بر صغیر ہندو پاک کے باشندے بڑی بے صبری سے گذشتہ دو سالوں سے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان موجود رسہ کشی کا دور جلد ختم ہو اور اےک بار پھر دونوں پڑوسی ممالک ایک دوست کی طرح زندگی بسر کرنا شروع کریں۔ لیکن حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب دونوں ممالک کے سیاسی قائدین کی رشتوں کو بہتر بنانے کی سنجیدہ کوششوں کو کسی کی نظر لگ جاتی ہے۔ گذشتہ دنوں سارک کی سولہویں چوٹی کانفرنس کے دوران جب ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان بھوٹان کی راجدھانی تھمپو میں ملاقات ہوئی تھی، تو دونوں قائدین نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ہندو پاک کے درمیان رشتوں کی کڑواہٹ کا اہم سبب دونوں ممالک کے درمیان ’اعتماد کی کمی‘ ہے۔ لہٰذا اس کے سدباب کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اسی لیے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی نے اپنے اپنے وزرائے خارجہ کو یہ اختیارات دیے تھے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ ’اعتماد کی اس کمی‘ کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اسی نظریہ کے تحت پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے درمیان 15 جولائی کو اسلام آباد میں ایک میٹنگ طے پائی ہے۔
لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے ایک نیا بیان سامنے آیا ہے جس میں اس نے امریکہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ہندوستان پر دباوڈالے کہ وہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی کو ختم کرنے کے لیے اپنے درمیان زیر التوا تنازع کے تمام موضوعات پر بات کرے اور ان کو دہشت گردی کے موضوع سے نہ جوڑے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے شکایت کی ہے کہ ہندوستان کے ذریعے دہشت گردی کو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی کی وجہ کے طور پر دیکھنا معاملات کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔ یہی نہیں اسلام آباد یہ بھی چاہتا ہے کہ واشنگٹن ہندوستان کو کشمیر میں حقوق انسانی سے متعلق اقدام اٹھانے کے لیے کہے اور پانی کی تقسیم اور سر کریک جیسے متنازع امور پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے دباوڈالے۔ بقول عبدالباسط اسلام آباد نئی دہلی کے ساتھ بامعنی مذاکرات شروع کرنا چاہتا ہے تاکہ تمام تنازعات حل ہوسکیں اور باہمی رشتوں کو پرامن اور مضبوط بنانے کے لیے ایک ساتھ کام کیا جاسکے۔
لیکن عبدالباسط کا سب سے زیادہ زور اس بات پر رہا کہ ہندوستان اور پاکستان سب سے پہلے اس بات پر متفق ہوں کہ آخر اعتماد کی کمی کی وجہ کیا ہے۔ بقول ان کے ہندوستان کی طرف سے اعتماد کی کمی کی وجہ پاکستان کے ذریعے دہشت گردی سے متعلق تشویشوں پر سنجیدگی سے غور کرنا نہیں ہے، جب کہ پاکستان کی طرف سے اعتماد کی کمی کی وجہ ہندوستان کے ذریعے کشمیر اور پانی کی تقسیم جیسے اہم موضوعات کو زیادہ اہمیت نہیں دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ’سبب‘ پر ہی دونوں کا اتفاق نہیں ہوگا تو پھر اسے دور کرنے کی تمام کوششیں رائگاں جائیں گی۔
عبدالباسط کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ نے حال ہی میں ہندوستان اور پاکستان دونوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ رشتوں کو بہتر بنانے کی دونوں ممالک کی کوششوں میں ان کی حمایت کرتا رہے گا۔ اس سے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یوپی اے حکومت کی دوسری میعاد کے ایک سال مکمل ہونے پر نئی دہلی میں بلائی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ہندوپاک کے درمیان موجود اعتماد کی کمی کو دور کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی اور یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ہم اپنے ترقیاتی منصوبوں کو اس وقت تک پورا نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اپنے رشتے استوار نہ کر لیں۔
دریں اثنا، پاکستان سے یہ بھی خبر آئی ہے کہ وہاں کی سپریم کورٹ نے 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کے ماسٹر مائنڈ حافظ سعید کو رہا کردیا ہے ۔ عدالت نے حافظ سعید کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے سبب اسے تمام الزامات سے بری کردیا ہے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہندوستان نے ممبئی حملے کے بعد پاکستان کو حافظ سعید کے خلاف متعدد ثبوت فراہم کیے تھے۔ اگر پاکستانی حکومت ان تمام ثبوتوں کو عدالت کے سامنے پیش کرتی تو شاید حافظ سعید اس طرح رہا نہ ہوپاتا۔ اس کے علاوہ متعدد مواقع پر بھی ہندوستان نے حافظ سعید سے متعلق اپنی تشویشوں کو پاکستان کے سامنے رکھا ہے، لیکن پاکستان نے ان تشویشوں کو دور کرنے سے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی۔ پاکستان حکمراں اپنے ملک کے عدالتی نظام کا رونا روتے ہیں اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ وہ سعید کے خلاف کوئی قانونی کارروائی اس لیے نہیں کرسکتے کیوں کہ ہندوستان کے ذریعے اس کے خلاف فراہم کیے گئے ثبوت پاکستانی عدالتوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔ ایسے میں بھلا دونوں ممالک کے درمیان موجود ’اعتماد کی کمی‘ کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان بھی اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ صرف ایک آدمی کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہوتے جارہے ہیں اور اگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو چاہے جتنی بھی کوشش کی جائے تعلقات کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ حافظ سعید کے خلاف سخت قدم اٹھانے سے پس و پیش کیوں کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی فرد واحد پورے ملک سے بڑا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر انھوں نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ایک آدمی کو بچانے کے چکر میں پورے ملک کو تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں تو ایسے میں خدا ہی مالک ہے۔ پھر تو جامع مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی تمام دلیلیں کھوکھلی دکھائی پڑتی ہیں۔ ایسے میں دنیا کے سامنے یہ دکھاوا کیوں کیا جا رہا ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ہندوستان کے ساتھ امن مذاکرات کو شروع کرنے کا خواہاں ہے اور اس معاملے میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہے۔ بھوٹان میں پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ذریعے ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو کرائی گئی یقین دہانی کہ وہ ممبئی حملے کے تمام قصورواروں کے خلاف کارروائی کرے گا اور انھیں قانون کے کٹہرے تک لائے گا، ایک جھوٹا وعدہ محسوس ہوتا ہے کیوں کہ ممبئی حملے کے قصوروار اگر یکے بعد دیگرے یونہی رہا ہوتے رہے تو ایک طرح سے یہ ہندوستان کی بے عزتی ہے جسے ظاہر ہے کہ ہندوستان ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ بڑی اچھی بات ہے کہ ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ تمام زیر التوا معاملوں کو آپسی بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن اگر پاکستان اپنے رویوں سے باز نہیں آیا تو پھر اسے ہندوستان کی ناراضگی مول لینی پڑے گی اور اس وقت ماحول جس طرح سازگار ہوا ہے اس پر پھر سے غیر یقینی کے بادل منڈلانے لگیں گے۔ ایسے میں قصور ہندوستان کا نہیں ہوگا بلکہ اس کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ہی عائد ہوگی۔ عقل مندی یہی ہے کہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پوری دیانت داری سے ایسے اقدام کرے جس سے اس کے اوپر ہندوستان کا اعتماد بحال ہو اور دونوں ممالک ایک بار پھر اچھے پڑوسی کی طرح دوستانہ ماحول میں زندگی بسر کرنا شروع کریں۔
اعتماد کی کمی
بر صغیر ہندو پاک کے باشندے بڑی بے صبری سے گذشتہ دو سالوں سے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان موجود رسہ کشی کا دور جلد ختم ہو اور اےک بار پھر دونوں پڑوسی ممالک ایک دوست کی طرح زندگی بسر کرنا شروع کریں۔ لیکن حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب دونوں ممالک کے سیاسی قائدین کی رشتوں کو بہتر بنانے کی سنجیدہ کوششوں کو کسی کی نظر لگ جاتی ہے۔ گذشتہ دنوں سارک کی سولہویں چوٹی کانفرنس کے دوران جب ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان بھوٹان کی راجدھانی تھمپو میں ملاقات ہوئی تھی، تو دونوں قائدین نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ہندو پاک کے درمیان رشتوں کی کڑواہٹ کا اہم سبب دونوں ممالک کے درمیان ’اعتماد کی کمی‘ ہے۔ لہٰذا اس کے سدباب کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اسی لیے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی نے اپنے اپنے وزرائے خارجہ کو یہ اختیارات دیے تھے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ ’اعتماد کی اس کمی‘ کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اسی نظریہ کے تحت پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ہندوستانی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے درمیان 15 جولائی کو اسلام آباد میں ایک میٹنگ طے پائی ہے۔
لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے ایک نیا بیان سامنے آیا ہے جس میں اس نے امریکہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ہندوستان پر دباوڈالے کہ وہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی کو ختم کرنے کے لیے اپنے درمیان زیر التوا تنازع کے تمام موضوعات پر بات کرے اور ان کو دہشت گردی کے موضوع سے نہ جوڑے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے شکایت کی ہے کہ ہندوستان کے ذریعے دہشت گردی کو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی کی وجہ کے طور پر دیکھنا معاملات کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔ یہی نہیں اسلام آباد یہ بھی چاہتا ہے کہ واشنگٹن ہندوستان کو کشمیر میں حقوق انسانی سے متعلق اقدام اٹھانے کے لیے کہے اور پانی کی تقسیم اور سر کریک جیسے متنازع امور پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے دباوڈالے۔ بقول عبدالباسط اسلام آباد نئی دہلی کے ساتھ بامعنی مذاکرات شروع کرنا چاہتا ہے تاکہ تمام تنازعات حل ہوسکیں اور باہمی رشتوں کو پرامن اور مضبوط بنانے کے لیے ایک ساتھ کام کیا جاسکے۔
لیکن عبدالباسط کا سب سے زیادہ زور اس بات پر رہا کہ ہندوستان اور پاکستان سب سے پہلے اس بات پر متفق ہوں کہ آخر اعتماد کی کمی کی وجہ کیا ہے۔ بقول ان کے ہندوستان کی طرف سے اعتماد کی کمی کی وجہ پاکستان کے ذریعے دہشت گردی سے متعلق تشویشوں پر سنجیدگی سے غور کرنا نہیں ہے، جب کہ پاکستان کی طرف سے اعتماد کی کمی کی وجہ ہندوستان کے ذریعے کشمیر اور پانی کی تقسیم جیسے اہم موضوعات کو زیادہ اہمیت نہیں دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ’سبب‘ پر ہی دونوں کا اتفاق نہیں ہوگا تو پھر اسے دور کرنے کی تمام کوششیں رائگاں جائیں گی۔
عبدالباسط کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ نے حال ہی میں ہندوستان اور پاکستان دونوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ رشتوں کو بہتر بنانے کی دونوں ممالک کی کوششوں میں ان کی حمایت کرتا رہے گا۔ اس سے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یوپی اے حکومت کی دوسری میعاد کے ایک سال مکمل ہونے پر نئی دہلی میں بلائی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ہندوپاک کے درمیان موجود اعتماد کی کمی کو دور کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی اور یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ہم اپنے ترقیاتی منصوبوں کو اس وقت تک پورا نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اپنے رشتے استوار نہ کر لیں۔
دریں اثنا، پاکستان سے یہ بھی خبر آئی ہے کہ وہاں کی سپریم کورٹ نے 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کے ماسٹر مائنڈ حافظ سعید کو رہا کردیا ہے ۔ عدالت نے حافظ سعید کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے سبب اسے تمام الزامات سے بری کردیا ہے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہندوستان نے ممبئی حملے کے بعد پاکستان کو حافظ سعید کے خلاف متعدد ثبوت فراہم کیے تھے۔ اگر پاکستانی حکومت ان تمام ثبوتوں کو عدالت کے سامنے پیش کرتی تو شاید حافظ سعید اس طرح رہا نہ ہوپاتا۔ اس کے علاوہ متعدد مواقع پر بھی ہندوستان نے حافظ سعید سے متعلق اپنی تشویشوں کو پاکستان کے سامنے رکھا ہے، لیکن پاکستان نے ان تشویشوں کو دور کرنے سے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی۔ پاکستان حکمراں اپنے ملک کے عدالتی نظام کا رونا روتے ہیں اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ وہ سعید کے خلاف کوئی قانونی کارروائی اس لیے نہیں کرسکتے کیوں کہ ہندوستان کے ذریعے اس کے خلاف فراہم کیے گئے ثبوت پاکستانی عدالتوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔ ایسے میں بھلا دونوں ممالک کے درمیان موجود ’اعتماد کی کمی‘ کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان بھی اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ صرف ایک آدمی کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہوتے جارہے ہیں اور اگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو چاہے جتنی بھی کوشش کی جائے تعلقات کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ حافظ سعید کے خلاف سخت قدم اٹھانے سے پس و پیش کیوں کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی فرد واحد پورے ملک سے بڑا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر انھوں نے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ایک آدمی کو بچانے کے چکر میں پورے ملک کو تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں تو ایسے میں خدا ہی مالک ہے۔ پھر تو جامع مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی تمام دلیلیں کھوکھلی دکھائی پڑتی ہیں۔ ایسے میں دنیا کے سامنے یہ دکھاوا کیوں کیا جا رہا ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ہندوستان کے ساتھ امن مذاکرات کو شروع کرنے کا خواہاں ہے اور اس معاملے میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہے۔ بھوٹان میں پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ذریعے ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو کرائی گئی یقین دہانی کہ وہ ممبئی حملے کے تمام قصورواروں کے خلاف کارروائی کرے گا اور انھیں قانون کے کٹہرے تک لائے گا، ایک جھوٹا وعدہ محسوس ہوتا ہے کیوں کہ ممبئی حملے کے قصوروار اگر یکے بعد دیگرے یونہی رہا ہوتے رہے تو ایک طرح سے یہ ہندوستان کی بے عزتی ہے جسے ظاہر ہے کہ ہندوستان ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ بڑی اچھی بات ہے کہ ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ تمام زیر التوا معاملوں کو آپسی بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن اگر پاکستان اپنے رویوں سے باز نہیں آیا تو پھر اسے ہندوستان کی ناراضگی مول لینی پڑے گی اور اس وقت ماحول جس طرح سازگار ہوا ہے اس پر پھر سے غیر یقینی کے بادل منڈلانے لگیں گے۔ ایسے میں قصور ہندوستان کا نہیں ہوگا بلکہ اس کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ہی عائد ہوگی۔ عقل مندی یہی ہے کہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پوری دیانت داری سے ایسے اقدام کرے جس سے اس کے اوپر ہندوستان کا اعتماد بحال ہو اور دونوں ممالک ایک بار پھر اچھے پڑوسی کی طرح دوستانہ ماحول میں زندگی بسر کرنا شروع کریں۔
آپ کی باتیں سو فیصد صحیح ہیں۔ پاکستان بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے ان مسائل کو س جھانے کے کے لیے۔
واقعی اس طرح پاکستان خود اپنا ہی نقصان کر رہا ہے۔ اور اس کے ذمہ دار وہان کے رہنما تو ہوں گے ہی وہان کے عوام کو بھی آنے والی نسلوں کو جواب دینا ہوگا کہ اخر موقع ملتے ہوئے کیوں ان مسائل کو نہیں لجھا یا گیاتھا۔
یہ بات آپ نے بالکل صحیح کہی کہ دونو ں ملکوں میں جو اعتماد کی کمی کے اسباب پر ہی اگر اتفاق نہیں ہوگا تو پھر یہ اعتماد بحال کہاں سے کیا جا سکتا ہے؟
اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اعتماد کی کمی تو لازمی ہے۔ اور دونوں ملکوں کے نزدیک اگر اعتماد کی کمی کی وجہیں اگر مختلف ہیں تو اس بات پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہوگاورنہ مخالف طاقتیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
اب تو دونوں ملکوں کے عوام میں بھی یہ امید ختم ہوچکی ہے کہ کبھی یہ دونوں ممالک ایک ہو سکیں گے۔
پچھلے دنوں کی کوششیں/ مٹنگیں/ مباحثے بس دل کے بہلانے اور عوام کو مزید گمراہ کرنے کے لیے ہی تھیں۔
مجے تو لگتا ہے کہ اب دونوں ملکوں کے رہنما اور عوام اپنے اپنے اعمال کے ساتھ قیامت میں ہیں ملیں گے۔
صحیح کہا کہ کہ جب ’سبب‘ پر ہی دونوں کا اتفاق نہیں ہوگا تو پھر اسے دور کرنے کی تمام کوششیں رائگاں جائیں گی۔