Home / Articles / اردومرثیے کی تہذیب

اردومرثیے کی تہذیب

احمد کفیل

Ahmed Kafeel

Guest Feculty

Center of Indian Languages

SLL & CS, JNU, New Delhi-110067

 

اردومرثیے کی تہذیب

 

اردو مرثیے کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور خیال افروز بھی۔ تاریخ اور تہذیب کے اشتراک سے اردو مرثیے کی صنفی شناخت قائم ہوئی ہے۔ مرثیے کے واقعات کا جتنا گہرا تعلق عرب کی تاریخ سے ہے، ان کی پیش کش میں اتنی ہی ہندوستانی اور کسی حد تک ایرانی معاشرت اور بیگمات کے انداز گفتگو اور طرز بیان کی ترجمانی جھلکتی ہے۔ مرثیے میں ہندوستانی تہذیب کی عکّاسی نہ صرف اودھ اور لکھنوی تہذیب کی مرہونِ منّت ہے بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی ہندوستان کے ہر خطے کے مرثیہ نگاروں کے یہاں اس روایت کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔ ہندوستان میں اردو مرثیہ نگاری کے ہر عہد میں مرثیے پر یہاں کی تاریخی، سیاسی اور تہذیبی فضا کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔

ہندوستان میں اردو مرثیے کی مقبولیت کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس صنف شعر کی تہذیبی فضا میں قارئین و سامعین کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس اپنائیت کی اساس اصل میں ان تہذیبی جزئیات پر ہے جن کی جڑیں یہاں کے ہر فرقے اور قوم میں پیوست ہیں۔ اگر کہیں سفر کا ذکر ہے تو وہ سفر صرف ریگستان عرب کا سفر نہیں لگتا ہے بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے آس پاس کے مانوس ماحول میں ہیں۔ شادی یا ماتم کی تقریب کا منظر ہے تو اس منظرمیں بھی ہندوستانی خطّے یا اودھ کی تہذیب کے رنگ شامل ہیں۔ گویا واقعہ تو عرب کا ہے لیکن اس میں ابھرنے والے نقوش ہندوستانی ہیں۔ جیسا کہ پروفیسر زماں آزردہ نے لکھا ہے:

”اردو مرثیے میں پیش کیے جانے والے کسی بھی ہیرو کو سامنے رکھیے اگر اس مرثیہ کی مدد سے اس شخصیت کی زندگی کا خاکہ آپ کھینچنا چاہیں تو اس میں آپ کو اس کے نام اور مقام کے علاوہ ہر وصف اودھ کی کسی شخصیت کا نظر آئے گا۔“ (1)

بعض ناقدین نے اردو مرثیے کا تہذیبی مطالعہ کرتے ہوئے اسے مرثیے کی کمزوری ٹھہرایا ہے جسے یک رخی شدّت پسندی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مرثیہ نگاروں نے ایسا لاشعوری طور پر نہیں کیا بلکہ مرثیے کو عوام میں مقبول کرنے کے لیے کیا ہے جس مرحلے کی عام مقبولیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ عزاداری کسی خاص فرقے تک محدود نہیں رہی اور ہر فرقہ کے شعرا نے مرثیے کے تہذیبی سنگم کی آبیاری میں اہم رول ادا کیا۔

اردو مرثیہ، عزاداری اور تہذیبی و معاشرتی رکھ رکھاؤ ایک ایسی تثلیث ہے جس میں سے کسی ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ممکن نہیں۔ اردو مرثیے کا عزاداری اور تہذیب و سماج سے چولی دامن کا رشتہ ہے۔ لہٰذا عزاداری میں مشترکہ تہذیب نے ہندوستان میں بلاتفریق مذہب ومسلک اپنے آنسووں کے نذرانے پیش کیے۔

حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا مقصد اور اپنے فرائض سے آگاہی میں ہماری گنگا جمنی تہذیب کا بڑا ہاتھ ہے۔ لکھنو میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی ایّام محرّم میں امام حسینؓ کا غم مناتے تھے۔ نواب آصف الدولہ اور ان کے بعد کے حکمرانوں کے زمانے میں ہندووں کے امام باڑے کی مسجدیں اب تک موجود ہیں۔ان میں راجہ جھاولال، راجہ ٹیکیت رائے، دل آرام اور راجہ میوارام وغیرہ کے امام باڑے اب تک موجود ہیں۔ لہٰذا ہندوستان میں مرثیے کی تہذیبی دنیا اسی تہذیبی سنگم سے کثیر رنگ ہوگئی ہے۔

 مرثیے کا مجموعی مطالعہ کیجیے تو اس کی تہذیبی دنیا مزید کثیر جہت ہوجاتی ہے۔ اولاً عرب کی تاریخ اور تخیلی سماجیات و روایات، ایران کی تاریخ و تہذیب اور ہندوستان میں ہندو مسلم تہذیبی روایات۔ ان تمام تہذیبوں کے سنگم سے ہی مرثیے کی ایک الگ تہذیبی دنیا آباد ہوئی ہے۔

اردو ادب میں ایران کی سماجیاتی تاریخ اور خصوصاً عزاداری سے متعلق کتابیں دستیاب نہیں۔ البتہ کچھ ایسی کتابیں ضرور ملتی ہیں جن میں کچھ سماجیاتی و معاشرتی عکس دکھائی دیتے ہیں۔ سیّد مسعود حسن رضوی کی کتاب ”ایران میں مرثیہ نگاری: ایک تاریخی جائزہ“ اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔ڈاکٹر ذبیح اللہ صفا کی کتاب ”تاریخ ادبیات فارسی در ایران“ اپنے موضوع پر غالباً سب سے مفصّل کتاب ہے لیکن اس کتاب کی مشمولہ شعری اصناف میں بھی مرثیہ نگاری کو جداگانہ حیثیت نہیں دی گئی ہے، اسے مذہبی شاعری کے خانے میں رکھا ہے اور بہت مختصر سی گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر رضا زادہ شفق نے بھی ”تاریخ ادبیات ایران“ میں مرثیہ نگاری کے بارے میں محض چند سطریں سپرد قلم کی ہیں۔

حال ہی میں پروفیسر شرف عالم کی ایک کتاب ”ایران: عہد قدیم کی سیاسی، ثقافتی و لسانی تاریخ“ منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے ایران میں شیعی مسلک ماننے والوں کی فی صد96بتائی ہے لیکن مذہبی پہلو پر انھوں نے بھی بہت کم توجہ دی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:

”ان کی سوگواریوں میں شہادت حضرت امام حسینؓ اور شہادت امیر کو بڑی اہمیت ہے۔ محرم اور چہلم وغیرہ کی سینہ کوبی، روضہ خوانی اور مجلس آرائی کے نمونے لکھنو اور پٹنہ میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہندوستانی و پاکستانی انداز میں وہاں بھی سینہ کو بی و زنجیر زنی کے کرتب دکھائے جاتے ہیں۔“ (2)

ایرانی تہذیب میں مرثیہ اور عزاداری کا یہ رنگ ایسا ہے جس کی عکاسی ہندوستان کے بیشتر مرثیہ نگاروں کے یہاں ملتی ہے۔ میر عشق سے مثال ملاحظہ کیجیے:

کی ہے خدا نے دولت و ثروت جنھیں عطا

کس دھوم سے وہ آج اٹھاتے ہیں تعزیہ

ہوتے ہیں آپ ساتھ کھلے سر برہنہ پا

ہمراہ سب رفیق و عزیز اور آشنا

نکلے جدھر سے تعزیے رستہ وہ بس گیا

سب تھم کے روئے موتیوں کا مینہہ برس گیا

                                                                                                (عشق)

اردو مرثیے میں ایرانی تہذیب اور ماحول کی کچھ ایسی عکاسی ملتی ہے جو نہ صرف مرثیے میں بلکہ اردو شاعری کی تمام اصناف میں اس کے مطالعے کیے جاسکتے ہیں۔ جیسے پھولوں میں لالہ، زمرد، موگرا، موتیا، نسترن اور لہلہاتے باغ و سبزہ زار۔ بلبلوں کا عشق گل میں مست و بیخود ہونا اور اس کے دل کے پارہ پارہ ہونے کا بیان۔ علاوہ ازیں کچھ تاریخی واقعات و کردار جنھیں ہم شعری اصطلاح میں ”تلمیحات“ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ موسم ماحول اور واقعات اردو مرثیے میں کچھ اس طرح بیان کیے گئے ہیں جن کا تصوّر ہم ہندوستان کی سرزمین پر کرتے تو ہیں لیکن یہ سب فارسی ادب و تہذیب سے مستعار ہیں۔ لہٰذا ہمارے ادب کی جو تاریخیں لکھی گئی ہیں، ان کے سماجی مطالعے اور واقعات و استعارات میں ایرانی تہذیب کا مطالعہ بھرپور پیش کیا گیا ہے۔ بعید نہیں کہ ہمارے مرثیہ نگار شعرا نے اپنے انھی مطالعات سے استفادہ کرکے اردو مرثیے کی دنیا میں ایرانی تہذیب اور ماحول کی بزم سجائی ہو۔اس پس منظر میں نیّر مسعود کی تحریروں کا بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے لیکن ایک اقتباس پروفیسر سید عقیل رضوی سے ملاحظہ کیجیے:

”اگر مرثیہ ادب ہے — اور کوئی وجہ نہیں کہ اسے ادب کے علاوہ کچھ اور سمجھا جائے — تو زندگی کے نئے احساسات کی دھڑکن اس میں ضرور ہوگی۔ یہ نہیں بلکہ ہر دور اور ہر سماج کی تصویر اس میں موجود ہوگی۔ ہندوستان کی ایک ملی جلی اور گنگا جمنی تہذیب کی تجسیم، جس طرح مرثیے میں ہوئی شاید ہی اردو کی کسی دوسری صنف سخن میں اتنے رخ سے ایسے رنگ بدل کر آئی ہو۔“ (3)

اردو مرثیے کا سب سے پہلا شاعر اشرف بیابانی کو تسلیم کیا گیا ہے جنھوں نے اردو کا پہلا مرثیہ 1482 سے قبل لکھا۔مرثیے میں ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی آمیزش کا اشارہ یہیں سے ملنے لگتا ہے۔ ”نوسرہار“ کا اولین تعارف ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے کرایا تھا۔ گرچہ متن اب تک غیر مطبوعہ ہے، لیکن اس کے بیشتر حصے رسائل و جرائد یا حوالے کی کتابوں میں ہمیں پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ”نوسرہار“ کے ایک حصے میں اشرف بیابانی نے حضرت زینبؓ کا سراپا اس طرح بیان کیا ہے:

زینب اہے اس کا نام

نین سلونے جیوں بادام

ماتھا جانوں سورج باٹ

یاکے جانوں چاند للاٹ

ان اشعار کے پس منظر میں کسی ہندوستانی حسینہ کا تصور کرنا محال نہیں ۔ایک محاکات نگاری کا بیان شہادت امام حسین کے حوالے سے ملاحظہ کیجیے:

لے کے لے لیا گگن پر

گگن سارا لو ہو بھر

دوکنہ لنکا پکڑی آگ

جل جل کوئلہ ہوئی ہلاک

اس میں مقامی اثرات صاف طور پر جھلکتے ہیں۔ شاعر نے فضا کی المناکی بیان کرنے میں لنکا کا جل کر کوئلہ ہونا لکھا ہے اور لنکا کے جلنے کی تاریخ کا ہندوستان کی تہذیب و روایت سے بڑا گہرا رشتہ ہے۔

شمالی ہند میں مرثیہ نگاری و عزاداری کے واضح نقوش عہد اورنگ زیب (1858-1707) سے ملتے ہیں۔ دور مغلیہ کے گول کنڈہ اور بیجاپور کے علاقے میں ہاشم علی برہان پوری کا نام اردو مرثیے کے باب میں بہت اہم ہے۔ ڈاکٹر مسیح الزماں نے اپنی کتاب ”اردو مرثیے کا ارتقا“ میں اس کا تفصیلی ذکر مختلف حوالوں سے کیا ہے۔ ان کا دور ولی اور حاتم سے بہت پہلے کا ہے اور 1621 تک وہ اردو مرثیہ نگاروں میں بہت مشہور ہوچکے تھے۔ جناب قاسم اور حضرت علی اصغر کی شادی اور شہادتوں کا موضوع ہاشم علی کا خاص موضوع تھا۔ ان کے مرثیے سے حضرت قاسم کی شادی اور شہادت کے موقع پر کہے گئے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

افسوس ہے ہزار کہ نوشہ گزر گیا

روتی دولھن کو چھوڑ گھونگھٹ میں کدھر گیا

قاسم کہے دکھاؤشتابی لگن مرا

مجھ ہاتھ میں لے آؤ بندھاؤ کنگن مرا

اے نجومی شاہ زادے کا دکھاتے ہیں لگن

کھول پترا تو شتابی سوں بتا ہم کو شگن

ہاشم کے اردو مرثیے کے مندرجہ بالا اشعار میں دولھن کا گھونگھٹ کاڑھ کر بیٹھنا، شادی بیاہ سے قبل کسی نجومی یا پنڈت کو بلا کر پترا دیکھنے کی تاکید کرنا اور شگن بھرے دن نکالنا، ان علامات میں ہندوستانی تہذیب و معاشرے کے نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔

 ”کربل کتھا“حالانکہ فضلی کی نثری کتاب ہے لیکن اس میں فضلی نے اپنے کئی مرثیے بھی شامل کیے ہیں۔ فضلی کے اس کارنامے کاتذکرہ تہذیبی تناظر میں خاصا اہم ہے۔دو اشعار ملاحظہ کیجیے:

اس کو دو زر زیور اپنا بے حساب

منھ بھروں شیرینی سے ارمان ہے

تجھ کو دوں صندل کے چھاپے ہو دلیر

دل مرا یہ آرزو خواہان ہے

فضلی نے اپنے مراثی میں ہندوستانی ممتا کی دلکش تصویر کھینچی ہے اور شہربانو کے جذبات کا بیان ہندوستان کے تہذیبی تناظر میں کیا ہے۔ یہاں جذبات نگاری میں ایک تازگی ہے۔ کسی خوش خبری کے بعد مخبر کا شیرینی سے منھ میٹھا کرانا ہندوستانی تہذیب کی ایک انوکھی شان ہے۔ صندل کے چھاپے بھی ہندی تہذیب کو اجاگر کرتے ہیں۔یہی خوشی عرب میں انعام واکرام کی کسی اور صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے لیکن ہمارے تصورات نے اس میں اپنا تہذیبی رنگ بھر دیا ہے۔

سودا کا دور مرثیے کے تجرباتی دور سے گزر رہا تھا۔ سودا نے بھی ہیئت اور مواد میں تجربے کیے۔ سماج کے تانے بانے میں اس کی جڑیں تلاش کیں۔ موضوعات کے اعتبار سے حضرت قاسم کی شادی ان کے مراثی میں بھی توجہ کا مرکز بنی ہے۔ یہ شعر دیکھیے:

صندل کی جا سمدھن نے منھ اپنے ملی ہے دھول

ہاروں کے بدلے ہر اک زنجیر پہن کر آئی ہے

میرتقی میر کے مرثیوں میں بھی ہندوستانی رسوم و روایات کے عناصر دیکھے جاسکتے ہیں جن سے ان کے زمانے کی عزاداری سے متعلق بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جواب غالباً متروک ہوگئی ہیں۔ حضرت قاسم کی شادی اردو مرثیہ گویوں کا خاص موضوع رہی ہے۔ ان کے مرثیے ”قاسم کی شادی اس دن رچائی“ میں میر نے ہندوستانی شادی کی رسمیں، بارات، سہرا، آرسی مصحف، لگن دھرنا، اور نیگ وغیرہ کی رسموں کا ذکر خوب مزے لے لے کرکیا ہے۔

شمالی ہند میں دہلی کے بعد مرثیے کی محفل اودھ اور لکھنو میں آراستہ ہوتی ہے۔ یہاں کی ادبی تاریخ کے حوالے سے حیدری، سکندر، گدا، احسان اور افسردہ کے نام خاصے اہم ہیں۔

فصیح نے اپنے مرثیے میں بیشتر غم و اندوہ کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امام حسینؓ کا مدینہ سے سفر، حضرت علی اکبر کی اجازت طلبی، کوفے میں پسرانِ مسلم کی شہادت اور شام کی طرف قافلے کی روانگی کو موصوف نے موثر ڈھنگ سے بیان کیا ہے۔ فصیح نے ان افراد کے احساسات و جذبات کی ترجمانی میں ہندوستانی عورتوں کے لب و لہجے اور نفسیاتی ردّعمل کو ملحوظ رکھا ہے۔ شادی بیاہ کی رسمیں، بدشگونی کے تصورات اور سہاگ کی نشانیاں، ہندوستانی تہذیب کے نقوش قائم کرتے ہیں جن سے اس عہد کے بعض رسم و رواج کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

ہندوستان کے ایک رئیس گھرانے کی تہذیب جن کے یہاں دست سوال بڑھانے کو حد درجہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ خصوصاً لکھنوی شاہانہ اور نوابانہ خاندان کا رکھ رکھاو کہ لاکھ غربت اور بیکسی سہی لیکن دوسروں کے سامنے سوالی بننا کبھی گوارا نہ کیا۔ ایسے گھرانے کا کوئی بزرگ اپنی ننھی اور نوعمر جان کو اور کیا نصیحت کرتا۔ دلگیر کے مرثیے کا ایک بند ملاحظہ کیجیے:

 اعدا کو کھانا کھاتے جو تم دیکھیو کبھی

تو منھ کو پھیر لیجیو اے میری لاڈلی

گرمقتضائے سن سے نہ مانے تمھارا جی

تو دل میں یاد کیجیو حالت حسینؓ کی

ہر چند عمر چھوٹی ہے اور بھوکی پیاسی ہو

پر دل میں یہ تو سوچو کہ کس کی نواسی ہو

شاد عظیم آبادی اپنی کتاب ”فکر بلیغ“ کے حصہ دوم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ دلگیر تو خاندانی ہندو تھے لیکن مسلمانوں کے مراسم، مستورات اور ان کے بچوں کی باتیں اس طرح بیان کردیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بیشک دلگیر مرثیے کے واقعات اور تہذیب میں رسول کے گھرانے کو اپنے عہد کے شرفا کے ایک مشترکہ خاندان کی شکل میں پیش کیا ہے۔ مرد، عورت اور بچے کا ادب و لحاظ، معتقدات، رسوم اور خیالات کو عرب و لکھنو کا تہذیبی سنگم بنا دیا ہے۔

 اردو مرثیہ نگاری میں انیس و دبیر کا دور، مرثیے کے عروج کا دور تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان دونوں باکمال مرثیہ نگاروں کے یہاں ناقدین و محققین نے ہندوستانی تہذیب کے نقوش و افرمقامات پر تلاش کیے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام، پروفیسر کلیم الدین احمد، ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، بیگم صالحہ عابد حسین، نامی انصاری، پروفیسر زماں آزردہ، پروفیسر سید محمد عقیل رضوی اور ڈاکٹر مسیح الزماں وغیرہ ایسے ناقدین ہیں جنھوں نے اس طرف خصوصی توجہ کی ہے۔ تہذیبی پس منظر میں انیس و دبیر کا خاصا مطالعہ کیا جاچکا ہے۔ اس لیے مصلحتاً ان دونوں کے حوالے یہاں حذف کیے جاتے ہیں۔

نامی انصاری لکھتے ہیں کہ امام حسینؓ کی حیات مبارکہ تک عرب کی سرزمین پر شاہانہ آداب و رسومات کی کوئی روایت نہیں تھی۔ خلیفہ وقت اور سماجی زندگی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ (4) یہ صحیح ہے کہ عرب میں خلیفہ  وقت اور سماجی زندگی میں فرق نہیں تھا لیکن یہ کردار بھی تو شاہی گھرانے کا ہی ہے اور اسے ہندوستانی تہذیب کے تصوراتی تناظر میں دیکھیں تو ایک آرٹ میں دو تہذیبوں کے دھارے مدغم نظر آتے ہیں۔ کچھ اشعار دیکھیے:

 دوڑیں کنیزیں اور خواصیں برہنہ پا

نعلین جھاڑی اور سنبھالی کبھی ردا

خدمت کے عہدے خدمتیوں نے اٹھالیے

پنکھا تھی ایک خادمہ، بہرِ ہوا لیے

مرثیے کے دور عروج کے پیروکاروں میں میرعشق، تعشق، نفیس اور پیارے صاحب رشید کے یہاں بھی ہندوستانی تہذیب کی عکاسی مختلف رنگوں میں کی گئی ہے لیکن تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔مختصراً یہ کہ حضرت امام حسینؓ کے گھرانے کو لکھنوی شاہی دربار اور اس کی شان و شوکت کے روپ میں پیش کرنے کا فن عشق، تعشق اور نفیس نے انیس و دبیر سے سیکھا ہے۔ شاہی شان و شکوہ او رکنیزوں اور غلاموں کے مناظر دیکھیے:

ادب پکار رہا ہے جناب آتے ہیں

ہٹو ہٹو کہ رسالت مآب آتے ہیں

                                                                                                (میر عشق)

پردے میں لونڈیاں ہیں سرافراز آپ کی

چپ رہیے باہر آتی ہے آواز آپ کی

                                                                                                 (تعشق)

عورت یا مرد غلام کا تصور عرب میں بھی تھا اور آقا کے تشریف لانے پر غلاموں کا ادب و احترام سے پیش آنا عرب اور ہندوستان دونوں تہذیبوں کی روایت رہی ہے۔

ادب تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے۔ ہر دور کی عکاسی اس میں صاف جھلکتی ہے۔ ذرا آگے بڑھیں تو شاد اور اوج کا زمانہ آتا ہے۔ ان کے مراثی میں جو تہذیبیں جھلکتی ہیں وہ بھی اپنے وقت کی ایک بڑی ضرورت تھی۔ مرثیے میں سماجی تنقید کے عناصر واضح عنوانات کے ساتھ شاد اور مرزا اوج کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس وقت جب کہ طلبہ میں ذمے داری کے احساس کا فقدان تھا۔ تہذیبی قدریں بکھر رہی تھیں۔ تعلیم کے سرچشمے منتشر ہورہے تھے ایسے ماحول میں مرثیہ نگاروں نے اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھ کر لوگوں کو اپنے منصب کے پہچاننے کا درس دیا۔ مثال ملاحظہ کیجیے:

پڑھو تم اپنی زباں میں کہ فن کی ہو تسہیل

مترجموں کی ہو محنت ذریعہ تحصیل

تمھاری منزل مقصود کی یہی ہے سبیل

ہر ایک قوم کے پہلے یہی ہوئے ہیں کفیل

زبان غیر کو پڑھ پڑھ کے وقت کھوتے ہو

یہ تم ترقیوں کے حق میں کانٹے بوتے ہو

                                                                                                          (مرزا اوج)

مرثیے میں درس کا یہ تصور بلاجواز نہیں۔مثلاً کوئی تہذیب اگر کسی تہذیب پرجارح بن کر اپنا سکّہ جمانا چاہے تو دونوں کے اعتقادات میں تصادم ہوگا۔مرثیے کی تہذیب یہی سکھاتی ہے کہ اپنی اصل کو نہ بھولو اور باطل کے خلاف سینہ سپر ہو جاﺅ۔

یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ مرثیے کا اصل موضوع ”احتجاج‘’ ہے۔ ملوکیت کے خلاف آواز بلند کرنے پر ہی واقعہ کربلا معرض وجود میں آیا تھا۔ لہٰذا دورجدید کے مرثیہ نگاروں نے اپنے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مرثیے میں جو تہذیبی و اخلاقی آواز بلند کی اسے کوئی اور صنف کہہ کر دربار نکالا نہیں دیاجاسکتا۔ اردو مرثیے میں اسی آواز کے بانی جوش و جمیل اور ان کے پیروکاروں میں نسیم امروہوی، نجم آفندی، آل رضا، ہلال نقوی، صفدر حسین وغیرہ شعرا کے نام آتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جہاں ہماری ہندوستانی سیاست میں انگریزوں کے خلاف احتجاجی لہر چل رہی تھی۔ جمیل مظہری کے ”پیمانِ وفا“ اور جوش کے مرثیے ”حسین اور انقلاب‘’ میں اس وقت کی عکاسی دیکھی جاسکتی ہے۔ واقعہ 1935 کا ہے جو کہ جارج پنجم کی جوبلی کا سال تھا۔ اس نے اس جشن کے موقع پر ایّام عزا کی پرواہ کیے بغیر لکھنو کے امام باڑوں میں چراغاں کرنے کا حکم دے دیا تھا۔(5) بلامدافعت جب اس حکم کی تعمیل کرلی گئی تو قوم کو بیدار کرنے کے لیے جوش اور جمیل نے جو مرثیے لکھے ان کا ایک ایک بند ملاحظہ کیجیے:

 قصر حاکم کو جو گھیرے تھے وہ غازی بھاگے

توڑ کر بیعت مولائے حجازی بھاگے

جو لگاتے تھے سروجسم کی بازی بھاگے

جوتیاں چھوڑکے مسجد سے نمازی بھاگے

پائی آہٹ جو سواروں کی توجی چھوٹ گئے

رشتے ایمان کی نیت کی طرح ٹوٹ گئے

                                                                                                            (پیمانِ وفا،جمیل مظہری)

مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار

اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار

پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار

پھر کربلائے نو سے ہے نوعِ بشر دو چار

اے زندگی جلالِ شہِ مشرقین دے

اس تازہ کربلا کو بھی عزمِ حسینؑ دے

                                                                                                                    (حسین اور انقلاب، جوش ملیح آبادی)

مرثیے کا اصل ماخذ سرزمین عرب اور واقعہ کربلا ہے۔ ہمارے مرثیہ نگار شعرا نے، عرب کی تہذیب اور واقعہ کربلا کے بیان میں گرچہ ہندوستانی تہذیب کی جزئیات سے استفادہ کیا ہے لیکن انھیں ہم کلی ہندوستانی تہذیب سے عبارت نہیں کرسکتے ان میں تاریخی حوالوں سے عرب کی بعض تہذیب و روایات کی بھی تصدیق ہوتی ہے اور جہا ںکلی روایت ہندوستانی ہے وہاں شعرا نے اپنے قاری کے مذاق کا خیال رکھتے ہوئے ماحول و مناظر کی عکاسی کی ہے۔

مرثیے کو تہذیبی تناظر میں دیکھنے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان کی تہذیبی و تاریخی صورت حال میں وقتاً فوقتاً جو تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں ان کا اثر کسی نہ کسی حوالے سے مرثیے پر بھی پڑا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر اہم تاریخی موڑ پر مرثیے میں داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر بدلتی تہذیبوں کا احساس ہوتا ہے۔ یہ تبدیلیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ مرثیے میں تہذیبی و عصری میلان کو اپنے اندر سمونے اور پیش کرنے کی گنجائش ہر دور میں رہی ہے اور یہی تہذیبی میلان اس فن کی وسعت اور مقبولیت کا جواز فراہم کرتی ہے۔

***

          حواشی:

.1      پروفیسر زماں آزردہ— اردو مرثیہ میں مشترکہ تہذیبی عناصر، ماہ نامہ ”یاسمین“ ممبئی، مارچ 2004

          انور علی انور— فارسی ادب میں مرثیہ گوئی، ”جامعہ“ دہلی، انیس نمبر، جولائی دسمبر 2003

.2       پروفیسر شرف عالم — ”ایران — عہد قدیم کی سیاسی، ثقافتی و لسانی تاریخ۔ ص 42-

.3      پروفیسر سید عقیل رضوی — ”مرثیہ کی سماجیات“ ص 5-

.4      ڈاکٹر نامی انصاری — ”مرثیے کی سماجیات پر ایک نظر“ شاعر، ممبئی، شمارہ10-، 1994

.5      ڈاکٹر محمد رضا کاظمی — ”جدید اردو مرثیہ“ ص 94-، مکتبہ ادب کراچی، 1981

 

 

 

 

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *