Home / Socio-political / ماں تجھے سلام

ماں تجھے سلام

Jhakماں تجھے سلام

انعام بٹ

ہر سال کے ماہِ مئی کی دوسری اتوار اکثر ممالک میں ماں کی عظمت کے اعتراف کا دن منایا جاتا ہے۔مختلف ممالک میں یہ دن مختلف تاریخوں اور حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے مثلاًڈنمارک،فن لینڈ،اٹلی،ترکی،آسڑیلیا اور بلجیم ،امریکہ ،پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی یہ دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار منایا جاتا ہے۔جبکہ افغانستان میں یہ دن 8مارچ،نیپال میں24اپریل اور ایران میں اسلامی مہینے جمادی الثانی کی20تاریخ کو منایا جاتا ہے۔اس دن کا آغاز ایک محبت کرنے والی بیٹی اینا جاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے تاہم اس دن کو منانے کا خیال پہلی بار قلمکار اور شاعرہ وارڈہووے نے1872ء میں پیش کیا تھا۔ایناجاروس نے ماؤں کا دن منانے کیلئے اپنی کوششوں کا آغاز کیااور وہ چاہتی تھی کہ اس دن کو مقدس دن کے طور پر منایا جائے۔اس دن یورپی ممالک میں زیادہ ترماؤں کو پھول دے کر محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ایشیائی ممالک کے لوگ مختلف انداز میں ماں سے محبت کا اظہارکرتے ہیں مثلاً کوئی پھول دیتا ہے،کئی غربت کے مارے ماں کے ساتھ وقت بِتا کر اور دُکھ سُکھ کی باتیں کرکے محبت ظاہر کرتے ہیں،کوئی تحائف دیتا ہے تو کوئی دعوت کا اہتمام کرتا ہے۔یعنی ہر کوئی اپنے انداز سے اپنی ماں سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔مگر اس سنگدل دنیا میں آج بھی کتنی مائیں ہیں جو اولاد کے ہوتے ہوئے بھی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔ذلیل و خوار ہوں گے وہ لوگ جو ماں کو عزت نہیں دیتے ،اُن کی خدمت نہیں کرتے،اُنہیں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔اکثر نوجوان شادی کے بعد جورو کی غلامی میں ماں جیسی عظیم ہستی کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں تو ماں پر اولاد کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بننے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں جس کی سزااللہ تعالیٰ معاشرے میں ہی ایسے شخص کودے دیتا ہے۔جنت توصرف اُنہیں ملے گی جواپنی ماں کی عزت کرے گا،جو اپنی ماں کا سہارا بنے گا،جو اپنی ماں کو راضی رکھے گاکیونکہ ماں کی رضا ہی اللہ تعالیٰ کی رضاہے۔جیسے ماں کو پیار کرنیوالے اس دنیا میں موجود ہیں ویسے ہی ماں کا دل دکھانے والے بھی اس دنیا میں موجود ہ ہیں مثلاً نئے دور کے حکمران ،ویسے تو گزرے وقت میں بھی حکمرانوں نے ماؤں پر بہت ظلم کئے مگر موجودہ جدید دور میں بھی ہمارے حکمران ماؤں کے دِلوں پر چھریاں چلانے سے باز نہیں آئے۔جیسا کہ جب کسی ظالم حکمران کے حکم سے معصوموں کا قتل عام ہوتا ہے تو اُس حاکم یا اُس کے غلاموں کو معصوموں کی جانوں سے فرق پڑے یا نہ پڑے مگر اُن معصوموں کی ہلاکت پر اُن کی ”ماں“کا کلیجہ یقینا پھٹنے کو آجاتا ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے ”ماں“کوحساس اور اولاد کیلئے اس قدر نرم دل بنایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔مگر نئے دور کے جدید حکمرانوں کی نظر میں جذبات اہمیت نہیں رکھتے۔ماں کی نظر میں اُسکی اولاد ہر لحاظ سے بے گُناہ ہوتی ہے، محبت اور جذبات رکھنے والی اولادیں بھی ماؤں کی خدمت کرنے میں کثر نہیں چھوڑتیں۔اُردو ادب کا جائزہ لیں تو ماں کی محبت میں کہیں کمال جذب و کیفیت میں ڈوبے ناول ملتے ہیں تو کہیں طویل نظمیں۔عربی کا ادب بھی ماں کے بغیر بدمزاح ہے۔شیخ سعدی ہوں یااُردو ادبی شعرا ہوں یافارسی شعرا سب نے ماں کا بلند مرتبہ بیان کیا۔کیٹس سے لے کر ورڈزورتھ تک کتنے ہی شعرا اور جرمنی کے گوئٹے مالاسے لے کر فرانس کے موپساں تک کتنے ہی عظیم افسانہ نگارہیں جنہوں نے ماں کے عظیم مقام کا اعتراف کیا۔روسی ادب کے معتبر ناول نگار میکسم گورکی کے ناول”ماں“کوآج بھی دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں شمار کیا جاتاہے۔ہر مذہب نے ماں کو بلند مرتبہ قرار دیا ہے۔کوئی ایسا مذہب نہیں جس میں ماں کی عزت اور احترام کو لازمی قرار نہ دیا گیا ہو۔دین اسلام کا اہم ترین رکن حج بھی اُس وقت تک مکمل نہیں ہو پاتا جب تک مسلمان اُن پہاڑیوں کے سات چکر نہ لگا لیں جہاں حضرت حاجرہ نے اپنے شیر خوار بیٹے حضرت اسماعیل  کے ساتھ سخت آزمائش سے وقت گزارا۔صفا ومروہ کی وہ پہاڑیاں جہاں حضرت حاجرہ کا بے یارومددگار بھاگنا اللہ تعالیٰ نے اس قدر پسند فرمایا کہ اُن پہاڑیوں کے سات چکر لگائے بغیر حج کو نامکمل قرار دیا۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *