Home / Socio-political / عوام اور عوامی مسائل

عوام اور عوامی مسائل

                             

عوام اور عوامی مسائل
                 عباس ملک

حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں لیکن عوام اور عوام کے مسائل اپنی جگہ پر جوں کے توں قائم و دائم ہیں۔ یہ دائمی امراض کی طرح کسی حاذق حکیم یا چھومنتر کے منتظر ہیں جو انہیں شاید حل کر دے یا اس کے پاس ان کا حل ہو ۔میاں صاحب نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ شہباز شریف صاحب جوش خطابت میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ان کی باتوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے ۔ وہ جوش خطابت میں مائیک گراتے اچھے لگتے ہیں۔ حضور جوش خطابت میں انہیں صرف عوام کو بے وقوف بنا نا ہی کیوں آتا ہے ۔ آپ ان کی جگہ اور وہ آپ کی جگہ صفائیاں پیش کرتے رہیں گے تو عوام کو صفایا ہو جائے گا۔ عوا م کے ساتھ اگر آپ سنجیدہ نہیں تو پھر عوام کے ساتھ مذاق کرنے اور ان کو زنجیدہ کرنے کا بھی آپ کو کوئی حق نہیں ۔ بجلی کا مسلہ پر شہباز شریف صاحب نے مختلف اوقات میں مختلف بیانات دئیے آپ نے انہیں یکسر ہی بری الذمہ قرار دے دیا۔ کیا میاں شہباز شریف اسی طرح کسی کو معاف کر سکتے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کے ایسے بیانات پر خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا تو میاں شہباز شریف کو بھی تو اس پر شرمندہ ہو کر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے اگر ذمہ داران قوم سے ہنسی مذاق میں ہی وقت گذارا کرنے کی سوچ کر آئے ہیں تو پھر سیاسی پنڈتوں کی پیشین گوئیوں کا اطلاق ہونے پر وہ عوامی ہمدردی کے مستحق نہیں ہونگے ۔ بہت ہوگیا اب ایٹم بم اور موٹر ویز کا کریڈٹ ،اب کوئی نئی بات کریں۔ عوام کو کالا باغ ڈیم کی نوید سنائی جائے ۔ عوام کو ایٹمی پاور پلانٹس سے بجلی مہیا کر کے دھماکہ کیا جائے ۔ گیس بجلی پانی امن اور روزگار کی فراہمی کے دھماکے ہوںگے تو عوام کو بھی یقین آئے گا کہ واقعی میاں صاحبان کے دل میں قوم کا درد موجود ہے۔ سب سے پہلے تو الطاف حسین کی غلاظت کو صاف کیا جائے ۔ ابھی تک مسلم لیگ کی طرف سے الطاف حسین کی ہزرہ سرائی کامناسب جواب نہ دے کر میاں نواز شریف صاحب نے مسلم لیگیوں کو دکھی کیا ان کی نمائیندگی کا صیح حق ادا نہیں کیا گیا۔ ایسے شخص کو جواب کیوں نہیں دیا جاتا جو پاکستانیوں کے درمیان نفاق کا بیج بو رہا ہے۔ پاکستان سے علیحدگی کی سوچ کو تقویت اور ابھارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نہ تو ڈرون حملوں کے خلاف کوئی واضح مئوقف سامنے آیا ہے اور نہ ہی الطاف حسین کے بارے میں کوئی پالیسی بیان دیا گیا۔ اس سے پہلے بھی واضح کر دیا تھاکہ اگر مولانا فضل الرحمان اور ایم کیوایم کے ساتھ ہی کولیشن کی گئی تو یہ عوامی مینڈیٹ کے منہ پر طمانچہ ہو گا۔ مولانا صاحب نے ہمیشہ مفادات اور اختیارات کی ہی سیاست کی ہے۔ انہوں نے ہر آمر ہر جابر کا ساتھ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ۔ وہ اپنے ہر اقدام کی توجیہہ اور منطق قومی مفاد اور جمہوریت کی تقویت اور تسلسل کو قرار دیتے آئے ہیں۔ اب بھی وسیع تر قومی مفاد میں میاں صاحب سے اقتدار میں حصہ چاہتے ہیں۔کیا مسلم لیگ ن کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ذاتیات سے باہر سوچتا ہی نہیں۔ جس کی سیاست کامحور ومرکز ہی ذاتیات ہے۔جس کے کوئی سیاسی اخلاقی اصول ہی نہیں اس سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے مفاد میں بات کرے گا۔ان کے کشمیر ایشو پر اقدامات اس بات کے گواہ ہیں کہ انہیں ایشو سے نہیں بس وزارت سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم عرصہ دراز سے اقتدار میں شریک رہی ہے اس کا کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ ان کے مصائب وآلام میں اس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب ایم کیو ایم کے احتساب کی بات کی جاتی ہے۔ اگر کولیشن کیلئے انہیں جماعتوں کو منتخب کرنا ہے تو پیپلز پارٹی کو مجرم قرار دے کر اس کے کولیشن پارٹنرز کو اقتدار میں شریک کرنے کا صاف مطلب ہوگا کہ مسلم لیگ کو پیپلز پارٹی کے دور اقتدار اور اس کی پالیسیوں سے اتفاق ہے۔ وہ انہی کا تسلسل رکھنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ کے اکابرین کو اگر اس سے عدم اتفاق ہوتا تو وہ ان جماعتوں سے اتحاد کرنے کی بجائے نوآزمودہ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں شمولیت کے منتخب کرتی ۔ سیاسی بیان بازی میں ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے اور ایک دوسرے کو ننگا کرنے میں سب ایک جیسے ہی ہیں۔ زرداری صاحب کو بھائی قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر عمران خان سے ہاتھ ملانا کوئی گناہ کبیرہ نہیں ۔ عوام نے پیپلز پارٹی اے این پی ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمان کی کولیشن یا اتحادی جماعتوں کی حکومت سے ناراض ہو کر انکی پالیسیوں سے عدم اتفاق کرتے ہوئے انہیں ووٹ نہیں دیا۔ مسلم لیگ ن انہی کے ساتھ اتحاد کی بات کرتی ہے تو پھر اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ مسلم لیگ ن کو عوام کے ووٹ کا کوئی احساس نہیں۔ عوام چاہتے توانہیں پھر گورنمنٹ کیلئے منتخب کرسکتے تھے لیکن عوام نے ایسا نہیں کیا توپھر مسلم لیگ کی قیادت کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا تو کہ وہ عوامی فیصلے کے متضاد کام کریں۔ عوام چاہتے ہیں کہ ملک میں امن وامان ہو روزگار ہو تعلیم و صحت کی سہولتیں ہوں ۔ عوام کو ضروریات زندگی کیلئے سوئی گیس بجلی پانی کی ضرورت ہے ۔ عوام نے مسلم لیگ کو منیڈیٹ دیا ہے تو مسلم لیگ کو عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا ہوگا ۔ عوام نے تحریک انصاف اور عمران خان کو اگر ووٹ دیئے ہیں تو پھر انہیں ساتھ لے کر نہ چلنے کا مطلب آمریت یا شہنشاہیت ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ ملکی سلامتی اور قومی اتحاد کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے تمام صوبوں میں مساوی حقوق کی ترویج ممکن بنائی جا سکے۔ ایسے عناصر کو ابھرنے کا موقع فراہم کرنے کی بجائے ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے کسی کو شکایت کا موقع نہ ملنے پائے ۔ اگر کسی کی کوئی شکایت یا گلہ ہے تو اسے سینٹ اور قومی اسمبل

ی کے فلور پر پیش کیا جائے ۔ بلوچ ایشو ہو یا سرائیکی وسیب کے مسائل ہوں انہیں مقامی گروہی لسانی قرار دے کر نظر انداز کرنے سے یہ چھوٹے چھوٹے چرکے ناسور بن گئے ہیں۔ انہیں حل کرنے کیلئے بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے مسائل کو ایوان بالا اور قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ ان کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے اگر سول بیورکریسی مزاحمت کرتی ہے تو فوج کے زریعے ان علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو شروع کراکے انہیں مکمل کیا جائے۔ اس وقت ملک کیلئے خطرناک گھن یہی عناصر ہیں جو قومی اتحاد ویکجہتی اور محبت بھائی چارے کو ختم کر رہے ہیں۔ ان کے تدارک کیلئے انہیں سامنے لا کر مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جائے۔لادینیت پر مبنی اسباق کو طلبا کے نصاب میں شامل کر کے اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے اسباق کو حدف کرنے والوں کو خلاف اقدام نہ کر کے اسلام سے عقیدت کا جو اظہار کیا گیا اس پر مسلم لیگ کی حکومت کو شاید کوئی ندامت نہیں ۔میاں صاحب اسلام نصاب سے نکال دیا گیا تو پھر اسلام کا نام کس لیے اور یہ عمرے اور جج نمازیں کس کیلئے پڑھتے جا رہے ہیں۔ جہاد کواگر نصاب سے نکال دیا تو پھر اللہ اور اس کے رسول اور اس وطن کیلئے کون لڑے گا۔ کرائے اور کنڑیکٹ کے فوجی کیا ان کی حفاظت کر پائیں گے۔ سیاست میں زبان کی پاسداری کی اہمیت کو قائد اعظم کی حیات سے مطابقت دے کر دیکھیں پھر شاید عوام کے سامنے کہے گئے الفاظ کی اہمیت کو محسوس کر پائیں گے۔ اگر آئین اور اپنے کہے گئے الفاظ کو قرآنی حروف اور حدیث جاننے والی سوچ کی پیروی کی گئی تو خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا ہے ۔جگ راضی تے رب راضی کو صرف ایک محاورہ نہ سمجھیں یا حقیقت ہے جس سے مخلوق خدا راضی ہے اس سے ہی خدا راضی ہے۔ جس نے مخلوق خدا کو اذیت دی اس نے ان کے خالق کو اذیت دی ۔ جو اللہ کو اذیت سے دوچار کرنے والے اقدامات کرے تو کیا اللہ اس سے راضی ہوگا۔ تجویز اگر کوئی بری لگی ہو تو ناراضگی معاف ایڈوانس ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *