Home / Socio-political / اے کاش کوئی یوں کہے

اے کاش کوئی یوں کہے

عباس ملک

ہمارے سیاسی اکابرین کا یہ شیوہ بن چکا ہے کہ وہ ملک اور معاشرے میں موجود ہر کوتاہی ،غلطی اور بگاڑ کو سابقہ کا کیا دھرا قرار دے کر خود کو بری الذمہ جان لیتے ہیں ۔ اس سے کیا قومی اور معاشرتی کردار کا وہ حصہ جو ہم پر عائد ہوتا ہے پورا ہو جاتا ہے ۔ اس سے ان تما م کوتاہیوں کا ازالہ ہو جاتا ہے جوایک ذمہ دار سیاسی شخصیت یا راہنما کے ہم پر عائد کی گئی تھیں یا جن کی ہم سے توقع کی گئی تھی۔ اگر سابقہ کی کوتاہیوں کا ازالہ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا اور وہ خلیج کیسے پاٹی جائے گی جس کے سبب معاشرے میں گرانی اور لا قانونیت کا ایک سیلا ب آ چکا ہے ۔ حکمران کہتے ہیں کہ یہ سابقہ حکومت کا کیا دھرا ہے اور ہمارا قصور نہیں ۔ چلو وہ تو ان کا کیا دھرا تھا اور آپ اس کے قصور نہیں لیکن کیا ان حالات کو مزید ابتر بنا نے میں آپ کا کوئی کردار نہیں ۔ آپ کو قوم نے اس توقع سے منتخب کیا تھا کہ آپ آئیں گے تو ان ظالموں سے پیچھا چھڑائیں گے اور ان کی پالیسیوں کو ختم کر عوام کو ان کے حقوق دلائیں گے ۔عوام یہ پوچھتی ہے کہ بھٹو کا مقدمہ ری اوپن کرانے سے کیا ملک میں جاری توانائی کا بحران ختم ہوگیا ۔ کیا بی بی کی برسیوں پر شعلہ بارتقاریر سے ان کے کارناموں کو بار بار دھرا کر ملک میں لاقانونیت کا جو طوفان برپا ہے اس میں کوئی افاقہ ہو ا۔عدالت عظمٰی کو غیر ضروری مقدمات میں الجھا کر اس کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کیلئے قومی خزانے سے بابر اعوان اور اس کے ہمرائیوں کو جس طرح نوازا گیا اور اب مکرمی اعتزاز صاحب پورے اعزاز کے ساتھ اس اکرام کو استعما ل کر رہے ہیں ۔ میمو گیٹ ایشواگر سازش ہے تو گورنمنٹ کیا ایک سازش کو بے نقاب نہیں کر سکتی ۔ ایک آدمی سے پوری پارٹی کو خطرہ ہے یا پھر سچ سے ڈر لگتا ہے ۔میمو گیٹ کا ملزم وزیر اعظم ہاؤس کا مکین ہو سکتا تو میمو گیٹ کے مدعی اور اس کے گواہ کو بھی تو سہولیات فراہم کی جانی چاہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے مستقبل کو سیاسی شخصیات کی ذات سے علیحدہ کیا جائے ۔سیاسی شخصیات نے اب یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ انہیں یا کسی بھی سیاسی پارٹی کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ پاکستان کے متعلق لا یعنی بیانات سے پاکستانیوں کے دل میں خدشات ابھار کر خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پاکستان کو بیشک ان کے غیر معقول اقدامات اور ان کی پالیسیوں سے خطرہ ہے لیکن اس سے پاکستان کی سلامتی کو اگر خطرہ ہے تو یہ امر بھی ان سیاسی اکابرین کو زیر غور لا نا چاہیے کہ وہ بذات خود پاکستا ن کیلئے خطرات کا باعث ہیں۔انہیں ایسے امور سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے پاکستان اور پاکستانیوں کو خطرات لاحق ہو جائیں ۔ محب الوطنی کا یا انسان دوستی اور اصل سیاست کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ایسا طریقہ کار اور ایسی پالیسیاں وضح کی جائیں جن سے ملک اور معاشرے کو استحکام حاصل ہو ۔ صدر صاحب اور وزیر اعظم پاکستان اپنے جیل کاٹنے کا تذکرہ یوں کرتے ہیں جیسے انہوں نے اس ملک اور معاشرے پر احسان عظیم کیا ہو۔ مجھے سیاسی وورکز پر بھی حیرت ہوتی ہے جو ایسے اشخاص کو اپنا راہنما اور لیڈر تصور کرتے ہیں جن کا ماضی میں جرم سے رشتہ رہا ہو۔ اپنے اختیارات کے ناجائز استعما ل اور اقربا پروری پر جیل کاٹنے والے وزیر اعظم اور کمیشن خوری اور قتل جیسے قبیح جرائم میں ملوث رہنے والے شخص کا اس پر اترانا اور فخر کرنا اس وقت کے سیاسی کلچر اور سیاسی اکابرین کے طرز فکر اورطرز عمل کا عکاس ہے ۔اس سے اندازہ کر لیا جانا چاہیے کہ اس وقت ہم نے کیسے افراد کے ہاتھوں میں عنان حکومت دے رکھی ہے۔ ایسے افراد سے کس طرح یہ توقع رکھی جاسکتی جو ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ ہو کر اپنے منہ سے بیان کریں کہ ہمیں جس نے ووٹ دینا ہے دے ورنہ ہمیں کسی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں اورہم ان کے ووٹوں کے محتاج نہیں ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عنان حکومت کی سپردگی کے مراحل میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسا خفیہ امر ہے جو انہیں یہ دعوی کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ ملک میں لسانی اور گروہی سیاست کے زریعے اس وقت ہر سیاسی جماعت کی یہ کوشش ہے کہ وہ اپنے لیے کوئی ایسا انتظام کر لے جس سے اس کی سیاسی جماعت کا مستقبل محفوظ ہو جائے ۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں سوچنے کیلئے سیاسی عمائدین کے پاس وقت نہیں ۔اس وقت ملک کی صوبائی تقسیم کے حوالے سے صرف اس لیے ہی نعرے لگائے جا رہے ہیں تاکہ آئیندہ وقت میں ان علاقوں میں سے ووٹوں کے حصول کیلئے اس کواستعمال کیا جا سکے ۔ اس میں ان علاقوں کی فلاح و ترقی کا کوئی عنصر شامل نہیں ۔ مسلم لیگ ن کی مقبولیت کو اور کسی طریقے سے کم نہیں کیا جا سکتا تو اس کیلئے انتہائی طور پر یہ اقدام اٹھا یا گیا کہ پنجاب کو تقسیم کر دو ۔ میں مخدوم جاوید ہاشمی صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے انہیں صوبائی تقسیم کے بارے میں کیوں خیال نہیں آیا ۔ ہاشمی صاحب باغی ہونا کوئی بڑی بات نہیں آپ سے پہلے بھی بہت باغی رہے ہیں اور آپ کے بعد بھی بہت باغی ہوں گے۔ اصل بات اصولوں پر قائم رہنے اور ان کیلئے ایک استقلال وعز م کے ساتھ کھڑے ہونے کی ہے ۔ آپ اپنی سابقہ پارٹی میں اپنی حیثت منوا نہیں سکے اور وہاں پر اپنے حق کیلئے آواز بلند نہیں کر پائے اورنہ ہی آپ اپنا حق وصول کر پائے تو آپ ہمارے لیے کیا کریں گے۔ جذباتی تقریوں سے کیا ہمارا پاکستان ترقی کی منازل طے کر جائے گا۔تیس سالوں میں آپ نے اپنے حلقے کو کیا دیا ہے کم از کم اس سے ہی لوگوں کو یہ اندازہ لگانے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ اپ صرف خود پسند ہیں ۔ آپ ناراض ہو کر وہاں سے چلے آئے اس سے ہی آپ کی کم زور شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ ی

ہ کسی اکابر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنا حق منوا نہ سکیں تو ناراض ہو کر سائیڈ پر ہو جائیں ۔ اس وقت للکار کر کہتے کہ میں باغی ہوں۔ اسی طرح عمران خان صاحب بھی قوم کے مجرم ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف کے نام پر جو تحریک شروع کی اس کو اقتدار کے حصول کا شارٹ کٹ بنا لیا ۔ اس میں ہرایسے شخص کو شامل کر لیا جس نے ناانصافی کے ریکارڈ قائم کیے ۔قومی جرائم میں شامل افراد کو تحریک انصاف میں شامل کر عمران خان نے اقتدار کی طرف تو پیش قدمی کی ہے لیکن یہ طے ہے کہ عمران خان کوئی اصولی شخصیت نہیں ۔ تحریک میں حال میں شامل ہونے والے تمام چہرے سب وہ ہیں جنہوں نے چڑھتے سورج کی پوجا کو ہی مناسب جانا اور اسی اصول کے تحت پچھلی تین دھائی سے وہ اقتدار کی ناؤ کے سوار ہیں ۔اس ناؤ میں سواری کا مقصد انصاف کا حصول نہیں بلکہ اقتدار کا حصول ہی ہے ۔اول تو یہ طے ہے کہ عمران خان اس طرز عمل کی وجہ سے آنے والے انتخابات میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے۔حالات حاضرہ کے تحت موجودہ حکومت کو درپیش مسائل کو تعلق سے صرف وقت گذاری ہے تاکہ آئیندہ الیکشن تک کی ٹرم تک کے ٹائم فریم کو مکمل کیا جائے ۔جمہوری عمل کی تکمیل کیلئے عوام کو یہ سارے تماشے دیکھنے پڑیں گے اور روز کوئی نہ کوئی نیا کردار اس میں شامل ہو کر عوا م کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر اس طرف کراتا رہے گا ۔ عوام مرتی ہے تو مرے حکمران تو محفوظ ہیں ۔ ان کے دسترخوان تو سجے ہیں ۔اس سے نہ پہلے حکمرانوں کا کوئی تعلق تھا اور نہ اب ہے ۔نہ ہم نے کبھی چاہا کہ پاکستان ترقی کرے اور نہ ہی ہم کبھی سوچا کہ کیسے پاکستانی عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات کا حصول بہتر بنا یا جا سکتا ہے اور کیسے اسے آسان بنایا جا سکتا ہے ۔ ایجنڈے میں تو پاکستانی قوم پر سیاست دانوں کے احسانات کو گنوا کر اورعوام کو یہ جتا کر اگروہ نہ ہوتے تو یہ ملک اورقوم کب کے مغلوب ہو چکے ہوتے۔البتہ اگر پاکستانی یہ سوچیں کہ اگر یہ نہ ہوتے تو اس وقت پاکستان کتنے عروج پر ہوتا ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *