Home / Articles / نرم لہجے کا شاعر : ساحر لدھیانوی

نرم لہجے کا شاعر : ساحر لدھیانوی

جذبات و احساسات کو چھو لینے کی طاقت رکھنے والی ساحر کی شاعری  کو عام طور پر لوگ  یہ سمجھ کر نظر انداز بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے فلموں کے لیے نغمے لکھے ہیں ۔ لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کی شہرت اگر  فلمون میں نغمے لکھنے کی وجہ سے عوام تک پہنچی تو  اس  سے ان کی شاعری کو کہیں نقصان نہیں پہنچا انھوں نے اس میدان میں قدم رکھتے ہوئے بھی اپنے نصب العین سے گریز نہیں کیا ۔یہ وہ شعرا ء ہیں جنھوں نے فلمی نغموں کو بھی ایک معیار عطا کیا ۔ساحر کے فلمی گیت کا صرف ایک بند ملاحظہ کریں :

مالک  نے   ہر  انسان  کو  انسان  بنایا

ہم  نے  اسے  ہندو  یا   مسلمان  بنایا

قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی

ہم  نے  کہیں   بھارت  کہیں   ایران    بنایا

ساحر کی فلمی شاعری ہو یا  سنجیدہ ہر جگہ ان کے فن کا طمطراق موجودہے ۔ ساحر کے حوالے سے یہ  کہا جا سکات ہے کہ انھوں نے تقریباً اپنے عہد کے تمام موضوعات کو اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کی ہے مگر کہیں بھی فن سےCompromiseنہیں کیا ۔ ان کا فنی شعور بہت بالیدہ اور جمالیات کا حامل ہے انھوں نے ترقی پسند عہد کے شعرا ء کا عمومی لہجہ کبھی اختیار نہیں کیا نرمیت وملائمیت  ان  کے اسلوب کی اہم خوبی ہے ۔وہ جنگ کی بات کریں یا زمانے کے کرب وانتشار ، یا محکومی اور استحصال کی ان کے لہجے میں کرختگی نہیں آتی ۔ان کے اشعار فنی رکھ رکھاو کے ساتھ ساتھ ادبی قدرو قیمت کے حامل ہوتے ہیں ۔اسی یے کہا جاتا ہے کہ ساحر کا تعلق اگر تہذیبی اور ثقافتی اقدار سے ہے تو فنی اور جمالیاتی اقدار کے بھی وہ علمبرداروں میں سے ہیں ۔ یہاں ایک نظم سے مثال لی جاسکتی ہے جو انھوں نے ‘‘چکلے ’’ کے عنوان سے لکھی ، یہ عنوان نیا نہیں ہے اسی کو برتنے کی پاداش میں منٹو جیسا ادیب مورود الزام ٹھہرا اور اسے نہ جانے کن کن ناموں سے یاد کیا گیا ۔ لیکن سماج کی اسی بے رحم سچائی کا ذکر ساحر کے یہاں اس طرح ہوتا ہے :

یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب

یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب

لپکتے ہوئے پانو زینوں کی جانب

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی

تنو مند بیٹے بھی ، ابّا میاں بھی

یہ بیوی بھی ہے، اور بہن بھی ، ماں بھی

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں ؟  

 یہ تو صرف دو بند ہی مثال میں پیش کی گئی اگر اس نظم کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ اس میں نہ تو فحش الفاظ کے ذریعے سماج  کے اس گھناونے چہرے کو دیکھایا گیا اور  نہ جذبات کو مشتعل کرنے والے مناظر ہیں ۔ اگر کچھ ہے تو یہ ہے کہ ہر بند انسان کو اس کا اپنا چہرہ دیکھاتا ہے اور ساتھ میں مشرقی تہذیب و تمدن کے نعرہ لگانے والے اور حامی بھرنے والے بھی اس کثافت پر خاموش کیوں ہیں ؟

            ساحر کی شاعری انھیں موضوعات کے ارد گرد نہیں گھومتی بلکہ وہ امن عالم کے خواہاں  ہیں اور اس کے جنگ و جدال  کی ضرورت نہیں کیونکہ :

کیونکہ جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی۔

کیونکہ ساحر کی نظر میں :

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشر ق میں ہو کہ مغرب میں

امن عالم کا خون ہے آخر

اسی لیے ساحر  ان لوگوں سے جو شرافت کا لبادہ اوڑھے پورے عالم کو تخت و تاراج کر رہے ہیں ، یہ کہتے ہیں :

                        اس لیے اے شریف انسانوں جن ٹلتی رہے تو بہتر ہے۔

ساحر کا کامل یہ ہےکہ انھوں نے اس انتشار کے عہد میں اپنی شاعری کو نعرہ زنی سے بچا لیا جب بلند آہنگی وقت کی ضرورت بھی تھی اور  عہد کا رویہ اور رجحان بھی تھا۔

بجائے اس کے کہ میں ان کی شاعری پر تبصرہ کروں چند مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ آپ خود ہی تجزیہ کر سکیں :

چرواہیاں رستہ بھول گئیں، پنہاریاں پنگھٹ چھوڑ گئیں

کتنی ہی کنواری ابلائیں ، ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ گئیں

افلاس زدہ دہقانوں کے ہل بیل بِکے ، کھلیان بِکے

جینے کی تمنا کے ہاتھوں جینے ہی کےسب سامان بِکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عصمتیں سر برہنہ پریشان ہیں

ہر طرف شور آہ و بکا ہے

اور میں اس تباہی کے طوفان میں

آگ اور کون کے ہیجان میں

سر نگوں اور شکستہ مکانوں کے ملبے سے پُر راستوں پر

اپنے نغمے کی جھولی پسارے

در بہ در پھر رہاہوں

مجھ کو امن اور تہذیب کی بھیک دو

۰۰۰۰۰۰۰۰۰

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

2 comments

  1. ساحر لدھیانوی کی ادبی زندگی کی شروعات ان کے اسکول کے زمانے سے ہوچکی تھی۔ ساحر جس وقت خالصہ اسکول لدھیانہ کے طالب علم تھے اسی وقت انہوں نے اپنی پہلی نظم لکھی تھی اور اپنے ایک قریبی دوست کے ذریعہ اسکول کے استاد فیاض ہریانوی کے پاس اصلاح اور رائے جاننے کے لیے بھیجی۔ استاد فیاض ہریانوی نے نظم دیکھ کر کہا۔ ”اشعار موضوع ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے نظم معمولی ہے۔“ فیاض ہریانوی جیسے استاد نے ساحر کی پہلی نظم کو موضوع قرار دیا یہ ان کے لیے قابل فخر بات تھی ان دنوں شاعری میں استاد شاگرد کا عام چلن تھا لیکن ساحر نے اپنی اس پہلی تخلیق کے بعد کسی کو نہ تو اپنا کلام رائے جاننے کے لیے پیش کیا نہ تو کسی کو استاد بنایااور خود اپنے طور پر شعر کہنے لگے۔

    ساحر کا اصل نام عبدالحی تھا۔ساحر 8مارچ 1921کو ریاست پنجاب کے صنعتی شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام چودھری فتح محمد تھا۔ساحر نے جب شاعری کی شروعات کی تو تخلص کی ضرورت درپیش آئی۔ بڑے پش وپیش میں تھے کہ کیا تخلص رکھا جائے۔ اسی دوران ساحر علامہ اقبال کے مرثیہ کا مطالعہ کررہے تھے جو اقبال نے داغ دہلوی کی یاد میں لکھا تھا—

    اس چمن میں ہوں گے پیدابلبلے شیراج بھی
    سیکڑوں ساحر بھی ہوںگے صاحب اعزاز بھی

    انہیں ساحر لفظ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اسے ہی اپنا تخلص بنالیااور عبدالحی سے ساحر لدھیانوی بن گئے۔
    جس زمانے میں ساحر کی شاعری کا آغاز ہوا اقبال کی وفات ہوچکی تھی۔ جوش ملیح آبادی اور احسان دانش کی شاعری کا آفتاب فلک پر اپنے شباب کے ساتھ جگمگارہا تھا۔احسان دانش شاعرے مزدور اور جوش ملیح آباد شاعرانقلاب کے نام سے دن بدن شہرت کی منزلیں طے کررہے تھے۔ فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز،جانثار اختر، کیفی اعظمی، فراق گورکھپوری ان کے ہمعصروں میں تھے۔اقبال سے وہ بے حد متاثر تھے۔ اس لیے اقبال ، فیض اور دیگر ہمعصر شعراءکی شاعری اور شخصیت کا اثر ساحر پر پڑا۔ساحر کی شاعری میں یہ بات صاف طور پر نظر آتی ہے۔

  2. تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
    تمہارے گھر میں قیامت کا شور برپا ہے
    محاذِ جنگ سے ہرکارہ تار لایا ہے
    کہ جس کے ذکر تمہیں زندگی سے پیارا تھا
    وہ بھائی نرغہء دشمن میں کام آیا ہے

    تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
    ہر ایک گام پہ بدنامیوں کا جمگھٹ ہے
    ہر ایک موڑ پر رسوائیوں کے میلے ہیں
    نہ دوستی، نہ تکلف، نہ دلبری، نہ خلوص
    کسی کا کوئی نہیں آج سب اکیلے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *