Home / Socio-political / اسلام میں مذہبی آزادی

اسلام میں مذہبی آزادی

اسلام میں مذہبی آزادی

سمیع اللہ ملک

اسلام خدائے واحد کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوتِ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام حق کے ابلاغ کا قرآنِ حکیم نے یوں بیان کیا :ادع ا ِلی سبِیلِ ربِ بِالحکِمۃِ والموعِظِ الحسنِۃ وجادِلہم بِالتِی ہِی حسن ا ِن ربک ہوا علم بِمن ضل عن سبِیلِہ وہو اعلم بِالمہتدِین:اے رسولِ معظم!آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث(بھی)ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی)خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی)خوب جانتا ہے النحل(۱۶۔۱۲۵)

اسلام نے ایسے طریق دعوت سے منع کیا جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو، دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

لآ اِکراہ فِی الدِینِ قد تبین الرشد مِن الغی:دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔البقرہ(۲۔۲۵۶)

شریعت کی یہ حکمت عملی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے مذہب و مسلک پر برقرار رہنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اسلامی مملکت ان کے عقیدہ و عبادت سے تعرض نہ کرے گی۔ اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم ﷺنے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا :

ولنجران وحاشیتہم جوار اللہ و ذم محمد النبی رسول اللہ علی نفسہم وملتہم ورضہم وموالہم وغائبہم وشاہدہم وبیعہم وصلواتہم، لا یغیروا اسقفا عن اسقفیتہ ولا راہبا عن رہبانی ولا واقفا عن وقفانیتہ وکل ما تحت یدیہم من قلیل و کثیر.طبقات ابن سعد(۲۲۸:۱:۳۵۸)

نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اس کے رسول محمد ﷺکی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال، حاضر و غائب اشخاص، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی پادری کو اس کے مذہبی مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی زیر ملکیت ہر چیز کی حفاظت کی جائے گی۔

مختلف ادوارمیں گرجا گھر اور کلیسا سلامی حکومت میں موجود رہے ہیں۔ کبھی بھی انہیں ادنیٰ گزندتک نہیں پہنچائی گئی بلکہ حکومت نے ان کی حفاظت کی ہے اور غیر مسلموں کو ان میں عبادات کی انجام دہی کے لیے سہولیات فراہم کی ہیں۔جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت میں اس کی کفالت لازم ہے۔ کتاب الاموال میں ابوعبید نے حضرت سعید بن مسیب ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے :

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصدق صدقہ علی اہل بیت من الیہود فہی تجری علیہم.رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کے ایک گھرانہ کو صدقہ دیا اور (حضور ﷺ کے وصال کے بعد بھی)وہ انہیں دیا جارہا ہے۔

٭ حضرت زید بن ہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :بے شک ام المومنین نبی اکرم ﷺ کی زوجہ مطہر ہ حضرت صفیہؓنے اپنے رشتہ داروں کو صدقہ دیا حالانکہ وہ دونوں یہودی تھے جو تیس ہزار (درہم)کیقریب تھا۔

٭ عمرو بن میمون، عمرو بن شرجیل اور مر ہمذانی سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ راہبوں کو صدقہ فطر میں سے دیتے تھے۔

 اسی طرح امام ابو یوسف کی کتاب الخراج میں ہے :وجعلت لہم ایما شیخ ضعف عن العمل او اصابتہ اف من الافات او کان غنیا فافتقر وصار اہل دینہ یتصدقون علیہ طرحت جزیتہ و عیل من بیت مال المسلمین و عیالہ ما اقام بدار الہجر و دارالاسلام.اگر ان کے ضعیف العمر اور ناکارہ لوگوں یا آفت رسیدہ یا بعد ازغنی فقیر ہو جانے والوں کو ان کے مذہب کے لوگ ان کو خیرات دینے لگیں تو ان سے جزیہ ہٹا لیا جائے گا اور مسلمانوں کے بیت المال سے ان کے نان و نفقہ کا بندوبست کیا جائے گا جب تک وہ اسلامی ملک میں رہیں۔اِسی طرح جو ذِمی محتاج اور فقیر ہو جائیں انہیں صرف جزیہ ہی معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانہ سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اہل حیرہ کوجو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس میں لکھتے ہیں :

میں نے ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے، تو اس کاجزیہ معاف کر دیا جائیگا اور اسے اور اس کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا۔

اگرکوئی ذمی مر جائے اور اس کے حساب میں مکمل جزیہ یا جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثا پر اس کا بار ڈالا جائے گا۔کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔ امام ابو یوسف ؒ لکھتے ہیں : اگر اس پر جذیہ واجب ہو تو اس کی کل یا کچھ ادائیگی سے قبل وہ مرجائے تو اس پر بقیہ واجب الادا جزیہ وارثوں سے وصول نہیں کیا جائیگا کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔ کتاب الخراج : ۱۳۲

عملی طور پر اس کی تاریخ اسلامی میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ غیر مسلم اقلیتوں کے معذور افراد کو اسلامی بیت المال سے باقاعدہ الاؤنس ملتا رہا ہے۔

٭ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ ایک یہودی کو دیکھا جو اندھا ہو چکا تھا تو آپ نے اس کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر فرما دیا۔ اجتماعی کفالت کے حق اور حقوق عامہ میں اسلامی حکومت کی نگاہ میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ وہ بالکل برابر کے شہری ہیں۔ اسی طرح غیر مسلموں کو وظائف دینے کی کئی مثالیں تاریخِ اسلام میں موجود ہیں۔

ہر دور میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام کے قوانین پر عمل کیا جاتا رہا اور جب کبھی سرکش امرا ء نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو علما و فقہا نے انہیں اس سے باز رکھنے یا کم از کم ان سے اس کی تلافی کرانے کی کوشش کی ہے۔

تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اموی نے دمشق کے کلیسا یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا۔ بلاذری کے مطابق جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اورعیسائیوں نے ان سے ولید کے کلیسا پر کئے گئے ظلم کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔فتوح البلدان : ۱۵۰

یہ اِسلامی تاریخ کے درخشاں باب سے چند ایک مثالیں تھیں جن میں غیر مسلموں کے حقوق کی پاسداری اور تلقین کا عملی مظاہرہ سامنے آتا ہے۔ اسلام ہمیشہ امن و سلامتی کا داعی رہا ہے اور اس کے پیروکاروں نے اخوت و بھائی چارے کا پرچار کیا ہے۔ حتی کہ غیر مسلموں سے جنگ کے وقت بھی انہیں یہ ہدایت کی جاتی تھی کہ ان کے بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور مذہبی پیشواں کو گزند نہ پہنچائیں، ان کے درختوں، عبادت گاہوں اور گھروں کو مسمار نہ کریں۔

افسوس!آج اسلام کا چہرہ مسخ کیا جا رہا ہے اور اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس پر انتہا پسند اور دہشت گرد ہونے کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ اس سازش میں اغیار کے ساتھ ساتھ اپنے سے حصے دار ہیں جو کم علمی کے باعث اسلام کا آفاقی پیغام صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے اور اغیار کا آلہ کار بنتے ہوئے ان کی سازش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج مٹھی بھر انتہا پسند نام نہاد مسلمانوں نے اسلام کی حقیقی روح کو داغ دار کر دیا ہے۔ جہاد اور خلافت کے نام پر فتوے جاری کرنے کی کسی شخص یا گروہ کو انفرادی سطح پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس طرح کے انتہا پسند و دہشت گرد لوگ دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ امریکہ ہو یا برطانیہ، آسٹریلیا ہو کہ یورپ، اسرائیل ہو یا بھارت، چین ہو یا جاپان، دہشت گرد ہر جگہ پائے جاتے ہیں، دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں، دہشت گرد کا کوئی ملک و علاقہ نہیں۔ دہشت گردی ایک سماجی و معاشرتی رویے کا نام ہے، اس کی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں، لہذا مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگانا سراسر نا انصافی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض مفاد پرست عناصر اپنے Wested interests   کی تکمیل کے لیے سادہ لوح انسانوں کو اپنا آلہ کار بنا رہے ہوں، یا بعض ایجنسیاں ان لوگوں کو استعمال کر رہی ہوں۔ بہر حال اصل حقیقت اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں اصل چہروں کی شناخت کرنا ہوگی اور اسلام پر لگائے جانے والے انتہا پسندی و دہشت گردی کے الزامات دور کرنا ہوں گے۔ ہمیں ان چہروں کو ننگا کرنا ہوگا جو ان دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اور اگر ہم واقعی دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس کی اصل وجوہات کو Addressکرنا ہوگاچاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، معاشی ہوں یا معاشرتی۔ اسلام پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے نفس مسئلہ کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ تمام مذاہب اپنے پیروکاروں کو صلح جوئی اور امن کا درس دیتے ہیں اس لیے ہم کسی مذہب کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ ہمیں دیگر معاشرتی قبائل و مذہبی گروہوں کو شناخت دینا ہوگی اور ان کی ٖFeelings of isolationکا ازالہ کرنا ہوگا ۔ تمام لوگوں کو بلاامتیاز رنگ و نسل اور مذہبی تفریق کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔

تمام افراد اور نوجوانوں کو بالخصوص یورپ کے اندر اپنا مقام پیدا کرنے، اس ملک اور معاشرے کے لئے مل جل کر کام کرنے اور تمام کمیونٹیز کے ساتھ گھل مل کر رہنا ہوگا کیونکہ یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔ اسلام نے کبھی بھی دوسرے معاشروں سے الگ تھلگ(Isolation)رہنے کی تعلیم نہیں دی۔

یہ وہ بنیادی اصول ہیں جن کا درس ہمیں تاجدارِ کائنات ﷺ نے خطبہ حجہ الوداع کے موقع پر دیا۔ انسانی مساوات و برابری کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا :

یا یہا الناس! لا ن ربکم واحد، ون باکم واحد، لا لا فضل لعربی علی عجمی، ولا لعجمی علی عربی، ولا لحمر علی سود، ولا سود علی حمر لا بالتقوی.(مسند احمد بن حنبل،۴۱۱:۵

اے لوگو!آگاہ ہوجاؤ،تمہارا رب ایک ہی ہے اور تمہارا باپ ایک ہی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ،کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے۔ کسی سرخ کو کالے پر برتری حاصل ہے نہ کسی کالے کو سرخ پر برتری حاصل ہے،سوائے پرہیزگاری کے۔

 وہ قلیل تکفیری جن کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے پشاورمیںگرجاگھرپرخونی حملے کوجائزقراردیاہے یقیناانہوں نے اللہ اوراس کے رسولﷺکے احکام کی کھلی خلاف ورزی کاارتکاب کیاہے جس سے اسلام کاکوئی تعلق نہیں۔اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اس معاشرے کو امن و استحکام کا گہوارہ بنانے اور ایتائے انسانی حقوق کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *