Home / Socio-political / فیصلہ کرنا ہوگا

فیصلہ کرنا ہوگا

فیصلہ کرنا ہوگا

سمیع اللہ ملک ۔ لندن

malik@lisauk.com

 تین بڑے فلسفی ایسے ہیں جنہوں نے عالم تصور میں اگلے جہانوں کی سیر کی ہے اور اس سیر کے تجربے کے بعد دنیا کو بہترین تخلیقات عطا کی ہیں یہ تخلیقات ادب کا سرمایہ ہیں اور رہتی دنیا تک قائم رہنے والی ہیں۔ سب سے پہلے ابن عربی نے فتوحات کلیہ لکھی اور عالم بالا کی سیر کا احوال تحریر کیا،پھر دانتے نے ڈیوائن کامیڈی تحریر کی اور آخر میں علامہ اقبال کا جاوید نامہ، عالم بالا کے عذابوں اور ثوابوں کے مناظر سے گزرتے ہوئے یہ لوگ بہت سے مشترک تجربوں سے گزرے۔یوں لگتا ہے کہ جیسے اس کائنات کے خالق نے انہیں خاص اشاروں کے ذریعے کچھ نہ کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ان تینوں نے جہاں حق کا ساتھ دینے والوں کو شاداں، فرحان دیکھا ہے اور باطل کے ہمرکابوں کو عذاب مسلسل میں گرفتار، وہاں یہ تینوں ایک خبر ضرور لے کر آئے ہیں کہ سب سے بدترین عذاب ان لوگوں کا مقدر بنا جو حق و باطل کے معرکے میں یہ فیصلہ ہی نہ کر پائے کہ انہیںکس کا ساتھ دینا ہے اور خاموش بیٹھ گئے،غیر جانبدار ہوگئے۔ کس قدر خوش قسمت ہوتی ہے وہ قوم جس کے سامنے اللہ تعالیٰ حق اور باطل دونوںکو واضح کردیتاہے۔ اس سے بھی زیادہ وہ قوم خوش قسمت ہے جس کے سامنے حق کا ساتھ دینے والے بھی اپنے عمل سے واضح اور علیحدہ ہو جائیں اور باطل کی قوتیں بھی ایک ایک کر کے اپنے تیر کمانوں میں کس کر مقابل پر آجائیں۔ دو گروہوں میں واضح فرق نظر آنے لگے۔ایک لکیر کھنچ جائے اور دونوں طرف کے چہرے صاف صاف نظر آنے لگیں۔ کسی شک و شبے کی گنجائش باقی نہ رہے، کسی کو پہچاننے میں ذرا سی غلطی بھی محسوس نہ ہو کہ کون ہے جوعدل و انصاف کا پرچم تھامے ہوئے ہے کہ دنیا میںحکومتیں کفر کی بنیاد پر تو قائم رہ سکتی ہیں مگر بے انصافی کی بنیاد پر قائم نہیںرہتیں(حضرت علیؓ)اور دوسری جانب کے لوگ بھی اپنا پورا غصہ، نفرت اور غیض و غضب کا زہر آنکھوں، زبانوں اور ہونٹوں پر لئے ہر اس شخص پرحملہ آور ہونے کے لیے تیار ہوں جو لکیر کی دوسری جانب کھڑا ہے۔ پاکستان کی قوم کس قدر خوش قسمت ہے کہ میرے اللہ نے ان کے لیے فیصلہ کرنے کے لیے اتنی آسانی پیدا کردی۔باسٹھ سال سے شعبدہ بازیاں چل رہی تھیں۔ ہر کوئی ملک کا خیر خواہ تھا۔ہر کوئی دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کو تیار تھا۔ہر کوئی غریب آدمی کو انصاف کے دروازے تک پہنچانے کے وعدے کرتا تھا۔ نعرے، تقریریں، تحریریں، جلسے جلوس، الیکشن، ووٹ،ممبری، وزارت، اسمبلی کی معطلی، ملک کو راہ راست پر لانے کے دعوے،اس کو محفوظ اور عالمی طاقت بنانے کے ارادے۔اس قوم نے سب کچھ دیکھ لیا اور پھر ہر بار آنسووں سے روتی رہی کسی کے محلات کو دیکھ کر تو کسی کے پلاٹوں کی ہوس کو دیکھ کر۔باسٹھ سال تقریباً برابر تقسیم کر کے ان قوتوں کو دے دئیے گئے جو ہرطرح دعوﺅں سے مسلح تھے۔ ڈکٹیٹروں کے روپ میں آتے اور سیاستدانوں کا عمل اختیار کرتے۔سیاستدانوں کے روپ میں جلوہ گر ہوتے اور ڈکٹیٹروں کی چال ڈھال اپنا لیتے۔قوم باسٹھ سال اس بات پر عالم حیرت میں رہی کہ لکیر تو واضح بنتی ہی نہیں۔ جو اپنے پاﺅں لکیر کے ایک جانب رکھتے ہیں لیکن ان کا چہرہ دوسری جانب اور جن کا چہرہ ایک طرف ہے وہ پاﺅں سرکاتے لکیر کی دوسری جانب لے جاتے ہیں۔نہ حق کے ساتھیوں کی پہچان اور نہ باطل کے سپاہیوں کا علم۔دونوں کے نقاب ایک جیسے، نعرے ایک جیسے، عمل ایک جیسا، قول و فعل میں تضاد ایک جیسا ۔ لیکن شاید یہ اس قوم کا آخری معرکہ ہے جس میں فیصلہ ہونا ہے کہ اس قوم نے عدل و انصاف کا گہوارہ بننا ہے یا ظلم و جور کا تاریک زدہ کمرہ۔اسی لیے اس آخری اور فیصلہ کن معرکے میں دونوں جانب کے کردار کھل کر سامنے آگئے۔اب تو یوں لگتا ہے معرکے کی گھڑی ہے۔ایک جانب وہ ساٹھ سے زیادہ عدل و انصاف کی کرسیوں پر بیٹھنے والے لوگ ہیں جن کی قیادت جسٹس افتخار محمد چودھری کے پاس ہے۔یہ لوگ اپنی آخری عمر کے انتظارتک عدالت کی کرسی پر نہیں بیٹھے کہ بعد میں کوئی کتاب لکھ کر،کسی انٹرویو میںاپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے ضمیر کو مطمئن کرلیتے بلکہ وہ اس ایوان عدل سے باہر نکل آئے تھے جہاں وہ سمجھتے تھے کہ انصاف نہیں کرسکتے‘عوام کے قربانیوں اورمستقل مزاجی نے دوبارہ ان کو عدل کی کرسیوں پر بٹھایا کہ قوم سے جو انصاف کا وعدہ کیا ہے اس کو پورا کریں۔ دوسری جانب کے لوگ بھی واضح ہیں۔آپ ان کے لہجے کی تندی، ان کے غصے کی غضبناکی اور ان کے طاقت پر گھمنڈ سے خوب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ لکیر کی کس جانب ہیں۔جس کا لہجہ جتنا غصیلا اور کسیلا ہے وہ اتنا ہی بڑا اپنی جانب کا ہیرو۔خواہ وزیرِ قانون بابراعوان ہو یاسندھ کا وزیرِ داخلہ ذوالفقارمرزا ، فرحت اللہ بابر ہو یا فوزیہ وہاب،کردار واضح ہوتے جارہے ہیں،صفیں مرتب ہو رہی ہیں۔صف بندیاں کی جارہی ہیں۔اللہ نے اولیاءکے دو طبقوں کی نشاندہی کی ہے۔اولیاءاللہ اور اولیاءطاغوت اور دونوں اپنی اپنی پہچان سے واضح ہو جاتے ہیں ۔جب ایسا معرکہ درپیش ہو۔جب ایسی صف بندی ہو جائے۔جب ایسا فرق واضح ہو جائے تو پھر اس عالم کے بارے میں ان تین فلسفیوں نے کہا کہ ہم نے عالم بالا میں غیر جانبدار رہنے والوں کو بدترین عذاب میں دیکھا۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے قواعد و ضوابط کے مطابق اگر جنگ کے حق یا خلاف ووٹ ڈالے جارہے ہوں۔تو جو ملک بھی اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیتا اسے جنگ کا حامی اور جارحیت کا حمایت کنندہ تصور کیا جاتا ہے۔ دونوںجانب کے کردار واضح ہیں۔اور کسی قوم کی اس سے بڑھ کرخوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ دونوں جانب اتنی بڑی تعداد میں ہیروز سامنے آگئے ہیں ورنہ کسے خبر تھی کہ ساٹھ سے زیادہ لوگ صف کی دوسری جانب بھی آکھڑے ہوں
گے اورقوم کامیابی کا تاج ان کے سر پرسجائے گی۔لیکن ان کو عوام کا یہ فیصلہ انتہائی ناگوار گزرا ۔اٹھارویں ترمیم میں اب نئے ججز کی تقرری میں چیف جسٹس کا مشورہ بھی درکار نہیں۔باہمی مشاورت کی ڈیڑھ سوسالہ روایت کو بیک جنبش ختم کردیا گیا ہے اوراب ججز کی نامزدگی کی منظوری وہ عوامی نمائندے دیا کریں گے جن کی اپنی تعلیمی اسناد بھی جعلی ہیں۔پیپلزپارٹی نے لاہور کے چیف جسٹس خواجہ شریف کی برطرفی کےلئے ریفرنس صدر زرداری کو بھجوادیا ہے حالانکہ صدرزرداری کے خلاف انہیں عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات زیرِ سماعت ہیںجب کہ وکلاءتحریک کے اہم رہنمااعتزازاحسن نے اس ریفرنس کی تحسین میں یہ دلیل دی ہے کہ خواجہ شریف پیپلز پارٹی کودیوارسے لگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب دعوے دونوںجانب ایک جیسے ہیں۔دونوں انصاف اور عدل کی بات کرتے ہیںلیکن قومیں خوب جانتی ہیں کہ کس کوعزت وتوقیر کے ہار پہنانے ہیں اور کس کے گلے میں ذلت و رسوائی کا طوق۔ فیصلے کی گھڑی ہے کہ کوئی قوم کفر، شرک ،بت پرستی، الحادپر قائم رہ سکتی ہے لیکن عدل و انصاف کے قتل پر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔تاریخ اس بات پر شاہد ہے اور یہ میرے اللہ کی سنت بھی ہے۔ صف بندیوں کے اس موسم میں اب غیر جانبداری کا زمانہ گیا۔ لیڈر ہو یا رکن بوڑھا ہویا جوان،شاعر ہو یا مزدور اسے ایک ہی فیصلہ کرنا ہے وہ لکیرکے اس پارہے یا اس پار۔ بروزجمعرات۶۲رجب ۱۳۴۱ھ ۸جولائی ۹۰۰۲ئ لندن

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *