Home / Socio-political / عید الفطر اور خوشی کا اسلامی تصور: ایک اجمالی تجزیہ

عید الفطر اور خوشی کا اسلامی تصور: ایک اجمالی تجزیہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

غلام مصطفی رضوی، مالیگاوٴں،انڈیا

Cell.09325028586

اسلام کا ہر ہر اصول حکمت و دانش کا پہلو رکھتا ہے… یوم مسرت ہو یا غم… خوشی ہو یا الم… ہر موقع، ہر لمحہ جبھی با مقصد کہلائے گا جب خالق و مالک کو یاد کیا جائے… مسجودِ حقیقی کو یاد کیا جائے… اپنے پروردگار کو یاد کیا جائے… پالن ہار کو یاد کیا جائے… اس کا شکرادا کیا جائے… ”عید“ منانے کا مقصد منعم حقیقی کا شکر بجا لانا ہے… اس کی نعمتوں کی عطا کی یاد تازہ کرنا ہے… اس کے کرم کا احسان ماننا ہے… اس کی نوازش کا دوگانہ ادا کرنا ہے…اس کی عطا کا چرچا کرنا ہے… اسی کا فرمان ذی شان ہے:وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا (سورة النحل :۱۸) اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے… ہم ان نعمتوں کے ملنے پر احسانِ رب العالمین کا تذکرہ تو کر سکتے ہیں…

خوشی منانا سرشت انسانی کا لازمہ ہے… فطرت کا خاصہ ہے… جبلت کا تقاضا ہے… عقل بھی اس کی تائید کرتی ہے… لیکن یہ سوال ہے کہ یہ کس طرح منائی جائے؟… اس کا پس منظر دیکھنا ہو گا… عید الفطر مسلمانوں کی عید ہے… عید الاضحیٰ بھی عید ہی ہے، اور عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی… ان تینوں عیدوں کو اگر اسلامی شان کے ساتھ منایا جائے تو اس میں اعتراض کی کوئی گنجایش نہیں… وہ تنگ نظر ہیں جو دو عیدیں تو منا لیتے ہیں… لیکن وہ مقدس دن جس میں ”توحید کا اجالا“ پھیلا اور شرک کو ضربِ کاری لگی اس سے گریز کرتے ہیں… اس دن دل بجھ سے جاتے ہیں… ہاں ہاں! ایمان والا عید کو خوش ہوتا ہے… جس دن اللہ کے مقدس نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جلوہ افروز ہوئے وہ عیدوں کی بھی عید ہے… اور ”عیدالفطر“ بھی اسی عید کا عطیہ ہے… بات چل رہی تھی کہ عید کس طرح منائی جائے… رمضان کو لیجیے جس کا پس منظر یوں ہے کہ اس ماہ میں روزے رکھے جاتے ہیں… روزے سے نفس کو لگام لگتی ہے… روزے سے فکری آوارگی دور ہوتی ہے… روزے سے تقوے کا حصول ہوتا ہے… اور ذہن کے غبار دھلتے ہیں… کدورتیں دور ہوتی ہیں… اس کے سائنسی فواید بھی ہیں اور روحانی و جسمانی بھی… تراویح، نمازوں کا اہتمام، تلاوتوں کی بہاریں یہ سب من کی دنیا کو مہکا جاتے ہیں… باطن کو سنوار دیتے ہیں… فکر کو نکھار دیتے ہیں… گناہوں کو مٹا دیتے ہیں…اور اللہ کریم کا خوف خیالات کو پاکیزہ بنا دیتا ہے… پھر غرہٴ عید طلوع ہوتا ہے… ہلالِ عید نمودار ہوتا ہے…

عید کا پس منظر یہی ہے کہ خوشی منائی جائے! لیکن اسلامی شان کے ساتھ… مختار کاینات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے احکام کے ساتھ… رب کی رضا کے ساتھ… شریعت کی پابندی کے ساتھ… اعمالِ صالحہ کی تابندگی کے ساتھ… غریبوں کی خوش نودی کے ساتھ… مساکین کی دل جوئی کے ساتھ… مفلسوں کی مدد کے ساتھ… نہ کہ تکبر کے ساتھ… بلکہ خلوص کے ساتھ… للّٰہیت کے ساتھ… محبت کے ساتھ… مروت کے ساتھ… حیا کے ساتھ… شفقت کے ساتھ… تب بشارتوں کا آفتاب طلوع ہوگا… اور گنبد خضرا سے نسیم سحر چلے گی… دل کی کلیاں کھلیں گی… من کی دنیا مہکے گی… فضا روشن ہو اٹھے گی #

عید مشکل کشائی کے چمکے ہلال

ناخنوں کی بشارت پہ لاکھوں سلام

ہم مسلمان ہیں… اسلامی احکام پر عمل ہمارا کام ہے… ان سے رُو گردانی فکرِ خام ہے… اس سے دوری میں ذلت مدام ہے… آج مسلماں پر دانشِ فرنگ کی یلغار ہے… جس سے فضا خوں آشام ہے… اور تمدنِ مغرب خوش مرام ہے… کیوں ایسا طوفان ہے… مسلماں اغیار کے طلسم کا شکار ہے… اب بھی وقت ہے، جاگ جایے… فطری بات ہے کہ ہر قوم کو اپنی تہذیب پیاری ہوتی ہے… اپنے معمولات عزیز ہوتے ہیں… جب اپنے ہی اصولوں سے انحراف واقع ہوتا ہے وہیں سے زوال کا آغاز ہوتا ہے… کیا آپ نے کبھی کسی انگریز کو دیکھا کہ اس نے اسلامی تمدن کو اپنایا… کیا آپ نے کسی یہودی کو دیکھا کہ اس نے اسلامی شعار پر عمل کیا… کیا آپ نے کسی مشرک کو دیکھا کہ اس نے اپنے تمدن کو چھوڑ کر اسلامی تمدن کو مطمح نظر بنایا… ایسا نہیں ہوا… محکوم قومیں حاکم قوموں کے تمدن کو اپنا لیتی ہیں… ہم محکوم نہیں… پھر کیوں دوسری باطل تہذیبوں کو اپنا رہے ہیں؟… اغیار تو باطل عقاید رکھتے ہیں… اس کے باوجود سچے دین کے تمدن سے دور ہی رہتے ہیں… ہم دین فطرت کے حامل ہو کر بھی تمدنِ مغرب کے اسیر ہوتے جارہے ہیں… اور یہی کچھ معاملہ ”عید“ کا بھی ہے… اس مبارک موقع کو بھی بجائے اسلامی طرز کے مطابق منانے کے اغیار کے طرز پر منا کر رحمتِ الٰہی سے خود کو محروم کرتے ہیں… عید سے قبل تو نفس کی پاکی کا اہتمام… اور! عید ہی کے دن نفس کی اسیری! کیا منفی اندازِ فکر نہیں… کیا یہ زوال کے آثار نہیں… کیا یہ ہماری ابتری کا ایک نمایاں سبب نہیں… للہ اپنے حال پر رحم کیجیے! رب کے احکام پر عمل کا اہتمام کیجیے… تب خوشی و مسرت کی بادِ بہاراں چلے گی… اور پورا وجود مہک اٹھے گا… اور یہی عید کا حقیقی تصور ہے کہ خوشی اسلامی احکام کے مطابق منائی جائے… پوری اسلامی سوسائٹی کو اس میں شامل کیا جائے اس طرح کسی کم زور کا حق مجروح نہیں ہوگا… کوئی مفلس محروم مسرت نہیں ہوگا… کوئی غریب عید پر نالاں کناں نہیں ہوگا… کوئی بے آسرا تنہائی محسوس نہیں کرے گا… اس لیے کہ آسرا اور مدد فراہم کرنے والے مسلمان اپنے دوسرے بھائی کو اسلامی رشتے کی بنیاد پر اپنا سمجھیں گے اور اس کی مدد کو اپنا فریضہ…

ہر ہر قوم کا اپنا خوشی منانے کا تصور ہے… یہودی خوشی کے دن عیش و طرب میں مبتلا ہوتے ہیں… عیسائی عصمتیں لوٹ کر، دامن کو داغ دار کر کے مسرت کی بزم سجاتے ہیں… مشرک شرک کا ارتکاب اور شراب کا شغل کر کے اپنا تہوار مناتے ہیں، ناچ رنگ میں فضا کو آلودہ کرتے ہیں… کہیں انسانیت کا پاس نہیں، دامنِ انسانیت کو آلودہ کرنا ہی خوشی ٹھہرا، ایسی خوشی کس کام کی… کہ کسی کو رُلا کر منائی جائے… رشتوں کو پامال کر کے منائی جائے… تصورات کو گدلا کر کے منائی جائے… دلوں کو توڑ کر منائی جائے… جذبات کو کچل کر منائی جائے… اسلامی تصورِ عید ایسا ہے کہ یتیموں کو خوش کر کے خوشی منائی جائے… تنگ دستوں کی جھولی بھر کر عید منائی جائے… مصیبت زدوں کے دکھوں کا مداوا کر کے عید منائی جائے… مظلوموں کی داد رسی کر کے عید منائی جائے… غریبوں کو سہارا فراہم کر کے عید منائی جائے… ٹوٹے دلوں کو جوڑ کر کے عید منائی جائے… روٹھے عزیزوں کو منا کر کے عید منائی جائے… گستاخان بارگاہ رسالت کو رُسوا کر کے عید منائی جائے… وفادارانِ بارگاہِ رسالت کو خوش کر کے عید منائی جائے… تبھی عید کی حقیقی خوشی حاصل ہو گی… جس سے قلبی راحت ہوگی… فکری طمانیت ہوگی، اور یہی مسلماں کی اصل مسرت ہوگی… رضاے رب اکبر ہوگی… خوش نودیِ پیغمبر اعظم ہوگی… اسلامی تمدن کی تمکنت ہو گی… اغیار کی پسپائی اور مسلماں کی کام یابی ہو گی۔

###

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. سینٹ کی، کجلے کی اور غازے کی گلکاری کے بعد
    وہ حسیں لگتی ہے لیکن کتنی تیاری کے بعد
    مدتوں کے بعد اس کو دیکھ کر ایسا لگا
    جیسے روزہ دار کی حالت ہو افطاری کے بعد
    باندھ کر سہرا نظر آئے ہیں یوں نوشہ میاں
    جس طرح مجرم دکھائی دے گرفتاری کے بعد
    ہیروئن پچپن برس کی ہوچکیں تو غم نہیں
    اب گلو کاری کریں گی وہ اداکاری کے بعد
    قو کو بیدار کر ڈسکو میوزک چھیڑ کر
    جو بچاری سو چکی ہے راگ درباری کے بعد
    عید پر مسرور ہیں دونوں میاں بیوی بہت
    اک خریداری سے پہلے اک خریداری کے بعد
    عقدِ ثانی کا مزا پوچھا تو بولے شیخ جی
    ایسے لگتا ہے، چکن چکھا ہے ترکاری کے بعد
    راہِ الفت کی ٹریفک ہو کہ ”موٹروے” کی ہو
    حادثے ہوتے ہیں شاہد تیز رفتاری کے بعد

Leave a Reply to ارتقاء حیات Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *