Home / Literary Articles / مزرا غالب کا تاریخی شعور اور دستنبوہ

مزرا غالب کا تاریخی شعور اور دستنبوہ

مزرا غالب  کا تاریخی شعور اور دستنبوہ 

مرزا غالب کی ایک سو پچاسویں   سا ل گرہ کے موقعے پر دستنبوہ کو از سر نو یاد کر نے کی ضرورت ہے۔انگریز سامراج کے خلاف مئی1857میں جب میرٹھ سے قومی بغاوت کا آغاز ہوا اور یہ بغاوت تیزی سے پورے ملک میں پھیل گئی ،اس وقت مرزا غالب بڑھاپے کی سرحدوں میں داخل ہوچکے تھے۔سن رسیدگی کے پیداکردہ جسمانی اضمحلال کی وجہ سے بھی اور ان کی ان مزاجی کیفیات کی وجہ سے جو امن و اماں کے ماحول کی متقاضی رہتی تھیں،ان سے یہ توقع نہیںکی جاسکتی تھی کہ وہ اس بغاوت میں عملی طور پر شریک ہو سکیں،لیکن جو واقعات ان کے گردوپیش رونما ہو رہے تھے،ان سے چشم پوشی انھوں نے نہیں کی۔وہ دہلی میں باغیوں کی آمد اور ہلی پو ان کے قبضے کے بعد سے،باغیوں کی پسپائی اور دہلی پر انگریزوں کے اقتدار کی بحالی تک،گھر کی چاردیواری سے باہر نہیں نکلے لیکن شہرت کے حالات اسے انھوں نے خود کو بے خبر نہیںرکھا اور کسی نہ کسی طرح تمام اہم اطلاعات حاصل کرتے رہے۔انھوںنے صرف اطلاعات کے حصول پر ہی اکتفا نہیںکیا بلکہ وہ انھیں تاریخ وار قلم بند بھی کرتے رہے اور اس طرح’دستنبو‘وجود میں آئی جس کا ترجمہ آئندہ صفحات میں پیش کیا جائے گا۔

’دستنبو‘کے بعض اندراجات کی بنا پر کچھ لوگوں نے مرزا غالب پر انگریز دوستہ کا الزام لگایا ہے لیکن جس چیز کو انھوں نے انگریز دوستی کانام دیاہے وہ دو اصل مرزا غالب کی انسان دوستی ہے۔،باغی مشتعل تھے اس لیے بہر سے بے گناہ انگریز مرد عورتیں بھی ان کے غیض وغضب کانشانہ بنیں۔مرزا غالب نے ان بے گناہوں کے مارے جانے پردکھ کا اظہار کیا ہے لیکن انھوں نے اپنے اس دکھ پر بھی پردہ نہیں ڈالا ہے جو انگریزوں کی طرف سے بے قصور ہندوستانی شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر انھوں نے محسوس کیا نہ صرف محسوس کیا بلکہ جو ان کی رگ رگ میں اتر گیا اور انھیں ہمیشہ کے لیے دکھی کر گیا۔ دلی اور دلی والوں کے جان ومال کی بربادی ہو یا قومی تہذیب وتمدن کے دوسرے اہم مرکز لکھنؤ اور لکھنؤ والوں کا استحصال مرزا غالب ان دونوں سانحوں کے ماتم دارتھے۔

مرزاغالب کے رویے کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے ایک اور پہلو پو بھی نظر رہنی چاہیے۔ان کے زمانے تک قوم پرستی کے اس تصور سے ہم ناآشنا تھے جس سے ہم آج آشنا ہیں اور اسے تاریخ کی ستم ظریفی ہی کہا جائیگا کہ یہ آشنائی انگریز تعلیم کا نتیجہ تھی۔مرزاغالب کے زمانے تک وفاداریاں شخصی نوعیت کی ہو اکرتی تھیں یا پھر گروہی نوعیت کی ۔مرزا غالب اپنی طبعی انسان دوستی کی وجہ سے گروہی عصبیت سے دور تھے،وہ تمام بنی نوع انسان کو رنگ ونسل اور قوم و مذہب کی تفریق سے الگ رکھ کر ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے اس لیے ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ انگریزوں کو اس لیے برا سمجھیں گے کہ وہ رنگ و نسل میں ہندوستانیوں سے مختلف ہیں اور مذہباً عیسائیت کے پیرو ہیں۔شخصی تعلق کی ،مرزاغالب کے ہاں اس دور کے دوسرے اکابر کی طرح بنیادی اہمیت تھی۔وہ دلی اور لکھنؤ کی عمومی تباہی پر بھی رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکنب ان شخصیتوں کی ہلاکت،یا ان کے عز ووقار کی پامالی انھین بہ طور خاص رنجیدہ کردیتی ہے جن سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔دلی پر انگریز وں کی عملداری بحال ہوجا نے کے بعد انگریز حکام نے اس شہر اور اس کے باشندوں بالخصوص مسلمانوں پر،کہ زیادہ تر باغی فوجی مسلم فرقے ہی سے تعلق رکھتے تھے،جو قہر توڑا،غالب بھی اس کی زد میں آنے سے بال  بال ہی بچے تھے،لیکن جب انھیں یہ خبر ملی کہ ان کے ایک مخلص کر مفرما نواب مصطفی خاں شیفتہ جوجنھیں انگریزوں نے  گرفتار کر لیاتھا،رہا کردیا گیا ہے اور وہ میرٹھ میں ہیں تو وہ کسی خطرے کی پروا کیے بغیر فوراً ہی ان سے ملنے کے لیے میرٹھ روانہ ہو گئے اور ان کے پاس چند دن گزار کر دلی واپس آئے۔اس زمانے میں جب سفر کی زیادہ سہولتیں نہ تھیں،سست رفتار سواریوں کا سہرا لینا ہو تاتھا اور اس ماحول میں جو طرح طرح کے خطرات سے بھر اہوا تھا،مرزاغالب کا ایک دوست کی خیریت پرسی کے لیے تن تنہا عازم سفر ہو نا،ظاہر کرتا ہے کہ انسانی مراسم کی ان کے نزدیک کیا اہمیت تھی اور وہ ان مراسم کی پاسداری کو کتنا عزیز رکھتے تھے۔

1857کے واقعات نے مرزا غالب کے دل ودماغ پر کتنا گہرا اثر ڈالا تھا اور جو کچھ دیکھ رہے تھے یا سن رہے تھے ،اس سے کتنے دکھی تھے ،اس کا زیادہ واضح اظہار ان کے خطوط میں ہواہے۔یہ خط جب وہ اپنے  دوستوں یا شاگردوں یا قدرشناسوں کو لکھ رہے تھے اس وقت یہ بات ان کے ذہن میں نہیں تھی کہ انھینب شائع بھی ہو نا ہے اس لیے ان میں انھوں نے زیادہ کھل کر شہر اور اہل شہر پر ٹوٹنے والی مصیبتوں کا بیان کیا ہے اور اپنا رد عمل بھی زیادہ واشگاف لفظو ں میں ظاہر کیا ہے۔ان خطوط کو سامنے رکھا جائے تو بعض لوگوں کی ان بدگمانیوں کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیاہے۔

About admin

Check Also

رزمیہ ادب

میری کتاب “رزمیہ اادب” پر ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کا مضمون قارئین کی خدمت میں برائے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *