Home / Socio-political / لیبیا۔ نئی خانہ جنگی کاخطرہ؟

لیبیا۔ نئی خانہ جنگی کاخطرہ؟

لیبیا۔نئی خانہ جنگی کاخطرہ؟

سمیع اللہ ملک

امریکامیں بننے والی گستاخانہ فلم پربالخصوص عالم عرب اوربالعموم عالم اسلام میںاحتجاج کاجوسلسلہ شروع ہواوہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تک پہنچاتوپہلی مرتبہ مٰغربی پریس میں صہیونیت اوراس کی مربی استعماریت کے خلاف نئی احتجاجی لہرپربعض تبصروں میںیہ حقیقت تسلیم کی گئی ہے کہ امریکاکی حمائت سے بعض عرب ممالک میں حکومتوں کوتبدیل کرنے پرقصرسفیدمیں کامیابی اورخوشی کی جوبہارچھائی ہوئی تھی وہ اچانک خزاں میں تبدیل ہوگئی ہے۔لیبیا،مصر،تیونس اوریمن نہ صرف ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں بلکہ اوربھی بہت کچھ کھوچکے ہیں۔ مغربی میڈیانے مسلمانوں کے خلاف خبث باطن کے اظہارمیں جہاںکسی قدراعتدال سے کام لیاہے وہاں فرانس اور اسپین نے اس اعتدال کی دھجیاں بکھیر کر رکھ د یں تاہم اکثریت نے استعمارکواپنی سمت درست کرنے کامشورہ بھی دیاہے۔

’’واشنگٹن پوسٹ ‘‘رابرٹ کاگان نے تحریرکیاہے’’بدھ کے روزامریکی کانگرس کے اجلاس میں ری پبلکن پارٹی کے مٹھی بھرارکان کی طرف سے بن غازی لیبیامیں امریکی سفیر، سفارتی اہلکاروںکے قتل اورقاہرہ میں امریکی سفارت خانے کوآگ لگانے کی وجہ سے لیبیا اور مصرکی امدادکم کرنے پرزوردیاتھا۔خوش قسمتی سے زیادہ ترری پبلکن پارٹی اور ڈیمو کریٹ پارٹی کے ارکان نے یہ خیال مستردکردیاتھا۔لیبیامیں حکومت بنیادی طورپرسیکولراورامریکاکی حامی ہے۔یہ نئی مخالف حکومتوں کے مقابلے میں کمزوراورامن کی حفاظت کے قابل نہیں ہے۔قذافی دورکی باقیات انتہاپسنداسلامی عسکریت پسنداس حکومت کی اتھارٹی کیلئے بڑے چیلنج ہیں،لیبیاکی امدادکم کرناصحیح ردعمل نہیں۔اگرہم کچھ کرسکتے ہیں تو ہمیں لیبیا کی جاری امداد میں اضافہ کرناچاہئے،بالخصوص سیکورٹی کے معاملات میں اعتدال پسند امریکی دانشوروں کاکہناہے کہ ہرمعاملے میں نیت اہمیت رکھتی ہے مثلاً یہ حالیہ فلم کس نیت سے بنائی گئی؟اگرمقصدشرانگیزی پھیلانااوردوسروںکے جذبات مجروح کرناتھاتویقینا جرم ہوا۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس نیت کوامریکی عدالت میں ثابت کرنابڑامشکل ہے کیونکہ پہلی ترمیم آڑے آجاتی ہے۔امریکی حکومت کایہ ایکٹ دراصل انصاف قانون اوراخلاقیات کے ہر حوالے سے بوگس تھا اسی لئے ۳۱ستمبرکونیویارک کی ایک ﴿خاتون﴾ڈسٹرکٹ جج کیتھرین فوریسٹ نے اسے کالعدم قراردے ڈالا۔ثابت ہواامریکاکے عوام کی عظیم اکثریت کی طرح اس ملک کی عدالتوں میں سچ کابول بالاکرنے والے جج موجودہیں مگربراہویہودی لابی کی غلام امریکی حکومت کاکہ وہ اس فیصلے کوسپریم کورٹ میںچیلنج کررہی ہے،گویا امریکا نے دوہرامعیاراپنارکھاہے۔ ہرامریکی کویہ حق حاصل ہے کہ کھلے عام مذہب اورپیغمبروں کی تضحیک کرے لیکن کوئی مسلمان اپنادفاع کرناچاہے تواس کی منزل جیل ہی بنتی ہے۔ تف ہے اس آزادی ٔ رائے پراوراس کی آزادی پر؟کیااقوام متحدہ کواس صورت حال کانوٹس نہیںلیناچاہئے؟ضرورلیناچاہئے،سلامتی کونسل کی قراردادمیںعالمی برادری کارحجان واضح طورپرظالم کی بجائے پہلی بارمظلوم کی طرف نظرآیاہے۔پاکستان اوردیگرممالک میںسنجیدہ فکرتجزیہ کاروںنے یہ معاملہ اقوام متحدہ میںاٹھانے پرزوردیاہے جس پریقینا توجہ دی جائے گی لیکن یہ امکان بھی موجودہے کہ کیااقوام متحدہ ازخود بھی اس عالمگیرخونریزی کاسدباب کرنے کی ضرورت محسوس کرے گی۔

یقینااس وقت مصرحسنی مبارک دورکے مقابلے میںزیادہ جمہوری ہے جس نے مسلسل ۰۳سال تک امریکاکی حمائت کی تھی۔مصر کی موجودہ حکومت نے جس کی عمرصرف چندماہ ہے مصرکے اسرائیل کے ساتھ طویل عرصے امن معاہدہ کااحترام کیاہے۔محمدمرسی نے حال ہی میںغیروابستہ تحریک کے اجلاس میںشرکت کیلئے جب تہران کاسفرکیاتھاتوانہوںنے میزبان کواس کی اتحادی شامی حکومت کی مذمت کرکے اوراس کے خلاف کاروائی کامطالبہ کرکے سیخ پاکیاتھا۔مصری حکومت کی اس وقت سب سے زیادہ دلچسپی اپنی لڑکھڑاتی معیشت کیلئے امدادحاصل کرناہے اوروہ اس کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ نہائت ذمہ داری کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے،یہ سب بہت اچھاہے۔

کچھ قدامت پسندبلاروک ٹوک عرب بہارکے بعدآج کے مصراور۹۷۹۱ئ میںایرانی انقلاب کے وجودمیںآنے والے ایران کے درمیان موازنہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں،یہ ایک ناقص تجزیہ ہے۔مصرنے مغرب کے خلاف جہادکااعلان نہیںکیاہے اورمحمدمرسی آئت اللہ خمینی نہیںہے ۔دنیامیںبہت سے اسلامی اورغیراسلامی ممالک میںجمہوریتوںنے ابھی اپنے سفرکاآغاز کیاہے ۔مصرمیںبھی ابھی اختیارات کی مکمل منتقلی نہیںہوئی لیکن کچھ اشارے ایسے ہیںجوامیدکی کرن ہیںلیکن وہاںکچھ غیرجمہوری رویوںکے رحجانات بھی سامنے آرہے ہیں۔محمدمرسی کی حکومت میڈیاپرکچھ پابندیاںعائدکررہی ہے اورشکاریوںکی طرح اپنے مخالفین کے پیچھے لگی ہوئی ہے﴿مغربی مبصرکبھی بھی جانبدارہوہی نہیںسکتااگرہوسکتاتوتواخوان کوشکارکئے جانے کاذکربھی ضرورکرتا﴾۔

یہ قبطی عیسائی بجاطورپرخوفزدہ ہیں،خواتین بھی اس بارے میںتشویش میںمبتلاہیںکہ ان کے حقوق کااحترام کیاجائے گاکہ نہیں؟اس صورت حال میںامریکاکوذہانت کے ساتھ ایک اعتدال پیداکرنے کی ضرورت ہے۔اگرمصرکی معیشت تباہ ہوتی ہے توکیااس سے مصری قوم بنیادپرست بننے کی طرف نہیںجائے گی؟کیااس سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی پاسداری کاامکان ہوگا؟کیااس سے مشرقِ وسطیٰ میںاعتدال پسندی کیلئے ایک قوت بننے کاامکان ہے؟﴿ان سوالات کے جواب میںامریکااوراس کے اتحادیوں کو کابل اورعراق پرشرمناک اوربرہنہ جارحیت کے نتیجے میںپیداہونے والے اعتدال کاتذکرہ بھی ضرورہوناچاہئے﴾

’’امریکااوراس خطے میںاس کے دوست ممالک مصرمیںاختیارات کی منتقلی کی کامیابی میںاہم مفادرکھتے ہیں۔امریکی پالیسیوںسے مصرمیںجمہوری نظام کی حامی قوتوںکاجان لیناچاہئے اورمصرمیںبہت سے ایسے ہیںجوملک میںایک جمہوری نظام اورصحت مندمعیشت چاہتے ہیں۔اس کامطلب ہے کہ مصرکوپہلے سے فراہم کی جانے والی امدادکے مقابلے میںزیادہ امدادفراہم کرنامثالی قدم ہوگالیکن مصری حکومت پریہ بھی واضح کرناہوگاکہ امریکی امدادمصری حکومت کے مقامی اوربین الاقوامی سطح پررویے سے مشروط ہوگی۔ محمد مرسی کی حکومت کویہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ امریکاسے امدادیاباقی بین الاقوامی برادری سے زیادہ مددحاصل نہیںکرسکیںگے اگروہ لوگوںکی ذاتی زندگیوں پربندش ختم نہیںکرتے ﴿امریکی صحافی نہیںسمجھ رہاکہ محمدمرسی کی حکومت کوتم جیسے سمجھداروںکے مشورے کی حاجت نہیںرہی کہ وہ امریکی امدادسے نہیںبلکہ نصرتِ الٰہی سے اس مقام پرپہنچی ہے اور جہاںتک لوگوںکی ذاتی زندگیوںپربندش کاتعلق ہے توسمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ انہی لوگوںنے محمدمرسی کاانتخاب کرکے استعماراورطاغوت کے مذموم ارادے خاک میں ملائے ہیں۔عالمی سروے کے مطابق اختیارات سنبھالتے وقت محمدمرسی کی مقبولیت ۵۶فیصد تھی جبکہ ۰۸دن گزرجانے کے بعدمرسی کی مقبولیت میں۰۸فیصداضافہ ہواہے جبکہ سب ہی جانتے ہیںکہ ان مشکل اورکٹھن حالات میںمقبولیت کاگراف نیچے جانے کاامکان تھا﴾۔

رابرٹ کاگان آگے چل کربرعکس خیال آرائی کرتے ہوئے تحریرکرتاہے’’باراک اوبامہ انتظامیہ مقبول منتخب مصری حکومت کی حمائت کرتے ہیںتوکچھ غلط نہیںکررہے۔اخوان المسلمین نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اورکسی کوبھی اس میںشک نہیںکہ انتخابات آزادانہ اورمنصفانہ ماحول میںمنعقدہوئے تھے۔ہم یاتوجمہوریت کی حمائت کرتے ہیںیا نہیں کرتے لیکن اوبامہ انتظامیہ ابھی تک عوامی سطح اورنجی محافل میںدوٹوک اندازمیںیہ واضح نہیںکرسکی کہ وہ مصری حکومت سے کیاتوقع رکھتی ہے۔مزیدبرآںدانشمندی کاتقاضہ یہ ہے کہ سیاستدان اورمبصرین اپنی پیش گوئیاںاورخطیبانہ لہجے کونرم رکھیں۔یہ امریکامیںصدارتی انتخابات کاسال ہے اورحکومت نے مشرقِ وسطیٰ میںجس طرح کے معاملات کئے ہیںان پرانتظامی نقطہ نظرسے زیادہ تنقیدکی جاسکتی ہے۔یہ وقت اس بحث کیلئے مناسب نہیںکہ مصرکس نے کھویا؟مصر،لیبیا،تیونس اوریمن ہاتھ سے چلے جانے کے علاوہ بہت کچھ ہوچکاہے۔زیادہ لائحہ عمل یہ ہوگاکہ کوششیںزیادہ تیزکردی جائیںاورامریکاکوجواثرورسوخ ابھی تک حاصل ہے اسے بروئے کارلایاجائے تاکہ جوکچھ باقی رہ گیاہے اس سے خطے کی نئی شکل و صورت ترتیب دی جا سکے‘‘۔

’’دی ٹیلیگراف ‘‘میںکون کفلن نے مسلمانوںکے دل خون کرنے والی نئی گستاخانہ جسارت پرمسلمانوںکے ردعمل پراظہارخیال کرتے ہوئے کہاہے’’عرب بہارکے بعدمشرقِ وسطیٰ امریکاکیلئے ناگوارہورہاہے ۔کون کفلن لکھتاہے’’لیبیاکے ساحلی شہربن غازی میںامریکی سفیرکرس اسٹیون اوراس کے ساتھیوںکاقتل یہ ظاہرکرتاہے کہ خطے میںاس قسم کی تبدیلی کی لہرخطرے سے خالی نہیںہے۔ابھی یہ کہناقبل ازوقت ہوگاکہ امریکی سفیرکے ان حملوںکے پیچھے کون ہے؟یہ ہلاکتیں۱۱ستمبرکی برسی کے موقع پرہوئی ہیںجب امریکی سر زمین پرخوفناک دہشت گردانہ حملے کئے گئے اورالقاعدہ نے ان حملوںکی ذمہ داری قبول کی تھی۔لیبیائی حکام نے فوری طورپران حملوںکاذمہ دارانتہاپسنداسلامی تنظیم انصارالشریعہ کو، جس کے القاعدہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں،ٹھہرانے کی کوشش کی ہے لیکن جلدہی ایک لیبیائی اہلکارنے اس حملے کاذمہ دارالقاعدہ کوٹھہرایااورکہاکہ قذافی کے حامی ابھی تک بن غازی میںمتحرک ہیں۔ گزشتہ ہفتے قذافی کے حامیوںنے قذافی دورکے انٹیلی جنس چیف عبداللہ النسیاس کی لیبیا حوالگی کے خلاف مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔اس حملے کاذمہ دارقذافی کے حمائتیوںکوٹھہرانے کی قیاس آرائیاںممکن ہے درست ہوں، بغیرمنصوبہ بندی کے مظاہرے محمد  کی شان میںگستاخانہ فلم بنانے کے خلاف ہوئے تھے ۔ تیونس اورقاہرہ میں ہونے والے مظاہروں میں بھی امریکی سفارت خانوں پر حملہ کیا گیا ۔اس میںشک نہیںکہ امریکی صدرنے ۰۵امریکی میرین فوجی لیبیا بھیجے ہیںتاکہ وہ امریکی سفیراورسفارتی اہلکاروںکے قتل میںملوث لوگوںکاسراغ اوراس قتل کی خود تحقیقات کریں ‘‘۔

ادھرلیبیا کے شہر بن غازی میں کم از کم تیس ہزار افراد نے مسلح گروہ انصار الشریعہ کے مرکز پر دھاوا بولتے ہوئے تمام مسلح گروہوںکے خاتمے اورقانون کی حکمرانی کو بحال کرنے کامطالبہ کیاہے جبکہ انصار الشریعہ کے حامیوں نے جو سفید اور سیاہ جھنڈے لہرا رہے تھے ہجوم اور گروہ کے صدر دفتر کے درمیان ایک حصار قائم کرلیا تھا۔گواہوں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوا میں گولیاں چلائیں مگر انہیں اس وقت فرار ہونا پڑا جب ہجوم نے ان کے اڈے کو ملیشیا منظور نہیں کے نعرے لگاتے ہوئے گھیرے میں لے لیا۔اس کے بعد گاڑیوں اور عمارتوں کو نذر آتش کیا گیا اور جنگجوؤں سے عمارت خالی کروا لی گئی۔حکام اور گواہوں کے مطابق السحاتی بریگیڈ ملیشیا کے اڈے پر حملے کے دوران ہونے والی لڑائی میں چار افراد ہلاک اور بیس زخمی ہو گئے۔بی بی سی نے طرابلس سے بتایا کہ السحاتی بریگیڈ نامی مسلح گروہ وزارت دفاع کے تحت کام کرتا ہے۔اعلی لیبیائی حکام کا کہنا ہے کہ وہ احتجاج کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر لوگوں کو غیر قانونی مسلح گروہوں اور ایماندار باغی بریگیڈز میں فرق کرنا چاہیے جنہوں نے پچھلے سال کی بغاوت کے دوران شہر پر قبضے میں مدد کی تھی۔کہیںایساتونہیںکہ نادیدہ قوتیں امریکی سفارت کاروںکے قتل کے بعدلیبیامیںدوبارہ خانہ جنگی کی راہ ہموارکرنے جارہی ہیں؟

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *