Samiulla Malik , London
اک ذراصبر
اگر اس قوم کی تاریخ میں ۸۱مئی ۰۸۹۱ءنہ آتا تو شاید یہ پورے مشرق بعید کی ایک پسماندہ قوم ہی کہلاتی قوم جس کے بار ے میں ہمارے خوش فہم تبصرہ و نگار اکثر یہ جملہ دہراتے ہیں کہ ہمارا پہلا پانچ سالہ منصوبہ وہ یہاں سے لے کر گئے اور پھر اسے نقل کرکے اپنا ترقیاتی پلان بنایا اور آج دیکھو یہ ملک کتنا ترقی کر چکا ہے ۔ اس ملک کی تاریخ ہم سے مختلف نہیں سیاسی بے یقینی ایسی کہ ۹۷۹۱ءسے اب تک ۵۲وزیراعظم دیکھ چکا ہے ۔ یعنی ایک وزیراعظم کا اوسط عرصہ اقتدار گیارہ ماہ بنتا ہے آئین کا حلیہ بگاڑنے میں بھی ان کی تاریخ ہم سے مختلف نہیں۔ انہوں نے ۸۴۹۱ءمیں آئین بنایا اور پھر فوجی اقتدار کو تحفظ دینے کے لئے ۲۵۹۱‘۴۵۹۱‘۲۶۹۱‘۱۸۹۱‘اور ۷۸۹۱ءمیں ہر دفعہ ایسی ترامیم کیں کہ ہر بار آئین کا حلیہ ہی بدل گیا۔ یہ ملک جس میں صرف ۷۱فیصد رقبہ قابل کاشت ہے اور قدرتی وسائل تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن صرف ایک دن کی بدولت اور اس دن سے جاگی ہوئی اس قوم کی حالت یہ ہے کہ وہاں صرف ۳فیصد لوگ بے روزگار ہیں، صرف چار فیصد غربت کی لیکر سے نیچے ہیں،۹۹فیصد پڑھے لکھے ہیں اور آج وہ دنیا بھر کے ۹۸۱بلین ڈالر کی مصنوعات درآمد کرتا ہے ۔ اس کی معیشت پر دفاعی اخراجات بھی اثر انداز نہیں ہوتے ہیں۔ وہ لوگ ہر سال۳۱بلین ڈالر اپنے دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے کسی حاکم کو یہ کہنے کی نوبت نہیں آتی کہ ہم اس لئے ترقی نہیں کر رہے کہ ہم پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ہے ۔ ان پر۰۲۱بلین ڈالر قرض ہے لیکن آج دنیا بھر میں ان کی کمپنیاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا درجہ رکھتی ہے بلکہ اپنے سستے مال کی وجہ سے دنیا بھر کی مارکیٹوں پر چھائی ہوئی ہے ۔ ایسا سب کچھ کیسے اور کس طرح ممکن ہو گیا۔ یہ ملک طویل ترین فوجی اقتدار کی زد میں بھی رہا۔ جس زمانے میں پاکستان کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ انہوں نے نقل کیا اس دور میں وہ ہمارے وطن عزیزسے کئی درجے زیاہ پسماندہ ترین تھا۔ بلکہ اس کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا تھا۔ نہ کوئی قیادت میسر تھی جس کی سمت لوگ آرزو اور امید بھری نظروں سے دیکھ سکیں اور کوئی ایسا نہ تھا کہ جوان کے اندر ہر نام اور مپولہ صوبوں کی کشمکش کو ختم کروا سکے۔ لوگ ایک دوسرے پر استحصال کے الزام دھرتے اور اس لڑائی کا فائدہ صرف ان کو ہوتا جو بندوق کے زور پر اقتدار پر قابض رہنا چاہتے تھے اور اس اقتدار کو طول دینے میں امریکہ ان کا ممدو معاون ہوتا کہ کہیں عوام برسراقتدار آگئے تو امریکہ کا بستر اس پورے علاقے سے گول نہ ہو جائے۔ لیکن ۷مئی ۰۸۹۱ءکو اس ملک کے سات لاکھ کی آبادی والے شہر کو انجو میں فوجی اقتدار، غلبے اور آمریت کے خلاف ایک جدوجہد کا آغاز ہوا۔ اس جدوجہد کواس قصبے کے لوگوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد کا نام دیا۔۸۱سے ۱۲مئی تک شہر کے لوگوں نے جلوس نکالے، ہڑتالیں کیں، شہر کا شہر سڑکوں پر نکل آیا۔ انہوں نے احتجاج اس حد تک آگے بڑھایا کہ
پورے کوریا کے شہر ی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ کوریا کے ڈکٹیٹر پارک چنگ ہی کو اس کے انٹیلی جنس چیف نے قتل کردیا لیکن جیسے ہی اس خوشی میں ملک بھر کے لوگ طلبہ کی سرکردگی میں جمہوریت کی بحالی کے لئے سڑکوں پر نکلے تو جنرل چن ودہان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ سارے کے سارے شہر خوف کی وجہ سے خاموش ہو گئے لیکن کو انجوا کے شہریوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ پہلے ہی دن کئی لوگوں کے سر ڈنڈوں سے توڑ دئیے گئے۔ لوگ پھر جمع ہوتے تو سپاہیوں کا جتھہ ایک ایک کو علیحدہ کرکے عبرتناک انجام تک پہنچاتا۔ یہ آپریشن ختم ہونے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ لاشیں ٹماٹو ساس میں بھیگی پڑی ہیں۔ سب کو اٹھا کر ٹرک میں ڈالا گیااور ڈالتے ہوئے بھی سپاہی انہیں ٹھڈے مارتے رہے۔ راتوں رات کالجوں اور یونیورسٹیو ںپر قبضہ کر لیا گیا۔ طلبہ کو سر عام ننگا کیا گیا، سنگینوں سے زخمی کیا گیا اور بونٹ مارے گئے ۔ ایک رپورٹر کے مطابق سامنے کھڑے ایک بچے نے اپنے باپ سے سوال کیا کہ کمانڈو اتنا ظلم کر رہے ہیں، ہماری فوج کیوں نہیں آتی۔ ساتھ کھڑے ایک دوسرے بچے نے کہا میرے ابو کہتے ہیں فوج پر کمیونٹس چھا گئے ہیں۔ یہ کمانڈو اتنے آگے بڑھ گئے کہ جس پولیس اسٹیشن کے انچارج نے انہیں ایسا کرنے سے روکا اسے سنگینیں مار کر مار دیا۔ لیکن اگلے دن لوگ پھر سڑکوں پر تھے۔ جو زخمی کسی بس یا ویگن پر سوار ہو کر علاج کے لئے جا رہا ہوتا اس ویگن ڈرائیور کا حشر کر دیا جاتا۔ بہت سے پولیس والے چھٹی لے کر چلے گئے۔ پولیس کے انچارج نے گولی چلانے سے انکار کر دیا اور پھر ۰۲مئی کو ان لوگوں نے اپنا اخبار جاری کر دیا۔ روز لوگ مرتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ انہوں نے ٹیکس کی بلڈنگ کو آگ لگا دی کہ اس پیسے سے ان پر چلانے کے لئے گولیاں خریدی جاتی ہیں اور پھر اس جدوجہد کے بعد لوگوںنے شہر کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ کوئی لیڈر نہ تھا لوگ خود سارا انتظام چلانے لگے، نہ چوری نہ قتل، نہ ڈاکا اور نہ ہی بجلی اور پانی کا نظام خراب، انہوں نے ۷۲مئی تک ایک مثالی حکومت قائم کرکے دکھا دی اور پھر ان پر پورے ملک کی فوج نے ظالمانہ طریقے سے ایکشن کرکے قبضہ کر لیا۔ لیکن یہ چند دن لوگوں کو یہ اعتماد دے گئے کہ وہ کسی پولیس کے بغیر امن قائم کر سکتے ہیں، کسی سرکاری محکمے کے بغیر تمام سروسزبحال کر سکتے ہیں اور کسی لیڈر کے بغیر سات لاکھ کے ایک شہر کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ تاریخ میں ایسی مثال صرف فرانسیسی کیمون میں ۱۷۸۱ءمیں ملتی ہے جس کے بعد وہاں لوگوں کو یقین ہو گیا تھا کہ ملک کی بقا نہ سپاہ کے پاس ہوتی ہے اور نہ بیورو کریسی اور پولیس کے پاس۔ ملک تو عوام کا ہوتا ہے اور وہی اسے بہتر اور خوبصورت طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ مئی ۰۸۹۱ءمیں ملنے والا یہ اعتماد تھا جس نے ۷۸۹۱ءمیں کوریا کو ایک ایسی جدوجہد کا منہ دکھایا کہ جس کے بعد نہ وہاں فوج آئی اور نہ ہی آئین میں ترمیم۔ بس لوگوں نے صرف یہ دیکھا کہ غربت و افلاس میں ڈوبا کوریا جب ایسی حکومت کے سائے میں پروان چڑھنے لگتا ہے تو خواہ فوج پر اخراجات کا بوجھ ہو، غیر ملکی قرضہ بے تحاشا ہو ،اس قوم کو دنیا میں سر اٹھانے کے قابل بننے سے کوئی نہیں رو ک سکتا۔ صرف چند مہینوں کی تحریکیں اور چند سویا ہزار لوگوں کی قربانی وقتی طور پر مایوسی کی لہر تو لے کر آئی ہے ۔ لیکن اس کی کو کھ میں جو اعتماد ہوتا ہے وہ ایک دن قوموں کی تقدیر بدلتا ہے ۔ پاکستانی قوم بے شمارامتحانات کے مراحل سے گزرکراعتماد تو حاصل کر چکی لیکن اب اس تجربے کی نقل کب کرے گی؟ ایک ذرا صبر کہ صیاد کے دن تھوڑے ہیں۔ بروزجمعرات ۷ربیع الاول۲۳۴۱ھ۰۱ فروری۱۱۰۲ء لندن