Home / Literary Articles / اردو۔ فارسی اور عربی میں رزمیہ شاعری: صلح و جنگ کی داستان

اردو۔ فارسی اور عربی میں رزمیہ شاعری: صلح و جنگ کی داستان

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین  

اردو۔ فارسی اور عربی میں رزمیہ  شاعری: صلح و جنگ کی داستان

رزمیہ شاعری ہماری ادبی و تہذیبی وراثت کا اہم حصہ ہے ۔ رزمیہ شاعری کا  ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ایشیائی تہذیب و ثقافت کے اظہار  کا ایک اہم وسیلہ بھی رہی ہے۔رزمیہ شاعری میں  انسانی  تہذیب و تمدن ، تاریخ وثقافت اور حماسہ  کےعلاوہ اس طرز شاعری میں انسانی اقدار و اخلاق اور  جذبات و  نفسیات کی بھی بھر پور عکاسی ہوئی ہے۔رزمیہ شاعری میں اس عہد کے معاشرتی اور سماجی زندگی کے ان پہلوؤں کو دیکھا جاسکتا ہے جو تاریخ کی کتابوں میں بھی نہیں ملتیں۔رزمیہ شاعری کا  دائرہ  بر صغیر تک محدود ہونے کے بجائے یہ کم و بیش پورے ایشیائی خطے کے ساتھ ایران و عرب کو اپنے دائرے میں سمیٹتی ہےاس طرح رزمیہ شاعری کے ذریعے ہندستان کے مشترکہ اقدار وروایات   جن کا تعلق قدیم ہندستان اورعرب و ایران سے ہے، ان اقدار کی شناخت بھی کی جاسکتی ہے ۔اس کے ساتھ ہی اردو شعریات کی ا س  عظیم روایت کی بازیافت بھی ممکن ہوسکے گی۔موضوعات و اسالیب کے نقطۂ نظر سے بھی رزمیہ شاعری ادبیات عالم میں بیش قیمت سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے۔ہندستان میں  منظوم داستانیں ، مہابھارت  اور رامائن کے اردو تراجم ، شاہنامے اور مراثی ، ایران میں شاہنامہ فردوسی ، رستم و سہراب ، خمسے اور دیگر شہپارے  زبان و بیان اور اظہار کے گوناگوں پیرائے  عظیم ادبی سرمایے ہیں۔

اردو ادب کی بات کریں  تو اس میں رزمیہ شاعری کے حوالے سے سب سے زیادہ بات مرثیہ کی ہوتی ہے ۔ مرثیہ بنیادی طور پر رزمیہ شاعری ہے لیکن اس صنف ادب کو عقیدت کے نقطۂ نگاہ ستے بھی دیکھا جاتا ہے۔شاید اسی وجہ سے مرثیہ کہیں کہیں نا  کہیں عقیدت  میں اپنا ادبی وقار کھوتا گیا ۔ حالانکہ مرثیہ اردو ادب کی سب سے اہم صنف ہے جس مین جذبات نگاری اور رزم نگاری کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں ۔اردوشاعری میں کربلائی مرثیے کا ایک گراں قدر سرمایہ ہے۔مرثیے کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتناکہ اردو ادب کی روایت۔ مرثیہ گوئی کا ذکر آتے ہی فوراً ہماراذہن واقعہ کربلاکی جانب منتقل ہوجاتاہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ موضوعاتی اعتبارسے مرثیہ گوئی کی دو اورشاخیں بھی ہیں جنھیں شخصی مرثیہ گوئی اور جدیدمرثیہ گوئی کانام دیا گیا ہے۔ مرثیے کی دیگر شاخوں سے قطع نظر کربلائی مرثیے کوعقیدت کی بنیادپر یاکثیر سرمایے کی بنیادپراولیت حاصل ہے۔ کربلائی مرثیے کاتعلق واقعۂ کربلااور اس سے وابستہ افرادسے ہے۔کربلا کے سانحہ میں نواسۂ رسول اورخانوادہ ٔ رسول کی وفات پر ان کے غم میں جومرثیے کہے گئے وہ کربلائی مرثیے کہلاتے ہیں۔اس کاتعلق سراسرمذہب اورعقیدت سے ہے۔ اس کے لکھنے اورپڑھنے کابس ایک مقصد ہے اوروہ ہے مرنے والے کے غم میں ماتم اورآہ و بکاکرنا۔کربلائی مرثیے کی مشہور ہیئت مسدس کی ہے لیکن سچائی یہی ہے کہ اس صنف کی کوئی ہیئت طے شدہ نہیں ہے۔

کربلائی مرثیے کے تعارف سے واضح ہے کہ اس کے لکھنے اورپڑھنے والے کاایک مقصد ہے یعنی مرنے والے کے اوصاف یادکرکے ماتم کرنا،کلیجہ پیٹنا، لیکن اس کے پڑھنے کامقصد صرف یہیں تک محدودنہیں۔اس کی دنیاکافی وسیع ہے۔کربلائی مرثیے کی زبان،فن اورتہذیب کامطالعہ کیجیے تواس کے پڑھنے کامقصد مزید روشن ہوجاتا ہے۔اس میں زندگی اورسماج میں انسانیت کی بقاکی تعلیم دی گئی ہے۔حق اورباطل کافرق سمجھایاگیاہے۔شرافت کے ساتھ رہنے،بات چیت کرنے،مرتبوں کا خیال رکھنے اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرنے اوربیکسوں پرظلم نہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔کربلائی مرثیے کے فن کے مطالعے سے ہمیں انھی مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔غرض کہ کربلائی مرثیے کافن تاریخ کے اوراق سے انھی حقائق کواجالتا ہے۔مرثیے کے فن کی یہ سچائیاں انیس کے دوبند میں ملاحظہ کیجیے:

گومصیبت میں،تلاطم میں، تباہی میں رہے

سر کٹے، پانو مگر راہ الہٰی میں رہے
یوں سرافراز وہ سب لشکرشاہی میں رہے جس طرح تیغ  دو دم دست سپاہی میں رہے

اس مصیبت میں نہ پایاکبھی شاکی ان کو

آبرو ساقیِ کوثر نے عطا کی ان کو

’رزم ’کربلائی مرثیے کاچھٹاجزہے۔یہ کربلائی مرثیے کاسب سے اہم جزہے۔یہی وہ حصہ ہے جس میں جنگ کی منظرکشی کی جاتی ہے۔یہ مرثیے کادل ہے جہاں سے دیگر اجزاکی رگ جڑی ہوئی ہے۔شعرانے اس حصے کی منظرکشی کے لیے اپنے ہنر کے جوہر خوب خوب دکھائے ہیں۔جنگ کی صف بندی کیسی ہو،کس عقل اورہمت کاآدمی کہاںکھڑاہو‘وہ گھوڑ سواری  میں کتنااورکیسا ماہرہو،تلواریں اس کے پاس کیسی ہیں؟ان تمام امورکے جواہر اجاگر کرنے  میں شعرا نے بڑی فنکاری سے کام لیاہے۔جنگ کی جیت اورہارکے مناظراورماحول میں جوکچھ ہوسکتاہے شاعراسی  رزم کے حصے میں بیان کرتاہے:

زور بازو کا نمایاں تھا بھرے شانوں سے دست فولاد دبا جاتا تھا دستانوں سے
برچھیوں اڑتاتھا دب دب کے فرس رانوں سے آنکھ لڑجاتی تھی دریاکے نگہ بانوںسے

خودرومی کی جوضوتابہ فلک جاتی تھی

چشم خورشید میں بجلی سی چمک جاتی تھی

ہیئت کے اعتبارسے کربلائی مرثیے کی کوئی ایک پہچان نہیں۔دیگراصناف مرثیہ کی طرح کربلائی مرثیے بھی مختلف ہیئتوں میں لکھے گئے۔ابتدا میں مثنوی،غزل،مربع،مخمس،قطع بند اورمستزاد وغیرہ  میں بھی کربلائی مرثیے لکھے گئے اورآج بھی لکھے جارہے ہیں۔کربلائی مرثیے کے لکھنوی دور میں خلیق فصیح،دلگیراورضمیرکے زمانے میں مسدس ایک مشہور ہیئت کی صورت میں سامنے آئی۔یہ ہیئت مرثیے کوپراثربنانے میں خا ص رول اداکرتی ہے۔اس لیے بیشتر شعرا اسی ہیئت میں طبع آزمائی کرتے ہیں اس طرح فن اور ہیئت دونوں اعتبارسے کربلائی مرثیے کاسرمایہ کافی وسیع ہے۔

About admin

Check Also

رزمیہ ادب

میری کتاب “رزمیہ اادب” پر ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کا مضمون قارئین کی خدمت میں برائے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *