Home / Socio-political / قائد اعظم ریذیڈنسی پر حملہ

قائد اعظم ریذیڈنسی پر حملہ

                

قائد اعظم ریذیڈنسی پر حملہ
               عباس ملک

بلوچستان میں واقعہ زیارت کے مقام پر قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے حملہ کرکے اسے خاکستر کر دیا۔ دکھ بھری یہ خبر الصبح ہی بجلی بن کر اعصاب پر گری۔ اس سے زیادہ دکھ اس بات پر ہے کہ نظریہ پاکستان کے علمبردار اور ان کے نیٹ ورک پر اس خبر کا کوئی خاص ردعمل نہیں پایا۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور دیگر الیکٹرانک میڈیا اسے بھی ایک خبر کے تناظر میں ہی ڈیل کر رہا تھا۔ اس ناگہانی آفت کو خبر سمجھنے والوں پر قائد اعظم کا شاید کوئی احسان نہیں لیکن یہ پاکستان جس میں نامی گرامی پہلوان اپنے ناموں کو شہہ سرخیوں میں دیکھنے کے آرزو مند ہیں قائد اعظم کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہے۔ اس قبیح فعل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دشمن ہماری صفوں میں اس حد تک گھس آئے ہیںکہ اب ہمارے قومی ورثے بھی ان کی دسترس میں ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ تشنج و تشیح کی بجائے ان عوامل پر غور کیا جائے جن کے سبب یہ حادثہ وقوع پذیر ہوا۔ اس پر مزیدبرآں کہ محافظین کے نزدیک کیا یہ اہم قومی ورثہ اس لائق نہیں تھا کہ اس کی مناسب سیکورٹی رکھی جاتی ۔ بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ اپنے آنگن سے کسی بھی چھوٹی سی چھوٹی چیز کو بھی نہ گذرنے دو۔ اس کی توجیہہ و منطق یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس طرح چھوٹے کے گذرنے سے بڑوں کے گذرنے کا عذر لنگ پیدا ہو سکتاہے ۔ جس گھر کا آنگن بھی رستہ کی صورت اختیار کر چادر اور چار دیواری کی عظمت گہنا جاتی ہے۔ اس کی روح ختم ہو جاتی ہے۔ چھوٹے زخم بعض اوقات مناسب دیکھ بھال نہ ہونے یا بروقت علاج نہ کرانے کے سبب ناسور بن جاتے ہیں۔ اولیا اکرام کے مقبروں کے توہین ہوتی دیکھ کر مسلکوں کے آسیروں نے توجہ نہ دی جس پر آج کادن دیکھنا پڑا ۔ یہ واقعہ اپنے تناظر میں اس لیے اہم ہے کہ بابائے قوم سے منسلک اک نشانی اور تاریخی ورثہ جلا ڈالا گیا۔ آنے والے دنوں میں کسی اور اہم وقوعہ کے وقوع پذیر ہونے کی توقع کرنا بعید ازقیاس نہ ہوگا۔ ہماری ایجنسیاں او رہمارے امن وامان کے ذمہ داران اگر اس قدر اپنے فرائض سے غافل ہیں تو پھر عین ممکن ہے کہ کوئی اللہ نہ کرے بڑا حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔ جس طرح آرمی ہیڈ کواٹرز پر حملے کے بعد آنکھیں کھلی تھیں کیا اس طرح کے کسی اور حادثے کو دعوت دی جارہی ہے یا اس کا انتظار کیا جارہا ہے۔ شاید پشیمانی اور پیشانی کے داغ ہماری سوئی ہوئی غیرت کو جگانے کیلئے کافی نہیں۔ الطاف حسین کے غلیظ افکار پر مناسب ردعمل ظاہر کیا جاتا تو شایدیہ نوبت نہ آتی ۔ اس طرح حقوق کی آڑ میں پاکستان کے خلاف ہزرہ سرائی کرنے کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی۔ حقوق غضب کرنے والا کیا قائد اعظم تھا یا حقوق پہنچانے میں پاکستان حائل ہے۔ جس کو کوئی اور نہ سوجھے وہ پاکستان کے خلاف بیان دے کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کی سبیل کر لیتا ہے۔ بہت آسان نسخہ ہاتھ آیا ہے ۔بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والوں سے یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ جنہوں نے قائد اعظم کو خوش آمدید کہا اور پاکستان میں شمولیت کی خواہش کی انہوں نے قائداعظم کے افکار اور پاکستان کی روح کے مطابق ان کی خدمت کیوں نہیں کی۔ یہ سردار جاگیردار اور وڈیرے آج بھی ان کیلئے محترم اور قابل تعظیم ہیں لیکن قائد اعظم اور پاکستان مغضوب ہیں۔ قائد نہ کب اور کس سے کہا کہ اپنے اپنے لوگوں کی خدمت نہ کرنا اور ان کے حقوق نہ دینا ۔ اپنی جاگیریں بڑھانا اور غریب کی روزی بند کر دینا ۔ بگٹی صاحب نے اپنا لائو لشکر تو تیار کر لیا لیکن اپنے قبیلے کو اس کا حق نہیں دیا۔ ان کی اولاد تک ان کی شفقت سے محروم رہی تو کیاان کے نام پربلوچ کسی اور سے انتقام لیتے ہوئے حق پر ہیں۔ حق کیا ہے اور حق پرست کہلانے والوں کو اس کامطلب بھی پتہ ہے یا پھر ان کی ہرسوچ ہی حق پر مبنی ہے۔ جیسے پیر الطاف حسین حق پرست کہلاتے ہیں۔ اب یہ پتہ نہیں کہ وہ کس نشے میں ہر الٹی سیدھی بات اپنے ٹیلی فونک خبطات میں کہہ کر پھر شرمندہ ہو تے اور تقلید کنندگان کو شرمندہ کرتے ہیں۔ انہیں بھی قائد اعظم کی بصیرت سے بغض ہے جو وہ تقسیم ہند کے فارمولے کو ناحق جان کر اپنا حق نئے جناح پوراور کراچی کی پاکستان سے علیحدگی کے خواب اور مہاجر قوم کے مظلومیت کے پرچار کی آڑ میں لندن گڈی نشین ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے حق پرست سوئیزرلینڈ میں بلوچوں کے حقوق کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ کچھ کو کابل اور کچھ کو انڈیا میں ان حقوق کی تلاش میں مارا مارا پھرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان دشمنی اور پاکستانیوں سے بغض وعدوات میںہی حق پرستی کیسے پوشیدہ ہے۔ قائد اعظم کی اس یاد گار اور اولیاء اکرام کے مقبروں کی بم دھماکوں سے تباہی اور آتشزدگی سے حقوق کا کیا تعلق ہے۔ لاشوں کی سیاست اور حقوق کی آڑ میں دوسروں کے حقوق غضب کرنا یا کمزور کی زندگی اجیرن بنانا فراست کی کون سی دلیل ہے۔ اکابرین کا احترام اگر نہیں کیا جا رہا تو پھر توقع نہ رکھی جائے کہ خود کیلئے بھی کوئی عزت کا لاحقہ محفوظ کیا جا سکے ۔عقل وفراست کا شاید ایسے ناعاقبت اندیشوں سے کوئی میل ملاپ نہیں جو اپنے آپ کوہی حق پر جانتے ہیں اور دوسروں کو ناحق قرار دیتے ہیں۔ حقوق کا تعلق جن سے ہے ان سے تو کوئی مطالبہ نہیں اور نہ ہی کوئی شکوہ اور گلہ ہے ۔ جن کا حقوق سے دور کا تعلق نہیں وہ مغضوب اور قابل مذمت ہیں۔ بلوچستان کے حقوق کا تعلق بلوچ سرداروں سے ہے نہ کہ عام پنجابی بلوچوں کے حقوق کاغاضب یا ان کی راہ کا روڑا ہے۔ بلوچ سردار قیام پاکستان سے لے کر آج تک بلوچستان میں اقتدار میں رہے ہیں ۔ انہوں نے اگر بلوچستان کیلئے حقوق کی فراہمی میں سستی کی ہے تو پھر بلوچوں کو چاہیے کہ وہ
انہیں رد کر کے اپنے لیڈر تبدیل کریں۔ ان سرداروں کے اگے جھکنے اور ان سے دب کر رہنے سے تو انہیںپنجابی حقوق نہیں دلا سکتا۔ قائد اعظم کے خلاف ہزرہ سرائی سے بلوچستان میں اگر دودھ شہد کی نہریں بہنا شروع ہوئی ہیں تو پنجاب بلوچوں کے حقوق کیلئے اس راگ میں شامل ہونے کو تیار ہے۔ یقینا اس میں دشمنان پاکستان کی قلبی ٹھنڈک اور بلوچوں کی بربادی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا ۔ قومیں یکجہتی سے بنتی ہیں نہ کہ ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانے سے قوموں کا عروج ہوتاہے۔ بلوچ اپنے حقوق کیلئے ذمہ دار سرداروں کے در اور دہلیز سے نہیں اٹھیں گے بچے کھچے ٹکڑوں کے سوا اپنا مقدر کچھ نہیں پائیں گے۔ اپنی اس کمزوری کے سبب اگر وہ دوسروں کو اس ناانصافی اور محرومی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو پھر کیاکہا جا سکتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ کمزور کچھ نہ کر سکے تو پھر بھی گالی تو ذور دے سکتا ہے۔ جن بہادروں نے قائد کے ورثہ پر شب خون مارا ہے وہ کمزور اور بزدل تھے جن سے اور کچھ نہیں ہوسکا تو گالی دے کر چلے گئے۔ اس سے نہ توقائد کی شان میں کوئی فرق پڑا نہ ہی ایسے اقدامات سے گالی دینے والوں کی عزت میں کوئی اضافہ ہوا۔ وہ کمزور دلیل کمزور مئوقف کے ساتھ آئے اور اسی کمزوری کو عیاں کر کے چلے گئے۔ یہ اقدام سدا کی کمزوری بن کر ان کے ساتھ رہے گا۔ اڑانا تھا جلانا تھا تو کسی ایسے سردار اکے ورثہ کو جلایا جاتا جس نے بلوچوں کے حقوق کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی تھی۔ ان کے جانشینوں کے اگے ہاتھ باندھ کر غلامی کرنے والے بزدل بلوچوں کے حقوق کے نام پر انڈیا اور امریکہ کی سازشوں کے مہرے بن کر تاریخ میں بلوچو ں کے غدار لکھے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کی محرومیوں کی ذمہ داری پنجابی پر ڈالنے سے اس کے اصل ذمہ دار بلوچ سردار اپنا چہرہ تاریخ سے نہیں چھپا سکتے ۔ وہ بلوچستان میں اوچھے ہتھکنڈوں سے قومیت کی آگ جلا رہے ہیں لیکن یہ آگ ان کے اپنے گھروں کو بھسم کرنے ہی والی ہے۔ بہت جلد قائد اعظم کے ورثہ کو آگ لگانے والوں کے گھر اسی آگ میں جل رہے ہونگے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *