Home / Articles / مندروں کے شہرسے گوتم بدھ کی سرزمین تک

مندروں کے شہرسے گوتم بدھ کی سرزمین تک

پروفیسرشہاب عنایت ملک

صدرشعبہ اُردوجموں یونیورسٹی

موبائل نمبر:94191-81351

18 مارچ 2012ءء کومجھے مندروں کے شہرجموں سے گوتم بدھ کی سرزمین بہارتک کاسفرکرنانصیب ہوا۔ یہ سفرکئی اعتبارسے اہم رہااس لیے قارئین کی دلچسپی اورمعلومات کے لیے اس سفرکی رودادکوتحریرکرناضروری سمجھتاہوں ۔ مجھے میتھلایونیورسٹی دربھنگہ نے سلیکشن کمیٹی میں بحیثیت Expert مدعوکیاتھا۔ اُردوکی چنداسامیوں کوپُرکرنے کے لیے مجھے اورکشمیریونیورسٹی کے شعبہ اُردوکے سابقہ صدرپروفیسرقدوس جاویدکواس کمیٹی کے لیے متھیلایونیورسٹی دربھنگہ کے وائس چانسلرڈاکٹرایس پی سنگھ نے مدعوکیاتھا۔ چونکہ پروفیسرقدوس جاویداب جموں میں ہی مستقل طورپرقیام پذیرہیں اس لیے طے پایاکہ دونوں ایک ہی جہازمیں پٹنہ تک کاسفرکریں اوروہاں سے By Road دربھنگہ پہنچاجائے۔ اس بات کی اطلاع ہم نے وہاں کے وائس چانسلرکے پرائیویٹ سیکرٹری کوپہلے ہی دے رکھی تھی جنھوں نے پٹنہ ایئرپورٹ پریونیورسٹی کی گاڑی بھیجنے کاوعدہ کردیاتھا۔ چنانچہ ہم دونوں نے ایئرانڈیاکے جہازسے اپنی ٹکٹیں بُک کروادیں۔ 18 مارچ کومیرامنہ بولابھائی نویدپروفیسرقدوس جاویدکولے کرمیرے گھرپہنچا۔ ہماری فلائٹ 3 بجکر50 منٹ پردلی کے لیے تھی۔ گھرمیں چائے پینے کے بعدنویدہمیں تقریباً 3 بجے جموں ایئرپورٹ پرچھوڑآیا۔فلائٹ وقت پرتھی ۔ہم بورڈنگ پاس بنواکرفلائٹ پر بیٹھ گئے ۔ ائرانڈیاکی فلائٹوں کی طرح اس کی ایئرہوسٹسیں بھی عمررسیدہ ہوتی ہیں اس بات کااندازہ مجھے کافی دیرسے تھا۔میری اس بات کی تصدیق پروفیسرقدوس جاویدنے بھی کردی۔ ٹھیک چاربجے جہازنے دلی کی طرف اُڑان بھرلی۔ ایک ائرہوسٹس کودیکھ میں نے پروفیسرقدوس جاویدسے یہ پوچھاکہ ائرہوسٹس کااُردوترجمہ کیاہوسکتاہے ۔ پروفیسرموصوف نے کافی سوچالیکن وہ یہ بات کہہ کراس بحث کوختم کرگئے کہ ضرورکوئی نہ کوئی ائرہوسٹس کاترجمہ اُردومیں ہوگا۔ میں نے قدوس جاویدکوکہاکہ اُردوکی مایہ نازناول نگارقرة العین حیدرنے ائرہوسٹس کااُردوترجمہ خلائی میزبان کیاہے اوراس لفظ کااستعمال وہ اپنے کئی افسانوں اورناولوں میں کرچکی ہیں توقدوس جاویدحیرت زدہ ہوکربولے کہ اس سے بہترترجمہ اُردومیں دوسراکوئی نہیں ہوسکتا۔ اُنہوں نے قرة العین حیدرکی ذہانت کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہاکہ واقعی قرة العین حیدرکی حیثیت اُردوادب میں ایک روشن ستارے کی طرح ہے اورآئندہ بھی رہے گی ۔ ہم اس موضوع پرگفتگوکرہی رہے تھے کہ ایک دوسری عمررسیدہ ائرہوسٹس نے ہمیں ریفرشمنٹ پیش کی ۔ میں نے بلیک کافی کے ساتھ ایک Sandwitch کھایاجبکہ پروفیسرقدوس نے چائے پرہی اکتفاکیا۔ جہازوقت پرشام پانچ بجے اندراگاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ پرلینڈکرگیا۔ ٹکٹ کے مطابق پٹنہ تک کی فلائٹ ہماری 6 بجکر5منٹ پرتھی۔ وقت گذاری کے لیے ہم نے ائرپورٹ پرچائے پی ۔ میںSpoking Zoneمیں گھُسا۔سگریٹ کانشہ دورکرنے کے بعدمعلوم ہواکہ پٹنہ کی فلائٹ 45 منٹ لیٹ ہے۔ اب فلائٹ7 بجے پٹنہ کے لئے روانہ ہونی تھی ۔Terminal تین کی خوبصورتی کاہم دونوں نے خوب مشاہدہ کیا۔جب ہم دلی ائرپورٹ پہنچے توباہرکاTemperature۔34 ڈگری تھا۔ میں پہلے ہی ایک ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھااس لیے مجھے گرمی کاکم احساس ہورہاتھاالبتہ قدوس جاویدچونکہ کوٹ پہنے ہوئے تھے اسلئے انہیں گرمی بے حدستارہی تھی ۔میں نے انہیں کورٹ اُتارنے کامشورہ دیاانہوں نے ایساہی کیایوں انہیں تھوڑی دیرکے لیے گرمی سے نجات حاصل ہوگئی ۔ ٹھیک سات بجے ائرانڈیاکاجہازپٹنہ کے لیے روانہ ہوا۔ وہی بوسیدہ جہازاورعمررسیدہ خلائی میزبان ساڑھے آٹھ بجے جب جہازپٹنہ ائرپورٹ پراُتراتوباہرکاTemperature ،26 ڈگری تھا۔پٹنہ کاائرپورٹ جے پرکاش نارائن انٹرنیشنل ائرپورٹ کہلاتاہے ۔یہ جدیدطرزپربناہواخوبصورت ائرپورٹ ہے ۔اس کی عمارتیں بھی خوبصورت ہیں۔ صفائی کے اعتبارسے بھی یہ ائرپورٹ نہایت عمدہ ہے۔ ائرپورٹ سے جب ہم باہرآئے تومتھلایونیورسٹی کی گاڑی ہماراانتظارکررہی تھی ۔دلی سے پٹنہ تک کاسفرہم نے ایک گھنٹے میں طے کیا۔پٹنہ ائرپورٹ پرڈاکٹرمشتاق نے ہماراپرتپاک استقبال کیا۔ ڈاکٹرمشتاق میرے دیرینہ دوست ہیں ان کاذکراس سفرنامے کے آئندہ صفحات میں تفصیلاً کروں گا۔

بہرحال رات نوبجے ہم میتھلایونیورسٹی کی گاڑی میں بیٹھ کربذریعہ راستہ دربھنگہ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ سفرہمیں چارگھنٹے میں طے کرناتھا۔ راستے میں ہم نے کسی ریسٹورنٹ میں رات کاکھاناکھایا۔تھکاوٹ بہت زیادہ ہوچکی تھی ۔ڈرائیورنہایت ہی تیزی سے گاڑی چلارہاتھا۔ پٹنہ سے دربھنگہ تک کی سڑک نہایت کشادہ ہے اوریوں ہم رات ایک بجے متھلایونیورسٹی دربھنگہ کے گیسٹ ہوس پہنچے۔ گیسٹ ہوس پرانی عمارت میں قائم کیاگیاہے جوں ہی ہم اپنے کمرے میں بیٹھ گئے دربھنگہ کے بڑے بڑے مچھروں نے ہم پرتابڑتوڑحملے کئے۔ میں نے اِتنے بڑے مچھرزندگی میں کبھی نہیں دیکھے ہیں۔ ایک آرہاتھااوردوسراجارہاتھا۔ہمیں پریشانی میں مبتلاکرکے ۔ ہم نے وائس چانسلرکے سیکریٹری کوفون کرکے ساری رودادسنادی۔ ٹھیک دوبجے ہمیں دربھنگہ کے سب سے بڑے ہوٹل گنگامیں شفٹ کیاگیا۔ یہ ہوٹل یونیورسٹی کی بغل میں قائم ہے ۔ کافی کشادہ کمرے اورصفائی کااچھاانتظام اس ہوٹل میں موجودتھا۔ کمرے میں پہنچنے کے ہمیں ایک تومچھروں سے نجات ملی اورپھرنیندنے جلدہی اپنی آغوش میں لیا۔

19تاریخ کی صبح کاناشتہ ہم نے گنگاہوٹل میں ہی کیا۔نہادھوکرتیارہوئے تویونیورسٹی کی گاڑی ہمیں لینے کوآئی۔ پروگرام کے مطابق سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ گیارہ بجے وائس چانسلرکے گھرہی رکھی گئی تھی ۔ہم یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوا۔ متھلایونیورسٹی پرانی عمارتوں ایک خوبصورت شاہکارہے ۔اس یونیورسٹی میں ہندوستان کی واحدسنسکرت یونیورسٹی بھی قائم ہے ۔ متھلایونیورسٹی ۱۵ اگست 1972 کوقائم کی گئی۔ اس سے پہلے یونیورسٹی کی قدیم عمارتیں اورتین سوایکڑزمین مہاراجہ دربھنگہ کے نام تھی۔ کہاجاتاہے کہ شہنشاہ اکبرنے یہاں کے اُس وقت کے مہاراجہ مہیش ٹھاکورکی کسی بات سے خوش ہوکر3 سوایکڑزمین انہیں تحفے میں دی تھی۔ جوبعدمیں مہاراجہ کامیشورسنگھ کے تحویل میں رہی لیکن ایمرجنسی کے زمانے میں حکومت نے اُن عمارتوں اورزمین کواپنی تحویل میں لے کریہاں یونیورسٹی کاقیام عمل میں لایا۔یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی جہاں اسکی خوبصورت عمارتوں کامشاہدہ کیاوہیں یونیورسٹی کے گیسٹ کے ساتھ ہی پان ، بیڑی اورسگریٹ کے کئی کھوکھے بھی دیکھنے کوملے جوکسی بھی دانش کدہ کے لیے کسی بھی طرح اچھے تصورنہیں کیے جاتے ہیں ۔ پھریونیورسٹی کے اندربے شمارتالابوں کودیکھنے کوموقع بھی ملاجوگندگی سے لبریزتھے اورشایداسقدرمچھروں کی مقدارکاموجب بھی ۔ بہرحال گیارہ بجے سے 2 بجے تک سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ منعقدہوئی۔جواہرلال نہرویونیورسٹی کے پروفیسرشاہدحسین بھی اس سلیکشن کمیٹی کے Expert تھے۔ میٹنگ کے دوران ہی یونیورسٹی کے اہلکاران نے دوپہرکاکھانابھی کھلایا۔سلیکشن کمیٹی کے اختتام کے بعدہم واپس گنگاہوٹل چلے گئے ۔شام کی چائے پرڈاکٹرمشتاق نے ہمیں اپنے گھرپرمدعوکیاتھا۔ڈاکٹرمشتاق دربھنگہ کے سب سے بڑے کالج ملت کالج کے پرنسپل ہیں۔ اُردومیں پی ایچ ڈی ہیں۔ پورے بہارمیں اُردوکے حوالے سے اُن کی اپنی پہچان ہے ۔نہایت ہی متحرک شخص ہونے کی وجہ سے وہ بہارمیں اُردوکی نشونمامیں جوکرداراداکررہے ہیں وہ ناقابل ِ فراموش ہیں۔ آپ اُردومیں کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ دربھنگہ سے شائع ہونے والے بڑے اُردومجلہ ”جہاں اُردو“کے مدیراعلیٰ بھی ہیں۔

ہوٹل میں آرام کرنے کے بعدہم نہادھوکرتیارہوئے ہی تھے کہ ڈاکٹرمشتاق کے دوست ڈاکٹرافتخارہمیں لینے کے لیے آئے ۔ تقریباً۱۵ منٹ میں ہم ڈاکٹرمشتاق کے گھرپہنچ گئے۔ ڈاکٹرمشتاق چھوٹے سے خوبصورت گھرنے مجھے بے حدمتاثرکیا۔ یہاں ڈاکٹرنجیب اختر، ڈاکٹرجمیل، ڈاکٹرآفتاب ، ڈاکٹررحمت اللہ اورپرویز، پروفیسرای ایس ظفر، ڈاکٹرامام اعظم کے علاوہ جناب عبدالمنان طرزیٴ سے بھی ملاقات ہوئی۔ طرزی صاحب سے میں بے حدمتاثرہوا۔ آپ دربھنگہ کی ایک معروف شخصیت ہیں ۔ ابھی ایران کادورہ کرکے آئے ہیں۔ طرزی صاحب نے اب تک تیس ہزارمنظوم اشعارتحریرکئے ہیں۔ چائے کی یہ محفل جلدہی شعری محفل میں تبدیل ہوگئی۔ طرزی صاحب نے سعادت حسن منٹوپرایک طویل منظوم نظم پڑھ کرسنائی۔ اس نظم میں انہوں نے منٹوکی شخصیت اورفن کوپوری طرح سمودیاہے ۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے اس نظم کے چندمنظوم اشعارتحریرکرناضروری سمجھتاہوں۔

سعادت حسن جسکامنٹوہے نام       وہ دُنیائے افسانہ کاہے امام

ہواقیدہستی سے جب وہ رہا          تواس دن تنتالیس ہی برسوں کاتھا

ہیں مجموعے تیس اس کے افسانوی مسائل ہیں انساں کے ان میں سبھی

جومجموعے کچھ بعد مرگ آگئے      توپچیس کل ہوتے ہیں آپ کے

کہانی بھی فلموں کی اس نے لکھی   ہے اٹھارہ کل جن کی تعدادبھی

ڈراموں کے سات مجموعے گر      توخاکوں کے بھی ہیں چارمعتبر

اوران اشعارکودیکھئے۔

صداقت شعاری کامنٹوہے نام       وہیں بادہ خواری کامنٹوہے نام

کبھی تنگ دستی کامنٹوہے نام        کبھی جاں فشانی کامنٹوہے نام

بڑ ی جاں گدازی کامنٹوہے نام     کہ اک جیتی بازی کامنٹوہے

محبت ہی کانام منٹوبھی ہے                    تونفرت ہی کانام منٹوبھی ہے

اگرسادہ فقرے بھی لکھتارہا                   بہت گہری بات اس میں کہتارہاوغیرہ وغیرہ۔

منٹوپرمنظوم اشعارسنانے کے بعداُنہوں نے چندلمحوں کے اندرہی مجھ پربھی چنداشعارتحریرکردیئے جواس طرح ہیں

شہاب عنایت ملک نام ہے                    حسین جلوہ جیسے لب بام ہے

وہ پروردہ رنج وآلام ہے            مگرشہردانش کاگلفام ہے

زبان کاشمیری کے شاعربڑے       رسا#جاودانی تھے مانے ہوئے

نواسے ہیں اُن کے جناب           سراپاہیں جوآگنی نصاب

ریاست ہے جموں وکشمیرہی                   جہاں قصبہٴ اک ہے بھدرواہ بھی

اُسی قصبے کاگاؤں ہے گاٹھ بھی      ہے جائے ولادت جوموصوف کی وغیرہ وغیرہ

طرازی صاحب نے مجھے بے حدمتاثرکیاجی توکررہاتھاکہ اُن سے اور باتیں سنوں لیکن ابھی دربھنگہ شہرکودیکھنابھی تھااوررات کے آٹھ بج چکے تھے۔اس لیے یہ محفل برخاست کرنی پڑی۔ اس کے بعدمیں اورقدوس جاوید، ڈاکٹرمشتاق اوراُن کے احباب کے ساتھ شہرگھومنے نکل پڑے۔

دربھنگہ نہایت ہی گنجان شہرہے۔ یہ شہرگلیوں اورکوچوں کاشہرہے ۔ اس شہرکی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے۔ ۱۸۵۷ءء کے غدرکے بعدبہادرشاہ ظفرکے پوتے زبیرالدین گوگالی نے اسی شہرمیں پناہ لی تھی ۔ یہ صاحب دیوان شاعربھی تھے اوردرابخت کے صاحب زادے تھے ۔ دربھنگہ تالابوں، مچھلیوں اورپان والوں کاشہربھی کہلاتاہے۔ اس شہرکی عکاسی میتھلی زبان کے نامورشاعرسوم دیونے ان اشعارسے کی ہے۔

پک پک پوکھ، مانچھ مکھان

سرس بولی، مکی ، مکھ پان

یہ شہرخانقاہوں کاشہربھی کہلاتاہے ۔جگہ جگہ خانقاہیں اورزیارتیں دکھائی دیتی ہیں ۔ یہاں حضرت شاہ نظام شاہ کشمیری کی زیارت کودیکھنے کا موقعہ بھی نصیب ہوا۔ یہ صوفی بزرگ تھے جوپندرہویں صدی میں پلوامہ کشمیرسے یہاں آئے تھے اوراپنی کرامات کی وجہ سے دربھنگہ میں بے حدمعروف ہوئے۔ دربھنگہ کے اُستاداورنگ زیب کے دربارسے بھی وابستہ تھے ۔ ان میں سے ایک اُستادملاالولحسن اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء کوپڑھایاکرتے تھے۔

ادبی اعتبارسے دربھنگہ شروع سے ہی بڑازرخیزرہاہے۔ تیرہویں صدی کے میتھلی زبان کے بڑے شاعرودیاینی کاتعلق اسی شہرسے تھا۔ جدیدہندی کے معمارناگ ارجن اوررینوکاکاتعلق بھی دربھنگہ سے ہی ہے۔ اُردوادب کے فروغ میں دربھنگہ کے جن شاعروں اورادیبوں نے ناقابل فراموش کرداراداکیاہے ان میں نامورشاعرمظہرامام ، پروفیسرعبدالمان طرزی وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکرہیں۔ خانقاہ ثمرقندیہ رحیم گنج دربھنگہ کی مشہورخانقاہ ہے۔ مدرسہ امدادیہ، مدرسہ حمیدیہ، مدرسہ رحمانیہ سپول یہاں کے اہم مدارس ہیں۔

عظیم آبادکے بعدپورے بہارمیں دربھنگہ اُردوکادوسرااہم مرکزہے ۔ آج بھی لوگ اپنے بچوں کواُردوبڑے شوق سے پڑھاتے ہیں۔ دربھنگہ میں مسلمانوں کی آبادی 40% ہے۔ لیکن یہاں کے عوام مالی اعتبارسے کمزورہیں جس کاسبب سیلاب کاآناہے۔ لوگ جب بھی کوئی اثاثہ جمع کرتے ہیں سیلا ب انہیں بہاکرلے جاتاہے۔ سڑکیں اورگلی کوچے خستہ حالت میں ہیں جن کی بہتری کے لیے سرکارکوئی بھی قدم نہیں اُٹھارہی ہے ۔ تقریباً رات دس بجے تک ہم دربھنگہ شہرگھومتے رہے ۔ یہاں کی افلاس اورغریبی کاخوب مشاہدہ کرنے کے بعدہم سب دوست رات کاکھاناکھانے کے لیے ایک ریسٹورنٹ میں چلے گئے۔ کھاناکھانے کے بعدجب ہم ہوٹل واپس پہنچے توتھکاوٹ کی وجہ سے نیندنے بہت جلداپنی آغوش میں لے لیا۔

20 مارچ کی صبح میں نیندکامزہ لے ہی رہاتھاکہ پروفیسرقدوس جاویدنے مجھے اچانک نیندسے یہ کہہ کرجگادیاکہ 9 بجے متھلایونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرایس پی سنگھ نے ہم دونوں کوناشتے پرمدعوکیاہے۔ میں نہادھوکرتیارہوا۔ اتنے میں ڈاکٹرمشتاق بھی پہنچ گئے اورٹھیک نوبجے ہم وی سی لاج پہنچے جہاں وائس چانسلرصاحب ہمارانتظارکررہے تھے۔ ڈاکٹرایم پی سنگھ پیشے سے ڈاکٹرہیں وہ کئی بارجموں وکشمیرتشریف لاچکے ہیں۔ انہوں نے یہ اطلاع بھی فراہم کی کہ جب جموں میں میڈیکل کالج نہیں تھاتوجموں کے اکثرطلباء دربھنگہ میڈیکل کالج میں ٹریننگ کی غرض سے آتے تھے ۔ وہ میڈیکل کالج دربھنگہ کے پرنسپل کے فرائض انجام دے ہی رہے تھے کہ انہیں میتھلایونیورسٹی کاوائس چانسلربنادیاگیا۔ ڈاکٹرایم پی سنگھ نہایت ہی خوش اخلاقی سے ہمارے ساتھ پیش آئے۔ راجپوتوں کی آن بان اورشان ڈاکٹرایم پی سنگھ میں بدرجہ اتم موجودہے۔ وائس چانسلرکالاج بھی قدیم عمارت میں ہی ہے۔عمدہ ناشتہ کرنے کے بعدہم سیدھاملت کالج دربھنگہ پہنچے جہاں ہمارے اعزازمیں اس کالج نے ایک اعزازی نشست کااہتمام کیاتھا۔ ملت کالج شمالی بہارکاسب سے بڑاکالج ہے ۔ ملت کالج 1957ءء میں قائم ہوا۔پروفیسرلطف الرحمان ، پروفیسراسلم آزاد، پروفیسرقمراعظم ہاشمی جیسے ناموراُدبااسی کالج کے پروردہ ہیں۔

اس کالج میں تقریباً 10 ہزارطالب علم تعلیم کے زیورسے آراستہ ہورہے ہیں جن میں 90 فی صدی لڑکیوں کی تعدادہے۔ ڈاکٹرمشتاق اس کالج کے باصلاحیت پرنسپل ہیں ۔انہوں نے اپنی محنت اورلگن سے اس کالج کوہرمیدان میں ترقی کی منزلوں تک پہنچایاہے اوران کی یہ کوششیں اب بھی جاری وساری ہیں۔ اس تقریب میں مجھے اورقدوس جاویدکواعزازسے بھی نوازاگیا۔ پروفیسرقدوس جاویدنے سعادت حسن منٹوپرایک پرمغززتوسیعی خطبہ بھی دیا۔ پروگرام کی صدارت پروفیسرطرزی نے کی۔ اس پروگرام میں کالج کے اساتذہ کے علاوہ طلباء کی ایک بھاری تعدادبھی موجودتھی۔ پروگرام ختم ہونے کے بعدہم واپس گنگاہوٹل پہنچے جہاں یونیورسٹی کی گاڑی واپس پٹنہ چھوڑنے کے لیے ہماراانتظارکررہی تھی ۔ تقریباً 12 بجکر30 منٹ پرہم نے گنگاہوٹل کوالوداع کہا۔ واپسی پرگلاب کی جگہ منوج ہماری گاڑی کاڈرائیورتھا۔ و ہ گاڑی نہایت مہارت کے ساتھ چلارہاتھااورمیں اورقدوس جاویدادبی اورسیاسی حالات پرتبصرہ کررہے تھے۔ اس دوران راستے میں چھوٹی بڑی بے شماربستیاں نظروں سے گذریں ۔ایک دوبستیوں میں گاڑی روک کرہم نے بہارکے لوگوں کی غربت کامشاہدہ بھی کیا۔ معلوم ہواکہ پورے بہارمیں کوئی بھی بڑی Industry نہ ہونے کی وجہ سے غربت میں روزبروزاضافہ ہورہاہے ۔ لڑکے اورلڑکیاں اکثرسائیکلوں پراسکول جاتے ہیں۔ پورے راستے میں ہمیں کوئی قیمتی گاڑی کہیں بھی دکھائی نہیں دی جوا س بات کاثبوت فراہم کرتی ہے کہ بہاراب بھی بے حدپچھڑی ہوئی ریاست ہے ۔ دوپہرتقریباً تین بجے ہم پاسواں چوک پہنچے ۔ پٹنہ یہاں سے ابھی بھی 12کلومیٹردورتھا۔ بھوک زیادہ ہی ستارہی تھی۔ پاسواں چوک میں گاڑی روک کرہم نے ہوٹل INN میں دوپہرکاکھاناکھایا۔ کھاناکھانے کے بعدہم پٹنہ کی طرف جب روانہ ہوئے توٹریفک جام کی وجہ سے گاڑی روکنی پڑی معلوم ہواکہ اس جگہ پرہمیشہ ٹریفک جام رہتاہے ۔ یہ ایک پل ہے جسے مہاتماگاندھی شوکہاجاتاہے ۔ یہ پل شمالی اورجنوبی بہارکوجوڑنے کاکام بھی انجام دیتاہے۔ یہ ایشیاکاسب سے بڑاپل بھی ہے جس کی لمبائی ساڑھے سات کلومیٹرہے ۔ اس تاریخی پُل کوکراس کرنے کے بعدہم تقریباً ساڑھے چاربجے پٹنہ پہنچ گئے ۔ میں نے دربھنگہ سے اپنے دیرینہ دوست پروفیسراسلم آزادکوفون کردیاتھاکہ وہ رات کو ٹھہرنے کاانتظام کسی ہوٹل میں کردیں۔ چنانچہ پروفیسراسلم آزادنے سبزی باغ پٹنہ کے ہوٹل Blue Diamond میں رات کوٹھہرنے کاانتظام کردیاتھا۔ یہ وہیں اسلم آزادہیں جنھوں نے ”اُردوناول آزادی کے بعد“ کتاب تحریرکرکے اُردوادب میں خاصی شہرت حاصل کی۔ پٹنہ یونیورسٹی میں شعبہ اُردومیں اسلم آزادپروفیسرکے فرائض انجام دینے کے علاوہ بہارلیجسلیٹیوکونسل کے ممبر(MLC) بھی ہیں۔ آپ شعبہٴ اُردوپٹنہ یونیورسٹی کے صدربھی رہ چکے ہیں ۔ابھی ہم ہوٹل میں داخل ہوئے ہی تھے کہ اسلم آزادملنے کے لیے آئے ۔ انہوں نے بڑی گرمجوشی سے ہمارااستقبال کیا۔ بہت ساری ماضی کی یادوں کوتازہ کیا۔ پروفیسراسلم آزادنے یہ اطلاع بھی فراہم کی کہ چوں کہ بہارمیں اُردودوسری سرکاری زبان ہے اس لئے گذشتہ تین برسوں میں حکومت نے 28000 ہزاراُردواساتذہ کاتقررعمل میں لایاہے ۔ ہندی بہارکی سرکاری زبان ہے اس لیے ہرسرکاری کام ہندی میں ہی کیاجاتاہے۔ یہاں تک کہ ہوس میں ممبران سوالات بھی ہندی میں ہی تحریرکرتے ہیں اس کامشاہدہ میں نے اسلم آزادکے پاس موجودہندی کے سوالات سے خودکیا۔ دیکھیے سرکاری زبان کی قدرسرکارکس طرح سے کرتی ہے اوربیچاری ہماری ریاست جموں وکشمیرکی سرکاری زبان کسمپرسی کے حالات میں ہے۔ یہاں کی سرکارخودہی اپنی سرکاری زبان کاقتل بڑی بے دریغی سے کررہی ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ اسکولوں میں اُردواساتذہ کی کمی ریاست جموں وکشمیرمیں بہت سے طلباء کواُردوسے بے بہرہ رکھے ہوئے ہے۔ اسلم آزادہمیں پٹنہ شہردکھانے کے لیے لے گئے ۔ یہ شہرجدیدترین عمارتوں پرمبنی ہے۔ کشادہ سڑکیں ، بڑے بڑے شاپنگ کمپلیکس اس شہرکی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں ۔ 1950 ءء تک بہاربنگام کاحصہ تھالیکن 1903ءء میں یہ ریاست بنگال سے علیحدہ ہوگئی۔ 1912ءء میں پٹنہ بہارکی راجدھانی بنااوراسی سال یہاں کی پہلی اسمبلی قائم ہوئی۔ گویابہارکوبنے ہوئے ایک سوسال کاعرصہ ہوگیاہے اسی لئے حکومت وقت نے 2012ءء کوجشن بہاربنانے کافیصلہ لیاہے ۔ اس سال پورے بہارمیں مختلف نوعیت کی تقریبات کااہتمام کیاجارہاہے اورمیں سمجھتاہوں کہ یہ ایک خوش آئندقدم ہے۔ بہارسے تھوڑی دور”گیا“وہ مقام ہے جہاں مہاتماگوتم بدھ کوگیان حاصل ہواتھا۔بدھ مت سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یہ شہربے حدمتبرک ہے ۔اسی لیے بہارکوگوتم بدھ کی سرزمین بھی کہاجاتاہے۔پٹنہ سے جواخبارات شائع ہوتے ہیں اُن میں قومی تنظیم، سنگم، بندار،فاروقی تنظیم،راشٹریہ سہارا،انقلاب جدید،امن چین اورسیکولرمحاذوغیرہ قابل ذکرہیں۔یہ اخبارات پورے بہارمیں اُردووالے بے حدشوق سے پڑھتے ہیں جبکہ دربھنگہ سے تمثیلِ نو، جہانِ اُردو، دربھنگہ ٹائمزوغیرہ رسائل وجرائدشائع ہوتے ہیں ان میں جہانِ اُردوکواِس لیے فوقیت حاصل ہے کیونکہ یہ خالص اُردوادبی جریدہ ہے جس نے ملک کے نامورناقدین کے تحقیقی وتنقیدی مضامین تواترکے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔اس جریدے کے مدیراعلیٰ ڈاکٹرمشتاق ہیں جونہایت تندہی،محنت اورلگن سے جہانِ اُردوکی رہنمائی کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس جریدے کاشمارملک کے اہم رسائل میں ہوتاہے۔ہم ہوٹل واپس پہنچ کرہلکاپھلکاکھاناکھاکرجلدی ہی سوگئے چونکہ صبح ہماری فلائٹ آٹھ بجے پٹنہ سے دہلی اورپھر11 بجکر40 منٹ پردلی سے جموں کے لیے تھی۔ ٹکٹ کے مط

ابق ہمیں 21مارچ کو1بجے جموں پہنچناتھا۔

21مارچ کی صبح 7بجے اسلم آزادنے اپنی گاڑی ہمارے ہوٹل بھیج دی ۔ ہم ائرپورٹ پہنچے توپوراائرپورٹ سناٹے کامنظرپیش کررہاتھا۔ سیکورٹی کے علاوہ کوئی بھی ائرپورٹ پردکھائی نہیں دے رہاتھا۔ ایک سیکورٹی آفیسرنے یہ اطلا ع فراہم کی کہ ائرانڈیاکی فلائٹ 8 بجے کے بجائے 12 بجے دوپہرReschedule ہوگئی ہے۔ میں اورقدوس جاویدپریشان ہوگئے چوں کہ جموں کے لیے دہلی سے ہماری فلائٹ 11 بجکر30 منٹ پرتھی۔ ہم نے ائرانڈیاکے سٹاف سے اس سلسلے میں جب رجوع یاتوانہوں نے صاف لفظوں میں جواب دیاکہ ا س میں کوئی مددنہیں ہوسکتی ہے۔ آفتاب عالم نے تھوڑی مددکرنی چاہی لیکن بے سود۔ہماری فلائٹ سے پہلے کسی بھی ائرلائن کی کوئی فلائٹ پٹنہ جانے والی نہیں تھی۔ اس لئے مجبورہوکرہمیں 12 بجے تک ایئرپورٹ پرائرانڈیاکی فلائٹ کاانتظارکرناپڑا۔اس دوران دلی سے ہماری فلائٹ جموں بھی پہنچ گئی ۔12 بجے ہماراجہازدلی کی طرف روانہ ہوااورتقریباً ڈیڑھ بجے ہم دلی ائرپورٹ پہنچے۔ میراجموں پہنچنابے حدضروری تھاکیوں کہ 22 تاریخ کوصبح دس بجے ہمارے شعبے میں ایک تقریب منعقدہورہی تھی جس میں وائس چانسلرپروفیسرایس پی سنگھ صدارت کررہے تھے۔ ٹرین کاٹکٹ بھی موجودنہیں تھا۔کوشش کرنے کے باوجودہم کسی بھی جموں کی ٹرین کاٹکٹ حاصل نہیں کرسکے۔ میری تشویش بڑھتی جارہی تھی ۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہواکہ ہم فوراً ٹیکسی کرکے وقت پرجموں پہنچ پائیں ۔ تقریباً 4 بجے ہم بذریعہ ٹیکسی جموں کے لیے روانہ ہوئے۔ اس دوران ہم پریشانی کی وجہ سے دوپہرکاکھانابھی نہیں کھاسکے۔ ہماری ٹیکسی کاڈرائیورنہایت ہی خوش اخلاق نوجوان لڑکاصورب تھاجس کی عمرصرف 24سال تھی۔ وہ جلدی ہمارے ساتھ گھل مل گیا۔پانی پت پہنچ کرہم نے ہوٹل Haveli میں کچھ دیرآرام کیا۔ بھوک بھی مٹائی۔ صورب نہایت تیزرفتاری سے ٹیکسی چلارہاتھااورساتھ میں ہمیں اپنی پیاری پیاری باتوں سے ہنسابھی رہاتھا۔ صورب پنجاب کے ضلع فیروزپورکارہنے والاہے اورکام کے سلسلے میں کئی سالوں سے دلی میں مقیم ہے۔صورب نے ہمیں پورے راستے بوریت کااحساس نہیں ہونے دیا۔ رات 11 بجے ہم جالندھرپہنچے جہاں ایک ریسٹورنٹ میں ہم نے رات کاکھاناکھایا۔ جالندھرسے پٹھانکوٹ تک کاراستہ نہایت خستہ حالت میں ہے۔ اس لیے یہ سفرطے کرنے میں ہمیں تقریباً چار گھنٹے صرف ہوئے۔ ہم نے رات دوبجے لکھن پور کراس کیااوریوں ہم 22 کی صبح 5 بجے جموں پہنچے۔ مجھے اطمینان ہوااورپریشانی بھی دورہوئی۔ تھوڑاآرام کرنے کے بعدمیں یونیورسٹی پہنچ گیا۔اوریوں ہماری تقریب بھی شعبہٴ میں شاندارطریقے سے منعقدہوپائی ۔

مندروں کے شہرجموں سے گوتم بدھ کی سرزمین بہارتک کیاگیایہ سفرمیرے لیے کئی طرح سے اہم بھی رہااورنصیحت آموزبھی اہم اس لیے کہ بہارکی غربت اورپسماندگی کامشاہدہ پہلی بارکرنے کوملا۔یہاں کی دیہاتی زندگی اورشہری زندگی کوقریب سے دیکھنے کاموقعہ بھی ملااوریہاں کے مچھروں کارات بھررلانابھی مجھے ہمیشہ یادرہے گا۔ پھرنصیحت آموزاس لیے کہ آئندہ سے جب بھی سفرکروں توائرانڈیاکی فلائٹ سے کبھی کہیں نہیں جاؤں گاکیونکہ حکومت ہندکی یہ فلائٹ حکومت کی طرح مفلوج ہوکررہ گئی ہے ۔ جہاں مسافروں کوعمررسیدہ جہازاورعمررسیدہ خلائی میزبان ہی دستیاب ہوتے ہیں اورپھرجب مسافرمصیبت میں پڑجاتاہے توکوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ بہرحال ہمارایہ سفرنہایت ہی سنسنی خیزرہاجس میں کئی دفعہ خوشی بھی آئی اورپریشانی بھی اس کاساراسہراIndian Airlines کوجاتاہے جس نے میرایہ سفربے حددلچسپ بنادیاجس کے لیے میں ایئرانڈیاکے اہلکاروں کودِل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک بادپیش کرتاہوں۔

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

One comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *