Home / Litrature / ہوش عظیم آبادی کی شاعری

ہوش عظیم آبادی کی شاعری

یہ مضمون خدا بخش لائبریری کےزیر اہتمام منعقدہ  سمینار’’ مشاہیر بہار ‘‘ میں پڑھا گیا

ہوش  عظیم آبادی کا شمار یقیناً مشاہیر بہار میں ہوتا ہے ۔عظیم آباد میں اردو شاعری کی روایت  میں یہ نام ضرور اہمیت کا  حامل ہےجبھی تو اس سیمنار میں ان کی شاعری کے حوالے سے موضوع کا انتخاب کیا گیااور اس ناچیز  کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ کسی کی  شاعری کی قدر وقیمت پر بات کرنے کی  مشکل  ایک طرف اور مواد نہ ملنے دشواری ایک جانب ، اسی لیے میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ ہوش عظیم آبادی ایک اچھے غزل گو تھے یا اچھے مرثیہ نگار یا  ایک اچھے نظم نگار یا ان اصناف  پر انھیں یکساں قدرت حاصل تھی؟۔ یہ کہنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ ہوش عظیم آبادی کا پورا کلام شاید دستیاب ہی نہیں ہے ۔میری تلاش بسیار کے بعد ایک مضمون ، دو سوانحی کوائف۔ چھ غزلیں ، چودہ اشعار،ایک نعتیہ کلام ، پانچ نظمیں ، تین مرثیوں کے دو دو بند اور آٹھ اشعار دستیاب ہو سکے ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہےکہ ابھی تک عظیم آباد کے دانشوروں اور ادیبوں نے ان کی جانب توجہ نہیں کی ۔ کم از کم ان کے کلام کو اس اعتبار سے بھی یکجا کیا جانا چاہیے تھا کہ وہ عظیم آباد کی ادبی وراثت کو آگے بڑھانے والوں میں سے ایک تھے۔ لیکن خدا بخش لائبریری کے زیر اہتمام ‘‘مشاہیر بہار ’’ سیمنار میں ان پر پرچہ لکھوانے کی  پہل کو اس سمت میں ایک فال نیک سمجھ سکتے ہیں ۔ میں نے مواد کے حوالے سے برادر محترم جاوید اشرف صاحب سے بھی رابطہ کیا اور پروفیسر اسرائیل رضا  ۔ پٹنہ یونیورسٹی پٹنہ  کوبھی زحمت دی۔ انھوں نے بہ مشکل تمام اور بہ جستجوئے تمام یہ مواد میل کے ذریعے بھیجا ۔ اس لیے  سب سے پہلے میں ان کا  شکریہ ادا  کرتا ہوں ۔ یہاں میں جوکچھ بھی اظہار خیال کرسکتا ہوں  وہ انھیں مواد پر  مبنی ہوگا۔لیکن ساتھ ساتھ میں خدا بخش لائبریری کے ڈائریکٹر اور سیمنارکے منتظمین سے یہ درخواست بھی کرنا چاہاتا ہوں کہ  ان کے کلام کو یکجا کرکے شائع کرانے کی کوشش کریں ۔شاید یہی حاصل سیمنار ٹھہرے۔

ارتضیٰ حسین عظیم آبادی  جمیل مظہری کی نسل کے بعد کے  شاعر ہیں۔ شاعری کی تحریک انھیں شاد عظیم آبادی  اور عظیم آباد  کی شعری روایات سے ملی ۔ زار عظیم آبادی سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ شاعری میں غزل ، مرثیہ ، سلام ، نظم اور نعت جیسی شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ انھوں نے روایتی طور پر شاعری  کی ابتد غزل سے  کی لیکن 1955 میں پہلی مرثیہ کہا اور تب سے مرثیے کی جانب رجحان  غالب ہوگیا۔ شعری ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے بہت جلد مشاعروں میں  بھی شرکت کرنے لگےاور پھر اپنی  ایسی پہچان  بنائی کہ لوگ انھیں بہار کا اختر شیرانی کہنے لگے۔ قاسم صہبا جمیلی نے ان کے کلام پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :

‘‘ جس دور میں یہاں جمیل مظہری ، پرویز شاہدی اور اجتبیٰ رضوی کی تثلیث بنی  اسی عصر میں پٹنہ سیٹی میں بھی تین عظیم شخصیات خاموشی سے شعر وادب کی خدمت انجام دےرہی تھیں۔ وہ ہیں زار عظیم آبادی ، دانش عظیم آباداور ہوش عظیم آبادی۔ ان کی  بھی تثلیثی شکل  بنی ۔’’        ( ہوش عظیم آبادی فن اور شخصیت ؛ بہار کی خبریں صفحہ 23 ، فروری 1985)

اس تثلیث نے بھی  معاصر ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ ان کا رنگ سخن قدیم و جدید کا حسین امتزاج ہے۔ رہی بات ہوش عظیم آبادی  کی تو  مواد  کی تمام کمیابی کے بعد بھی  جو کلام میں نے دیکھا اور پڑھا ہے اس کی بنیاد پہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے یہاں جو شعری مزاج ملتا ہے اُس میں عظیم آباد کےکلاسیکی رچاؤ  کے ساتھ ساتھ  جدید شعری      روایات کےعناصر بھی موجود ہیں۔جو ان کو خوش فکر اور خوش گو  شاعر بناتا ہے۔جن اشعار تک میری رسائی ہوئی   وہ حالانکہ بہت کم ہیں لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ ان میں بھی اختلاف نسخ موجود ہیں ۔بہر کیف  پہلے ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں تاکہ ان کے رنگ سخن  کا اندازہ ہوسکے:

آپ کی چشم ِکرم کب نگراں  ہوتی  ہے

آرزو ٹھوکریں کھا کھا کے جواں ہوتی ہے

***

ہوش پروانوں  کا  جلنا بھی  نہیں کم  لیکن

رات بھر شمع کے بھی اشک بہے ہیں کیاکیا

***

ہو جو وحشت تو بیاباں سے بھی بد تر گھر ہے

دل بیاباں میں بہل جائے  تو  گھر ہوجائے

***

نارسائی میں  ملے لذتِ  فریاد  تو  پھر

کون چاہے گا کہ نالوں میں اثر ہوجائے

***

ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروساں

کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی

ان اشعار میں ہوش کے رنگ سخن کو دیکھ  کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف  غزل کی روح کو اپنے اشعار میں سمیٹا ہے بلکہ عظیم آباد  کی اس روایت کو بھی برقرار رکھا ہے جس کا سلسلہ  بیدل عظیم آبادی سے ملتا ہے۔یعنی شعر میں تہذیبی اور ثقافتی اقدار کی پاسداری۔ہوش کے یہاں بھی  یہ اقدار موجود ہیں ۔ ان اشعار کو دوبارہ پڑھیں تو اس کا اندازہ ہوسکتا ہے ۔مثلاً صرف اس شعر کو دیکھیں:

آپ کی چشمِ کرم کب نگراں ہوتی ہے

آرزو ٹھوکریں کھا کھا کے جواں ہوتی ہے

کسی شاعر کی خوش نصیبی یہ ہوتی ہے کہ اس کا شعر ضرب المثل بن جائے ۔ لیکن اسے خوش نصیبی کے ساتھ محرومی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ  جن کے اشعار اس رتبے کو پہنچتے ہیں ، وہاں شاعر گُم ہوجاتاہے اور کبھی مصرعہ رہ جاتا ہے اور شعر غائب ہوجاتا ہے  مثلاً:

  • چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے
  • جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
  • زبان خلق کو نقارہٴ خدا سمجھو
  • ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
  • جو بڑھ کے خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
  • کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی

میں آپ لوگوں سے یہ نہیں پوچھوں گا ان مصرعوں کے جوڑے کتنے لوگوں کو یاد ہیں ؟ لیکن اتنا ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ان مصرعوں میں کوئی ہوش کا بھی مصرعہ ہے ؟ ہوش کوئی ماضی بعید کے شاعر نہیں تھے ۔ ماضی قریب کے شاعروں میں سے ہیں ۔ ہوش   کی بھی یہ خوش نصیبی   ہے کہ ان کا مصرعہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے !

ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں

کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی

یہ شعر نام اور حوالے کے بغیر میرے حافظے میں تھا لیکن مجھے بھی پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ یہ شعر ہوش کاہے۔اس شعر کا اسلوب سادہ ہے، مگر سادگی سے انسانی محرومی کی  جس بڑی بات  کو آسانی سے ہوش نے کہہ دی ہے  وہ بڑی بات ہے۔محرومی اور نارسائی کے اور کئی اشعار موجود ہیں جیسے :

پھول کھلے ہیں گلشن گلشن

لیکن    اپنا       اپنا      دامن

اسی طرح اور بھی کئی اشعار ہیں جن کی مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ لیکن میں صرف یہ کہنا چاہتاہوں کہ جب اس قبیل کے اشعار کو جمع کیا جائےگا تو یقیناً ہوش کو اس شعر کو بھی جگہ ملے گی۔

          اسی طرح  ہوش کے اور بھی بہت سے ایسے اشعار ہیں جو جدت بیان  کی وجہ سے مشہور ہوئے ۔ پُرانے موضوعات کی محض نقالی معیوب ہے لیکن اس موضوع کو ایک اور نئی سمت سے آشنا کر ادینا بڑی بات ہے ۔ مثلاً ہوش کا یہ شعر:

ہو جو وحشت تو بیاباں سے بھی بد تر گھر ہے

دل بیاباں میں بہل  جائے  تو  گھر ہوجائے

پروفیسر اعجاز علی ارشد صاحب نے اپنے مضمون میں  ہوش عظیم آبادی کے بارے میں ایک جگہ لکھاہے کہ :

‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی  خوبصورت غزلیں  کہیں ، اس سلسلے میں خود انھوں نے اپنی غزلوں پر شاد کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ راز عظیم آبادی سے تو خیر وہ مشورہٴ سخن ہی کرتے رہے تھےلیکن میرا خیال ہے کہ وہ ذہنی  طور پر غالب کے خاصے قریب رہے ہیں۔ ’’

اس کے بعد انھوں نے اسی شعر کی  مثال دی ہے جسے میں نے اوپر لکھا ہے۔لیکن میرے خیال میںٕ  یہ غزل غالب کی زمین میں نہیں ہے۔اس غزل کی زمین مومن کی زمین سے مشابہ ہے ساتھ ہی شعر کا مزاج اور ڈکشن مومن سے زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ میں نے مشابہ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ بحر اور ردیف  مماثل نہیں ، ہوش نے تھوڑی تبدیلی کی ہے ۔البتہ قافیہ یکساں ہے ۔ مومن کا شعر دیکھیں:

صبر وحشت     اثر  نہ  ہو جائے

کہیں صحرا بھی گھر نہ  ہوجائے

مومن کے قافیے اثر، گھر، نظر  کے علاوہ ہوش نے سحر ، جگر ، خبر اور بسر جیسے قافیے بھی باندھے ہیں۔لیکن میں یہاں اس حوالے سے بات  نہیں کرنا چاہتا ۔ بس یہ جاننے کی کوشش کر رہاہوٕں  کہ اس شعر کی معنوی خوبی کیاہے۔گھر کی ویرانی کے حوالے سے اردو  میں ایک نہیں بے شمار اشعار موجود ہیں ۔ لیکن آپ دو مثالیٕں ملاحظہ کریں :

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

اداسی بال کھولے سو رہی  ہے

اور غالب کا یہ شعر :

کوئی ویرانی  سی  ویرانی  ہے

دشت کو دیکھ  کے گھر یا د آیا

غالب ، مومن اور ناصر کے ساتھ ہوش کے شعر کو پیش کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ میں کہیں ہوش  کو ان کے ہم مقابل قراردینے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ مقصد صرف یہ ہےکہ ہوش کے یہاں بھی اس پایے کے اشعار موجود ہیں جو اردو شاعری کے معیار کو چھوتے ہیں۔موضوع فرسودہ ہی سہی لیکن اس میں شاعر اگر جدت ِبیان سے کوئی نئی بات کہہ جائے یا کوئی نئی سمت عطا کردے تو اسے  حسن ِبیان اور جدتِ بیان سے تعبیر کرتے ہیں۔

          ہوش کی عاشقانہ شاعری کے بارے میں قاسم صہبا جمیلی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ‘‘ ہوش کافی عرصے تک ازدواجی زندگی سے منسلک نہ ہوئے وجہ یہ تھی کہ ان کو کسی ایک پردہ نشین خاتون سے ذہنی اور قلبی لگاؤ ہوگیا تھا، مگر بہت جلد وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں اور ہوش عرصہٴ دراز تک اس ہجر کی تپش میں جلتے رہے۔’’غالباً ایسے ہی احساس کے عالم میں انھوں نے یہ اشعار کہیے ہوں گے:

نارسائی میں ملے لذت ِ فریاد تو پھر

کون چاہے گا کہ نالوں میں اثر ہوجائے

ہم تو اس ہجر کے قائل ہیں جو اے شام فراق

اپنے  عالم  میں  رہے  لاکھ   سحر  ہوجائے

ہوش کے بارے میں یہ بھی کہا جاتاہے کہ انھوں نے کچھ دنوں کے بعد ہی غزلیہ روایات کا رخ عقیدت و محبت  کی طرف موڑ دیا اور انھوں نے کربلائی مرثیے اور نعتیہ اشعار زیادہ کہے۔ایسی شاعری میں  ان کے یہاں عقیدت و احترام کے ساتھ  والہانہ لگاؤ  دیکھنے کو ملتا ہے۔انھوں نے نعت کے علاوہ  مراثی ،  نوحے،سلام  بھی لکھے ہیں ۔مراثی میں ان کی جذبات نگاری  کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے اس میں عام انسانی نفسیات کو جگہ دی ہے مثلاً :

    ہے محویت کا عالم کچھ  ایسا دل  پہ  طاری

    بچے کا  خالی  جھولا   بیٹھی   جھلا رہی    ہے

    ہچکی بندھی ہوئی ہے ، پردے  رہی ہے لوری

   گویا  تھپک  تھپک   کر    بچہ  سُلا رہی  ہے

انھوں نے مسدس کی ہیئت  میں بھی مراثی   کہی ہیں ، ان میں روانی اور برجستگی قابل دید ہے ۔ مثال ملاحظہ کریں:

ہم پہ روشن ہے کہ قانون مشیت کیاہے؟

منزلِ دہر میں انساں کی ضرورت کیا ہے؟

عشق کیا چیز ہے ؟ اخلاص کی قیمت کیا ہے؟

جس  کو کہتے   ہیں  محبت  وہ  محبت   کیا ہے؟

                                                                    کس طرح شوق سے طے راہِ رضا کرتے ہیں

                                                                    کیوں کر    ارباب  ِ وفا ،  عہدِ وفا   کرتے   ہیں

اور حضرت زینب کی شخصیت اور کردار کے حوالے سے ان کے مرثیے کا یہ بند ملاحظہ فرمائیں جس میں ایک طرف اسلوب کی روانی ہے تو دوسری جانب حضرت زینب کے کردار وصفات کے بیانات بھی اس طرح ہوئے ہیں جیسے پردہٴ سیمیں پر ایک ایک منظر آنکھوں نے سامنے آرہے ہوں مثال دیکھیں:

    رخ جہاد کو زینب نے بڑھ کے موڑ دیا

جو ہاتھ صَرفِ تشدد تھے  اُن کو توڑ دیا

دل و دماغ کو اس طرح سے  جھنجھوڑ دیا

کہ فرقِ  فتنہ و شر کو  جھکا  کے چھوڑ دیا

                                                          نشہ اتار دیا  جامِ  ارغوانی  سے

                                                              ہوا میں اُڑ گیا پندارِ حکمرانی  سے

اس قبیل کے اور بھی بہت سے اشعار ہوش کےمراثی میں مل جاتے ہیں جن میں حضرت زینب  کی عظمت اور ہمت وحوصلہ کو اسی لب ولہجے میں پیش کیا ہے جو شایانِ شان ہیں مثلاً:

جلالِ  معرکہ ٴ  انقلاب   ہے    زینب

مشن حسین ہیں شرح ِکتاب  ہے  زینب

حسینیت کا  مکمل   نصاب   ہے   زینب

اس اعترافِ حقیقت پہ خم ہیں سر سب کے

حسین  مل  نہیں  سکتے  بغیر  زینب  کے

 اردو کی رزمیہ شاعری میں  مرثیے کو خاص مقام حاصل ہے ، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہےکہ مراثی میں جذبات نگاری کی جو مثالیں ملتی ہیں وہ اردو کی دوسری صنف میں نہیں مل پاتیں۔اور نعتیہ شاعری کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس صنف میں بھی بہت کچھ کہنے کی گنجائش نہیں کیونکہ یہاں صرف عقیدت ومحبت کا ہی اظہار نہیں ہوتا بلکہ یہاں حد ِادب  بھی ملحوظ رکھنا ہوتا ہے ۔ تاہم اردو میں نعتیہ شاعری کی بہترین مثالیں موجود ہیں ۔ہوش نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔اور اچھی شاعری کا نمونہ پیش کیا ہے ۔ مثال ملاحظہ فرمائیں:

آیا    بساطِ   ارض   پہ    وہ    منبعِ    کرم

صحرا  کو  جس  کے  دم  سے  ملی  رونق ِ  ارم

جس    نے   کیا   بلند    مساوات   کا    علم

تھے جس کے گرد وپیش عرب ہوں کہ عجم ہوں

                                                                                                                           چمکا  کے  پتھروں  کو  نگینہ  بنا دیا

                                                                                                                           جنگل  کو  مسکر ا کے  مدینہ  بنا دیا

ہوش کو  مسدس کی ہیئت میں شعر کہنا پسند تھا اسی لیے اُن کی جولانئ طبع یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ہوش نے ان کے علاوہ  دوسری ہئیتوں میں بھی نطمیں بھی لکھی ہیں ۔ کچھ کے عنوانات اس طرح ہیں۔ ‘‘نذرانہ ٴ عقیدت’’ ‘‘بادلوں سے خطاب ’’،‘‘ ہمت کی آواز’’،‘‘ جشن جمہوری’’، ‘‘ہولی ’’ اور‘‘ مہاتما گاندھی ’’وغیرہ۔ یہ نظمیں یا تو غزل کی ہیئت میں ہیں یا مسدس کی ہیئت میں ۔ان میں اخوت ، مساوات، حبِ وطن اور اپنے ہمت و بازو پر اعتبار کی لَےموجودہے۔ساتھ ہی زبان کی صفائی اور بیان کی روانی پر زور دیا گیا ہے۔ان میں نغمگیت بھی  ہے ۔ آپ خود ان  رنگ و آہنگ کو ذیل کی مثالوں میں دیکھ سکتے ہیں:

قحط کے منحوس سائے ہیں ہماری خاک پر

کوندتی ہیں بجلیاں کب سے دل ِ صد چاک پر

خشک سالی تا بکے لوُٹے گی دھرتی کا سہاگ

تاکجا پانی کےبدلے رات دن برسے کی آگ

                                                                         ( بادلوں سے خطاب )

یہ وقت وہ ہےکہ خود جذبہٴ سخن جاگے

ترانہ  سنجیٴ  اربابِ  فکر  و فن  جاگے

پُکارتی  ہے  یہ  تزئین  جشنِ  جمہوری

تمام  رات  ستاروں  کی  انجمن  جاگے

                                                                           ( جشنِ جمہوری)

ہوش عظیم آبادی نے  بہت سی نظموں میں ہندی کے الفاظ کو بڑی تکلفی سے استعمال کیا ہے اور اس طرح اردو کے ساتھ شیر وشکر بنا کر پیش کیا ہے کہ ہندی کے الفاظ بھی نا مانوس نہیں لگتے بلکہ اسلوب میںایک نئے رنگ کے ساتھ ساتھ نیا لطف پیدا ہوجاتا ہے۔ مثال دیکھیں:

 مبارک  مرا   گُنگنانا    مبارک

یہ دھرتی کا دھومیں مچانا مبارک

جو رکھنی تھی سنسار کے منہ کی لالی

جونہی  دن  چڑھا  بڑھ  گئی  لااُبالی

جوانی  ہے  ہولی  کی  تیاریوں میں

لئے رنگ ہِر دَے کی پِچکاریوں میں

                                                                                        (مبارک  یہ ہولی منانا مبارک)

ہوش کے کلام کے صحت متن سے متعلق میں نے شروع میں    ہی عرض کیاتھا۔ اس سلسلے میں مزید یہ کہنا کہ فکر کا لفظیات سے جسم اور روح کا رشتہ ہے۔ فکر کو لفظیات ہی اعتبار بخشتی ہیں، جس سے فنکار کا معیار طے ہوتا ہے۔ ایسے میں اصل متن جب مشکوک ہوتو بات کس بنیاد پر کی جائے، فیصلہ مشکل ہے۔ ہمارے سامنے جو غزلیں ، مراثی کے بند ، نظمیں ، نعت اور متفرق اشعار ہیں وہ رسائل اور مرتبہ کتابوں سے یک جا کی گئی ہیں۔ رسالے میں بہار سے نکلنے والا پندرہ روزہ ‘‘بہار کی خبریں’’ کتب میں ‘‘بہار کی بہار’’ (مرتبہ پروفیسر اعجاز علی ارشد) اور ‘‘دبستان عظیم آباد ’’(مرتبہ: سلطان آزاد) سے حاصل شدہ ہیں۔ اختلاف متن کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے۔

چھن نہ جائے مرے ہونٹوں سے تبسم اے دوست

کہیں اس  کی   بھی   نہ   دنیا  کو   خبر  ہو  جائے

جس غزل کا یہ شعر ہے وہ  چھ اشعار پر مشتمل ‘‘بہار کی خبریں’’ آزادی نمبر اگست 1949میں چھپی ہے۔  اور‘‘بہار کی بہار’’ اشاعت2010 میں پروفیسر اعجاز علی ارشد نے مذکورہ شعر کو اس طرح  نقل کیا ہے :

چھن نہ جائے مرے ہونٹوں سے تبسم اے دوست

کہیں اس  کی  نہ   زمانے   کو   خبر   ہو   جائے

پروفیسر اعجاز علی ارشد نے ایک مطبوعہ مضمون میں ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے:

اس کےبجھے کا جگر سوز نظارہ بھی کیا

ہائے جس شمع کو دیکھا فیروزاں میں نے

لیکن یہی شعر ان کی کتاب ”بہار کی بہار“ میں کچھ اس طرح ہے:

اس کےبجھے کا جگر سوز نظارہ بھی کیا

ہوئے جس شمع کو دیکھا تھا فیروزاں میں نے

قاسم صہباءجمیلی نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ ”بہار کی خبریں“ فروری 1985 میں ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے:

                                                                       اب نہ وہ رنگ غزل ہے نہ وہ آہنگ غزل

                                                                       ہوش کس تلخی احساس نے مارا تم کو

یہی شعر اعجاز علی ارشد نے ‘‘بہار کی بہار ’’ میں اس طرح کوٹ کیا ہے:

                                                                  اب نہ وہ رنگ سخن ہے نہ وہ آہنگ سخن

                                                                  ہوش کس تلخی احساس نے مارا تم کو

اسی طرح بیشتر اشعار کے مصرعوں میں پروف کی غلطیاں یا مصرعے سرے سے بے وزن چھاپ دئے گئے ہیں۔ سہو کتابت ، کمپوزنگ یا طباعت کی ہے یا کوئی تساہلی راہ پا گئی ہے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن ان کے ذکر کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک تو بات کی بنیاد کے لیے مواد بہت تھوڑے اور اس پر بھی متن میں اختلافات۔ ان صورت حال کے پیش نظر ہوش کا معیار و مرتبہ مشاہیر ادب کے ساتھ طے کرنے کے سے قبل تلاش و تحقیق سے ان کے کلام کو یک جا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ہوش عظیم آبادی چھپنے چھپانے کے معاملے میں لا پروا قسم کے انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی حیات میں کوئی ایک مجموعہ بھی شائع نہ کر سکے۔ حالانکہ وہ محکمہ نشریات و اشاعت بہارکے اسسٹنٹ ڈائرکٹر بھی رہے۔ ‘‘بہار کی خبریں’’ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ انہیں خوب اندازہ تھا کہ شہرت اور ناموری کس وسیلے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں بے نیازانہ زندگی گزارتے رہے ۔ اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان کا کلام پہلی فرصت میں یک جا کریں۔

 

 

 

About admin

Check Also

یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس یوروپی ممالک میں اردو …

2 comments

  1. ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں

  2. السلام علیکم
    ہوش عظیم آبادی کی شاعری پر ایک عمدہ مقالہ ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو یہ مقالہ میں روزنامہ پندار کے لیے بھیج دوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *