب خانہ بربادی کاذکر ہوگا‘ستیاناس اوربدعنوانی کے ایسے قصے سنائیں جائیں گے کہ سننے والاتوبہ توبہ کاوردکرتے کانوں کوہاتھ لگائے اورسوچے کہ یہ ملک کتنابدقسمت ہے کہ اس میں بھیڑوں کے روپ میں بھیڑئیے نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی اعلیٰ ترین عہدوںاورمقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔یہ طالع آزماایسی چکنی مٹی سے بنے ہوتے ہیں کہ عوام کے اعتمادکی مقدس امانت بھی ان کی گھٹی میں پڑے حرص وہوا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘نہ صرف پوری ڈھٹائی سے وہ موقع ملتے ہی کھل کھیلتے ہیںبلکہ اپنی ”بہادری و جرا
¿ت“پرفخرکرتے ہیں۔بعد میں پکڑے جائیںتوبھی اپنے کئے پر ناد م ہونے کی بجائے یوں سینہ تان کر اپنادفاع کرتے ہیںکہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کوان کے بارے میںکہناپڑتاہے”کرپٹ عناصرشرمندہ نہیں بلکہ فخرسے چلتے ہیںان سے کئی کئی ملین ڈالرحکومت نے وصول کئے ہیںاس کے باوجودوہ گالف کھیل رہے ہوتے ہیں ‘معاشرے کوان سے الگ تھلگ رہناچاہئے اوران کابائیکاٹ کرناچاہئے“۔
خطاتومعاشرے کی بھی ہے ‘اچھائی برائی کی تمیزکمزورپڑجائے ‘عجزوانکسارکمزوری کی علامت تصورہونے لگے ‘برائی سے بچنابزدلی کہلائے اورچور‘ڈاکو‘رہزن کےلئے دلوں سے نفرت مٹ جائے توکیوں نہ بھیڑیئے بھیڑوں کے گلے کے نگہبان کاکرداراداکریں۔عموماً کہاجاتا ہے کہ انسانی سرشت میں مضمرہے کہ ہرانسان دل کی گہرائیوںمیں نہ صرف نیکی اوربدی کاواضح احساس رکھتاہے بلکہ وہ برائی کے خلاف جدوجہدکے جذبے سے بھی عاری نہیں۔حالات کاجبرالبتہ اسے خاموش رہنے پرمجبورکردیتا ہے۔روزمرہ مشاہدہ اسے واضح اشارے دیتا ہے کہ خوامخواہ ”پنگا“لینے میں سراسرحماقت ہے‘جوسرپھرے پرائی آگ میں کودپڑتے ہیںان کے نہ صرف پاو
¿ں جھلس جاتے ہیںبعض اوقات یہ تن سوزی انہیں عالمِ نزع سے عدم کی منزل تک لیجاتی ہے۔”عقلمندی“انہیں ناانصافی ‘ظلم اوربے رحمی سے نبردآزماہونے کی بجائے خاموش رہنے اوربہت کچھ ”پی جانے“کی ترغیب دیتی ہے‘یوں ان کی قوت برداشت کادائرہ پھیلتا جاتا ہے جس سے برخودظالموںکاحوصلہ بڑھتاہے۔
وہ چنگیزخان کے لشکریوںکی طرح ہرمرغزارپرچڑھ دوڑتے ہیں‘بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے نہ صرف نہتے اوربے بس عوام کی طاقت جواب دے جاتی ہے بلکہ انسانیت کی روح تک ان کاساتھ چھوڑ دیتی ہے۔آٹھوں پہر گردش کرنے والا آسمان پھرعجیب وغریب مناظر دیکھتا ہے۔مفتوحہ شہر میں ایک ممتازشہری کسی غیرمسلح تاتاری کے ہتھے چڑھ جاتا ہے ‘اسے وہیں لیٹ جانے کاحکم ہوتاہے جس کی بلاچوں چراں تعمیل ہوتی ہے۔تاتاری یہ کہہ کر”یہیں لیٹے رہناجب تک میں کیمپ سے تلوارلاکرتمہاراگلانہ کاٹ دوں“چلاجاتا ہے ۔معززشہری بے حس وحرکت پڑارہتا ہے ‘نہ اسے فرارکاخیال آتاہے نہ جان بچانے کی سوجھتی ہے۔کافی دیرکے بعدتاتاری آتا ہے اوراس کاگلاکاٹ دیتا ہے ۔اسی لئے توکہاگیا ہے کہ لقدخلقناالانسان فی احسن تقویم، ثم رددناہ اسفل سافلین، الاالذین آمنووعملوالصالحات فلھم اجراًغیرممنون۔(التین ۴۔۶) ”یقیناً“ہم نے انسان کوبہترین شکل وصورت (احسن تقویم)میں پیداکیا‘پھراسے نیچوں سے نیچا(اسفل سافلین)کردیا‘ماسوائے ان لوگوں کے جوایمان لائے اورنیک عمل کئے ‘ان کےلئے نہ ختم ہونے والااجر ہے“۔
حدسے بڑھ جانے والی سفاکی غلامی کوپیداکرتی ہے۔کوئی بھی خواہ مخواہ گردن کٹوانانہیں چاہتا۔نہتے انسانوں کاجم غفیرتوپ وتفنگ سے مسلح لشکرکے سامنے کیسے ٹھہرسکتا ہے خصوصاً جب قتل عام کااذن ہوچکاہویاہوسکتاہو۔ہلاکوخان نے اہل ِبغدادکوتہہ وتیغ کیاتودریاکاپانی گلرنگ ہوگیا۔نادرشاہ نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی‘گلیوں میں انسانی خون بارش کے پانی کی طرح بہنے لگا۔۷۵۸۱ءمیںبارباراجڑنے والی دلی کوپھرویساہی المیہ پیش آیا۔شہزادگان کی لاشیں کئی دن درختوںسے لٹکتی رہیں‘نازونعمت میں پلے بڑھے کتنے ہی اہل ثروت خون کی ہولی کی بھینٹ چڑھ گئے‘جوبچ رہے وہ فاتحین کی قدم بوسی کو بڑھے‘اپنی وفاداری کایقین دلانے کےلئے ایڑی چوٹی کازورلگایا‘تابعداری کوشرط استواری سے یوں سنواراکہ وہ اصل ایمان ٹھہری۔
عرب کے خیمے میں اونٹ گھسنے کی روایت بہت پرانی ہے ۔سردی میں ٹھٹھرتابیچارہ عرب کرہی کیاسکتا ہے۔اونٹ کی ناک میں نکیل ہوتی اوررسی کوسوارنے مضبوطی سے تھاماہوتاتویہاں تک نوبت ہی نہ پہنچتی۔اترنے پربھی اونٹ خیمے سے باہر زمین میں گاڑے کھونٹے سے باندھ دیاجاتا۔ایک دفعہ وہ خیمے میں گھس جائے توبازی مالک کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے‘اب وہ بے بس اورلاچارہے۔انحصاراب اونٹ کی خصلت پرہے‘اگرنیک طینت ہے تومالک کےلئے بھی خیمے کے اندرگنجائش پیداکرے گا‘اگرکینہ پروری پرتل گیاتومالک کیااس کاباپ بھی آجائے ’پرنالہ وہیں رہے گاجہاں تھا۔فاتح طبقے روایتی اونٹ کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ان کی شرافت ‘رعایاپروری اوربندہ نوازی کے گن گاتے ہوئے التماس کی جاسکتی ہے کہ شرفِ انسانی کی لاج رکھیں اورغلاموں کو آزادی کی نعمت لوٹادیں۔ایسی التجائیں اگرکافی لوگوں کی طرف سے ہوں اورباربارکی جائیں توپتھرکوبھی پگھلادیتی ہیں۔جوبات دل سے نکلتی ہے اثررکھتی ہے۔جسٹس رستم کیانی مرحوم نے ۹۵۹۱ءمیں دیئے گئے خطبہ یومِ اقبال میں ایک شوریدہ سرشاعرکے اس شعرکاحوالہ دیاتھا:
دیکھتاکیاہے میرے منہ کی طرف قائداعظمؒ کاپاکستان دیکھ
کیانی صاحب اس وقت حکومت کے قانونی مشیرتھے۔ان سے رائے طلب کی گئی تھی کہ اس پرکون سی دفعہ لگتی ہے‘انہوں نے اس کایوںجواب دیاکہ”خدا کے بندو!وہ توصرف یہ کہتاہے کہ میرے منہ کی طرف کیا دیکھتے ہو‘پاکستان کی طرف دیکھوکیایہ وہی ملک ہے جوقائداعظمؒ نے تراشاتھا“اب توغالباً روح پاکستان بھی اپنے ”جانثاروں“سے یہی سوال کرتی ہوگی۔کیاہم سے کوئی جواب بن پاتاہے ؟ہم میںسے کتنے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی بھی لمحے میں بھی یہ سوچنے یامعلوم کرنے کی زحمت گوارہ کی کہ مملکت خداداد کیونکرصفحہ
¿ ہستی پر نمودارہوئی ۔بانیانِ پاکستان کے خواب کیا تھے ‘آرزوئیں‘تمنائیں اور آدرش کیاتھے ؟؟؟؟بابائے قوم نے کیاسوچاتھا‘کیاچاہاتھا‘کون سی منزل متعین کی تھی‘کیسے وہاں تک پہنچناتھا ‘وہ منزل کن اندھیروں میں کھوگئی‘نشان ِ منزل بھی کوئی دکھائی پڑتاہے یا نہیں؟؟؟؟؟
صحرائے سینامیں چالیس سال بھٹکنے کے بعدحضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کوبھی بالآخرمنزل مل گئی تھی۔احساسِ زیاں اگر دامن گیرہوجائے توکیاخبرہم بھی گم گشتہ راہوں کوازسرِ نوپالیں۔اپنی اپنی ذات کی قیدسے آزاد ہوجائیں‘غلام ضمیر کی اسیری سے نجات حاصل کرلیں ‘ ذاتی مفادکوہی زندگی کاواحدمقصدسمجھناترک کردیں‘ملک وقوم کی فلاح بہبودکونہ صرف اپنافرض سمجھیںبلکہ اس کےلئے تھوڑی بہت قربانی دینے کےلئے بھی تیارہوجائیں۔کیاوہ ایک نئی صبح نہ ہوگی جب ہم سے کئی دیوانے سچ کوبرملاسچ کہنے سے نہیں ہچکچائیں گے ۔کتناہی خوشگواراجالاہوگاجب یاری دوستی اوربرادری کی زنجیروں سے آزادہوکرہمارے ارباب واختیارحق وانصاف کے تقاضے پورے کرنے لگیںگے ۔قائداعظمؒ کے پاکستان کے حسین چہرے پر جمی گردکی موٹی تہیں خود بخودجھڑنے لگیں گی۔وہ حسین منظرجوقائدکے پیش نظرتھاپھر سے اجاگرہوگا۔یادہے کہ نہیں جومیرے اورآپ کے محبوب قائدمحمدعلی جناحؒ نے۱۱/اگست ۷۴ءکومجلس دستورسازپاکستان کوخطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:
”حکومت کاپہلافریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن وامان برقراررکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان ومال اوران کے مذہبی عقائدکومکمل طورپرتحفظ دے سکے“۔
کیایہ فریضہ ہم نبھاپائے؟انہوں نے توبرملافرمایاتھاکہ ”بلاامتیازمذہب‘ذات پات‘عقیدہ پاکستان کے تمام شہریوںکے حقوق ومراعات اورفرائض مساوی ہیں۔جیسے جیسے زمانہ گزرتاجائے گانہ ہندو‘ہندورہے گانہ مسلمان‘مسلمان۔مذہبی اعتبارسے نہیں کیونکہ یہ ذاتی عقائدکامعاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے“ ۔ہماراطرزِ عمل کیارہا‘غیرمسلم توایک طرف رہے ہم توآپس ہی میں بٹ گئے۔خونِ مسلم کی ارزانی کایہ عالم ہے کہ اپنوں کے ہاتھوں کلمہ گوناحق قتل ہوتے رہے‘ایک آدھ نہیں سینکڑوں ہزاروں۔ایک وقت ایسا آیاکہ گلی کوچوں میں توکیا‘بندکواڑوں کے پیچھے دم سادھے مکین بھی انجانے خوف سے کانپنے لگے۔قائدؒ نے فرمایاتھا:
”کراچی کویہ شرف بھی حاصل ہے کہ اہم شہروں میں یہ واحدشہر ہے جہاں لوگوں نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران اپنے دل ودماغ کوٹھندارکھااورخوش اسلوبی کے ساتھ زندگی گزارتے رہے‘مجھے امید ہے کہ ہم ایسے ہی رہتے رہیں گے“۔کیسی لاج رکھی ہم نے اپنے قائدؒ کے اس ارشاد گرامی کی؟لسانی فسادات ہورہے ہیں‘بھائی بھائی کاگلاکاٹ رہا ہے‘نسلی امتیازکے بیج بودیئے گئے ہیں‘امن کے نام پرماردھاڑ کےلئے تنظیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں‘قانون نافذ کرنے والے بے بس اورلاچاردکھائی دے رہے ہیں۔شائدہی کوئی دن ایسا گزراہوجب دس بارہ بے گناہ غریب افرادکوموت کی وادی میں دھکیل نہ دیا گیا ہو۔جلی ہوئی گاڑیوںکے شاہراہوں پرپڑھے ڈھانچے تواب معمول کامنظر بن گئے ہیں۔عروس البلادپیہم ماتم کی حالت میں ہے۔ساحل سمندراچاٹ‘ تفریح گاہیںسونی ہوگئی ہیں۔روشنیاں تک بے رونق دکھائی دے رہی ہیں ‘شام ڈھلے کوئی مجبوراًگھرکی چوکھٹ سے باہرقدم رکھنے کی جرا
¿ت نہیں کرتا کیونکہ اسے جان کی قیمت پرروشنیاں دیکھنے کایارانہیں۔
دل ہی توہے نہ سنگ وخشت‘دردسے بھرنہ آئے کیوں
یہ اداسی‘یہ پژمردگی‘یہ بے رونقی بے سبب تو نہیں۔کس کس کی بے وقت شہادت کونہیں رویا یہ عروس البلاد!اورتواورحکیم سعیدشہید(اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے)کے پایہ کاعظیم انسان بھی محفوظ نہ رہ سکااورانہیں روزے کی حالت میں شہیدکردیا گیا۔قاتلوں نے ان کے ان گنت احسانات تک کو در خو اعتناءنہ سمجھا۔کاش اورنہیں توظالموں نے ہمدردیونیورسٹی کاکیمپس کوہی دیکھ لیاہوتا‘تعلیم کے شعبے میں وہ جوبے مثال خدمات انجام دے رہے تھے‘ان کا خیال رکھاہوتا۔سادگی اورفقرجوباوجودتمامتر وسائل کے انہوں نے اپنارکھے تھے‘اس کی لاج رکھ لی ہوتی ‘کیسے کیسے کھرے انسان لقمہ اجل بن گئے۔قلم کی آبروکاحق اداکرنے والافقیرمنش صلاح الدین ایڈیٹرتکبیردفترکی پک اپ میں سوارجارہے تھے کہ بے رحم قاتل جوتاک میں بیٹھے تھے ‘ گولیوں کی بوچھاڑ کرکے اس مرد مومن کوشہیدکردیا۔قاتل کون تھے؟کہاں سے آئے اورکس کے حکم پران قدآورشخصیات کوشہیدکردیا گیا‘اب تک ان کاسراغ نہیں مل سکا۔کیااس سے بڑاکوئی المیہ ہوسکتا ہے؟کرپشن‘بدعنوانی اوربرائی کوبروقت آشکارکرنے والاقلم توڑدیاجائے ‘وہ ہاتھ کاٹ دیا جائے اورحق وصداقت کےلئے اٹھنے والی زبان و آوازخاموش کردی جائے ‘اندھیاروں میں روشنی پھیلانے والی شمع گل کردی جائے توظلم وستم کاراستہ کون روکے گا؟
کیسے کیسے جیدعلماءکوہمیشہ کی نیندسلادیا گیا‘کس کس کےلئے سینہ کوبی کی جائے ‘حشر سامانی کاعالم کچھ ایسا کہ مقدورہوتورکھوں ایک نوحہ گرکومیںقتل وغارت گری کاسلسلہ اب کراچی تک محدودنہیں ‘یہ دہشت گردی سارے ملک کامقدربنادی گئی ہے۔ڈاکٹرغلام مرتضیٰ جیسا شفیق اورمحبتوں کاپیامبر ‘شرافت‘متانت‘ تحمل اورانسانیت کامرقع ‘پکے اورکھرے مسلمان‘عادات واطواراورچال چلن سے قرون اولیٰ کے خداپرستوں کی یادتازہ کرتے تھے‘جھگڑاتوکجا کسی سے اونچی زبان سے بات نہیں کرتے تھے‘سفاک قاتلوں کی گولیوں کے طفیل واصل بالحق ہوگئے۔(چہ دلاوراست دزدے کہ بہ کف چراغ دارد)(چورکتنابے باک ہے کہ ہاتھ میں چراغ لیے پھرتاہے)۔آخر ہم کب تک ایسے ظالم نظام کی چکی میں پستے رہیں گے؟کراچی میں ایم کیوایم اوراے این پی کے اتحادسے سندھ حکومت قائم ہے لیکن عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ جمہوریت کانعرہ بلندکرنے والے اتحادی اس قتل وغارت کاذمہ دارایک دوسرے کوٹھہرارہے ہیںاورخوداپنی زبان سے سندھ حکومت کے ناکام ہونے کااعتراف کرتے ہوئے اس عروس البلادکوفوج کے حوالے کرنے کامطالبہ کررہے ہیں۔لیکن عوام پہلی مرتبہ ان سازشی چہروں کوپہچان گئے ہیں کہ یہ سب گروہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں مشغول ہےںجس کی بھاری قیمت معصوم شہریوں سے وصول کی جارہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دفعہ ملک میں کرپشن‘بدعنوانی میں کسٹم کوپہلے نمبرپراور دوسرے نمبرپرعدالتی نظام کوٹھہرایاگیا ہے ۔
ہیں دفن مجھ میں کتنی رونقیں مت پوچھ اجڑاجڑکے جوبستارہاوہ شہرہوں میں