Home / Socio-political / امریکی امداد اور پاکستانی

امریکی امداد اور پاکستانی

        امریکی امداد اور پاکستانی  

 

  عباس ملک ،پاکستان

امریکن زعما کو پتہ نہیں کیوں یہ غلط فہمی یا خوش فہمی ہو چکی ہے کہ پاکستانی ان کی دی ہوئی امداد پر ہی زندہ ہیں ۔انکی امداد کے بغیر پاکستا ن کا دوسرا سانس لینا دشوار نہیں بلکہ اگر امریکن امداد کی ہڈی پاکستان کے نرخرے سے نکا ل دی جائے تو ان کی سانس بحال ہو کر روانی سے چلنی شروع ہو جائے گی۔ امریکن امداد کی لاٹھی کے سہارے خود کو بے سہارا محسوس کرنے کی سوچ میں تبدیلی سے اس لولی لنگڑی قوم میں خودی کا عنصر بیدار ہونے کی پوری توقع ہے ۔پاکستانیوں کو بھکاری جاننے والے یاد رکھیں کہ یہ قوم خود ی اور خوداری کے عنصر سے ابھی عاری نہیں ہوئی ۔امریکہ پاکستان کو پنجہ استبداد میں لانے کیلئے ہر طرح کا دباﺅ اور حربہ استعمال کر رہا ہے ۔اس کے طفیلی ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اپنی معاشی پالیسیوں کے زریعے ہماری معیشت اور معاش کو زیر بار کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔بلیک واٹر اور اس طرح کی ایجنسیاں ملک میں تخریبی عمل سے انتظامی مسائل پیدا کرکے عوام میں خوف و ہراس اورانتشار پیدا کرکے پاکستانیوں کو سرنگوں کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہیں ۔پاکستان کے گرد سیاسی سماجی اور علاقائی دباﺅ قائم کرنے کیلئے طالبان ،انڈیا اور اسرائیل کے گماشتے ہر غیر اخلاقی حربہ استعمال کر رہے ہیں ۔انڈیا نے حال میں ڈیموں سے زائد پانی بغیر کسی اطلاع کے چھوڑ کر پاکستان میں صدی کے بدترین سیلاب کی صورتحال پیدا کر د ی ۔ اس پر کسی بھی غیر جانبدار ملک نے اس کی مذمت کرنے کی زحمت نہیں ۔پاکستانی اس صورتحال میں بھی اپنی خودی کے ساتھ نبرد آزما نظر آئے ۔پاکستان کی معیشت کو ہر دم زک پہنچانے کیلئے پاکستان کا سرمایہ قیمتی ادارے غیر ملکی ہاتھوں فروخت کرنے کیلئے عاملی طاقتیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ عمل پیر ا ہیں ۔ملک میں سیاسی انتشار کی ذمہ داری بظاہر تو مفاد پرست سیاستدانوں اور بیوروکریسی پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کے پس پردہ کھٹ پتلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے یہ بھی کوئی اب راز کی بات نہیں ۔سیاسی اداروں کو کمزور بنا کر انہیںباجگزار بنانے کی حکمت عملی سوشلزم کے عملبردار ہی کر رہے ہیں۔پاکستان کی سیاسی سماجی اور انتظامی زندگی کو تہہ و بالا کر نے کیلئے پاکستان کی سرحدوں کے اطراف سے دباﺅ بڑھایا جا رہا ہے ۔افغان حکومت جو امریکی ایجنٹوں پر مشتمل ہے پاکستان کے خلاف دشنا م طرازی کرتی ہے ۔ان کی وجہ سے افغانستان کو مسلہ حل نہیں ہو پا رہا ۔اگر وہ درمیان سے ہٹ جائیں اور امریکہ کی ایجینٹی کی بجائے اپنی قوم کی نمائیندگی کریں تو افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کی موجودگی کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے۔افغان سرحدوں کے اندر پاکستان کے درینہ دشمن کے خفیہ اداروں کے کارکن افغانوں کو ورغلا کر ان تہی معاش اور جنگ زدہ معاشرے کے لوگوں کو پاکستان میں تخریبی کاروائیوں کیلئے بھیجتے ہیں ۔پاکستان میں ان کی وجہ سے گروہی اختلافات اور قبائل کے درمیان مسابقت اور دشمنی کی خلیج پیدا کر پاکستانیت اور قومیت کا عنصر کمزور بنانے کی مقدور بھر منصوبہ بندی پر عمل کیا جارہا ہے۔پاکستان کے بد خواہ پاکستان کے ان حامیوں کو کبھی افغان اور کبھی ترکمان ثابت کر کے انہیں پاکستان کے خلاف برگشتہ کر تے رہتے ہیں ۔افغانستان کا عدم استحکام پاکستان کی معیشت پر بوجھ بن کراس سے اخوت کا خراج وصول کر رہا ہے ۔ اخوت اور بھائی چارے کے نام پر افغانوں کو پناہ اور سفارتی و اخلاقی امداد دینے کے باوجود بھی پاکستانی صرف اس لیے قابل نفرت ہیں کہ ان کے حکمران افغانستان پر حملے کیلئے زمینی اور فضائی امداد کیلئے نیٹو اور امریکن فورسز کیلئے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔وہی افغان جو کعبہ کے بعد پاکستان کو سرزمین مقدس قرار دیتے تھے آج ان کے دل میں اس کیلئے نفرت ہے ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقاصد کو تقویت پہنچانے کیلئے اپنے بھائیوں سے منہ موڑ کر بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کیلئے پاکستان اور پاکستانی معتوب ہیں ۔ امریکن وزات خارجہ اور داخلہ پالیسی میں پاکستان اور پاکستانیوں کی اہانت کیلئے کتنی شقیں داخل کی گئیں ۔پریسلر سکیم سے لیکر امیگریشن پالیسی تک پاکستانیون کے ساتھ امتیازی سلوک اس بات کا بین ثبوت ہے ۔دوستانہ طرز عمل اگر ایسا ہے تو پھر اسرائیل اور انڈیا جیسے دہشت گرد ممالک کیلئے امریکہ کی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں پاکستان کے برعکس گرمجوشی اور توقیر کا عنصر کیوں ہے ؟پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر خدشات اور اس کیلئے پابندیاں جبکہ انڈیا کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے معائدے اور اسرائیل کو باقائدہ معاشی اور دفاعی امداد کے پیکج عالمی برادری کو امتیاز کی طرف مائل نظر کیوں نہیں آتے ؟انڈیا کشمیر پر قابض ہے اور کشمیریوں پر مظالم وبربریت کی تاریخ ساز داستانیں اس کی افواج قائم کر رہی ہیں ۔انڈیا نے بابری مسجد کو شہید کیا لیکن عالمی برادری کو ذرا بھی ملال نہیں ہوا۔انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معائدے کے برعکس ڈیم تعمیر کیے لیکن وہ اس کے سیکولرازم اور جمہوریت کے بھرم کو راز اور اصلیت فاش کرنے میں ناکام رہے ۔امریکہ اور نیٹو فورسز عراق اور افغانستان اوراب پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے بعد بھی عالمی امن کوتقویت دینے میں ناکام ہیں ۔ان کے ایجنٹ اپنی اقوام کیلئے غدار کا درجہ رکھتے ہیں اور تاریخ میں بھی وہ اپنی اقوام کے مفادات کے برعکس چلنے کی بنا پر غدار ہی لکھے جائیں گے ۔ عالمی امن کیلئے صرف مسلمانوں کا خون ہی واحد علاج کیوں ہے ؟مسلمانوں کا استحصال اور ان پر قائم کردہ استبداد ہی عالمی امن کی ضمانت کیوں ؟عالمی امن کی

لئے امریکہ اور اس کے حواریوں کو اپنے طرز عمل اور طرز فکر میں تبدیلی لانی ہو گی ۔یہ تبدیلی مسلمانوں یا پاکستانیوں کے خلاف استحصالی ہھتکنڈوں کی بجائے انہیں ایک پر امن قوم اورایک ملت کے طور پرتسلیم کر تے ہوئے دینی ہو گی ۔کوئی قوم اور ملک ایسا نہیں جہاں کے شہری ہر طرح کے مذہبی اور دنیاوی عیوب سے پاک قرار دئیے جا سکیں ۔مسلمانوں اور پاکستانیوں میں ضرور ایسا ہے لیکن بحیثیت مجموعی تناسب پاکستانیوں نے دنیا کے ہر ملک میں انسانی خدمات کے اعلیٰ ترین معیار قائم کیے ہیں ۔دنیا اس سے نہ صرف بخوبی اگاہ اور اسکی گواہ ہے بلکہ اس کی معترف بھی ہے ۔شاید پاکستان اور پاکستانیوں کی یہی خوبی اقوام عالم اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔مسلمانوں کی لیاقت اور الولعزمی شاید اقوام یورپ کو خطرہ محسوس ہوتی ہے۔ایسا ان کی اپنی سوچ کے سبب ہے ۔اگر وہ مسلمانوں کو اپنے لیے خطرہ نہ جانیں تو یقینا مسلمان کو اپنے مد مقابل نہیں پائیں گے۔امریکہ اور دیگر ممالک اگر پاکستان کی امداد کو مختلف پابندیوں سے منسلک کر کے پاکستانیوں کو معاشی ابتلا میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو ہم ایسی امداد سے نفرت کا اظہار ہی کریں گے ۔یہ دوستی نہیں دشمنی ہے ۔دوست بن کر مسلمانوں اور پاکستانیوں کو معاشی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنانے کی کوشش ہی یہ ثابت کرتے گی کہ امریکی امداد بھیک نہیں بلکہ دوست کی طرف سے ایک گرے ہوئے دوست کو اٹھانے والا بڑھتا ہوا ہاتھ ہے ۔

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *