بابری مسجد کیس
قانونی بے انصافی کا حل قانونی چارہ جوئی
ذیشان مصباحی
بابری مسجد متنازع اراضی کاطویل ترین ۰۶سالہ مقدمہ ۰۳ستمبر۰۱۰۲ءکو فیصل ہوگیا-اس فیصلے پر ”کھودا پہاڑ نکلی چوہیا“ کی مثل پورے طور پر صادق آرہی ہے- اس مقدمے کو فیصل کرنے کے لیے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بنچ نے تین ججز جسٹس دھرم ویر شرما، جسٹس صبغت اللہ خان اور جسٹس سدھیر اگروال کو مقرر کیا تھا- فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ بابری مسجد کے وسطی گنبد کے مقام کو جس کے بارے میں متعینہ طور پر بھگوان رام کی جائے ولادت ہونے کا ہندو فریق کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا، وہ درست ہے، اس لیے وہاں پر جو رام کی مورتیاں رکھی گئی تھیں، وہیں رہیں گی، پوجا پاٹ بھی جاری رہے گا، البتہ بابری مسجد اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا- ایک حصہ ہندوؤں کو، دوسرا نرموہی اکھاڑا کو اور تیسرا مسلمانوں کو یا بلفظ دیگر دو حصے ہندوں کواور ایک حصہ مسلمانوں کو دے دیا جائے گا- اس مقدمے کے چار بنیادی سوالات تھے، جن کی تحقیقات ہونی تھی، وہ سوالات اور جج صاحبان کے جوابات حسب ذیل ہیں:
۱- کیا بھگوان رام اس مقام پر پیدا ہوئے تھے
جسٹس شرما: ہاں! یہی وہ جگہ ہے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے-
جسٹس اگروال: ہندؤں کا عقیدہ و ایمان یہی ہے کہ رام یہاں پیدا ہوئے تھے-
جسٹس خان: ہندو ایک زمانے سے یہ مانتے رہے ہیں کہ بشمول متنازع زمین کے اجودھیا کے اس وسیع خطے میں کہیں نہ کہیں رام پیدا ہوئے تھے- البتہ ۹۴۹۱ءسے چند عشرے قبل سے ہندو یہ ماننے لگے کہ وسطی گنبد کی جگہ ہی اصل رام جنم بھومی ہے-
۲- کیا متنازع عمارت ایک مسجد تھی؟ اگر ہاں تو اس کی تعمیر کس نے اور کب کی تھی؟
جسٹس شرما: یہ عمارت بابر کے ذریعے بنائی گئی تھی- یہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف تعمیر ہوئی تھی- اس لیے مسجد نہیں تھی-
جسٹس اگروال: یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ عمارت بابر کے ذریعے بنائی گئی تھی یا اس کے عہد حکومت میں بنائی گئی تھی-ویسے مسلمان ہمیشہ اسے مسجد سمجھتے رہے اور اس میں نماز پڑھتے رہے-
جسٹس خان: یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی تعمیرکب ہوئی تھی، البتہ یہ یا تو بابر کے ذریعے تعمیر ہوئی تھی یا اس کے حکم سے تعمیر ہوئی تھی اور یہ عمارت مسجد تھی-
۳- کیا اس کی تعمیر کے لیے کسی ہندو مندر کو منہدم کیا گیا تھا؟
جسٹس شرما: اس کی تعمیر ایک پرانی عمارت کو منہدم کر کے ہوئی تھی، جس کے بارے میں آرکیلوجیکل سروے آف انڈیا نے یہ پروف کردیا ہے کہ وہ کوئی بڑی ہندو عمارت تھی-
جسٹس اگروال: اس کی تعمیر ایک غیراسلامی مذہبی عمارت، جو ایک ہندو مندر تھی، کو منہدم کرنے کے بعد ہوئی تھی-
جسٹس خان: یہ ہندو مندروں کے ملبے پر تعمیر ہوئی تھی، جو ملبے ایک زمانے سے وہاں پڑے ہوئے تھے- ملبے سے کچھ میٹریل دوران تعمیر استعمال بھی ہوئے تھے-
۴-مورتیاں کب رکھی گئیں؟
جسٹس شرما اور جسٹس اگروال: وسطی گنبد کے نیچے ۲۲ اور ۳۲ دسمبر ۹۴۹۱ءکی درمیانی شب میں رکھی گئی تھیں-
جسٹس خان: وسطی گنبد کے نیچے ۳۲ دسمبر ۹۴۹۱ءکے ابتدائی گھنٹوں میں رکھی گئی تھیں-
ان بنیادوں پر جو فیصلہ صادر ہوا ہے، اس میں جسٹس سدھیر اگروال اور جسٹس صبغت اللہ خان ایک طرف ہیں اور جسٹس دھرم ویر شرما ایک طرف- جسٹس اگروال اور جسٹس خان کا اکثریتی فیصلہ یہ ہے کہ متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا- ایک حصہ رام للا کو، دوسرا نرموہی اکھاڑا کو اور تیسرا مسلمانوں کے حوالے کردیا جائے گا- اس تقسیم میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ وسطی گنبد کی جگہ جسے رام جنم بھومی تسلیم کیا گیا ہے، اسے ہندوں کے حوالے کردیا جائے- اسی طرح رام چبوترا، سیتا رسوئی اور بھنڈارے کی جگہ کو نرموہی اکھاڑا کے حوالے کردیا جائے گا- متنازع اراضی جو2.77 ایکڑ کو محیط ہے، اس کا مکمل ون تھرڈ حصہ مسلمانوں کو ضرور دیا جائے گا- حتمی تقسیم کے لیے متعلقہ فریقین تین مہینے کے اندر اپنی عرضی ہائی کورٹ میں داخل کریںگے-
جسٹس دھرم ویر کا فیصلہ ذرا مختلف ہے، وہ پوری زمین رام للا اور اس کے نمائندوں کے حوالے کرنے کو کہتے ہیں- ان کے مطابق ہندوں کے علاوہ دوسرے فریق ہمیشہ کے لیے اس زمین سے الگ ہوجائیں اور کوئی Interfareیا Objectionنہ کریں اور نہ ہی رام جنم بھومی مندر کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ پیدا کریں-
فیصلہ بابری مسجد پر ایک نظر:- بابری مسجد پر جو فیصلہ آیا ہے، وہ کئی اعتبار سے محل نظر ہے- سب سے اہم تبصرہ جو اس پر کیا گیا، وہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ قانونی نہیں، پنچایتی ہے- گرام پنچایتوں میں اس وقت ایسا ہی فیصلہ آتا ہے جب مقدمے کا ایک فریق پنچایت کرنے والوں پر بھاری ہو اور دوسرا فریق کو ئی خستہ بے جان ہو- یہ فیصلہ مکمل طور پر یک طرفہ ہوا ہے- اس میں قانون کو نظرانداز کر کے ایک فریق کے آستھا کا احترام کیا گیا ہے، جب کہ دوسرے فریق کے جذبات کا بالکل ہی خیال نہیں رکھا گیا ہے- خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ دوسرا فریق ہندوستانی جمہوریہ کے اقلیتی طبقے سے ہے اور صرف ہندوستانی عدلیہ اور سیکولر جمہوریہ پر اعتماد کے سہارے ہی اپنی زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے جذبات کا بالکل خیال نہ رکھنا اس کے اندر مہجوری اور بے اعتمادی کے احساسات جگاتا ہے- اس فیصلے نے جہاں تاریخ اور قانون کو نظرانداز کر کے مسلمانوں کے موقف کو کمزور کیا ہے، وہیں ان کی ہمت، ارادہ اور اعتماد کو بھی بری طرح ٹھیس پہنچایا ہے- وہ خود کو قانونی عدم تحفظ کا شکار محسوس کررہے ہیں-
اس فیصلے کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اگر آستھا کی بنیاد پر ہونے والے اس فیصلے کو تسلیم کرلیا گیا تو یہ مستقبل میں ہندوستانی عدلیہ کے لیے ایک بری نظیر بن کر سامنے آئے گا اور قانون وانصاف کی بجائے آستھا پر فیصلے دینا اس نظیر کی بنیاد پر جائز ہوجائے گا- اس سے مستقبل میں کب کب اور کہاں کہاں انصاف کے خون کا جواز نکل آئے گا، اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے-
