Home / Socio-political / بلوچستان اور پاکستان

بلوچستان اور پاکستان

عباس ملک

اس وقت ملک کو سب سے سنگین مسلہ جو درپیش ہے وہ مختلف صوبائی اور لسانی عصبیتوں کامرہون منت ہے ۔سیاسی قائدین ان مسائل کو اپنی سیاست کے لیے تریاق جانتے ہوئے انہیں محفوظ بناتے ہیں۔ ان کو سپورٹ کر کے ان کے ذریعے اپنے سیاسی مفاداتاور سیاسی گدیوں کو تقویت پہنچاتے ہیں۔لسانی اور گروہی بنیادوں پر مسائل کو اجاگرکر کے سیاست کرنا اس وقت مرغوب ترین مشغلہ بن چکا ہے ۔بجائے اس کے ان عصبیتوں کو کم کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں ایسے سیاست دان جن کی سیاسی ساکھ ختم ہو چکی ہے یا جن کے پاس کوئی معاشرتی اور سیاسی ایشو نہیں اس کو بنیاد بنا کر خود کو سیاسی دھارے میں زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

معاشرے کی ترقی اور اس میں فلاح و بہبود کی ذمہ داری کس کی ہے؟اس ذمہ داری کا بنیادی کردار کون ہے ؟یہ سیاستدان ہی ہیں جو اس معاشری کردار کو ادا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی احساس محرومی ہے تو اس کی ذمہ داری براہ راست سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے اس طرف کیوں توجہ نہیں دی اور یہ علاقے اپنے حقوق سے کیوں محروم رکھے گئے۔ بجائے اس کے سیاسی عناصر اس کوتاہی کا ازالہ کریں وہ اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر ایسے گروہوں اور عناصر کو شہ دیتے ہیں کہ ان کی مشکلات کا سبب پاکستان ہے ۔پاکستان سے علیحدگی یا مرکز سے ان کے اعلان جنگ میں ہی ان کے مسائل کا حل ہے ۔خواہ یہ بلوچ ہیں یا سندھی ہوں یا جنوبی پنجاب کے علاقے ہوں یا پھر خیبر پختون خواہ کا احساس محرومی ہو اس کی ذمہ داری اورذمہ دار سیاستدان ہیں ۔ انہوں نے ان علاقوں پر قیام پاکستان سے لیکر آج تک راج تو کیا ہے لیکن انہیں ساتھ ہی تاراج بھی کیا ہے ۔اب وہ اس تباہی اور اس بربادی کا ذمہ مرکز پر ڈال کر اس خیال کی ترویج کر رہے ہیں کہ اس مرکز سے الحاق کی وجہ سے یہ علاقے پسماندہ رہ گئے ہیں۔ ان ہی علیحدگی پسندوں یا محرومیوں کا پرچار کرنے والوں سے یہ پوچھا جائے کہ ان کے بزرگ جو اس علاقے سے کئی دھائیوں تک مختلف حکومتی عہدوں پرفائز رہے لیکن انہوں نے ان علاقوں کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا تو اب اس میں قصور کس کا ہے ۔وہ دوسروں کو اذیت دینے کی بجائے اپنے ان بزرگوں کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے ان کی کوتاہیوں کا ازالہ کریں۔بلوچ راہنماؤں کے مسلح سپوت جو بلوچستان کے حقوق کیلئے اس وقت جدوجہد کے نام پر اپنے ہی بلوچ بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں کیا وہ بگٹی صاحب ، مری صاحب اور مینگل صاحب کے دور وزارت میں ایسا کرنے کی سوچ رکھتے تھے ۔سردار ناراض تو بہت جلد ہو جاتے ہیں اور اپنے خلاف بولنے اور لکھنے پر ان کی سرداری کو دھبہ بھی لگ جاتا ہے لیکن کیا وہ سچ بولنے کو اپنی سرداری کے خلاف نہیں سمجھتے ۔ جان لینا اور جان دینا سب جانتے ہیں لیکن شاید اچھا کرنے کو اچھا سمجھنے کی کوشش کرنا اپنی شان کے خلاف گردانا جاتا ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ ان کے اپنوں کی وجہ سے وہ نہ صرف محروم ہیں بلکہ یہ بھی ان کے اپنے ہی ہیں جو انہیں ان کی جوانی اور ان کی توانائی او ر ان کے وسائل کو استعمال کر کے انہیں پہاڑوں پر جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔انہیں مرکز گریزی کا سبق پڑھانے والے خود مرکز میں بیٹھ کر انہیں مجرم بنا کر انہیں ان کے منصب سے نااہل قرار دلا چکے ہیں۔ اب وہ ملک اورقوم کے مجرم بن کر قانون کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہیں اور مخالفین آرام سے سیاسی گدیوں پر بیٹھے حکومت کے مزے لیتے رہیں ۔سیاست کو فلاح سمجھا ہی نہیں تو پھر اس میں رشتے کیسے اور ناتے کیسے ۔اقتدار کے حصول کیلئے سب کچھ قربان کیا جاتا ہے ۔مسلمان حکمرانوں کی تاریخ اس کا بین ثبوت ہے کہ اقتدار کے حصول کیلئے باپ بیٹا بھی ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوئے ۔ بیٹا باپ کی آنکھیں تک نکال لے تو تاریخ پھر بھی اسے کچھ کہہ تو نہیں سکتی ۔ہمارے سیاسی قائدین نے وہ سبق دھرایا ہے لیکن اس کوئی سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بغداد کے قاضی صاحب نے بھی مسلمانوں کی فلاح کو مدنظر رکھ کر ہی ہلاکو خان کو شاید دعوت حملہ دی تھی ۔وقوعہ ہذا کو سامنے رکھتے ہوئے اگر موجودہ دیکھا جائے تو بغداد کے ایسے کئی قاضی مسلمانوں میں موجود ہیں جو غیر مسلم اقوام کے ہاتھ تو مضبوط کرنے کیلئے ہاتھ بڑھاتے ہیں لیکن اپنوں کی طرف ہاتھ بڑھانے کو اپنی توہین گردانتے ہیں ۔

سب کچھ مارشل لا کے ادوار اور اس کی کارستانی قراردینے کی کاوش اگرچہ کامیاب ہے ۔ان محرومیوں کو مارشل لا ؤں کی دین سمجھ کر اپنے گناہوں اورکوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کامیاب کوشش کر لی گئی ہے ۔پھر بھی یاد رہے کہ تاریخ یہ ثابت کر ے گی کہ یہ مارشل لا کی وجہ نہیں بلکہ ان سیاستدانوں کی وجہ تھی۔ ایوب دور میں ملک میں تاریخی صنعتی ترقی ہوئی۔ اس کے بعد ضیادور میں بھی بہتر رہا اور پھر مشرف کے دور میں بھی عوام پر وہ ستم نہیں ڈھائے گئے جو جمہوریت کے علمبرداروں نے ڈھائے ہیں۔ ملک کو یک جا رکھنے کی ذمہ داری کس کی ہے ۔اگر سیاستدان اس میں کامیاب نہیں تو اس کی ذمہ داری کسی اور ادارے پر ڈال کر وہ بر ی الذمہ نہیں ہو سکتے ۔فوج کو اگر وہ اپنے مفادات کیلئے استعمال کر سکتے ہیں تو پھر فوج کو وہ آڈر بھی دے سکتے ہیں کہ وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی کیلئے زور بازو استعمال کریں ۔ ڈرون حملوں کے خلاف پارلیمنٹ نے قرار داد منظور کی اور نیٹو سپلائی روک دی گئی۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نیٹو سپلائی کی بحالی کی منطق سمجھ سے باہر ہے کہ کیا ہمارے عوام انسان نہیں ہیں ۔ ان سے حکومت وقت کو ہمدردی نہیں ۔ اپنوں سے ہمدردی نہیں اور غیروں سے ہمدردی ہے۔ یہ اصل روپ ہے اور یہ اصل حقیقت ہے جو ہمارے بلوچ اور دیگر اس وقت کے محروم بھائیوں کی آنکھ کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہیے۔ کرتے سیاستدان ہیں اور اس کے بدلے میں پاکستان کو اپنے پاکستانی بھاؤں کو گالی دی جاتی ہے ۔ایک دوسرے کو ہم نے کچھ نہیں لیا جنہوں نے لیا ہے ان کا نام تو شہیدوں اورتمغہ یافتگان میں لکھا جا چکا ہے ۔اس کی زندہ مثال بابر اعوان صاحب ہیں جنہوں نے عدلیہ کے کام میں رکاوٹ ڈالی اور عدلیہ کو مس گائیڈ کیا پھر بھی وہ اعلی ترین خدمات کا تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ ایسے ہی کئی اعلی کردار ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور اعلی عہدوں کے پھر بھی حقدار ہیں ۔اصل کو پہچاننے کی بجائے بے کس اور غریب بھائیوں پر اس کا غصہ اتارنا اور انہیں محروم کر دینا خود سے بھی زیادتی ہے اور اپنوں سے بھی بے وفائی ہے ۔

اس ملک اور قوم نے کسی کا کچھ نہیں نہیں لیا بلکہ سب کچھ تو دیا ہے ۔اپنا سینہ دیا ہے اس دھرتی نے کہ آؤ میرے سپوتوں اس پر شان سے چلو کہ یہ ہماری دھرتی ہے ۔ایک نام دیا ایک شناخت دی ۔ کیا اس قرض کو اتارنے کی بجائے اس دھرتی کو ہی موردالزام ٹھہرانا درست ہے ۔ماں تو جنم دیتی ہے کیا یہ اس کا قصور ہے۔اگے کردار تو اپنا اپنا ہے ۔حوصلہ اپنا ہے ۔جینا کیسے ہے یہ تو اپنی سوچ ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *