Home / Socio-political / کیسے بھول جاؤ ں عا فیہ کو؟

کیسے بھول جاؤ ں عا فیہ کو؟

سمیع اللہ ملک

لندن

 

کیسے بھول جاؤ ں عا فیہ کو؟

آئینہ دکھائیں تو ا پنا مکروہ چہرہ دیکھ کر پتھر ما رنے لگتے ہیں ۔نقاب پوش سماج․․․․کوئی مذہبی نقاب پوش‘کوئی ماڈریٹ‘ کوئی لبرل اور پروگریسو نقا ب پہنے ہوئے ہے۔اصل کا تو دور دور تک پتہ ہی نہیں چلتا۔ڈھو نڈا کر ے کوئی‘جعلی‘سب کچھ جعلی․․․․رشتے بھی‘اخلاص بھی‘مروت اور ایثار بھی۔اور تو رہنے دیں عشق اور محبت بھی․․․اندر چور باہر چوکیدار۔طلب ہی طلب‘دینا کچھ نہیں‘لینا ہی لینا۔اپنا چہرہ نہیں سنواریں گے ‘آئینہ دکھاؤ تو پتھر ما ریں گے۔سب کچھ بکاؤ ہے۔ا پنے اپنے دام میں ‘لے لو جو کچھ لینا ہے‘بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں‘پورے یقین کے ساتھ۔بکاؤ ‘ہر جذبہ قا بل فروخت۔کوئی قرأت کے ساتھ گفتگو کر کے خود کو اچھا بتا تا ہے اور کوئی․․․․؟رہنے دیجئے‘بہت سوں کی پیشا نی پر بل پڑتے ہیں اور پھر جیبوں سے فتویٰ نکل آتاہے۔
ہر جا ایک کلب ہے۔ سب کے سب ایک سا کر تے ہیں‘بس لہجہ بدل جا تا ہے‘لباس بدل جا تا ہے‘خدوخال اور حلیہ بدل جا تا ہے‘اور پھر سب کے سب اپناکھیل کھیلتے ہیں۔کوئی دیوانہ للکار بیٹھے تو بہتان با ندھ دیتے ہیں ‘سب کے سب بلیک میلر۔معصومیت سے کھلواڑ کر نے وا لے‘کوئی پا گل سا منے آ کھڑا ہو تو ا پنے محل کو زمیں بوس ہوتا ہوا دیکھ کر سا منا نہیں کرتے․․․․بھا گتے دوڑتے ا لزامات کی با رش کر تے ہیں اور پھر قرأت کرتی گفتگوکر کے پکا رتے ہیں:اﷲ معاف کرے!
ہاں رب ہے وہ‘سمیع بھی بصیر بھی‘عادل بھی منصف بھی۔اخلاص درکار ہے اس کی بارگاہ میں‘اصل کا طالب ہے وہ۔جعل سا زی نہیں چل سکتی وہاں‘خود کو دھوکا دینا تو دوسری بات ہے ۔ایک دن تو اس نے متعین کر دیا ہے ناں تو پھر ڈرنا کیسا!ہو جاےء گا دودھ کا دودھ اور پا نی کا پانی۔یہی تو کہتا رہتا ہوں ‘یہی تو کر تا رہتا ہوں اور پتھر کھا تا رہتا ہوں‘یہی تو اعزاز ہے۔منافقت کی آنکھ کا پتھر اور دل میں کا نٹے کی طرح چھبنے والا۔خوشی ہو تی ہے مجھے․․․یہی ہے کام کر نے کا۔
مظلوموں کے حقوق کیلئے بر سر پیکار رہناہی تو زندگی ہے اور ہے کیا؟درندوں سے معصومیت کو بچانا‘اس سے بڑا اور کیا کام کیا ہے! رہنے دیجئے بہت مشکل کا م ہے‘اپنے لئے ایک پل بھی نہیں بچتا۔سب کچھ کھپ جا تا ہے اس میں‘کار عشق ہے‘دیوانوں کا کا م۔ہرکس وناکس کے نصیب میں نہیں ہے۔ہاں اپنا اپنا نصیبا ہے‘اب کیا کریں۔
کیا نہیں بیچا ہم نے؟اب اپنا مکرو ہ چہرہ مت چھپائیے۔سا منے آئیے‘بات کیجئے‘کیا نہیں بیچا آپ نے؟ا پنی تہذیب بیچی‘دین بیچ ڈالا ہم نے‘زمینی اثا ثوں پر ہزار با لعنت بھیجئے ناں آپ‘خود کو بیچ دیا‘غیرت بیچ دی‘نجا نے تھے بھی یا نہیں‘سب کی سب جعل سازی․․․․․․ٹھیک ہے اپنے تیر نکال لیجئے‘پتھرہاتھ میں لے لیجئے اور سنئے ذرا۔ا پنے کان بند کر لینے سے میری چیخیں ر کیں گی نہیں۔بہت دم ہے میرے پھیپھڑوں میں‘تم نے ا پنی ماں بیچ ڈالی‘بہن بیچ ڈالی اور اب تو معصوم ‘قرآن کی حافظہ بیٹی بیچ ڈالی معصوم بچوں سمیت۔۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر عافیہ کو اس کے معصوم بچوں سمیت غائب کر دیا گیاتھا۔غائب نہیں بیچ دیا تھاہم نے۔ایک خبر چھپی اور پھر سب کے سب غائب ‘پیچھا ہی نہیں کیا ہم نے‘کس نے بیچ دی ‘کون تھا وہ بے غیرت و بے حس اپنی ماں‘بہن اور بیٹی کو معصوم بچوں کے ساتھ بیچنے والا دلال ‘جس کوگارڈ آف آنرزدیکر ملک سے رخصت کیاتھاآپ نے۔مجھے معاف کیجئے دلا لوں کے بھی کچھ اصول ہو تے ہیں ‘ہاں طوائفوں کے بھی اصول ہو تے ہیں اور وہ اس پر سختی سے کاربند رہتی ہیں۔ہاں ہاں میں جا نتا ہوں ‘اسی دنیا میں رہتا ہوں‘اسی معاشرے کا حصہ ہوں ۔اصول ہوتے ہیں ان کے بھی!
یہاں بات کرو تو کہہ دیں گے کہ جنگل کا قانون ہے ‘کبھی دیکھا بھی ہے آپ نے جنگل ؟ہاں میں نے دیکھا ہے ‘بہت قریب سے نہیں ‘رہا ہوں وہاں میں ‘اس لئے کہہ رہا ہوں ۔کسی کتاب میں پڑھ کر نہیں کہہ رہا بلکہ اپنا تجربہ بتا رہا ہوں۔آپ وہاں کسی سانپ کو نہ چھیڑ یں ‘وہ آپ کے پاس سے گزر جائے گا ‘بالکل خا موشی سے ،ایک ہم ہیں کہ ہر کسی کو ڈستے رہتے ہیں۔جا نوروں کے بھی اصول ہیں‘رب کائنات کے اصول۔آپ کیوں بدنام کر تے ہیں جنگل کو! یہاں کوئی اصول نہیں ہے‘جعل سازی ہی جعل سازی ہے۔چھ سال بعد ہمیں ایک مرتبہ پھرڈاکٹر عافیہ یاد آگئی ہے ‘قصر فرعون نے اس پرسات بے بنیادالزامات لگاکر۸۶ سال کی قید کی سزاسنادی ہے۔کیااب تک ہم سب سوئے ہوئے تھے؟اب ایک مرتبہ پھراپنی جان چھڑانے کیلئے میڈیا پرجھوٹ بول رہے ہیں۔اب سب کے پیٹ میں مروڑ اٹھ گیا۔یہ جعل سازی نہیں تو اور کیا ہے؟
عافیہ صدیقی کی امریکی ترجمان نے عالمی میڈیا کے روبرویہ الزام لگایا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی سستی ‘نااہلی اورسازش کے تحت عافیہ اس حال کو پہنچی ہے۔کیا ان عقل کے اندھوں کوالزامات لگاتے ہوئے ذرہ بھر شرم نہیں آئی کہ ایک کمزورلڑکی کیلئے کیسے ممکن ہے کہ دہشت گردی کیلئے وہ اپنے تین معصوم بچوں کو لیکر افغانستان قندھارچلی جائے جب کہ اس کا سب سے چھوٹا بچہ صرف چندماہ کا اس کی گود میں ہو؟
یہ کیسابے ہودہ الزام ہے کہ عافیہ نے امریکی سپاہی سے بندوق چھین کراس پر گولی چلادی لیکن اس سے شدیدزخمی خود ہوگئی؟موقع سے کسی گولی کاکوئی خول یادوسرا کوئی ثبوت بھی نہ مل سکا؟کسی ڈی این اے کی رپورٹ میں ایسا کوئی شواہد فراہم نہ ہوسکا؟برطانوی نومسلمہ صحافی ایوان رڈلے نے اپنے ایک کالم میں عافیہ کی چیخوں کی دہائی دی ‘مسلمانوں کی سوئی ہوئی غیرت کوللکارہ تواس کو امریکا میں منتقل کردیا گیا۔فروری ۲۰۱۰ء میں مقدمے کی سماعت شروع کی گئی اوربالآخر سات مہنیوں میں اس کومجرم قرار دیکر اس کو آئندہ ۸۶سال کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے منتقل کرنے کافرعونی حکم سنادیا گیا۔حسین حقانی نے قدم قدم پرجھوٹ بول کرساری پاکستانی قوم کوکھلے عام دھوکہ دیا‘موجودہ حکومت نے بھی پاکستانی قوم کاشدیدمذاق اڑایا۔کیااہلِ اقتدارنے بارہاپاکستانی قوم سے عافیہ صدیقی کوواپس لانے کا وعدہ نہیں کیاتھا؟اب کون آپ کی باتوں پر یقین کرے گا؟آپ نے اپنی قوم کے یقین کوجھٹلایااورآج عالمی طور پرآپ پرکوئی یقین کرنے کوتیارنہیں؟
کسی سے کیا گلہ کریں‘وہ جومذہب کاچولا پہنے حکومت کے اتحادی بن کروزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ان سے یہ بھی نہ ہوسکا کہ وہ ایک ایسا بیان ہی دے سکتے کہ اگر ہماری بیٹی کوواپس نہ لایا گیا تو ہم ایسی وزارتوں پر لعنت بھیج کرحکومت کوچھوڑ دیں گے۔کیا صرف یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ہم نے عافیہ کے مقدمے میں سستی کی ہے!کیاکسی نے ایک مرتبہ بھی یہ کہاکہ اس جھوٹے مقدمے کواگر واپس نہ لیاگیا تو کراچی سے کنٹینروں کاجلوس افغانستان پہنچانے کی ذمہ داری سے ہم معذور ہیں؟نہیں کہاناں!اس لئے کہ عافیہ آپ کی بیٹی نہیں تھی بلکہ یہ توپاکستانیوں کی بیٹی تھی اورآپ کوتوپاکستان کااقتدارہی اس شرط پرعطاکیاگیاتھاکہ آپ نے سمندرپارفرعون کے تمام احکامات کی تعمیل کرنا ہے!
اپنے محلات میں گل چھرے اڑانے والے ہم سب۔بس کوئی قرأت کے ساتھ بات کرتا ہے اور کوئی․․․․ ․ الحمد ﷲ‘ما شا اﷲ‘ جزاک اﷲ کا ورد کر نے سے کچھ نہیں ہوتا جناب‘جان ہتھیلی پر رکھنا پڑتی ہے‘اور ہمیں اپنی جان بہت عزیز ہے۔یہ ہے وہ زندگی جس کیلئے ہم بہت ہلکان ہوئے پھرتے ہیں۔ہزار با ر لعنت ہو اس زندگی پر‘تھو کنا بھی نہیں چاہئے ایسی زندگی پر! چلئے سینے سے لگا کر رکھئے اس زندگی کو‘خود کو پا لئے پوسئے‘سانسوں کی آمدورفت کو ہم زندگی کہتے ہیں ‘ضرور کہئے‘اپنے جعلی پن کو سنبھال رکھئے‘وہ ہے کارساز‘وہ ہے مدد گار‘بس وہی ہے ۔ہم ہو گئے برباد ‘ہم امتحان میں نا کام ہو گئے‘جامعہ حفضہ کو بھول جا ئیے‘عا فیہ کو فراموش کر دیجیے‘بھول جائیے کشمیرکی مجبورومقہوربیٹیوں اورنوجوان شہداء کوجن کوبھارتی درندے دن رات بھنبھوڑ رہے ہیں۔
رب ہے مدد گار‘بس وہی ہے‘عا فیہ کو رہنے دیجیے‘وہ تو ا پنے رب کی عافیت میں چلی گئی‘ہم ما رے گئے۔اپنی فکر کیجیے۔آخر ایک دن وہاں حا ضر ہونا ہے جہاں زبان پر مہر لگا دی جائے گی اور آپ ہی کے اعضاء آپ کے خلاف گواہی دیں گے۔ایک فلم چلا دی جا ئیگی ‘ندامت اور شرمندگی سے اپنے ہاتھ تک چبا ڈالیں گے‘پسینے سے شرابور‘کوئی مددگار نہیں ہوگا‘جن کیلئے یہ سب کچھ کیا ہوگا وہ بھی آنکھیں پھیر کر ’’نفسی نفسی‘‘ کی گردان الاپ رہے ہوں گے۔عافیہ میری بچی!میں تمہیں کیسے بھول جاؤں․․․․․․․․․․․․․!
خدا کیلئے اب بھی جعل سازی سے باز آجاؤ۔ایک دن تو معین ہے․․․․․․․․․دودھ کا دودھ اور پا نی کا پانی ہو جائے گا۔
ہر نقاب فروش کا نقاب اتارا جائے گا۔کچھ نہیں رہے گا‘بس نام رہے گا میرے اﷲ کا
!
کچھ خواب ہیں ‘ جو نیند میں دیکھے نہیں جا تے            کچھ غم ہیں کہ چہرے سے نمایاں نہیں ہوتے
دل ہے کہ کبھی درد سے خالی نہیں ر ہتا             ہم ہیں کہ کبھی بے سر و ساماں نہیں ہوتے
 
بروزجمعتہ المبارک۱۴شوال المکرم ۱۴۳۱ھ۲۴ستمبر۲۰۱۰ء
لندن

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *