اقبال کی نظم ‘‘سیّد کی لوح تربت’’- ایک مطالعہ
یہ مضمون سر سید ڈے کی مناسبت سے شائع کیا جا رہا ہے
شاعر مشرق علامہ اقبال محض ایک شاعر نہ تھے بلکہ حکیم نکتہ داں بھی تھے۔ ان کی طبیعت ہمہ جو اور ذہن تخیل پرداز تھا۔ انھوں نے اردو شاعری میں بالخصوص نظم نگار ی میں ہیئت کا کوئی نیا تجربہ نہیں کیا بلکہ اس کی تکنیک کو اسی کلاسیکی انداز میں وقار کے ساتھ برقرار رکھا لیکن اپنے منفرد رنگ وآہنگ میں جذبات واحساسات اور واردات کی صداقت اور خیالات وافکار کی حسین آمیزش کرکے اردو نظم کو نئی قوت گویائی عطاکی۔ اقبال کی شاعری میں نہ تو روایتی انداز بیان ہے نہ فرسودہ خیالات وافکار بلکہ ان کی دوربین نگاہیں ہمیشہ تلاش وجستجو کی طرف مائل نظر آتی ہیں اور ذہن ہمیشہ فکروفن پرمرکوز رہتا ہے۔ چوں کہ شاعری کو پیغمبری سے کم نہیں سمجھتے اس لیے جگر سوزی اور عرق ریزی سے فکر کو فن کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ اس لیے اقبال کی نظمیں فکری اعتبار سے کافی وسعت رکھتی ہیں اور فن کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔
”سیّد کی لوح تربت“ اقبال کے منفرد طرز سخن کی شاہکار ہے۔ معنوی اعتبار سے اس نظم میں بے انتہا وسعت ہے۔ ہیئت کے اعتبار سے یہ نظم ”ترکیب بند“ میں ہے جو ایک قدیم طرز سخن ہے جس پر اقبال کے زمانے میں بہت ہی کم شعرائنے طبع آزمائی کی۔ اس طرح اس طرز کو حیاتِ نو بخشنے کا سہرا بھی اقبال ہی کے سر جاتا ہے۔ یہ نظم چار بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند میں اشعار کی تعداد مختلف ہے لیکن کہیں سے ربط وتسلسل ٹوٹتا ہوا نظر نہیں آتا جو اقبال کی شاعرانہ فنکاری کا ثبوت ہے۔ نظم میں الفاظ کی ترتیب وتنظیم اور ان کا انتخاب اقبال کی قادرالکلامی کو واضح کرتا ہے۔ اقبال نظم کے تعمیر ی حسن کو دیکھتے ہیں اور خیالات کے ارتقائی عمل کو از اول تا آخر ملحوظ رکھتے ہیں۔
مواد کے لحاظ سے یہ نظم پیغامات پر مشتمل ہے جو سرسیّد کے توسط سے اقبال عوام الناس تک پہنچاتے ہیں۔ اس نظم کے پس منظر کو دیکھنے کے بعد اقبال کی ندرت بیانی اور جدت طرازی کا قائل ہونا پڑتا ہے کیونکہ سرسید جو رہنما ئے قوم وملت تھے ان کے انتقال پر اقبال نے اپنے احساسات کو جس انداز سے پیش کیا ہے وہ یقینا جدت کا حامل ہے ۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کسی عظیم شخصیت کی رحلت پر درد بھرے الفاظ کا استعمال کرکے صدمہ وماتم کی فضا تیار کی جاتی ہے یا پھر مرنے والے کے اوصاف حمیدہ کا ذکر رنج وملال کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر اقبال نے الگ انداز اپنایا۔ ان کی نظر میں کسی مفکر یا مصلح کی موت پر خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ انھوں نے جن خیالات ونظریات کو عام کرنے میں عمر صرف کردی اسے عام کیا جائے اور ان کی زندگی سے سبق لے کر انفرادی اور اجتماعی زندگی کو منورکیا جائے۔ چناں چہ اقبال اس نظم میں سرسید کی موت پرنہ تو آنسو بہاتے ہیں اور نہ ہی اس قدر افسردہ ہوتے ہیں کہ پژمردگی چھاجائے۔ بلکہ اقبال موت کو قدرت کا اٹل فیصلہ تصور کرتے ہیں جس سے کسی کو رستگاری نہیں۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو مشعل راہ بن کر آتی ہیں۔ سرسید بھی انہی میں سے ایک تھے۔ چنانچہ ان کے نقش قدم پر چلنا ہی سب سے بڑا خراج عقیدت ہوسکتا ہے اور چوں کہ اقبال خود بھی اپنے سینے میں دھڑکتا دل رکھتے تھے اور قوم وملک کی فلاح وبہبود کے خواہاں تھے اسی لیے اس طرزِ فکر کو اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں۔ ان تفصیلات سے اس نظم کی فکری اور فنی رفعت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ اقبال نظم کی ابتدا بھی نہایت ہی موثر انداز میں جدت کے ساتھ یوں کرتے ہیں :
اے کہ تیرا مرغ جاں تا رِ نفس میں ہے اسیر
اے کہ تیری روح کا طائر قفس میں ہے اسیر
اس شعر میں تناسب لفظی کا بہترین استعمال بھی ہے اور تمام الفاظ اپنی جگہ پر بہت ہی Powerful بھی ہیں، ان کے اندر ایک جہان معنی پوشیدہ ہے۔ مثلاً اس شعر میں ایک طرف تو روح کو طائر سے تشبیہہ دے کر اور اسے تارِ نفس کا اسیر بتاکر زندگی کے عدمِ استحکام کو واضح کرنا چاہا ہے اور دوسری طرف اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ تو ابھی زندگی رکھتا ہے اس لیے موجودہ لمحات کو غنیمت سمجھ۔ (اقبال نے زندگی کے متعلق دوسری نظموں میں بھی اس کی وضاحت بڑی خوب صورتی سے کی ہے) بعد ازاں صبر واستقلال کے ثمرات دکھاتے ہوئے انسان کو اخلاص اور حرکت وعمل پر آمادہ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ آج بھی سرسید# کی قبر سے یہ آوازیں تمھیں پکارتی ہیں کہ اے قوم کے مدبرو، مفکرواور شاعرو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو تاکہ حالات سازگار ہوں۔ اگر تم عالم دین ہو تو ہرگز اپنی قوم کو ترکِ دنیا کا درس نہ دینا کیوں کہ یہ اصول دین کے خلاف ہے چوں کہ تسخیر کائنات اور تزئین کائنات اس کے حصے میں ہے لہٰذا جب تک دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے آگاہی نہیں ہوگی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ساتھ ہی تیری زبان جو اثر رکھتی ہے اس کو غلط بیانی کے لیے استعمال نہ کرنا بلکہ تیری تقریر سے آپسی اتحاد اور میل جول کی بو آنی چاہیے اور اگر تم مدبر ہو تو خوف ودہشت کو دور کرکے حق گوئی کا راستہ اپناوٴ کیوں کہ اصل میں مومن تو وہی ہے جس کے دل میں خوف خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو۔ اس لیے تندو تیز مخالفت میں بھی حق گوئی کے لیے بے باک رہو اور شاعروں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ شاعری چوں کہ اپنے اندر اثر انگیزی رکھتی ہے او ردلوں کو لبھاتی ہے اس لیے اس کا غلط استعمال نہ کرو بلکہ تمہاری شاعری ایسی ہو کہ :
سونے والوں کو جگادے شعر کے اعجاز سے
خرمنِ باطل جلا دے شعلہٴ آواز سے
اقبال کے یہ پیغامات اثر انگیزی کے ساتھ ساتھ دلآویزی بھی رکھتے ہیں اور پوری نظم میں بھرپور شعریت بھی قائم رہتی ہے۔ جابجا حسنِ ترکیب اور بندش کی چستی سے شعر کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر اقبال کی فنکاری کا قائل ہونا پڑتا ہے کہ پیغامات کو اتنے موثر طریقے سے بیان کرنا اور وہ بھی ایسا کہ پڑھنے والادیر تک اس کی اثریت میں کھویارہے یقینا یہ اقبال ہی کاکام ہے ۔ اقبال کے علاوہ بھی کئی شاعروں نے اپنی شاعری سے پندوموعظت او رپیغام رسانی کا کام لیا ہے مگر براہ راست ناصحانہ انداز نے طرز بیان کو غیر دلچسپ بنادیا ہے اور ان کے کلام کو اثر انگیزی سے دور رکھا ہے۔ لیکن اقبال کے یہاں معاملہ برعکس ہے۔ یہاں اسلوب کی رنگینی سے شاعری سحرکاری ہوگئی ہے۔ مختصر یہ کہ اقبال کی یہ نظم فکری اور فنی اعتبار سے بہت ہی کامیاب اور اثر انگیز نظم ہے۔
*****
بہت خوب مضمون لکھا آپ نے خواجہ صاحب۔
بہت خوب تجزیہ ہے