سمیع اللہ ملک

سپریم کورٹ نے احکام جاری کردیئے ہیں کہ اگلے تین ہفتوں میں حسین حقانی میموکی تحقیقات مکمل کی جائیں ۔اب اس کانتیجہ کیانکلے گامختلف سیاسی تجزیہ نگاراورمبصرین جواب ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں،تاریخ کے اوراق پلٹ رہے ہیں اوراس خدشے کااظہارکررہے ہیں کہ نکسن واٹرگیٹ سکینڈل کی طرح کہیں یہ زرداری حقانی میموگیٹ سکینڈل نہ بن جائے۔دنیاکے بیشترممالک کے لوگوں کے اذہان میں یہ منظرتازہ ہوتادکھائی دے رہاہے جب ۸اگست ۱۹۷۴ء کوسابق امریکی صدر نکسن نے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوتے وقت ا س مقدمے میں اپنی جان بچاتے ہوئے ان الفاظ کاسہارالیاتھا:”میں صدارت سے مستعفی ہونے کااعلان کرتاہوں،نائب صدرفورڈ صدر کے عہدے کاحلف اٹھائیں گے“ ۔ رچرڈنکسن پریہ الزام تھاکہ انہوں نے اپنے ملک کی ایک سیاسی جماعت کے خلاف سازش تیارکرتے ہوئے کچھ افرادکی گفتگوکوٹیپ کرنے کاحکم دیاتھا۔اس سے پہلے کہ کانگرس ان کامواخذہ کرتی انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے آئندہ کیلئے ملکی سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرلی۔

اس واقعے کی یاد اس لئے دہرائی گئی کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ میاں نوازشریف ملک کے دوسرے سیاسی رہنماوٴں کے ساتھ خود ملکی سلامتی اورجمہوری نظام کوبچانے کی استدعا کے ساتھ عدالت عظمیٰ پہنچ گئے کہ اس متنازعہ میموکی بھرپورتحقیقات کی جائے اوراس کے اصل ملزمان کوبے نقاب کیاجائے۔سپریم کورٹ میں بارہا”واٹرگیٹ اسکینڈل“اوراس سے متعلقہ امورکی بازگشت سنی گئی لیکن کیااس کامنطقی انجام بھی ویساہوگا،ابھی یہ کہناقبل ازوقت ہوگا۔ سپریم کورٹ میں ایک اہم سوال اٹھایاگیاکہ عدالت عظمیٰ اس سنگین معاملے کوکیسے حل کرے گی؟ اس اہم مقدمے کی کاروائی سننے کے بعدسپریم کورٹ نے دس نکاتی حکمنامہ جاری کیاجس پرعمل درآمدملک کے ہرادارے پرلازم ہے۔

۱۔صدر،وفاق،آرمی چیف،ڈی جی آئی ایس آئی،حسین حقانی اورمنصوراعجازاگلے ۱۵دنوں میں تحریری جوابات داخل کرائیں(۲)میمواسکینڈل کے شواہدجمع کرنے کے لئے تحقیقات اورتفتیش شروع کی جائیں(۳)طارق کھوسہ سے رائے لیکران کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنایاجائے،طارق کھوسہ اپنی معاونت کے لئے تفتیشی ٹیم تشکیل دیں(۴)کمیشن تین ہفتے میں تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔(۵)تحقیقاتی کمیشن معلوم کرے کہ میموسے کیافوائداٹھائے جانے تھے؟(۶)سیکرٹری کیبنٹ کی جانب سے طارق کھوسہ کوتمام سہولیات فراہم کی جائیں۔(۷)طارق کھوسہ پرمشتمل کمیشن تفتیش کے لئے بیرون ملک بھی جاسکے گا۔(۸)طارق کھوسہ کمیشن کے اخراجات کیبنٹ ڈویژن،داخلہ،خارجہ اوردفاع کی وزارتیں اٹھائیں گی۔(۹)حسین حقانی کے ملک سے باہرجانے پرپابندی ہوگی اور(۱۰)حسین حقانی کمیشن کی معاونت کریں گے۔

مندرہ بالا حکم نامے کی روشنی میں ملک کے ایک انتہائی ایماندار،فرض شناس افسر طارق کھوسہ کو اب اس معاملے کی چھان بین شروع کرنے کاحکم دیاگیاہے۔یادرہے کہ طارق کھوسہ ملک کے ان افرادمیں شامل ہیں جن کی ایمانداری اورلیاقت کے متعلق ان کے سخت ترین مخالفین بھی گواہی دیتے ہیں۔کمیشن کیلئے سب سے اہم اورمشکل کام اس میموکی صداقت کے بارے میں ہوگا کہ وہ اس کی جانچ پڑتال کیلئے کیااقدامات اٹھاتاہے اوراگراس میموکی صداقت ثابت ہوجاتی ہے توپھرحسین حقانی کومیمولکھوانے کیلئے کس نے حکم جاری کیا کیونکہ منصوراعجازجس کی وجہ سے یہ میمواسکینڈل سامنے آیاہے وہ بارہادوٹوک اندازمیں کہہ چکاہے کہ اس نے جب یہ پیغام امریکاکی قومی سلامتی کے سابقہ مشیرجنرل جونزکے حوالے کیاکہ وہ یہ میمو امریکی افواج کے سربراہ مائیک مولن تک پہنچادیں توانہیں اس بات کایقین تھاکہ یہ پیغام دراصل پاکستانی صدرآصف زرداری کی طرف سے ہے اوراس کی یقین دہانی اس کوحسین حقانی نے کروائی تھی۔

منصور اعجازنے برملامیڈیاکویہ بتایاکہ”میں نے پوچھاکہ کیااس میں باس کی منظوری شامل ہے یانہیں توانہوں نے کہاکہ مجھے یعنی حسین حقانی کومعاملے میں باس کی تائیدحاصل ہے ،حسین حقانی نے مجھ سے کہاکہ آپ یہ کام کردیجئے ،اب مجھے خبرنہیں کہ ان کامطلب یہ تھاکہ انہیں کچھ بھی کرنے کیلئے باس کامختارنامہ حاصل تھایامیمومرتب کرنے کیلئے انہیں باس کی منظوری حاصل تھی لیکن جنرل جونزکویہ میمودیتے وقت میں نے ان سے کہاتھاکہ صدرِ پاکستان نے اس پیغام کی منظوری دی ہے“۔منصوراعجازکے اس بیان میں یہ نکتہ انتہائی اہم ہے جس میں اس نے جنرل جونزکویہ بتایاکہ یہ پیغام دراصل صدرپاکستان آصف علی زرداری کی طرف سے ہے۔ اب اس کمیشن پریہ بھاری ذمہ داری عائدہوگئی ہے کہ اس میمو کی تہہ تک پہنچ کریہ ثابت کریں کہ کیاواقعی یہ حکم آصف زرداری نے دیاتھایاپھرحسین حقانی نے زرداری کانام استعمال کرتے ہوئے ملک وقوم کے ساتھ غداری کاارتکاب کیا۔

میں اپنے قارئین کواپنے کالم ”ننگ دیں،ننگ وطن دانشور“کاحوالہ دیناچاہتاہوں جو۲۱/اکتوبر۲۰۱۱ء کوشائع ہواتھاجس میں حسین حقانی کے متعصب یہودی ا سٹیفن اوردیگر یہودی تنظیموں سے قریبی تعلقات کاانکشاف بھی کیاتھاکہ یہ کس طرح یہودی رسا لوں ”Front Page/ Weekly Standard/ National review“ کیلئے لکھنے کے علاوہ ا مریکہ کے کیمپس میں “Islam of ascism”مہم کا حصہ بھی رہے جس نے امریکامیں مسلمانوں کوشدیدنقصان پہنچایا۔میمومیں لکھے گئے پیغام میں جس طرح ملک وقوم کے ساتھ غداری کاارتکاب کیاگیاہے اسکے بعد یہ کہاں گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ ملک کے اہم منصب پرایسے لوگ براجمان ہوں جوپاکستان کی نظریاتی سرحدوں کوکھوکھلاکرنے والوں سے نہ صرف امدادکے طالب ہوں بلکہ ان کوملک کے اندرایسی کاروائی کرنے کی دعوت بھی دیں جوملکی خودمختاری کوشدیدنقصان پہنچانے کے مترادف ہو۔

میموکاسب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستانی صدرکی طرف سے امریکی قیادت سے پاکستانی افواج کے خلاف کاروائی کی استدعاکی گئی ہے جہاں سانحہ ایبٹ آبادکے بعد فوجی قیادت کوہٹانے کاعندیہ دیاگیااورامریکاکواس کام کے بدلے میں پاکستان میں مختلف شرمناک اورلرزہ خیزرعائتیں دینے کی پیشکش کی گئی کہ پاکستان میں قومی سلامتی کی ایک نئی کمیٹی بنائی جائے گی جس کا سربراہ حسین حقانی کومقررکیاجائے گااوریہ کمیٹی ملک کے اندرامریکاکواس کے عزائم کی تکمیل میں مکمل معاونت کرے گی۔اس میمومیں چھ رعائتیں دینے کی پیشکش کی گئی:

(۱)پاکستان کی جانب سے اسامہ بن لادن اورالقاعدہ کے دیگراعلیٰ رہنماوٴں کوپناہ اورتعاون فراہم کرنے کے الزامات کے حوالے سے صدرِ پاکستان آزادتحقیقات کاحکم جاری کریں گے(۲)نائن الیون کمیشن کی طرزپروائٹ ہاوٴس تحقیقاتی پینل کے لئے خودمختارتفتیشی افسران کے نام تجویزکرسکتاہے(۳)تحقیقات مکمل آزادی اورذمہ داری کے ساتھ کی جائے گی جس کے نتیجے میں ایسے حقائق سامنے آئیں گے جوامریکی حکومت اورامریکی عوام کے لئے ٹھوس حیثیت رکھیں گے(۴)یہ تحقیققات اسامہ بن لادن کوپناہ اورتعاون دینے والے ایسے عناصرکوبے نقاب کریں گے جوپاکستانی حکومت کے سویلین،انٹیلی جنس اورفوجی حلقوں میں موجودہوں گے یاان سے قریب ہوں گے۔یہ بات یقینی ہے کہ متعلقہ حکومتی دفاتر اورایجنسیوں میں موجودایسے سرگرم افسران جواسامہ بن لادن کی حمائت یااعانت کے ذمہ دارہوں گے ان کوفوری برطرف کیاجائے گا۔یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ قومی سلامتی کی نئی ٹیم ایسی پالیسی نافذکرے گی جس کی مدد سے ایمن الظواہری،ملاعمر اورسراج الدین حقانی سمیت پاکستانی سرزمین پرموجودالقاعدہ یادیگردہشت گردگروہوں کی بچی کھچی قیادت کوامریکاکے حوالے کیاجائے گا۔اس کے علاوہ ایسے عناصر کوپاکستانی سرزمین پرگرفتار یاہلاک کرنے کے لئے امریکی افواج کوضروری کاروائی کرنے کی منظوری بھی دی جائے گی ۔امریکاکوحاصل مکمل اختیارکی گارنٹی سیاسی خطروں سے خالی نہیں ہوگی لیکن یہ قدم ہماری سرزمین کوبرے عناصر سے پاک کرنے کے لئے قومی سلامتی کی نئی ٹیم کے عزم کوظاہرکرے گی۔ملٹری انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ (Establishment)کوسب سے زیادہ خدشہ اورخوف یہ ہے کہ آپ(امریکا) کی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے باعث پاکستان کی فضائی حدودمیں آزادنہ آنے جانے کی صلاحیت کے باعث پاکستان کے جوہری اثاثے اب اصل ہدف ہیں۔ قومی سلامتی کی نئی ٹیم پاکستانی حکومت کی مکمل حمائت کے ساتھ جوہری پروگرام کیلئے ایک قابل قبول فریم ورک بنانے کیلئے تیارہے،اس کوشش کی ابتداسابقہ فوجی دورمیں کی گئی تھی جس کے نتائج قابل قبول تھے،ہم اس پرکام شروع کرنے کیلئے تیارہیں اوراس اندازمیں کہ پاکستانی جوہری اثاثے مزید شفاف اورٹھوس طریقہ کارمیں آجائیں(۵)قومی سلامتی کی ٹیم آئی ایس آئی کے سیکشن”ایس“کوختم کردے گی جس پرطالبان اورحقانی نیٹ ورک وغیرہ سے تعلقات کاالزام ہے،اس سے افغانستان کے ساتھ تعلقات ڈرامائی طورپربہترہوجائیں گے اورآخری چھٹانکتہ جس کی یقین دہانی کروائی گئی کہ قومی سلامتی کی نئی ٹیم کی رہنمائی میں ہم ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کے لئے بھارتی حکومت سے تعاون کیلئے تیارہیں،انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت ذمہ دارافرادچاہے غیرسرکاری ہوں یاسرکاری،ان کوٹھوس شواہدہونے کی بنیاد پربھارتی سیکورٹی فورسزکے حوالے کیاجائے گا،پاکستان کوانتہائی غیرمعمولی صورتحال کاسامناہے،ہم جمہوری نظام حکومت اورخطے میں بھارت اورافغانستان کے ساتھ بہترتعلقات بنانے پریقین رکھتے ہیں۔ہمیں اپنے اورآپ کے مفادات کے خلاف صف بندقوتوں کوان کی حدودمیں رکھنے کیلئے امریکی مددکی ضرورت ہے۔ہم آپ کویہ میموآپ کی حمائت کے ساتھ صدرپاکستان کی طرف سے تشکیل دی جانے والی قومی سلامتی کی نئی ٹیم کے ارکان کے طورپرپیش کررہے ہیں۔

یہ ہے میموکاوہ مضمون جس نے ملکی سلامتی کونہ صرف داوٴ پرلگادیاہے بلکہ قوم کے اس اعتمادکوبھی پارہ پارہ کردیاہے جن کی بدولت ان کوملک کے اہم مناصب سونپے گئے تھے اورانہوں نے اس میں خیانت کی ہے۔انتہائی اہم بات تویہ ہے کہ میموکی جوروح ہے اس سے پہلے بھی دوبارسامنے آچکی ہے۔مثال کے طورپرکیری لوگربل کے اندریہی بات دوسرے اندازمیں شامل کی گئی ہے۔اس میں کہاگیاتھاکہ” امریکا ہرسال باقاعدہ رپورٹ جاری کرے گاکہ حکومت پاکستان کس حدتک فوج پرموٴثرکنٹرول کااطلاق کرپائی ہے جس میں یہ تفصیلات بھی موجودہوں گی کہ فوجی بجٹ کی منظوری،چین آف کمانڈ،سنئیرفوجی افسران کی ترقی کے عمل،اسٹریٹجک حکمت عملی اورمشاورت میں سویلین شراکت داری اورسول انتظامیہ میں فوجی اثرورسوخ کے تعین کے معاملات کی سویلین قیادت اورپارلیمنٹ کس حدتک نگرانی کرپائی ہے“۔

اس سے پہلے بھی ایک انتہائی سنسی خیزبات اس سے جڑی نظرآتی ہے۔وہ ۲۸جولائی۲۰۰۸ء کاکیبنیٹ ڈویژن کانوٹیفکیشن ہے جس میں کہاگیاتھاکہ”آئی ایس آئی اورانٹیلی جنس بیوریو۱۹۷۳ء کے آئین کے مطابق پہلے وزیراعظم کواپنی رپورٹ پیش رتے تھے تاہم اب دونوں ادارے مکمل طورپروزارتِ داخلہ کے ماتحت کام کریں گے اوروزارتِ داخلہ کوہی رپورٹ کریں گے ،ان احکامات پرفوری عمل درآمدہوگا“۔یہ وہ امورہیں جن کی تحقیقات کیلئے طارق کھوسہ کواب اپنی جان لڑانی ہے اورقوم پرامیدہے کہ اگراس کے کام میں

روڑے نہ اٹکائے گئے توقوم کواس میموکی حقیقت کاجلد پتہ چل جائے گالیکن اس کاکیاعلاج کیاجائے کہ عدالتِ عظمیٰ کے حکم جاری کرنے کے بعد جس طرح بابراعوان نے اپنی پریس کانفرنس میں بغاوت کااعلان کرتے ہوئے سندھ کارڈکھیلنے کی دہمکی دیکرساری قوم کوششدرکردیاہے وہاں قوم سمجھ چکی ہے کہ اس میموکے پیچھے کس کاہاتھ ہے۔شائد اب قوم مزیددھوکاکھانے کیلئے تیارنہیں!

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *