Home / Articles / پاکستان اور ہندستان کے رویےاور مذاکرات

پاکستان اور ہندستان کے رویےاور مذاکرات

 

            شرم الشیخ کے مذاکرے میں ہندستان کی جانب سے جس کشادہ قلبی کا مظاہرہ کیا گیا اس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید پاکستان اب سنجیدگی سے اس جانب متوجہ ہوگا کیونکہ پاکستان میں جو خانہ جنگی کی صورت ہے اور جس طرح طالبان کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے ، اس سے پاکستان کو جس اقتصادی بحران اور سیاسی ابتری کا سامنا ہے شاید اس سے سبق لے کر وہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں خلوص کے ساتھ مثبت رویہ اپنائے گا ۔ لیکن ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ پاکستان کے وزرا اور سیاست دانوں کی جانب سے یہ بیان آنے لگا کہ بلوچستان میں ہندستان کی جانب سے مداخلت کی جارہی ہے ۔ جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ انفارمیشن کے اس دور میں کوئی بات چھپی نہیں رہتی ہے اگر خدا نخواستہ ایسا ہوتا تو عالمی میڈیا او ر خود امریکہ بھی اس کی شکایت کرتا مگر سوائے پاکستان کے اور کہیں سے کوئی بات نہیں ہورہی ہے ۔ لیکن پاکستان نے اپنی سرزمین کو ہندستان کے خلاف کس طرح استعمال کیا یہ ساری دنیا جانتی ہے۔پاکستان کی ان باتوں میں ذرا بھی سچائی نہیں ہے ، یہ صرف مذاکرات کے عمل کو متاثر کرنے کا ایک بہانہ ہے ۔سچائی یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی کسی مذاکرے کے بعداعلامیے کے نکات پر عمل کرنے اور آگے بڑھنے کے بجائے اس کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف باتیں تو کرتا ہے اور یہ بھی وعدہ کرتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا ۔ لیکن دوسری جانب رویہ یہ ہے کہ اجمل قصاب کے معاملے میں تمام شاہد اور اقبالیہ جرم کے بعد بھی پاکستان کا رویہ ٹال مٹو ل کا ہی رہا ہے ۔ شرم الشیخ کی ملاقات کے بعد بھی ہونا یہ چاہیے تھا کہ پاکستان ان خطوط پر آگے بڑھنے کی سوچتا مگر اب ہندستان پر بلوچستان کے معاملے میں دخل اندازی کو الزام لگا کر نہ صرف ہندستان کو الجھانا چاہتا ہے بلکہ دنیا کا دھیان بھی بانٹنے کی کوشش میں ہے ۔ پاکستان کے اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ آج تک کوئی مذکراہ کامیاب نہیں ہوا

            مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہندستانی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے مابین ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں وزرا اعظم کی ملاقات مثبت اور تعمیر ی رہی ہے۔ اس میں تمام متنازعہ امور بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے اور دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا ہے کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کے لیے خطرہ ہے اس کا مل کر مقابلہ کیاجائے گا اور دونوں ممالک اپنی اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ غربت کے خاتمے اور ترقی کیلئے علاقائی سطح پر تعاون کو فروغ دینے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے

کیلئے معلومات کے تبادلے پر بھی اتفاق ہوا ہے اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ دونوں ممالک کے سیکرٹری خارجہ جلد ملیں گے اورر پورٹ تیار کریں گے اس کے بعد دونوں ممالک کے وزرا خارجہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات کریں گے تاہم سیکرٹریوں کی ملاقات کی تاریخ اور جگہ کا تعین نہیں کیاگیا اس کا تعین بعد میں ڈپلومیٹک چینل کے ذریعے کیا جائے گا۔ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ہندستانی وزیراعظم نے کہاکہ ممبئی حملوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے دہشت گردی ہمارا مشترکہ دشمن ہے اور اس خطرے سے مل کر مقابلہ کیاجائے گا ۔ ہندستانی وزیراعظم نے کہاہے کہ مذاکرات ہی دونوں ممالک کے لئے تنازعات کے حل کا بہتر راستہ ہے انہوں نے کہاکہ پاکستان کا استحکام خوشحالی اور جمہوریت کا فروغ ہندستان کے مفاد میں ہے۔بظاہر یہ ملاقات بھی ایک رسمی ملاقت نظر آتی ہے ۔ حالانکہ ہندستان نے کبھی بھی اس طرح کے مذاکرات کو رسما نہیں نبھایا ہے بلکہ اس پر عمل بھی کیا ہے ۔ابھی ہندستان اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑ امسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی سر زمین سے ہندستان کے خلاف دہشت گردی کو روکے ۔اگر پاکستان نے اس سلسلے میں مثبت قدم اٹھاتے ہوئے وہی کچھ کیا جو طالبان کے خلاف کر رہاہے تو یقینا اس سمت میں اسے سب سے بڑی پیش رفت تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس مذاکرے کے بعد ہی سے پاکستان کی جانب سے الزام تراشی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے نہیں لگتا کہ اس مذاکرے سے بھی کوئی مثبت نتیجہ بر آمد ہوگا۔

            دوسری جانب ہندستان میں بھی اپوزیشن کی جانب سے جو رویہ اختیار کیا گیا وہ بھی ہندستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ وزیر اعظم کو اعلامیے کے متن کے حوالے سے طنز و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا اور پارلیمنٹ میں طویل بحث ہوئی ۔در اصل ہندستان کے موقف میں تبدیلی کی بات نہیں ہے بلکہ اپوزیشن کو اپنے بقا اور پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی ثابت کرنے لے لیے یہ تمام ہنگامہ بر پا کیا۔سوال یہ نہیں ہے کہ منموہن سنگھ نے کہیں سے دہشت گردی جیسے اہم مسئلے کو کہیں سے نظر انداز کیا ، آج بھی موقف وہی ہے اور پاکستان سے مذاکرات جاری رکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہندستان نے کبھی بھی جنگ کے راستے کو اختیار نہیں کیا ہے ۔ دہشت گردی اور مذاکرات دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ۔ دونوں کو جس انداز سے اپوزیشن پارٹیوں نے ایک ساتھ خلط ملط کر کے پارلیمنٹ میں ہنگامہ بر پا کیا وہ غیر دانشمندانہ اقدام ہے ۔ اگر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر دئے جائیں گے تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم کسی تیسر ے ملک کو اس میں ثالثی کی دعوت دیں گے ۔یہ ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ رہا ہے کہ دوطرفہ مذاکرات سے ہی معاملات طے ہوں گے۔پاکستان نے ہمیشہ یہ چاہا ہے کہ کوئی تیسرا ملک مذاکرات میں شامل ہو ۔اگر ہمارے اختلافات ایسے ہی رہے تو پاکستان کو موقع ملے گا اور وہ امریکہ کو دخل اندازی کے لیے کہہ سکتا ہے ۔ لہذا دانشمندی یہی ہے کہ ہم دوطرفہ مذاکرات سے معاملات کو طے کریں۔اپوزیشن کو اگر منموہن سنگھ اور کانگریس سے کوئی پُرخاش ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا کر ایسا راستہ اختیار کیا جائے کہ مذاکرات کے دروازے ہی بند ہوجائیں۔اس لیے ایسے موقعے پر ہندستان کی اپوزیشن پارٹیوں کو چاہیئے کہ وہ دانشمندی کا ثبوت پیش کریں۔ہندستان جنوبی ایشیا میں ایسا ملک ہے جس پر ساری دنیا کی نگاہیں ہیں ، ایسے میں ہندستان کو جس دور اندیشی کا ثبوت پیش کرنا چاہیے اور جو اقدمات کیے جارہے ہیں وہ در اصل اسی کا حصہ ہیں۔اس لیے صرف اختلاف کر نے کے نام دنیا کے سامنے اپنی خارجہ پالیسی کو مضحخہ خیز بنانا کہیں سے قین انصاف نہیں ہے۔

###

 

 

 

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *