Home / Socio-political / مسلم ممالک میں احتجاج کی لہر : عوامی انقلاب یا عالمی سازش

مسلم ممالک میں احتجاج کی لہر : عوامی انقلاب یا عالمی سازش

           مسلم ممالک میں احتجاج کی اس نوعیت کو  دنیا نے پہلی دفعہ دیکھا ہے کہ  خطے کے ایک کونے سے سیاسی احتجاج کی لہر اٹھتی ہے اور دیکھتے دیکھتے متصل اور نزدیکی مسلم ممالک میں یکساں انقلاب اور احتجاج  کی لہریں کئی ممالک کو  جُھلسانے لگتی ہیں۔احتجاج کی اس نئی لہر کو عوامی غم وغصہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ عالمی میڈیا بھی اسے عوامی محرومیوں کا شاخسانہ بتا رہی ہے ۔ لیکن اس کے مضمرات پر بات کرنے سے اکثر میڈیا گریز کر رہی ہے۔ عرب ممالک میں اس نوعیت  کا احتجاج اپنے آپ میں بڑی بات ہے ۔ لیکن  عوام کا اس طرح سڑکوں پر اترنا بھی کم تعجب خیز نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر عرب ممالک میں ملوکیت ہے اگر کہیں جمہوریت ہے بھی تو ملوکیت کے دبیز پردے میں لپٹی ہوئی ہے۔ اسی لیے  اس  عوامی انقلاب اور احتجاج کو معمولی نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی اس کے مضمرات پر ابھی بہت کچھ قیاس آرائیاں کی جاسکتی ہیں ۔کیونکہ ابھی ان حقائق سے کئی پردے اٹھنے ہیں ، کئی حقیقتیں بے نقاب ہونی ہیں ۔اس میںٕ عالمی اداروں اور  دنیا کے جمہوری ممالک کے رویے اور کردار پر بھی بات ہوگی ۔انتظار اس بات کا ہے کہ اس احتجاج کے اس لہر سے کون سا چہرہ سامنے آناہے۔

          ویسے یہ بات تو برسوں سے کی جاتی رہی ہے  کہ بیشتر عرب ممالک میں ملوکیت نے عوامی حقوق کو نظر انداز کیا ہے ۔ باوجود اس کے وہاں کے عوام مطمئین اور ان ہنگاموں سے دور  زندگی گزار رہے ہیں۔بیشتر عرب ممالک میں  عوامی سطح پر  ملک میں بدامنی ، فتنہ پردازی اور بد عنوانی  اور عدم تحفظ جیسے مسائل کم ہی ہیں ۔خود سعودی عربیہ کی مثال سامنے ہے جہاں اس طرح کے مسائل خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔عوام محفوظ اور زندگی پُر سکون ہے ۔ تو کیا تیونس ، یمن ، الجزائر اور مصر کے بعد یو اے ای اور سعودی میں بھی اس  طرح کا احتجاج دستک دینے کو تیار ہے؟ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ان ممالک میں بھی اس طرح کا انتشار دیکھنے کو ملے گا۔لیکن پورے عرب اور مسلم ممالک  کے حکمران اس سے خائف ہیں اور حفظ ما تقد م کے طور پر  احتاطی تدابیر کر رہے ہیں اور جہاں یہ ممکن نہیں وہاں کے حکمراں اور ان کے اہل خاندان دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہورہے ہیں۔تیونس کے بعد مصر کے شہزادہ  اپنے اہل وعیال کے ساتھ لندن روانہ ہوچکے ہیں ۔ حالانکہ اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے لیکن انھوں نے پناہ لینے کے لیے سعودی عرب کےبجائے لندن کو ترجیح  دی ہے ۔

عرب دنیا میں احتجاج کی اس آگ  کی ابتدا تیونس سے ہوتی ہے ۔جس کو عالمی میڈیا نے اس طرح بیان کیا ہے ‘‘پندرہ جنوری کو جب تیونس کے صدر زین العابدین بی علی تئیس سال کےاقتدار پر براجمان رہنے کے بعد عوامی غضب کے سامنے نہ ٹہر سکے اور فرار ہو کر سعودی عرب پہنچے تو کسی کو شاید علم نہ تھا کہ تیونس سے اٹھنے والے احتجاجی لہر خطے کے دوسرے مسلمان ممالک کو بھی اپنی لپیٹ لے لی گی۔تیونس میں عوامی احتجاج کی وجہ سے آنے والے تبدیلی کے بعد تیونس جیسے مسائل کا سامنا کرنے والے خطے کے دوسرے ممالک مصر، یمن، الجزائر اور اردن میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔مبصرین اب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عوامی احتجاج کی لہرکو انیس سو ننانوے میں مشرقی یورپ میں کیمونسٹ حکومتوں کے زوال کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جہاں سوویت یونین کے بکھرنے سے مشرقی یورپ میں کئی کیمونسٹ حکومتیں گرگئی تھیں۔تیونس کے صدر کی ملک سے فرار ہونے کے بعد یمن میں کئی روز سے مظاہرے جاری ہیں۔یمن مشرق وسطیٰ کا سب سے غریب ملک ہے اور اس کی نصف آبادی انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔یمن میں نوجوانوں اور حزب اختلاف کےگروہ کئی روز سے دارالحکومت صنعا میں مظاہرے کر رہے ہیں اور بتیس سال سے اقتدار پر قابض عبداللہ صالح کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔جوں جوں تیونس میں احتجاج نے زور پکڑا تو اس کے پڑوسی ملک الجزائر میں ہزاروں نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔الجزائر میں گزشتہ اٹھارہ برسوں میں ہنگامی حالت نافذ ہے اور ملک میں کسی قسم کے جلسے جلوس کی اجازت نہیں ہے۔اس کے باوجود الجزائر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ تیونس کی طرح الجزائر میں بھی خود سوزی کے واقعات پیش آچکے ہیں۔الجزائر میں ابھی تک تیونس کی سطح کے مظاہرے دیکھنےمیں نہیں آئے ہیں۔الجزائر کی حکومت نے، جس کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں، عوامی احتجاج پر قابو پانےکے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔اردن میں بھی گزشتہ جمعہ کو ہزاروں افراد نے دارالحکومت عمان میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کےخلاف مظاہرے کیے اور حکومت سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا۔مظاہرین میں دائیں بائیں کے سیاستدان، مذہبی گروہ اور ٹریڈ یونین کے ممبران شامل ہیں۔عمان میں مظاہرین نعرے بلند کر رہے تھے کہ ملک میں ’بہت جلد تبدیلی آنے والی ہے۔’’

اس کے بعد احتجاج کی سب سے تیز آگ ابھی مصر میں بھڑ ک رہی ہے ۔مصر میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت  کے بعد تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدر حسنی مبارک نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور کہا ہے کہ نئی کابینہ کا اعلان آج ہفتے کے روز کیا جائے گا۔باوجود اس کے  حالات کشیدہ ہیں ۔ عالمی اخبار کے مطابق‘‘ حالات پر قابو پانے کیلئے کرفیو نافذ کرکے فوج تعینات کردی گئی ہے۔ قاہرہ، سوئیز اور اسکندریہ میں کرفیو کے باوجود مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین نےکئی گاڑیوں کو نذرآتش کردیا ہے۔ قاہرہ میں حکمراں جماعت کے ہیڈکوارٹرز کو آگ لگادی گئی ہے جبکہ کئی دیگر عمارتوں سے بھی دھوئیں کے بادل فضا میں بلند ہورہے ہیں۔ سوئیز کےعلاقے میں مشتعل افراد نے لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا۔ اپوزیشن لیڈر محمد البرادعی کو مصری حکام نے گھر میں نظربند کردیا ہے۔دارالحکومت قاہرہ، سوئیز، اسکندریہ اور دیگر شہروں میں نماز جمعہ کے بعد مظاہرین سڑکوں پر اُمڈ پڑے۔ انہوں نے حسنی مبارک مردہ باد کے نعرے لگائے۔ ہزاروں مظاہرین صدارتی محل کے باہر جمع ہوگئے اور صدرحسنی مبارک کی اقتدار سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے مظاہروں کو روکنے کیلئے لاٹھی چارج کیا اور آنسوگیس کی شیلنگ کی۔ بعض مقامات پر مشتعل افراد اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ پچیس جنوری سے جاری مظاہروں میں ہلاک ہونیوالوں کی تعداد نو ہوگئی۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے نمائندے سمیت متعدد افراد زخمی ہیں،جبکہ ایک ہزار سے زائد افراد گرفتار ہیں۔ مصر میں کالعدم تنظیم الاخوان المسلمون نے مظاہروں کی حمایت کردی ہے جس سے حکومت کی مشکلات بڑھ گئی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق مصر میں نماز جمعہ کے بعد وسیع پیمانے پر عوامی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں جن کو دبانے کے لیئے سرکاری مشینری پوری طرح حرکت میں آ گئی ہے۔حکومت نے اخوان المسلمین کے ارکان کو بڑی تعداد می  گرفتار کر لیا ہے اور ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ موبائیل اور بلیک بیری میسنجر پر بھی غیر اعلانیہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔مصر میں گذشتہ تیس سال میں پہلی مرتبہ صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف اس طرح کے بڑے پیمانے پرمظاہرے کیے جارہے ہیں۔ گذشتہ تین روز کے دوران دارالحکومت قاہرہ اور دوسرے شہروں میں صدر مبارک کی حکومت کے خلاف مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہےاور وہ صدر حسنی مبارک سے مستعفی ہونے،ملک سے غربت کے خاتمے اور لوگوں کو روزگار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔قاہرہ کے علاوہ اسکندریہ ،سوئزاوردوسرے شہروں میں بھی حکومت مخالف احتجاج میں شدت آتی جارہی ہے۔مظاہرے کرنے والے مصری ملک میں سیاسی،سماجی اور اقتصادی اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں۔حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کی قیادت جمہوریت نوازمصری نوجوان کررہے ہیں۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے  عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل امر موسیٰ نے تمام عرب ریاستوں کو بروقت سماجی و سیاسی اصلاحات کا مشورہ دیا ہے۔عرب دنیا میں مسلسل تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں۔ اس بے چینی کی کئی وجوہات ہیں جن میں ناصرف اندرونی بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی عوامل بھی شامل ہیں۔ میں شرم الشیخ کے اجلاس میں بھی کہہ چکا ہوں کہ میرے خیال میں عرب شہری غصے میں ہیں، مضطرب ہے اور اپنی زندگیوں میں اصلاحات چاہتے ہیں۔

ادھر امریکہ نے جس انداز سے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے اس پر بھی غور کرنا چاہیئے۔امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ کواِس بات پر سخت تشویش ہے کہ مصری پولیس نے صدر حسنی مبارک کی حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا ہے ہیلری کلنٹن نے مصری اہل کاروں پر زور دیا کہ پْر امن مظاہروں کی اجازت دی جائے اور مظاہرین کی طرف سے مواصلات کے ذرائع کے استعمال کو منقطع کرنے جیسے غیر معمولی اقدامات کو واپس لیا جائے۔ اْنھوں نے کہا کہ مصر کے عہدے داروں کو اِس بات کو سمجھ لینا چاہیئے کہ تشدد کے حربے اپنانے سے مظاہرین کی شکایات کا ازالہ نہیں ہوگا۔ اْنھوں نے کہا کہ ساتھ ہی مظاہرین کو تشدد کی راہ اپنانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ اور اپنے جذبات کا اظہار پرامن طریقے سے کرنا چاہیئے۔ مصر میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے متعلق ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ مصر کی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے صدر حسنی مبارک کے قوم سے خطاب کے بعد ان سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں کہا کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں اصلاحات لانے کے عوام سے وعدے کو ٹھوس معنی دیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مصری انتظامیہ مصری عوام کے خلاف تشدد کا راستہ نہ اپنائے۔لیکن مصری صدر مبارک نے کہا کہ وہ کسی بھی قیمت پر مصر کو، جو کہ خطے کا ایک اہم ملک ہے، غیر مستحکم نہیں ہونے دیں گے اور جلد ہی سلامتی کے حوالے سے نئی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ترقی صرف قومی ڈائیلاگ سے ہو گی۔ انہوں نے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ اپنی املاک کی حفاظت کریں اور سرکاری عمارتیں نہ جلائیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں حکومت کی طرف سے دی گئی آزادئ صحافت اور دیگر آزادیاں نہ ہوتیں تو کوئی مظاہرے نہ کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اور انتشار کو ایک ہلکی سی لکیر ہی جدا کرتی ہے۔

یہ بات بھی صحیح ہے کہ عالمی سطح پر بہت سی ایسی طاقتیں ہیں جو مسلم ممالک کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ اس میں عالمی سازش بھی ہو لیکن اس سے زیادہ قصور خود وہاں کے حکمرانوں کا ہے جنھوں نے ملک کے اضطراب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بات صرف اسی پر ختم ہوجائے تب بھی غنیمت ہے لیکن ابھی سے سیاسی مبصرین  یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس کے بعد سعودی عربیہ اور پاکستان میں بھی اس طرح کی لہر اٹھ سکتی ہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو عالم میں اسلام میںٕ ایک بڑی تبدیلی ہوسکتی ہے جس وقت رہتے اگر صحیح مست نہ دیا گیا تو اس کے منفی اثرات نا قابل تلافی ہوں گے۔اس لیے مسلم ممالک کے حکمرانوں کا  متحد ہو کر ان حالات کا جائزہ لینےکی ضروت ہے اور بہتر اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے  تاکہ مسلم قوم جو ہزاروں طرح کے مسائل سے گھری ہے کسی اور نئی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائے۔

 

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *