Home / Socio-political / ملائم کے لئے سنہرہ موقع

ملائم کے لئے سنہرہ موقع

بشکریہ روزنامہ انقالاب ، دہلی

ڈاکٹرافضل مصباحی

موجودہ حالات میں بے گناہ مسلم نوجوانوں کو رہائی دلانے کی بات اگرکوئی قومی رہنماکرتے ہیں، یہ اپنے آپ میں بے حد اہم ہے۔ ملائم سنگھ یادونے ملی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ وہ بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لئے کوشش کریں گے۔ان کی باتوں پر اس لئے بھی یقین کیا جاسکتا ہے کہ ریاست کے مسلمانوں نے جس اندازسے ان کی پارٹی کو ووٹ دے کر کامیابی دلائی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کو ان پر بھروسہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود ملائم سنگھ یادو اور اکھلیش یادو اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹ کی وجہ سے انہیں ایک مرتبہ پھرکامیابی ملی ہے۔ ریاست کے مسلمانوں کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات ہے کہ اگرمایاوتی کی بجائے ملائم سنگھ لکھنوٴ کی کرسی پر ہوتے تو شاید اعظم گڑھ کو’ آتنک گڑھ‘ نہیں کہا جاتااور یہاں کے مسلمانوں کو جس اندازسے ٹارگٹ کیا گیا، وہ بھی نہیں کیاجاتا۔اس وقت ریاست کے درجنوں مسلم نوجوان دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں جیلوں میں بندہیں اور ان کے مقدمہ کی کارروائی تک شروع نہیں ہوئی ہے۔عام طورپر ہوتا یہی ہے کہ برسوں جیل میں بندرکھنے کے بعد جب مقدمہ کی باضابطہ کارروائی شروع ہوتی ہے، تو یہ مسلم نوجوان بے قصورثابت ہوتے ہیں اور عدالتیں انہیں باعزت رہاتو کردیتی ہیں، لیکن ان کے ایام وسال جو جیل کی سلاخوں میں بربادہوئے ہیں، ا س کے تعلق سے کوئی ہدایت جاری نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے ان نوجوانوں کی زندگی پوری طرح برباد ہوجاتی ہے اور جیل سے نکلنے کے بعد ان کے سامنے اندھیراہی اندھیرارہتا ہے۔ پرانی دہلی کے رہنے والے محمد عمران کی مثال تازہ ہے۔ بارہ برسوں تک اسے بے گناہی کی سزاجیل میں کاٹنا پڑی اور جب رہائی ہوئی توجیل کے باہرکوئی پرسان حال نظرنہیں آیا۔باپ اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے جدوجہدکرتے کرتے اس دنیاسے چلے گئے، بوڑھی ماں فالج کا شکارہوگئیں اور دیگررشتہ داروں نے ان سے پوری طرح منہ پھیرلیا۔ اردواور انگریزی کے اخبارات میں تسلسل کے ساتھ اس پر ہوئے مظالم کی داستان بیان کی گئی لیکن پھربھی ارباب اقتدارکی آنکھوں میں پانی نہیں آیاکہ وہ اس نوجوان کی زندگی بہتربنانے کایقین دلاتے۔ملائم سنگھ یادوکے اس بیان کے بعد اعظم گڑھ اور اترپردیش کے دیگرعلاقوں کے جو بے قصورمسلم نوجوان حراست میں لئے گئے ہیں، ان کی رہائی کی تھوڑی سی امیدجگی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل ان گنت ہیں، لیکن اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ سب سے اہم اورسنگین مسئلہ کیا ہے، تو برملامیں یہی کہوں گا کہ مسلمانوں کاتحفظ ان کے لئے سب سے اہم ہے۔آزادی کے وقت سے لے کر بابری مسجد کی شہادت کے چند برسوں بعد تک یہاں کے مسلمان مسلم کش فسادات سے پریشان تھے اور وہ اسی پارٹی کو ووٹ دینے میں عافیت تصورکرنے لگے جو فسادات نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرائے۔ بھاگلپورمیں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد جس طرح بہارسے کانگریس کا صفایا ہوگیااور لالوپرسادیادو کو یہاں کا اقتدارملا، اس سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اترپردیشمیں کانگریس کی رسوائی کا پس منظربھی سب کو معلوم ہے،بلکہ ایک اور قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کی ہارکے پس پردہ بھی یہی اسباب کارفرماتھے۔ مسلمانوں کو اندیشہ تھا کہ اگرکلیان سنگھ کے ساتھ ملائم سنگھ کی سرکاربنی تو ان کی خیرنہیں ہوگی، جس کا نتیجہ شکست کی شکل میں سامنے آیا۔گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کے بعد سے کوئی بڑافرقہ وارانہ فسادتو نہیں ہوا لیکن مسلمانوں کے تحفظ کا مسئلہسنگین ترہوتاچلاگیا۔اس میں گجرات کی بی جے پی حکومت کے شانہ بشانہ مرکزکی یوپی اے حکومت نے کھل کرساتھ دیا،جس سے کانگریس کا رول پوری طرح اجاگرہوگیا۔آج ملک میں مسلمانوں کی جو درگت بنی ہوئی ہے، اس میں کانگریس کا کلیدی رول ہے۔اس نے بی جے پی کی راہ پر چل کراسرائیلی منصوبوں کونافذکیا۔ اسرائیلی لابی نے جو مشورے دئے اس پربلاچوں وچراکانگریس نے عمل کیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک اردوصحافی کو بھی اسی کے اشارے پر حراست میں لے لیاگیااورموسادکو ان سے پوچھ گچھ کی کھلی اجازت دے دی گئی۔گویااس وقت مسلمانوں کے گردگھیراتنگ کرنے کے لئے کانگریس ایک طرف سنگھ پریوارکی باتوں پر عمل کررہی ہے تو دوسری طرف اسرائیلی لابی کو بھی اس کام پر لگادیاہے۔ اس کا احساس جوں جوں مسلمانوں کو ہورہاہے، وہ کانگریس سے آہستہ آہستہ دورہو تے جارہیہیں۔

مسلمانوں کا فرضی انکاؤنٹر، دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری، مسلمانوں کے مخصوص علاقوں کو نشانہ بناکربدنام کرنے کی سازش، ہرداڑھی اور ٹوپی والے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے کی روش، برقع پوش خواتینپر طعن وتشنیع ، اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو جھوٹے الزامات میں حراست میں لیاجانا،مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ بتایاجانا، یہاں کے تعلیم یافتہ علماء کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھنا، مسلمانوں کو سول سروسزمیں آنے سے روکنے کی کوشش کرنا،یہ وہ مسائل ہیں، جو مسلمانوں کے تحفظ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اترپردیش میں ملائم سنگھ کی سرکاربننے سے اس طرح کی رفتاریقینی طورپر سست ہوگی۔ اس لئے کہ سماجوادی پارٹی نے پہلی بارکسی مسلمان کو ریاست کا چیف سکریٹری بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔وزارت میں بھی آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کونمائندگی دی گئی ہے۔ اعظم خاں کو متعددوزارتوں کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اب تک کے حالات بتاتے ہیں کہ اکھلیش یادواپنی پارٹی کے سینئرمسلم رہنمااعظم خاں کو اپنے بعد کی پوزیشنپربرقراررکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ ا س کا پیغام مرکزاور دیگرریاستوں تک جائے گا۔ملائم سنگھ یادونے مسلمانوں کے اہم ترین مسئلہ کو حل کرنے کا یقین دلایاہے۔اگراس کے لئے وہ سنجیدہ کوشش کرتے ہیں، تو اس سے ملک کے مسلمانوں کو سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ اس لئے کہ دہشت گردی کے معاملے میں اب تک سب سے زیادہ اترپردیش کے مسلمان گرفتارکئے گئے ہیں۔ملک کے کونے کونے میں یہاں کے شہریوں کو چن چن کرنشانہ بنایا گیا ہے۔ ملائم سنگھ اگر اس روش پر قدغن لگاتے ہیں، تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔اس سے مسلمانوں کو یہ احساس ہوگا کہ ملک میں مسلمانوں سے ہمدردی جتانے والے رہنماتو سیکڑوں ہیں، لیکن سچ مچ ان کے حق میں کام کرنے والے ملائم سنگھ یادوہیں۔ اس وقت ملائم سنگھ کی جو پوزیشن ہے،اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ وہ مرکزکی یوپی اے حکومت کو بھی بہت سے کام کرنے پرمجبورکرسکتے ہیں۔ سماجوادی پارٹی نے جس موڑپر یوپی اے حکومت کوسہارادیاہے وہ ناقابل فراموش ہے۔وہ کانگریس کے لئے نجات دہندہ کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے عرصہ ٴحیات تنگ کرنے کا سلسلہ اسرائیل کے اشاروں پر جاری ہے۔ اگرملائم سنگھ یادو ملک کو اسرائیلی دہشت گردی سے نجات دلانے کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں اورکانگریس کے سامنے اسرائیل سے رشتہ توڑنے کی وکالت کرتے ہیں تو ملک پر ان کا بہت بڑااحسان ہوگا۔مسلمانوں سمیت بہت بڑے حلقے سے یہ بات اٹھنے لگی ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں۔ یوں بھی انہیں ’دھرتی پتر‘کہاجاتا ہے۔ بیقصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری بھی سنگھ لابی اور اسرائیل کے اشاروں پر ہوتی ہے اور حقیقی رہائی بھی اس لابی کے خونی چنگل سے نجات کی صورت میں مضمرہے۔’دھرتی پتر‘یہ کام بخوبی طورپرانجام دے سکتے ہیں۔سچائی یہ ہے کہ ملک کے مسلمانوں کو اس وقت تک چین کی زندگی نصیب نہیں ہوگی جب تک کہ اسرائیلی سفارت خانہ کاوجودیہاں سے ختم نہیں ہوجاتا۔ اسرائیل کا وجود جن جن ملکوں میں ہے، وہاں اس کی ریشہ دوانیاں عروج پر ہیں۔ موسادنے وہاں کے لوگو ں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔آئے دن اسرائیلی جاسوس ملک میں غیرقانونی سرگرمیوں میں پکڑے جاتے ہیں اوربہت خاموشی سے انہیں ملک سے باہر کردیاجاتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ اتنی ہمدردی آخرکیوں جتائی جارہی ہے، اس پر ملائم سنگھ جیسے رہنماؤں کو سنجیدگی سے سوچناہوگا۔ملک کے ساتھ ساتھ کانگریس کواندرسے کھوکھلاکرنے کی منصوبہ بندکوشش ہورہی ہے، اس کا احساس چاہے سب کچھ کھونے کے بعد ہولیکن اتناطے ہے کہ اسرائیل کے اشاروں پر اس نے کام کرنابندنہیں کیا تو وہ مسلمانو ں کے ساتھ ساتھ ملک کے سیکولرشہریوں کی نگاہوں سے بہت دورچلیجائے گی اور مسلمان جس طرح بی جے پی کو اچھوت سمجھتے ہیں، اسی طرح اس کا بھی حشرہوگا۔ ملائم سنگھ یادواس کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *