Home / Articles / ہندو پاک کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ ہندستان

ہندو پاک کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ ہندستان

 پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی جانب سے کچھ عجیب و غریب حرکتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ کبھی امریکہ دونوں ممالک کو براہ راست نصیحت دیتا ہے تو کبھی دبی زبان میں دھمکی بھی ۔ لیکن یہ ضرور ہے براہ راست ہندستان کو امریکہ کوئی حکم صادر نہیں کر سکتا ۔لیکن پاکستان کو تو گاہے بگاہے ایسے احکام امریکہ کی جانب سے ملتے رہتے ہیں اور وہ اان پر عمل بھی کرتا ہے۔لیکن ادھر کئی ایسی مثالیں سامنے آئیں ہیں جن سے وہ ہندستان کو بھی اسی زمرے میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی تک امریکہ نے کوئی ایسی بات براہ راست ہندستان کو نہیں کہی ہے ۔ لیکن کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ وہ پاکستان کو نصیحت دیتے ہوئے ہندستان کو بھی شامل کر لیتا ہے اور اتنی عیاری سے بیانات جاری کرتا ہے کہ اگر اس سے باز پُرس کی جائے تو امریکہ آسانی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ بات ہندستان کے لیے نہیں تھی بلکہ پاکستان کے لیے تھی ۔ ہندستان کو امریکہ کی اس چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس پر یہ باور کرانے کی بھی ضرورت ہے کہ جب کو ئی اطلاع اسے ملتی ہے تو وہ اس کے ذارائع کیا ہیں ۔ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے امریکہ نے ہندستان کو آگا ہ کیا کہ اس کے ملک میں بالخصوص بڑے شہروں جیسے دہلی ، ممبئی اور بنگلور میں دہشگردانہ حملے ہو سکتے ہیں ۔ ہندستان نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا اور احتیاطی تدابیر اپنائے گئے ۔ اس طرح کی خبریں امریکہ بار بار ہندستان کو دیتا ہے ۔ یہ اچھی بات ہے لیکن اس سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ جب اسی کا شہری ہندستان میں دہشت گردی پھیلاتا ہے تو وہ اس شخص کو ہندستان کے حوالے کیوں نہیں کرتا ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اتنا سنجیدہ ہونے والا ملک خود اپنے دہشت گرد شہری ڈیوڈ ہیڈلی کی سر پرستی کیوں کر رہ اہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر سختی سے باز پُرس کی ضرورت ہے ۔ امریکہ کا تازہ ترین شگوفہ یہ ہےکہ بہت ہی جلد ہند وپاک کے مابین ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے ۔’’امریکی کمیشن نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے۔ اتفاقی جنگ کو روکنے کیلئے دونوں ممالک اقدامات کریں۔امریکہ کے جوہری عدم پھیلاؤ کمیشن کے سربراہ بوب گراہم نے کانگریس میں بیان کے دوران بتایا کہ سرد جنگ کے دوران روس اور امریکا نے اتفاقی ایٹمی جنگ سے بچنے کیلئے ہاٹ لائن قائم کرنے کے ساتھ کئی اقدامات کئے تھے جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا کچھ نہیں۔ بوب گراہم کا کہنا تھا کہ کشمیر یا کسی اور تنازعے پر اسلام آباد اور نئی دہلی میں کسی بھی وقت جنگ چھڑنے کے خدشہ ہے۔جنگ کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بوب گراہم کا کہنا تھا کہ ایٹمی جنگ سے بچنے کیلئے پاکستان اور بھارت کو ہاٹ لائن قائم کرنے سمیت کئی اقدامات کرنا ہوں گے۔’’ا ب ان اقدامت میں کون سے اقدامت ہوں گے؟ ظاہر ہے جب یہ دونوں ممانلک ان کی باتوں میں آجائیں گے تو پھر ان کی سُننی بھی پڑے گی اور وہ ایسے مشورے بھی دینے سے گریز نہیں کرے گا جس سے یہ دونوں ممالک اپنے ایٹمی اداروں کو ان کے حوالے کر دیں ۔ بات در اصل یہ ہے کہ امریکہ پورے طور پر پاکستان کے ایٹمی ہتھاروں پر تسلط کا خواہاں ہے اس لیے وہ پاکستان کو ہندستان کا نام لے کر ڈرانے کی کوشش کر رہاہے ورنہ ہندستان کبھی بھی ایسی حماقت نہیں کر سکتا ۔ پاکستان چونکہ گھریلو حالات سے بھی پریشان ہے اس لیے وہ مجبوراً امریکہ کی پشت پناہی چاہے گا ۔ دوسری جانب پاکستان میں طالبانی طاقتیں ایسی ایسی حرکتیں کر رہی ہیں جن سے امریکہ کو اور موقع مل رہاہے ۔طالبان کی مستقل دھمکی کے سبب امریکہ کی جانب سے طالبان کو نیست و نابود کرنے کی کوشش ہورہی ہے تو دوسری جانب طالبان ان کوششوں کو ناکام کرنے کی تمام حکمت عملی میں مصروف ہے ۔ اسی کی ایک کڑی یہ ہے کہ شمالی وزیرستان. تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے کہا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ اور حکومت نے 30 مارچ 2010 ء کو جنوبی وزیرستان میں آپریشن مکمل کرنے کا اعلان کرکے آئی ڈی پیز کو علاقے میں آنے کی دعوت دی تاہم آرمی کے اعلان کے برعکس ہم نے باقاعدہ طور پر یکم اپریل سے سوات ، دیر ، باجوڑ ، مہمند ، اورکزئی ،کرم اور جنوبی وزیرستان ایجنسی سمیت پورے ملک میں منظم آپریشن کا آغاز کردیا ہے ۔ جس کے واضح ثبوت پشاور میں امریکی قونصل خانے پر حملہ ، جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ ، جناتہ ، لدھا، کانی گرم ، بروند اور اورکزائی ایجنسی میں سیکورٹی فورسز کے کیمپوںپر حملے میں فوج کے اعلی افسران کی ہلاکتیں واضح ثبوت ہیں ۔ جنوبی وزیرستان کے کسی نامعلوم مقام پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اعظم طارق نے کہا کہ یکم اپریل سے آج تک سینکڑوں پاکستانی فوجیوں کو مختلف حملوں میںمارا گیا ہے ۔ اب امریکہ اور اس کے کارندوں کو کہیں پر بھی جائے پناہ نہیں ملے گی ۔ اعظم طارق نے کہا کہ محسود قبائلی کے آئی ڈی پیز کو حکومت دھوکہ دے رہی ہے اور محسود قبائل کو جنوبی وزیرستان میں ڈھال کے طورپر استعمال کرنا چاہتی ہے انہوں نے کہاکہ جنوبی وزیرستان سے پاکستانی فوج کو نکالنے کے بعد ہی محسود قبائل کے لیے علاقے میں امن قائم ہو جائے گا۔ اعظم طارق نے کہا کہ جلد ہی جنوبی وزیرستان سے آخری فوجی تک کا خاتمہ دنیا دیکھ لے گی ۔ ایک سوال کے جواب میں تحریک طالبان کے ترجمان نے کہاکہ بعض امریکی نواز اور مغربی میڈیا کے زیر اثر مبصرین ا ور حکومتی کارندے طالبان کے متعلق غلط رائے اور اندازے لگا رہے ہیں کہ طالبان اب پہلے کی طرح منظم نہیں ۔ اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ لیکن بفضل تعالی تحریک طالبان کا ہر رکن ایک ہی امی

ر کا تابع اور فرمانبردار ہے ۔ تمام کارروائیاں سوچے سمجھے منصوبوںکے تحت ہو رہے ہیں ۔ اعظم طارق نے پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے بارے میں کہا کہ پاکستان میں نیک اور محب وطن لوگوںکی کمی نہیں ۔ ایسے لوگوں اور سیاسی پارٹیوں کے ہم تہہ دل سے شکر گزار ہیں کیونکہ ایسی پارٹیاں کشکول توڑنے اور غلامی کی زنجیروں سے آزادی کے لیے جدوجہد میں دن رت ایک کرکے آزاد اور خود مختار اسلامی جمہوریہ پاکستان دیکھنا چاہتی ہیں تاہم بعض ایسی پارٹیاں اور لوگ ہیں جن کے ذہن اسلام دشمن اور ملک دشمن کارروائیوں کے لیے وقف ہے ۔ اعظم طارق نے اے این پی کا خصوصی طورپرذکرکرتے ہوئے کہا کہ اے این پی روسی تسلط کے خلاف جہاد کو امریکہ کا جنگ قرار دے رہی تھی اورخدائی خدمتگار اور اے این پی کے بانی باچا خان کو بھی پاک سرزمین پر دفنانے کی بجائے روس کے زیر تسلط افغانستان کے شہر جلال آباد میں سپردخاک کردیا ۔اب پاکستان کو توڑنے کے لیے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر مجاہدین کے خلاف زہر افشانی میں مشغول ہے ایسی پارٹیوں کے ساتھ ہزار بارصلح کے بعد بھی صلح ناممکن ہے اورا ے این پی کو معاف کرنے کی گنجائش نہیں ۔ اس کے علاوہ ابھی یہ فرمان بھی جاری کیا ہے کہ کسی فوجی کاروائی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان نے حکومت کو کسی بھی نئی فوجی کارروائی سے باز رہنے کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر اس نے کسی ایک گاؤں کا رخ کیا تو ایک بڑی جنگ کا امکان بڑھ جائے گا۔یہ دھمکی مجاہدین شمالی وزیرستان کی شوریٰ کی جانب سے صدر مقام میران شاہ میں قوم شمالی وزیرستان کے نام ایک ضروری اعلامیے کی صورت میں تقسیم کی گئی ہے۔ ایک صفحے کا ایک تحریری پیغام برطانوی ریڈیو کو بھی موصول ہوا ہے۔اس تحریر میں ’بڑی لڑائی‘ میں عام لوگوں کو نقصانات سے بچانے اور مقامی قبائل سے کرزئی حکومت کی منتقلی کے لیے ایک پرامن علاقے کی تشکیل کے لیے ایک جرگہ تشکیل دینے کی بھی بات کی گئی ہے۔شمالی وزیرستان میں طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کا کنٹرول ہے۔ تاہم اس علاقے پر اس سال کے آغاز سے امریکی ڈرون حملوں میں کافی اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اس تیزی کی بڑی وجہ طالبان کی جانب سے خوست میں سی آئی اے کے سات اہلکاروں کی ایک خود کش حملے میں ہلاکت کو قرار دیا جا رہا ہے۔اتوار کو جاری ہونے والے تحریری پیغام میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے حکومت کے ساتھ امن معاہدے کی مکمل پاسداری کی ہے اور ایک بھی راکٹ فائر کرنے یا بارودی سرنگ کا واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ تاہم طالبان نے شکایت کی کہ ’حکومت ان کی شرافت اور اعتماد کا غلط فائدہ اٹھا رہی ہے‘۔حکومت کی جانب سے امن معاہدے کی خلاف ورزیاں گنواتے ہوئے شدت پسندوں کا کہنا تھا کہ اس کی پہلی غلطی علاقے میں جاسوسی کا وسیع جال پھیلانا ہے۔ ’اس وجہ سے زیادہ تعداد میں مجاہدین کے ساتھ عام شہری بھی شہید ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جس کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے‘۔امن معاہدے کی دوسری خلاف ورزی فوج کا جانی خیل اور بکاخیل علاقوں سے نہ نکلنا ہے۔ بیان کے مطابق اس کے برعکس فوجی تعداد بڑھا دی گئی ہے اور عام لوگوں کے مکانات کی تلاشی لے کر انہیں بے عزت کیا جا رہا ہے اور ان کو تکلیف دی جا رہی ہے۔ بعض مکانات کو کارروائی میں مسمار بھی کیا گیا ہے۔خلاف ورزی نمبر تین علاقے سے چوکیوں کا خاتمہ تھا۔ بیان میں الزام عائد کیا گیا کہ تین چار چوکیاں علامتی طور پر ہٹائی گئی ہیں جب کہ باقی تاحال برقرار ہیں۔ ’ان چوکیوں پر ناقابل برداشت سلوک جس میں عورتوں سے شناختی کارڈ تک مانگا جاتا ہے‘۔طالبان کا کہنا تھا کہ حکومت ان غلطیوں کے ساتھ ساتھ کارروائیوں کی افواہیں اڑا رہی ہے۔ اس بابت انہوں نے ماچس گاؤں میں گزشتہ دنوں فوجی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بقول ان کے بے گناہ اور غیرمتعلقہ افراد کو ہلاک و گرفتار کیا گیا۔برطانوی ریڈیو کے مطابق پاکستانی فوجی ترجمان نے گزشتہ دنوں کم از کم ایک برس تک شمالی وزیرستان میں نیا محاذ نہ کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس اعلان پر طالبان کو یقین نہیں اور وہ حکومت کے خلاف اس تازہ چارج شیٹ سے واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو رہا ہے۔ اسی کے نتیجے میں انھوں نے رواں مہینے میں کئی ملک کے کئی حصوں میں خود کش حملے کرائے اور ان کی ذمہ داریاں بھی قبول کیں ۔ طالبان کی ان کاروائیوں اور حکومت کی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں عین ممکن ہے کہ ایٹمی ہتھیار بھی ان کے نشانے پر ہوں ۔ جیسا کہ طالبان کی جانب سے بھی بار بار یہ دعویٰ کیا جاچکا ہے ۔ اس لیے امریکہ کو اگر کوئی تشویش ہے تو اسے پاکستان کے حوالے سے ہونا چاہیے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو بچانے کے کے لیے کوئی تدبیر کرنی چاہیے اگر ایسا ہوجا تا ہے تو ایٹمی جنگ کا جو خطرہ ہے وہ بھی ٹل جائے گا۔

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *