Home / Litrature / عوامی ترسیل کی زبان:حدود اور تقاضے

عوامی ترسیل کی زبان:حدود اور تقاضے

عوامی ترسیل کی زبان:حدود اور تقاضے ابرار احمد اجراوی*
موبائل:09910509702
خیالات وتجربات، جذبات وتصورات، عقائد ونظریات، علوم وفنون، تفریحی مواد اور معلومات کی مصدقہ اشاعت کا نام ترسیل ہے۔ سامعین کی تعداد اور ترسیلی ہدف کے رقبے کے اعتبار سے ترسیل کی کئی قسمیں کی گئی ہیں، لیکن اس میں شہہ رگ کی حیثیت عوامی ترسیل کوہی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ماس میڈیا یا ذرائع ابلاغ کا نام لبوں پر آتا ہے، تو انسانی ذہن بلا ساختہ عوامی ترسیل کی طرف جست لگاتا ہے۔ ترسیل کے چھ اجزائے ترکیبی میں مرسل(سورس)، چینل، پیغام، اور مرسل الیہ (ریسیور) کو سنگ بنیاد کے درجے میں رکھا جاتا ہے ، کیوں کہ ان کے بغیر ترسیل کا عمل اپنی مکمل اور مؤثرصورت میں امکان کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ ان ترسیلی اجزاء میں زبان کا ذکر کہیں نہیں ہے، لیکن الاہم فالاہم کے اصول کی روشنی میں زبان کو ہمیں لا محالہ اولیت دینی پڑے گی،کیوں کہ زبان کے بغیر مروجہ ترسیلی نظام کی تکمیل دیوانے کا خواب بن کر رہ جائے گا۔ اشارات و کنایات، حرکات وسکنات، چہرے بشرے اور لمس وشعور بھی ترسیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں، مگر صرف چند مواقع پر۔ نہ صرف عوامی ترسیل، بلکہ تمام ادبی اصناف میں مکالمہ اور زبان کو نمایاں مقام دیا جاتا ہے۔
عوامی ترسیل کے عمل میں زبان کا معیار نہ صرف سامع وناظر کی تعلیمی صلاحیت، تہذیبی حدوداور عقائدی پابندیوں کو نظر میں رکھ کر کیا جاتا ہے، بلکہ ان کی عمر، ان کی جنس اور ان کے مخصوص مکتب فکرکو بھی محوری حیثیت دی جاتی ہے۔ کیوں کہ ترسیلی عمل میں صرف بات کہہ دینا ہی کافی نہیں، بات کا پہنچنا بھی ضروری ہے۔ بقول انجم عثمانی:
’’ جہاں بات دوسروں تک منتقل نہ ہونے پائے، وہاں ترسیل نہیں ہوگی۔ گویا ترسیل کے لیے مرسل الیہ بھی ضروری ہے۔اس طرح ترسیل ایک مشترک عمل ہے۔ ‘‘(ٹیلی ویژن نشریات، ص:۱۸)
وہ دن لد گئے جب ترسیل کی دنیا میں اخبارات کا ہی سکہ چلتا تھا اور مطبوعہ صحافت بلا شرکت غیرے منصب ابلاغ پر فائز تھی۔ جب خبروں کی کثرت، معلومات کے تنوع، عقائد ونظریات کی رنگا رنگی نے یہ شکایت کی کہ’ کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے ‘ تو ذرائع ابلاغ نے بھی اپنی قلمرو کی توسیع کرلی۔ پہلے تن تنہا اخبارات ہی ہماری ذہنی ، علمی اور ادبی ذوق کی تکمیل کا ذریعہ تھے، لیکن عہد حاضر کا جلوہ دیکھیے کہ اب ذرائع ابلاغ کے تخت حکومت پر اخبارات سے کہیں زیادہ برقی مواصلات: ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، موبائل اور سائبر اسپیس کا قبضہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم کسی خبر سے واقفیت کے لیے نوشت وخواند کی مطلوبہ صلاحیت کے ساتھ مشروط تھے، کیوں کہ ترسیلی ذرائع : اخبارات اور پمفلٹ ملفوظی نظام کے تابع تھے۔ اطلاعاتی انقلاب نے وہ کرشمہ دکھایا کہ اب ہم حرف شناسی کے بغیر دنیا کے اندر رونما ہونے والے واقعات، پاس پڑوس کی خبروں اور دوسروں کے خیالات سے واقف ہو سکتے ہیں اور اس پر اپنا رد عمل بھی ظاہر کر سکتے ہیں۔ سفر وحضر، بس، کار، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز میں یہاں تک کہ اپنے ڈراٹنگ روم میں بھی وسیع وعریض کائنات کا رنگا رنگ نظارہ کر سکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے نت نئی ترقیوں کے بل پر بہت سی پابندیوں اور پیچیدگیوں سے آزادی حاصل کرلی ہے، لیکن زبان ترسیل کا ایک ایسا عنصر ہے جس سے وہ کبھی آزاد نہیں رہ سکتے ۔ جس عہد میںمنہ سے نکلنے والے الفاظ نے تحریر کا منقش جامہ زیب تن نہیں کیا تھا، غیر لفظی ترسیل ممکن العمل تھا۔ اب بھی اشاروں اور کنایوں، جسم کے اتار چڑھاؤ سے ترسیل ممکن ہے، لیکن با معنی، مؤثر اور ہر کس وناکس کی قوت متخیلہ سے ہم آہنگ ترسیل کے لیے زبان کو محوری حیثیت حاصل ہے۔
زبان میں بڑی رنگا رنگی ہے۔ اظہار خیال کے مختلف پیرایے ہیں۔ زبان کے سلسلے میںملک، علاقے اور خطے کیا، ہر دس قدم پر دوسرے تقاضے دامن گیر ہوتے ہیں۔ اور عوامی ترسیل کی زبان تو دوسرے شعبئہ حیات کی زبان سے یکسر جدا ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان کے ادب میں اتنا تنوع ہوتا ہے کہ اس پر دسترس کی باگ ڈور جلدی قبضے میں نہیں آتی۔ اردو ادب کو ہی دیکھ لیجیے غزل کی زبان، دوسری اصناف ادب کو منھ چڑاتی ہے۔ افسانے اور ناول کی زبان کے دوسرے تقاضے ہیں اور ڈرامہ زبان کی کسی اور دنیا میں پرواز بھرتا ہے۔ قصیدے، مرثیے میں تو ادیب وقلم کار کو آزدای ہوتی ہے کہ وہ اپنے قلم، تخیل کی بلند سطح اور تخلیقی صلاحیتوںکا جوہر دکھائے، کیوں کہ وہ دربار اور شاہ وقت کی فرمائش پر خواص کے لیے لکھا جاتا ہے، لیکن جب عوامی اسٹیج کے لیے ڈرامہ یا کوئی پاپولر لٹریچر لکھا جائے تو وہاں قلم کو بڑا سنبھل کر کاغذ کے سینے پر چلانا پڑتا ہے ۔ یہ عوام کے لیے لکھا جاتا ہے جس کے لیے سادہ اور سہل عوامی زبان کا انتخاب ناگزیرہوجاتا ہے۔ سائنسی مضامین اور تکنیکی اصلاحات کی تعلیم کے لیے زبان کے نتخاب کا الگ الگ تقاضا ہے، علمی اور تحقیقی مباحث اپنا الگ مزاج رکھتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی زبان بھی اپنی نزاکتوں، لطافتوں کا پاس ولحاظ کرنے کے بعد ہی مؤثر ترسیل کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہاں نہ خالص دلی کی آراستہ پیراستہ بیگماتی زبان کا سکہ چل سکتا ہے، نہ فسانئہ عجائب کی مسجع اور مقفی داستان اور نہ پریم چند کے ہوری اور گوبر کی مخصوص دیہاتی اور غیر معیاری زبان۔ عوامی ترسیل کی مملکت میں باغ وبہار جیسی سادہ اور شگفتہ بولی ٹھولی ہی حکمرانی کا فرض ادا کرسکتی ہے۔ ایک اچھے مواصلات کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مطلوبہ قارئین کی ذہنی سطح ، ان کے مذاق، ان کی علمی استعداد کا خیال رکھے، بلکہ ان کے عقائد اور ان کے انفرادی رجحانات کا بھی خاصا مطالعہ رکھے۔ پیچیدہ پیغام سامعین کے لیے درد سر ثابت ہوتا ہے ۔ کسی پیغام کو سمجھنے میں اگر سامعین کو ذہنی مشقت کا بار اٹھانا پڑے تو وہ ترسیل بے اثر شمار ہو گی۔ زبان کے بے ڈھنگے پن، اس کے ابہام اور پیچیدگی سے ہی پیغام میں الجھاؤ اور پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے زبان کے استعمال کے وقت دماغ کے سارے دریچوں کو کھولے رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
عوامی ترسیل کی زبان کا کوئی بندھا ٹکا اصول نہیں ہے کہ اس کی روشنی میں سورسِ((Source اپنا پیغام آسانی سے مرتب کرلے ۔ ترسیلی زبان کے مطالبات زمانے کی نیرنگیوں کے ساتھ ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ ترسیل کی دنیا میں وہی صحافی زندہ رہ سکتا ہے جو زمانے کی نبض شناسی کے ساتھ قارئین کے مطالبات اور ان کے مزاج ومذاق کے اعتبار سے اپنی صحافتی ذمے داریوں میں تبدیلی لاتا رہے۔ اگر اس نے ایک بندھے ٹکے اصول کے حصارمیں اپنی صحافتی شخصیت کو مقید کر لیا تو وہ اس پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ ایک لفظ جملہ ایک اوسط درجے کے قاری کے لیے مفید مطلب ہوسکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہی لفظ اور جملہ دوسرے شخص کے لیے بھی اتنا ہی مفید اور کامیاب ترسیلی ذریعہ ثابت ہو۔ زبان کا مقصد اپنے خیالات سے دوسرو ں کو متأثر کرنا اور متعلقہ کیفیت کو دوسروں تک پہنچانا ہے، بقول پروفیسر شاہد حسین:
’’زبان کا بنیادی مقصد کسی اطلاع،مفہوم، خیال، تجربے، واقعات، کیفیت یا صورت حال کی پڑھنے یا سننے والوں تک ترسیل کرنا ہے۔ اگر کسی تحریر یا تقریر میں ایسی زبان استعمال کردی جائے جو اس کے قاری یا سامع کی سمجھ میں نہ آئے، تو وہ تحریر یا تقریر بے مقصد ہوجاتی ہے۔‘‘( ابلاغیات ، ص:۱۴۳)
ترسیل کی زبان نہ صرف اپنے قاری کے مزاج اور مذاق کے مطابق تغیرپذیر رہتی ہے، بلکہ ترسیل کے متنوع ذرائع کی بساط پر بھی وہ اپنا جوہر اسی وقت دکھاتی ہے جب اس ذریعہ ترسیل کی رعایت کی گئی ہو۔ اخبارات کی زبان الگ ہوتی ہے ، ریڈیو کی زبان اپنے مطالبات کی دنیا کہیں اور بساتی ہے اور ٹیلی ویژن کی آمد نے تصویری صحافت کو اتنا مقبول بنادیا ہے کہ اس کی نیرنگیوں کے حساب سے ہی زبان اور مکالمہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ اخبارات کی زبان کا سادہ، غیر مبہم اور مشکل الفاظ سے مبرا ہونا ضروری ہے، ورنہ خیالات کی ترسیل کا عمل ادھورار ہ جائے گا۔ چودھری رحم علی ہاشمی نے بجا لکھا ہے:
’’نہ صرف خبروں، بلکہ پورے اخبار کی زبان سادہ، بے تکلف، زوردار اور دل نشیں ہونی چاہیے۔‘‘(فن صحافت، ص:۴۲)
رحم علی ہاشمی نے اخبارات اور مطبوعہ صحافت کے چوکھٹے میں یہ بات کہی ہے، لیکن کیا انھی اصولوں کا نفاذ ترسیل کے دیگر ذرائع پر نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تھوڑے فرق کے ساتھ یہی باتیں دوسرے ذرائع کے لیے بھی پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہیں۔اخبارات میں شائع ہونے والا کوئی مواد، یا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی وساطت سے نشر ہونے والا کوئی پروگرم عوام الناس کی ذہنی سطح اور ان کی قوت متخیلہ کے محدود دائرے کو مرکز نظر میں رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے، اس لیے ان شرائط کی پاسداری تمام قسم کے ذرائع ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ الفاظ اور نوشتہ حروف کی کتنی قدر وقیمت ہے اور کس طرح زبان کے مناسب استعمال سے ایک کامیاب مواصلات کار اپنے قارئین کو گرویدہ بنا سکتا ہے، اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:
’’الفاظ اخبار نویس(صحافی) کا سرماےئہ حیات وروزگار ہیں، دن رات انھی سے سابقہ پڑتا ہے۔ معنی اور مفہوم کے اعتبار سے الفاظ کا صحیح استعمال عبارت کو جلا بخشتا اور قاری کو خبر پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ لکھنے والے کی یہی صلاحیت اخبار( اور دوسرے ذرائع ابلاغ) کی مقبولیت میں اضافہ کرتی ہے۔ ‘‘(اردو صحافت: ترجمہ وادارت، ص:۲۷)
ادبی اور صحافتی زبان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ادبی تحریر لکھتے ہوئے نہ وقت کسی کا دامن تھامتا ہے اور کسی قسم کی پابندی عائد نہ ہونے کی وجہ سے سوچنے اور غور کرنے کی فرصت سے بھی ادیب کو نہیں روکا جاسکتا ۔ جب کہ صحافتی دنیا میں وقت کی قلت دامن گیر ہوتی ہے، ،ذرا سی تاخیر سارے ابلاغی نظام پر پانی پھیر دیتی ہے۔ یہاں نہ سوچنے اور غور وفکر کرنے کی فرصت اور نہ اپنی تحریروں کو ادبی چاشنی سے آمیز کرنے کا موقع۔ ادیب ایک خاص اور محدود طبقے کو نظر میں رکھ کراپنا قلم چلاتا ہے، تو صحافی کا دائرئہ ترسیل لامحدود اور ریسیور غیر معدود ہوتا ہے۔ عام طور سے اخبار نویس اپنی بات قارئین کے دلوں میں اتارنے میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے، تو ادیب اور قلم کار نسبتا اپنی خلاقانہ صلاحیت اور فن کاری کا نقش دوسروں پر قائم کرنے کے لیے قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ سید اقبال قادری ادبی اور اخباری زبان میں فرق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ادبی زبان فکر انگیز، خوب صورت، امتیازی اور جاذب نظر ہوتی ہے، جب کہ اخباری زبان پر لطف ،معلوماتی، جامع، سلیس اور عام فہم ہوتی ہے۔‘‘ (رہبر اخبارنویسی ، ص:۲۷۰)
اخباری زبان میں تو تھوڑی سی چھوٹ بھی دی جاسکتی ہے کہ اخبار کا سامع کم ازکم بنیادی تعلیم سے بہرہ ور ہوتا ہے، لیکن ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کوئی پروگرام نشر کرتے وقت سامعین اور ناظرین کی ذہنی سطح، ان کے عقائد، ان کے ذاتی رجحانات اور ان کی پسند وناپسند کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہوتا ہے، کیوں کہ ریڈیو کے سامعین یا ٹی وی کے ناظرین کاایک بڑا طبقہ وہ ہوتا ہے جو بنیادی تعلیم سے نہ صرف یہ کہ بہرہ ور نہیں ہوتا، بلکہ وہ راست تخاطب کو زیادہ اور سہل انداز میں زیادہ انگیز کر سکتا ہے۔ اخبارات میں اگر کوئی نامانوس اور مشکل لفظ نظر سے گزرے تو وہاں دوسروں سے استفسار، یا لغت دیکھنے اور غور و فکر کرکے یا اپنی قوت متخیلہ پر زور ڈال کر اس کا مطلب برآمد کیا جاسکتا ہے، لیکن ریڈیو میں یہ سہولت سرے سے ناپید ہے۔ ریڈیائی تحریر گفتگو اور بات چیت کا ذخیرہ ہوتی ہے۔یہاں تو الفاظ کمان سے نکلنے والے تیرکے مانندہوتے ہیں۔ ریڈیو کی زبان میں ربط اور منطقی ترتیب کو بھی کامیاب ترسیل میں بڑادخل حاصل ہے۔ جملے طویل نہ ہوں، کیوں کہ ریڈیوسے نشر کیے جانے والے پروگرام میں فورا اور بر وقت سمجھنے کی پابندی سے سامع مجبور ہوتاہے، سامع کو نہ لغت دیکھنے اور دوسروں سے دریافت کرنے کی فرصت، اس لیے ریڈیائی تحریر میں سلاست، ربط، سادگی اور وضاحت کا ہونا ازبس ضروری ہے۔ کمال احمد صدیقی نے ریڈیائی تحریر کی خصوصیات شمار کراتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا ہے :
’’بول چال کی اردو ہی براڈ کاسٹ کی زبان ہے۔ ریڈیو کی کہانی کے لیے منشی پریم چند کی اور گفتگو کے لیے مولوی عبد الحق کی نثر اعلی ترین معیاری زبان ہے۔ ‘‘(اردو اورعوامی ذرائع ابلاغ، ص:۱۵۰)
ٹیلی ویژن میں آواز اور عکس کا امتزاج ہوتا ہے، اس لیے وہاں آواز اور زبان کے ساتھ تصویری عکس بھی تفہیم اور ترسیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کو تصویری زیر وبم اور جسمانی نقل و حرکت کے تعاون سے قابل فہم بنایا جاسکتا ہے۔تصویر کی ایجاد نے الفاظ اور زبان کی اہمیت کو کم نہیں کیا ہے۔ رقص وموسیقی کے علاوہ سارے پروگرام زبان کے محتاج ہوتے ہیں۔ زبان ہی تصویری صحافت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ٹیلی ویژن کا کوئی پروگرام ایسانہیں ، جہاں زبان کے استعمال سے گلو خلاصی ممکن ہو۔ انجم عثمانی نے صحیح لکھا ہے:
’’سیریل ہو یا ڈراما، مباحثہ ہو یا خبریں، دستاویزی فلم ہو یا چند سکینڈ کا اناؤنسمنٹ وغیرہ ہر پروگرام کے لیے زبان کی ضرورت ناگزیر ہے۔ ‘‘( ٹیلی ویژن نشریات، ص: ۱۴)
اخبارہو یا ریڈیویا ٹیلی ویژن حتی الامکان یہ کوشش کرنی چاہیے کہ زبان روز مرہ کے الفاظ پر مشتمل ہو، کتابی زبان سے احتراز بہتر ہے، کیوں کہ اس میں کوئی علمی یا تحقیق مضمون ذہن نشیں کرنا مقصد نہیں ہوتا، بلکہ صرف معلومات اور اطلاعات سے قارئین کوباخبر کرنا ہے۔ایسے الفاظ کا انتخاب کریں جو سامعین او ر قارئین پر وہی اثر مرتب کریں جس کی ترسیل آپ کا ہدف ہے۔ سادہ اور سہل زبان کی تاکید سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ابلاغ کی زبان چاشنی اور دل چسپی سے بالکل عاری ہوجائے، یہ نکتہ ہمیشہ ملحوظ رہے کہ سادگی میں بھی غضب کی پرکاری ہوتی ہے، سادہ الفاظ اور روز مرہ کے جملوں کے ذریعے بھی بڑے معجزے رونما ہو سکتے ہیں۔ محاورے ، کہاوتیں، اشعار کے ٹکڑوں کا برجستہ استعمال زبان کی دل کشی اور جاذبیت پیدا کرتے ہیں۔ذرائع ابلاغ خواص کے درباری ترجمان نہیں، بلکہ یہ عوامی ادارے ہیں۔ کوئی بھی بات اتنی سہل زبان میں پیش کی جائے کہ کسی کی سمجھ سے بالا تر نہ رہے۔ میر کا یہ شعر عوامی ترسیل کے حسب حال ہے:
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
خلاصہ یہ کہ عوامی ترسیل کی زبان میں ان تمام طبقات کی ترجیحات اور تعلیمی قابلیت کا خیال رکھنا ۔ضروری ہے، جو ہمارا ہدف ہوتے ہیں، اگر ترسیل کے عمل میں ان امور کو اہمیت نہیں دی گئی، تو ترسیل کا عمل کامیاب، مؤثر اوربا معنی نہیں کہلاسکتا۔ عوامی ترسیل کی زبان کیسی ہو، اپنے ناقص مطالعے کی روشنی میں درج ذیل باتوں پر عمل درآمد کرنے کی سفارش کی جاسکتی ہے۔
۱۔ سادہ اور آسان الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ ۲۔الفاظ اور جملوں کی تکرار نہ ہو۔ ۳۔ مترادفات کا زیادہ استعمال نہ ہو۔ ۴۔ تحریر میں بے ربطی نہ ہو۔ ۵۔جملوں کی ساخت اور ترکیب بھی آسان ہو۔ ۶۔اضافت کا استعمال کم ہو۔ ۷۔جملے مختصر ہوں۔ ۸۔ صرفی ونحوی قواعد کی صحت کا خیال بھی ضروری ہے۔ ۹۔مروجہ اصطلاحیں مستعمل ہوں۔ ۱۰۔ عربی ، فارسی، سنسکرت اورانگریزی کے ان الفاظ کو نہ برتا جائے جو نامانوس اور مشکل ہوں۔
رابطے کا پتہ
*ABRAR AHMAD
ROOM NO, 21 LOHIT HOSTEL
JNU, NEW DELHI 110067

About admin

Check Also

یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس یوروپی ممالک میں اردو …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *