Home / Socio-political / سیاسی اداکاری کے سیاسی پروڈیوسر

سیاسی اداکاری کے سیاسی پروڈیوسر

            

سیاسی اداکاری کے سیاسی پروڈیوسر
                     عباس ملک

پاکستان کی سیاست کے انداز انوکھے ہیں۔ کون کیا ہے اور کون کیاا نہیں سمجھنا اتنا آسان نہیں ۔ قوم کے ساتھ مذاق کرنے قوم کا مذاق اڑانے والے راہنما مفکر اور مدبر کہلا کر امر ہو تے ہیں۔ اپناخون جلا کر حب الوطنی کا دیا جلانے کی سعی کرنے والا احمق شمار ہو کرگمنامی میں اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ جو آئین قانون وطن ملت بیچ رہے ہیں ان کی اولادیں دنیا کی ہر آسائش سے بہرہ ور اور جنہوں نے وطن آئین قانون ملک وملت سے وفا کا پیغام دیا اور کی وہ محرومیوں کی عمیق وادیوں میں گم وگمراہ ہو رہے ہیں۔ قائد اعظم کے ورثاء اور اس قوم کے دیگر سیاستدانوں کے وارثوں کا تقابل کر لیں یقینا شرمندگی اور ندامت کا ایک تاثر تو ضرور محسوس ہوگا۔ قائد اعظم کے وارث بیت المال کی عطا پر زندہ ہیں اور یحیٰی اور مجیب کے وارث کیا ہیں۔ جس جالب کی نظمیں سیاسی کارکنوں کے جذبوں کی توانائی بنی ان کیلئے راہنما کردار ادا کیا جو آمریت کے خلاف سیاسی مذمت کا ہروال سالار کی اولاد امداد کی اپیلیں کر کے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس طرز عمل نے اچھائی اور اس کی تقلید کی راہ روک رکھی ہے۔ اچھائی کرنے والا یہ سوچ کہ اسے ترک کرنے پر مجبور ہے کہ وہ اچھائی کرکے بھی اگر بے عزت اور بے فیض ہی قرار پائے تو اس بہتر یہ نہیں کہ وہ سیاستدانوں کی طرح سب کچھ پامال کر بھی محسن کہلائے۔ اچھائی اللہ پاک کے حکم سے اور اس کیلئے کرنی ہوتی ہے اپنا فرض اور قرض ادا کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے صلہ کیلئے انسانی رویے کی محتاجی اچھائی کی تعریف سے مماثل نہیں ۔ انسان خواہشات کیلئے کیاکیا پاپڑ بیلتا لیکن حق وسچ کیلئے اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ جھوٹ بولتے زبان تھکتی نہیں سچ بولتے ہکلا جاتا ہے۔ سیاسی عمائدین قومیت وطن پرستی کے نعرے لگاتے تھکتے نہیں لیکن وطن اورقوم کو دینے کیلئے ان کے پاس نعروں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

 الطاف حسین وطن عزیز کے خلاف انتہائی اشتعال انگیزی عصبیت و تعصب کی فضا پیدا کرنے امن وامان کے صورتحال خراب کرنے معاشرتی  انتشارحکومت کے خلاف اکسانے جیسے افکار کی ترویج اور پھیلائو کرنے میں آزاد ہیں۔ حکومت پاکستان برطانیہ گورنمنٹ سے یہ کیوں نہیں کہتی کہ وہ اپنے شہری کو ہمارے ملکی معاملات میں مداخلت سے روکے۔ حکومت اس کے ٹیلی فونک خطاب کو روکنے کیلئے اقدامات کیوں نہیں اٹھاتی ۔الطاف حسین نے ہمیشہ اردو سپیکنگ پاکستانیوں کو دیگر پاکستانی قومیتوں سے لڑانے کی بات ہی کی ہے۔ یکجہتی و بھائی چارے کی طرف بلانے کو گناہ جان کر نہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔آخر اردو سپیکنگ بھائیوں کے ساتھ کیا زیادتی ہورہی ہے ؟کیا ا ن کے شناختی کارڈ پر پاکستانی قومیت لکھنے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ انہیں ڈومیسائل دینے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ ان کے ووٹ دینے کے حق میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ انہیں آزاد گریڈ ون شہری تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ انہی نوکری دینے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ انہیں پاکستان کے کسی حصے میں کاروبار سے روکا جاتا ہے ۔ ان میں رشتے ناتوں کو معیوب جانا جاتا ہے ۔ ایسا کیا سبب ہے جس کی وجہ سے اردو سپیکنگ افراد خود کو مہاجر شناخت میں علیحدہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں پاکستانی سے علیحدہ شناخت بنانے کی ضرورت آخر کس لیے پیش آئی ۔ پاکستان بنانے والے قائداعظم کراچی کے باشندے اقتدار کی غلام گردشوں کے اہم کردار اور اس کے ذمہ دار اردو سپیکنگ لوگ ہی تھے ۔ کراچی میں بادشاہت کو قائم رکھنے کیلئے پورے پاکستان کو بلیک میل کرنے کا یہ رویہ آخر کیوں ؟ ۔ سیاستدان عوامی حقوق کے نام پر معاشرے کو بلیک میل کرنے لگ جائے تو یہ سیاست ہو گی یا بلیک میلنگ کہی جائے گی۔سیاستدان دلائل آئین وقانون کے سانچے میں بات کرتا اچھا لگتا ہے یا پھر سلطان راہی کا گنڈاسہ اٹھائے ہوئے للکاریں مارتا ہوا ۔ سیاستدانوں نے سیاست کو پنجابی فلم بناکر خود کو فلمی ہیرو بنا رکھا ہے۔ فلم کو بھی قسطوں والے ڈرامے کی طرح پیش کیا جاتا ہے ۔

ؓبھائی مہاجر کی بجائے پاکستان اور پاکستانی کا نعرہ کیوں نہیں لگاتے ۔ کیا مہاجر کے حقوق زیادہ ہیں اور پاکستانی کے کم ہیں ۔مہاجر کی اہمیت زیادہ اور پاکستانی کی کم ہے۔ مہاجر زیادہ قابل تعظیم اور پاکستانی کہلانا گالی ہے۔ سیاستدانوں نے پاکستان اور پاکستانی کو گالی بنا دیا ہے۔ کوئی سرائیکی حقوق کا علم بردار تو کوئی بلوچی حقوق کا نالہ خواں ہے۔ کسی کو مہاجروں کے حقوق کے نوحے یاد ہیں تو کسی نے سندھی حقوق کی فریادوں کا دفتر اٹھا رکھا ہے۔پاکستان کدھر ہے پاکستانی کدھر ہیں ۔ ان کے حقوق کی بات کون کرے گا ۔ سیاستدانوں کے اس رویے اور  سوچ نے پاکستان اور پاکستانیوں کو مایوس کیا ہے۔اس سوچ کے نتیجے میں قیام پاکستان کے وقت ایک بنی قوم کو زبان اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کر دیا ۔پاکستان اور پاکستانی دوکے حقوق پورے کرنے سے معذور وںسے کیسے توقع رکھی جائے کہ وہ جس قوم کو بیسیوں میں تقسیم کر چکے ہیں کے حقوق پورے کر پائیں گے۔ سیاستدانوں کے رویے کی وجہ سے نہ ادھر کے نہ ادھر کے رہے ۔ نہ وصال صنم ہوا نہ تنہارہے ہم ۔

اس قوم کو قوم نہیں رہنے دیا گیا ۔ گروہوں اور قومیتوں میں بھٹکتا ہوا انسانی ریوڑ بنا یا گیا ۔جسے بھیڑیوں کے خوف سے مخصوص طبقہ بچانے کی ذمہ داری سنبھال کر ان کو اپنی مرضی کی چراہ گاہوں میں چراتا پھر رہا ہے۔یہ انسان نما مخلوق ان کی لاٹھی کے اشارے پر منہ مارتی اور منہ پر کھاتی گذر بسر کر رہی ہے۔چرواہے کا کردارادا کرنے والے انہی میں سے شکار کر کے دودھ گوشت سے اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں۔ انہیں لاٹھی سے ہانک کر اپنا شوق حکمرانی پورا کر لیتے ہیں۔ احسان پھر ان ہی پر ہے کہ ان کیلئے زندگیاں وقف ہیں۔ جبکہ ان کی زندگیاں استحصال استبداد کی کریہہ مثالوں سے عبارت ہیں۔ انہوں نے عوام کو سوائے ڈر کے کچھ نہیں دیا۔ مسلمان اور پاکستانیوں کے دل میں ایک دوسرے کیلئے نفرت اور ڈر پیدا کرنے کے سوا کوئی کارنامہ ان کے دفتر میں لکھنے کیلئے نہیں۔ یہ سب اپنے مفادات کے محافظ اور ان کی اپنی زبان طریقہ اور اپنا کردار ہے ۔ نہ یہ پاکستانی نہ ان کا پاکستان سے کوئی واسطہ اپنے کردار سے ہے۔نفرتوں کی مسافت ومنزل کے یہ سنگ میل پاکستان اور پاکستانیوں کو یکجا ہونے نہیں دیتے اور نہ ہی ان کے ایجنڈے میں قومی اتحاد کا نکتہ شامل ہے۔ اگر یہ قوم یکجا ہو گئی تو پھر یہ کہاں جائیں گے ۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو انہیں قوم کو یکجا کرنے سے روکتا ہے۔جہاں جس چیز سے ملک وقوم کو فائدہ ہے یہ اس پر عوام کو منتشر کرنے کیلئے ضرور یکجا ہیں۔ کالا باغ ڈیم ہو یا ملک میں صنعت کاری کا فروغ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ یہ قومی املاک بنانے پر معمور نہیں انہیں بیچ کر اپنے اثاثے بنانے پر معمور ہیں۔ یہی قوم کے محسن اور یہی محافظ ہیں ۔ آئین توڑیں یا عوام کو توڑیں انہیں  استحقاق واستثنا حاصل ہے۔ اس قوم کو ایسے مفکر اور مدبر ہی عزیز ہیں جو آئین وقانون کے ساتھ اخلاقیات اور انسانیت کی دھجیاں بکھیرنے کے ماہر ہوں۔ پھر بھی اس دھند میں ایک قندیل باقی ہے اور وہ شمع حق ہے جسے کوئی بجھا نہیں سکتا کہ جوروشن خدا کرے تو پھر دشمن لاکھ دعا کرے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *