Home / Socio-political / چراغ با نٹتا پھرتاہے

چراغ با نٹتا پھرتاہے

چراغ با نٹتا پھرتاہے

سمیع اللہ ملک

لندن

ایک طاقتور اور مرکز کی محافظ فوج معتصم بااللہ کا خواب تھا۔ایک ایسی فوج جو وسیع وعریض عباسی سلطنت کو اپنے رعب و دبدبے سے قائم رکھے سب کو مرکز کا باج گزار بنائے اور دلوں میں پیدا ہونے والی نفرتوں کو زور بازو سے کچل دے۔اب تک عباسی خلافت اپنے دو اجزائے ترکیبی عرب اور ایران سے سپاہیوں کو بھرتی کرتی یا پھر انہیں علاقوں کے لوگوں کی طاقت، ہمت بلکہ علم و دانش پر بھی انحصار کرتی۔ لیکن اپنے باپ ہارون اور بھائی مامون سے مختلف یہ شخص طاقت و اقتدار کو بزور شمشیرنافذ کرنے کا قائل تھا۔ باپ نے اس کو علم کی طرف راغب کرنے کے لئے ایک غلام اس کے ساتھ لگا رکھا تھا جس کے پاس کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی جو اسے پڑھاتا رہتا۔ لیکن کچھ عرصے بعد اس غلام کا انتقال ہوگیا تو ہارون الرشید نے کہا معتصم تمہارا غلام مرگیا تو اس نے جواب دیا کہ غلام بھی مرگیا اور کتاب سے بھی مجھے چھٹکارا حاصل ہوگیا۔

ہارون نے یہ جواب سنا تو کہا اسے پڑھانے لکھانے کی ضرورت نہیں کہ نہ اس کارجحان اس طرف ہے اور نہ ہی یہ اس قابل۔ علم کے لئے میرے بیٹے مامون اور امین ہی بہتر ہیں۔یوں اپنے باپ کی عین پیشن گوئی کے مطابق وہ بادشاہ بننے تک علم کی دولت سے بہت حد تک محروم ہی تھا۔ ایسے کم علم لوگوں کا ایک خاصا ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی کچھ ایسے انوکھے اور نرالے کام ضرور کرتے ہیں کہ ان کی طرف لوگوں کی توجہ کھینچ آئے۔کبھی کبھی وہ ان غیر مقبول اور انوکھے نظریات رکھنے والے اصحاب کو اس لیے بھی پذیرائی دیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی جہالت پردے میں چلی جاتی ہے معتصم نے بھی ایسا ہی کیا اسی کے دور میں مسلم امہ میں پہلی دفعہ روشن خیالی کی سرکاری سرپرستی شروع ہوئی۔مسئلہ خلق قرآن اس کے دور کی اختراءتھی اور اس کی سرپرستی یوں کی گئی کہ تمام حکام کو احکام بھجوائے گئے کہ بچوں کا مروجہ نصاب تبدیل کر کے کہا گیا کہ اس میں شامل کیا جائے کہ قرآن مخلوق ہے۔ اس راستے میں جو اللہ کا نیک بندہ، عالم، فاضل یا فقہیہ آیا اس کا راستہ اس طاقتور فوج سے روک دیا گیا جسے معتصم نے اقتدار میں آتے ہی ترک غلاموں پر مشتمل ترتیب دیا تھا۔

اکثر کے سر قلم کردئیے گئے،اور بہت سے جیل خانوں کی تاریکیوں میں دم توڑ گئے۔یہ فوجی سیکورٹی کے نام پر گھوڑوں پر سوار زناٹے بھرتے بازاروں میں گھومتے،لوگوں کو اذیتیں دیتے اور راہ چلتوں کو عبرت کا نشان بناتے ۔یہی وہ دور تھا جب اہل بغداد نے معتصم سے کہا آپ ان اجڈ اور گنوار ترک فوجیوں کو روکیں ورنہ ہم آپ کے خلاف خروج کریں گے تو وہ زور سے مسکرا دیا اور کہا تم کس سے لڑو گے ہتھیار تو سارے شاہی فوج کے پاس ہیں۔بے بس اور نہتے اہل بغداد نے کہا ہم آہ سحر گاہی کے تیروں سے تیرا مقابلہ کریں گے۔ان آہ سحر گاہی کے تیروں میں سے ایک تیر احمد بن حنبل بھی تھے جو لوگوںکی دعائے نیم شبی کے نتیجے میں اسلام کی اس بے لگام روشن خیالی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ جیل، کوڑے،بازاروں میں گھسیٹنا،مار مار کر پورا بدن لہو لہان کردینا۔ کیا کچھ نہ ہوا لیکن اس مردحر کے پایہ استقلال میں لرزش تک نہ آئی۔

لیکن اس طاقتور اور مرکز پرست فوج نے اول اول تو تمام علاقے میں اپنی طاقت بزور شمشیر دکھانے کے لئے ظلم کابازار گرم کردیا۔لیکن تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ پھر یہ مضبوط اورمستحکم فوج اس قدر مستحکم ہوگئی کہ انہوں نے خلیفہ کاحکم تک سننے سے بھی انکار کردیا۔جس علاقے کے لوگوں یا حاکم کو چاہتی غدار اورخلافت کا باغی تصور کرتی اور ایکشن کردیتی۔ کتنے ہی خلیفہ ایسے تھے جنہیں اس فوج نے تخت سے اتارا اور اپنی مرضی کا خلیفہ مقرر کیا۔بعض کو تو اس قدر سیکورٹی رسک سمجھا گیا کہ ان کو قتل کردیا گیا۔

طاقتور، فوج، روشن خیال درباری اشرافیہ اور مرکز کی مضبوطی اور استحکام یہ تین ایسے تحفے تھے جو معتصم نے عباسی خلافت کو پیش کیے اور اس کے زوال کی بنیاد رکھ دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری امت مسلمہ پر حکمرانی کرنے والی عباسی خلافت کے ٹکڑے ہونے لگے۔ جنوبی ایران میں یعقوب صفار کی سربراہی میں صفاری حکومت قائم کردی گئی۔جازندران کے علاقے میں علوی سیدوں نے طبرستانی حکومت کااعلان کردیا۔ مصر میں ایک ترک احمد بن طولون نے دولت طولونیہ کے نام پر مصر اور شام میں خود مختاری حاصل کرلی۔ موصل اور حلب میں عربوں کے صمرانی قبیلے نے آل صمدان کے نام سے سلطنت کی بنیاد رکھی دی۔ گورگان کے علاقوں میں دولت زیاریہ اور مصر کے کچھ علاقوں میں دولت شیدیہ قائم ہوگئیں اور طاقتور فوج بغداد تک محدود ہوگئی اور روشن خیال مذہبی افکار بھی اسی دربار میں زیر بحث آتے رہے۔یہی مضبوط مرکز جس کو لوگوں کی فلاح کی بجائے طاقتور فوج سے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ایک تا تاریوں کے گھوڑوں کی سموں کے نیچے یوں کچلا گیا کہ دجلہ اور فرات کا پانی کئی دن تک خون سے رنگین ہوگیا، علم و ادب کے مراکز جلا کر خاکستر کردئیے گئے اور لاکھوں کتابوں کی راکھ بستیوں میں اڑتی رہی۔آہ سحر گاہی کے تیروں سے جنگ کرنے والوں پر وہ قیامت ٹوٹی کہ بازاروں میں مسلمانوں کا خون اس قدر تھا کہ گھوڑوں کی ٹانگیں بھیگتی تھیں۔ایسے میں ہلاکوشہر میں داخل ہوا تو ایک عورت نے جسے اپنی آہ سحر گاہی اور بددعا پریقین تھا اس نے ہلاکو کے گھوڑے کی لگام تھام کر کہا۔میں تمہیںبددعا دیتی ہوں کہ اللہ تم پراپنا عذاب نازل کرے۔ ہلا کو مسکرایااور بولا اے عورت اللہ کا عذاب تو میں خود ہوں جو تم لوگوں پر نازل ہوا ہے۔

پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائیں تویوں محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں بعد تاریخ خودکودہرارہی ہے۔ایسی کون سی آفتاد ہے جس کا سامنا اس وقت وطنِ عزیز کو نہیں۔پچھلی ایک دہائی سے وار آن ٹیرر کے نام پرجاری عذاب سے ابھی چھٹکارہ نہیں ملاتھا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں اورہولناکیوں نے سارے ملک کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ابھی سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں اوردن بدن اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ ملک میں ایک اورسیاسی انتشار پیدا کرکے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی پیہم کوششیں شروع ہو گئی ہیں اورہمیشہ کی طرح کراچی کی ایک لسانی جماعت ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے لندن میں بیٹھ کراپنے مغربی آقاوں کے اشارے پر پاکستانی فوج کوملک میں مارشل لاءلگانے کی دعوت دیتے ہوئے اپنی پوری حمائت کا یقین دلایا ہے۔

اس لسانی جماعت کے قائدکا حالیہ دنوں میں امریکی اورمغربی ممالک کے سفارتی اہلکاروں سے ملاقاتوں کے تناظر میں اس بیان کے مضمرات کا بخوبی پتہ چلتا ہے کہ ا لطاف حسین نے کن کے اشاروں اوراپنی پشت کے تحفظ کی یقین دہانی کے بعدمنہ کھولاہے۔انہوں نے اس بیان میں ایک تیر سے کئی شکار کھیلنے کی خطرناک سازش کی ہے۔ایک طرف انہوں نے فوج کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ پر سخت نالاں ہے۔ ابھی حال ہی میں ایم کیوایم کے گرفتاردہشت گردوں کے اعترافات کے بعد ایک دفعہ پھر اس جماعت کے خوفناک اوروطن دشمن چہرے کانقاب تارتاراورقول وفعل کا کھلاتضاد سامنے آیا ہے۔

ایم کیوایم گلستان جوہرسیکٹرکے ڈیتھ اسکواڈکے انچارج شارق نفیس عرف شیری نے اس جماعت کی سفاکی کااعتراف کرتے ہوئے کہا کہ لندن سے شاہدنامی شخص ٹارگٹ کلنگ اورقتل وغارت کےلئے ا لطاف حسین کے پیغامات ہم تک پہنچاتاتھاجس میں اس کے دیگر ساتھی عمران اوراکرم بھی شامل تھے اوران تمام قتل و غارت کے کاموں کی نگرانی عدنان نامی کے سپرد تھی ۔انہوں نے جہاں سینکڑوں بے گناہ پشتونوں اوردیگر سیاسی جماعتوں کے افراد کا قتلَ عام کیا ہے وہاں انہوں نے اپنی جماعت کے ان باغی ا فراد کو بھی قتل کرکے اس کی ذمہ داری دوسری سیاسی پارٹیوں پرڈال دیا کرتے تھے۔ اس طرح حال ہی میںایم کیوایم کے رکن صوبائی اسمبلی رضاحیدر کے قتل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔دراصل ایم کیوایم کسی بھی قیمت پر کراچی میں کسی اورسیاسی جماعت کا بیس کیمپ قائم دیکھنے کوتیار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے ۵۲برسوں سے جماعت اسلامی‘ایم کیوایم حقیقی اوراے این پی کے خلاف اس کی دہشت گردی اس بات کا بڑا ثبوت ہے جس میں وہ اب تک ہزاروں مخالفین کوقتل کرچکی ہے۔

الطاف حسین کے اس بیان کے بعداب کئی نئے سوالات جنم لینا شروع ہوگئے ہیں کہ کیا امریکا اورمغربی ممالک جو پچھلے چندسالوں سے ایم کیوایم پربے پناہ نوازشات کے ساتھ اس کی پرورش میں مصروف ہیں اب اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلئے کراچی کو بیروت بنانے جارہے ہیں جس کااندیشہ موجودہ حکومت کے اہم رہنما اوروزیر نبیل گبول نے کیا ہے ؟لندن میں ایم کیوایم کے مرکزی دفتر میں الطاف حسین اور پاکستان میں امریکی قونصل جنرل کی تین گھنٹے کی طویل ملاقات کے بعد اس بیان کا منظرعام پرآنااپنے اندر بہت سے خدشات کویقین میں تبدیل کرتا ہوا نظر آرہاہے۔اس سے پہلے پاکستان ایسے ہی حالات میں اپنا مشرقی بازو گنواچکا ہے اوراس سلسلے میںپاکستان میںامریکی سفیر فارلینڈ کی درپردہ سازشوں کے چونکا دینے والے احوال سے قوم ابھی تک واقف ہے جہاں برسوں بھارت نے مجیب الرحمان کی پرورش کی اوربالآخر ملک میں انارکی پیدا کرکے ملک کے ایک حصے کو ہم سے الگ کردیا گیا۔

 امریکا کو پاکستان کے استحکام سے کوئی دلچسپی نہیں البتہ اس حد تک کہ وہ طالبان کے خلاف امریکی منصوبوںمیں ایک سرگرم اورفرمانبردارپیادے کاکام کرتا رہے۔ایک پاکستانی اخبارنے اہم سفارتی حوالے سے خبرنشر کی ہے کہ کچھ امریکی حکام نے پاکستان میں اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانے کےلئے سیلاب کے دوران رفاہی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ”شٹ اپ کال“دیتے ہوئے منع کردیا گیاکہ سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کی کمزوری اسے امریکا کے آگے مزیدجھکنے پرمجبور کرے گی۔دراصل امریکا پاکستان میںمشرف کی طرح”ون ونڈوآپریشن“چاہتے ہیں جہاں انہیں صرف ایک آدمی سے معاملہ کرنے میں آسانی ہو۔پاکستان جیسے منتشرافکاررکھنے والے جمہوری نظام میں سب لوگوں سے ایک رفتار میں کام لیناان کےلئے خاصامشکل ہے جبکہ وہ اپنی افوج کو افغانستان سے نکالنے کےلئے پاکستان میں کسی ایسے نظام کے خواہاں ہیں جومشرف کے طرزحکومت جیسا ہو۔

ایک افواہ یہ بھی سرگرم ہے کہ اپنے اس منصوبے کی تکمیل کےلئے پچھلے دنوں اہم فوجی شخصیت اورالطاف حسین کی ملاقات کا اہتمام دبئی میں کیاگیا جس کے بعد آجکل پاکستان کے چند ڈرائنگ رومز میں ایسی خبروں نے بھی جنم لیا ہے کہ اب فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ اس ملک کوسیاسی لیڈروں نے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اوروہ اس ملک کو چلانے کے اہل ثابت نہیں ہو سکے اس لئے چند محب وطن جرنیلوں کی مددسے اس ملک میں ایک خاص مدت کےلئے ٹیکنوکریٹ کی حکومت قائم کردی جائے ۔ پچھلے دوسالوں میں عوام کے دلوںمیں اپنی فوج کیلئے بے پناہ احترام پیدا ہواگیا ہے اوربالخصوص سیلاب کی تباہ کاریوں میں پاکستانی افواج نے اپنی شب وروز کی خدمات سے لاکھوں افراد کومحفوظ مقامات پر پہنچااوراپنے حصے کی خوراک کی قربانی دیکر ان کے دلوں میں محب و احترام کا جذبہ پیدا کرلیا ہے جس کا اعتراف تقریباً ساری دنیا میں کیا جارہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کی شاہ خرچیاں،کرپشن،مہنگائی نے عوام کا جینادوبھرکردیا ہے اوریہ بات بھی اب کھل کرسامنے آگئی ہے کہ حکومت کے کئی بااثر لوگوں نے اپنے فارم ہاوس،اپنی زمینیں اورحویلیاں بچانے کےلئے سیلاب کا رخ غریب اور بے بس لوگوں کے دیہاتوں اورشہروں کی طرف موڑدیا جس سے لاکھوں متاثرہ پاکستانی اپنی عمربھر کی کمائی سے محروم ہوگئے ہیں۔غیرملکی آقاوں نے ان حالات میں مناسب سمجھا کہ لسانی جماعت کے رہنماءکو میدان میں اتارا جائے ۔سفارتی ذرائع کا کہنا تھاکہ امریکی اپنی اس چال کی کامیابی کا فی الحال انتظار کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں جب بھی پاکستان میں مارشل لاءلگے گاتوفوجی حکومت کودنیابھر سے اپنی حیثیت منوانے کےلئے اسے قانونی ،اخلاقی اورمالی مدددرکارہوگی ،عالمی مالیاتی اداروںاورمغربی ممالک کی حمائت کےلئے بھی امریکی آشیربادکی ضرورت ہوگی اوریہ امدادامریکا کی معاونت کے بغیر انہیں کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتی ،اس طرح وہ پاکستان کی افواج کواپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کےلئے استعمال کرسکتے ہیں۔

ایک طرف ایم کیوایم کواس بات کاخوف ہے کہ سندھ کی موجودہ حکومت سیلاب زدگان کی ایک بڑی تعداد کوکراچی اورحیدرآبادکے شہری علاقوں میں کھپاکراپناووٹ بینک مضبوط کرکے مستقبل میں ایم کیوایم کو سیاست سے باہر کردے گی اس لئے ایم کیوایم اپنی سیاسی برتری کوقائم رکھنے کےلئے سارے ملک کوداو پرلگانے سے کبھی دریغ نہیں کرے گی،یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم سیلاب زدگان کی مدد میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہی یہاں تک کہ کراچی میں لگنے والے کیمپوں کادورہ تک نہیں کیا۔اب وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ سیلاب زدگان کی مزید تعداد کو روکاجائے اورجوآگئے ہیں ان کو ایک ماہ کے اندر واپس ان کے علاقوں میں بھیجاجائے جس کےلئے انہوں نے یہ مخاصمانہ پروپیگنڈہ بھی شروع کردیا ہے کہ ان سیلاب زدگان میں دہشت گردوں کی ایک بڑی تعدادبھی موجود ہے جو کراچی کے امن وامان کو تباہ کرنے کی سازش میں مصروف ہیں تاکہ اس پروپیگنڈہ کی آڑ میں مستقبل میں ٹارگٹ کلنگ کوان کے کھاتے میں ڈال کر خود جرم کرنے کے باوجود معصوم بنی رہے۔ اس لئے لندن اورکراچی میںمشاورت کے بعدپارٹی قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ براہِ راست اس موضوع پربات کرنے سے گریز کیا جائے اوراپنی اتحادی حکومت کو مسلسل دباو میں رکھاجائے۔

ایم کیوایم پچھلے ۵۲سالوں سے ہرحکومت میں اقتدارکے جی بھر کے مزے لوٹ رہی ہے چاہے وہ جمہوری سیٹ اپ ہویافاسق کمانڈو مشرف کاغاصبانہ دورِ حکومت ہو۔اب تک ہرحکومت سے بے پناہ فوائد حاصل کرنے کے بعد انہوں نے یہ جان لیا ہے کہ اب مزیدمراعات حاصل کرناممکن نہیں ۔اس حکومت سے جوفائدہ اٹھایاجاناتھا،اٹھالیاگیا ، اب یہ بوجھ ہے اس لئے اس سے اپنی جان چھڑاکرخودکوایک دفعہ پھر ڈوبتے جہازسے باہر چھلانگ لگالی جائے۔تاہم ابھی تک ایم کیوایم کراچی کی قیادت شدیدمخمصے میں ہے کہ اگرحکومت سے علیحدگی اختیار کی گئی توپھر پارٹی کوایسے خوفناک آپریشن کاسامنا کرناپڑے گاجواس کی برداشت سے باہر ہوگا۔

اوردوسری طرف سندھ حکومت کے وزیرِداخلہ کے اس بیان کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے جب زرداری کی حمائت میں انہوں نے سندھ کارڈ کھیلنے کی کھلی دھمکی دی تھی اوراب کراچی کے امن و امان کے ابتر حالات نے بھی ان کے دعوے کی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔ان تمام خطرات کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ ملک کے عسکری ادارے جنہوں نے بڑی محنت کے ساتھ اپنی ساکھ بحال کی ہے ،اس بیان کا نوٹس لیتے ہوئے ایسے عوامل کی سازشوں کامنہ توڑ جواب دیں کہ اب گیند ان کی کورٹ میں ہے۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ معتصم کو آہ سحرگاہی کے تیروں سے ہلاک کرنے والے اپنے نہتے ہاتھوں کو تلوار اور سینوں کو ڈھال بنا لیتے تو ہلاکو کو اس عورت کی بددعاپر ہنسنے کا موقع نہ ملتا ۔قومیں جب ایسی طاقتور فوج، اس طرح کی روشن خیالی اور لوگوں کے دکھوں اور مصیبتوں سے بے نیاز مضبوط مرکز کی خواہش پر صرف بددعا اور آہ سحرگاہی تک محدود ہوجاتی ہیں تو پھر ہلاکو کا قول سچ ثابت ہوتا ہے اوراس کی گواہی سید الانبیاءکی مسند احمد کی یہ حدیث دیتی ہے:آپ نے فرمایا”اللہ عام لوگوںپر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نہیں کرتا جب تک ان میں یہ عیب پیدا نہ ہوجائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اور انہیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو اللہ عام اور خاص سب پر عذاب نازل کرتاہے۔اے میرے رب !تیری رحمت کاواسطہ دیکرتیرے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں ۔اے ہمارے کریم ورحیم رب!ہماری دعاوں کوقبول فرما۔ثم آمین

شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ جو شخص

چراغ با نٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *