پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
ترکی میں اردو کی تدریس کے سو سال
ترکی کا مشہور شہر قسطنطنیہ جسے آج استنبول کے نام سے جانا جاتا ہے۔دنیا کے چند بڑے شہروں میں اس کا شمار ہے۔اسے مسجدوں کا شہربھی کہاجاتاہے کیونکہ ہر ایک میل کے فاصلے پرشاندار مسجدیں موجود ہیں۔ مسجدوں کی اتنی تعداد کے بعد بھی کوئی مسجد نمازیوں سے خالی نہیں رہتی۔ان مساجد کا طرز تعمیر بھی بالکل مختلف ہے۔اس شہر کو پہاڑوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہر سات پہاڑوں کے حلقے میں واقع ہے۔ بحر اسود، بحیرہ مرمرہ اورا ٓبنائے باسفورس یہ تین سمندر اس شہر کے حُسن میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس کا نصف حصہ یوروپ اور نصف حصہ ایشیا میں ہے۔ یہ شہر عظیم اسلامی تاریخ کا روشن باب بھی ہے۔اس شہر کو قدرت نے حسن کی دلفریبیاں عطا کی ہیں۔ ظاہری حسن کے علاوہ یہ روحانی فیوض و برکات سے بھی مالا مال ہے۔ میزبان رسول حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک بھی اسی شہر میں ہے۔اس کے علاوہ یہاں کے توپ کاپی میوزیم میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور خاندان اہل بیت کے مقدس تبرکات کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصائے مبارک ، حضرت یوسف علیہ السلا م کی پگڑی اور قرآن کریم کے کئی نادر نسخے موجود ہیں ۔یہاں موجود تبرکات کے حوالے سے کہا جاتاہے کہ یہاں کے تبرکات سب سے مستند ہیں ۔دنیا میں سب سے بڑے گنبد کی مسجد بھی یہیں موجود ہے۔ ترکی کو یہ اعجاز بھی حاصل ہے کہ دنیا بھر میں تصوف اور صوفیانہ روایات کے حوالے سے سب سے زیادہ پڑھے اور سمجھے جانے والے مولائے روم کا مزار مبار ک بھی یہیں ہے ۔
اس کے علاوہ ترکی کو ہم اس اعتبار سے بھی جانتے ہیں کہ یہ اردو ادب و تہذیب کا بڑا گہوارا بھی ہے ۔اردو تدریس کے لحاظ سے ترکی اردو کی ایک اہم بستی ہے ۔ ترکی میں اردو تدریس کے سو سال مکمل ہوچکے ہیں اور 2015 میں استنبول یونیورسٹی کے شعبہٴ اردو نے اردو تدریس کا جشن صد سالہ منایا جس میں دنیا بھر سے سو سے زائد مندوبین نے شرکت کی تھی۔ استنبول میں تین بڑی یونیورسٹیز میں اردو پڑھائی جاتی ہے ان میں استنبول یونیورسٹی،انقرہ یونیورسٹی اور سلجوق یونیورسٹی ، قونیا ہیں ۔
ترکی میں اردو کا اور سب سے بڑا شعبہ استنبول یونیورسٹی میں قائم ہے جو 1974 میں قائم ہوا ۔ یہاں بی۔اے۔، ایم ۔اے اور پی۔ایچ۔ ڈی تک کی تعلیم ہوتی ہے ۔ ترکی میں سب سے فعال یہی شعبہٴ اردو ہے ۔ یہاں کے نامی گرامی پروفیسر خیل طوق آر ہیں جو اردو کے اچھے نثر نگار اور شاعر بھی ہیں انھوں پچاس سے زائد کتابوں کی تصنیف وتالیف اور ترجمہ کیا ہے ۔دیار غیر میں اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے حکومت پاکستان نے اردو کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایک سال قبل تمغہ ٴ امتیاز سے نواز ہے ۔ خیل طوق آر اردو کے ان ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں جنھو ں نے اردو زبان کے ساتھ ساتھ اردو تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا ہے ۔وہ جتنے نفیس انسان ہیں اتنی ہی نفیس ان کی اردو زبان اور لب و لہجہ ہے ۔ ان کے علاوہ پروفیسر جلال سوئیدان، ڈاکٹر کارداش ذکائی اورخدیجہ گورگن اس شعبے سے وابستہ ہیں ۔اس شعبے میں ایک ہندستانی استاد کو ڈاکٹر راشد الحق بھی ہیں جو کئی برسوں سے یہاں اردو تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ وہ بیک وقت اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں ۔ اس شعبے نے تحقیق، تنقید اور شاعری کی سمت میں بڑے کام کیے ہیں ۔ یہاں اکثر و بیشتر ادبی سیمناروں کا بھی انعقاد کیا جاتا رہا ہے ۔پروفیسر خلیل طو ق آر نے ہی 2015 میں اردو کا جشن صد سالہ پروگرام کااہتمام کیا تھا ۔ ان ک مقبولیت کے سبب ہی دنیا بھر کے مندوبین نے ان کی دعوت قبول کر کے شرکت کی تھی۔
اردو تدریس کا سلسلہ سب سے پہلے انقرہ یونیورسٹی میں 1956 سے شروع ہوا۔ پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں بڑی مدد کی اور اپنے ملک سے ڈاکٹر داؤد رہبر کو یہاں اردو تدریس کے لیے بھیجا انھوں نے اردو کورسیز کو مرتب کیا اس طرح یہ شعبہ ترقی کرتا گیا ۔ اردو کے پہلے ترک استاد شوکت بولو ہیں ان کی شبکدوشی کے بعد ڈاکٹر سلمی بینلی نے انقرہ یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کا عہدہ سنبھالا۔ اس درمیان پاکستان سے کئی اردو کے اساتذہ جاتے رہے ۔ فی الوقت یہاں ڈاکٹر گلسرین ہالی جی اوز کان، ڈاکٹر آسمان بیلن اوز جان اور ایمیل سیلیم اردو کی استاد ہیں ۔ یہاں بی۔اے، ایم ۔اے اور پی ایچ ڈی کی سطح تک اردو کی تعلیم کا نظم ہے ۔ لیکن یہاں بھی پی ایچ ڈی کے مقالے ترکی زبان میں لکھے جاتے ہیں ۔
سلجوق یونیورسٹی جو قونیا میں واقع ہے یہاں بھی اردو کا بڑا شعبہ ہے جوڈاکٹر ایرکن ترکمان کی کوششوں سے 1985 میں قائم ہوا۔یہاں بھی ایم ا۔ اے تک کی تعلیم کا نظم ہے اس شعبے میں اردو کے طلبہ وطالبات کی خاطر کواہ تعداد ہے ،۔ یہاں بھی ایم کے مقالے ترکی زبان میں لکھے جاتے ہیں ۔ یہاں کے اساتذہ میں ڈاکٹر نوریے بلک، ڈاکٹر درمش بلغور، ڈاکٹر خاقان قیومجو، ڈاکٹر رجب درگن کے نام اہم ہیں ۔
مجموعی طور پر ترکی میں اردو کی اعلیٰ سطح پر اردو کی تدریس بڑے پیمانے پر ہورہی ہے ۔ یہاں مختلف أصناف نثر و نظم پر سوسے زائد پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاچکے ہیں ۔کچھ مقالے جستہ جستہ شائع بھی ہوئے ہیں جن سے کم از کم ترکی جاننے والے مستفید ضرور ہوئے ہیں۔ ان۔ تمام یونیورسٹیز سے حکومت پاکستان کے گہرے روابط ہیں ۔ ہندستان کو بھی ان سے روابط پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان اساتذہ کے لیے مشکل یہ ہے کہ یہاں اردو بولنے کا رواج کم ہے اسی لیے زیادہ تر یہ اپنی زبان میں باتیں کرتے ہیں اسی لیے کچھ اساتذہ بہت روانی سے اردو نہیں بول پاتے ۔ لیکن مقام شکر ہے کہ اردو کی تدریس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
بہت خوب، معلومات میں اضافہ ہوا
بہت خوب سر، معلومات میں اضافہ ہوا۔۔
بہت خوبصورت تصاویر کے ساتھ عمدہ معلومات حاصل ہوئی