اس فیصلے میں وسطی گنبد کی جگہ کو متعینہ طور پر بھگوان رام کا جنم استھان تسلیم کرلیا گیا ہے، جب کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ رام کی انسانی شخصیت تاریخی طور پر تسلیم شدہ نہیں ہے- خود فیصلے کے اندر بھی رام کو ایک دیوتا کے طور پر پیش کیا گیا ہے، ایسی صورت میں کسی متعینہ مقام کو ان کا جنم استھان کہنا منطقی طور پر احمقانہ بات ہے- دوسری بات یہ ہے کہ اگر دیوتا کے لیے جنم استھان کو ماننا جائز بھی ٹھہرے تو اس متعینہ مقام کو رام جنم بھومی قرار دینا کھلے طور پر انصاف کا خون ہے، کیوںکہ ہندو روایت میں بھی اس متعینہ جگہ کو رام جنم بھوم نہیں کہا گیا ہے- ۹۴۹۱ءسے کچھ سالوں پہلے سے ہندوں نے محض عقیدت کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا شروع کیا اور ایک سو سال سے کم کی اس عقیدت کا احترام کرتے ہوئے اس دعوے کو تسلیم کرلیا گیا، جب کہ بہت ممکن ہے کہ آستھا کا یہ ڈھونگ شرپسند عناصر صرف مسجد کو منہدم کرنے یا اسے مندر میں تبدیل کرنے کے لیے رچے ہوں-
اس فیصلے کو بندر بانٹ فیصلہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا، فرق صرف یہ ہے کہ بندر بانٹ کی تمثیل میں دونوں فریق اپنے حصے سے محروم ہوجاتے ہیں، جب کہ اس تقسیم میں صرف ایک فریق محروم ہورہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو جی بہلانے کے لیے دو ججز نے ایک تہائی زمین دینے کا فیصلہ تو کیا ہے، مگر ایک جج دھرم ویر شرما نے پوری زمین ہندوں کے حوالے کردینے کی بات کہی ہے اور ویسے بھی مختلف ہندو قائدین نے مسلمانوں سے اپنے حصے سے دست بردار ہونے کا اخلاقی مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے، دوسری طرف ہندو تنظیمیں قانونی طور پر مکمل ملکیت کے لیے سپریم کورٹ جانے کی بات کر رہی ہیں، خود مسلمان بھی تھک ہار کر یہی سوچنے پر مجبور ہوجائیںگے کہ جب مسجد کی جگہ رام مندر بن ہی جائے گا تو ایک تہائی زمین لے کر آخر ہم کیا بوئیںگے؟ اس لیے آج نہیں تو کل نام نہاد دانشوران ملت اس وسعت ظرفی کے لیے ضرور تیار ہوجائیںگے اور نتیجہ میں مسلمانوں کو صفر ملے گا-
آستھا کی بنیاد پر ہونے والایہ فیصلہ پوری دنیا کے سامنے ہندوستانی عدلیہ میں قانون کی زیر دستی کا اشتہار بن کر سامنے آیا ہے- اس سے ہندوستانی جمہوریہ کی سیکولر ساکھ بھی متاثر ہوگی اور دنیا کی سب سے بڑی اس جمہوریہ میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی بھی مشتہر ہوگی- اس جمہوریہ کی پیشانی سے گجرات میں حکومت کی زیر نگرانی اقلیتی فرقے کے قتل عام سے جو داغ لگا تھا، وہ ابھی دھل بھی نہ سکاتھا کہ آستھا کو بنیاد بنا کر اقلیتی فرقے کو اس کے حقوق سے محروم قرار دے کر اس پیشانی کو مزید بدنما بنادیا گیا- اس کے برخلاف اگر قانون کے مطابق فیصلہ آیا ہوتا تو اس سے گجرات سانحہ کے داغ کو بہت حد تک مٹایا جاسکتا تھا اور اس موقع پر مسلمانوں کے سینے پر جو زخم آیا تھا، بڑی حد تک اس کا مداوا بھی ہوجاتا، مگر یہ کیا کہ آستھا کے اس احترام نے تو ان کے زخم کو مزید کرید کر رکھ دیا اور ان کے اندر خوف، حرماں، مایوسی، قانونی عدم تحفظ، عدالتی بے انصافی اور اقلیت اور کمزور ہونے کے احساسات کو مزید جگادیا-اس فیصلے کا ایک منفی اثر یہ بھی ہے کہ اس نے متنازع زمین کو ہمیشہ کے لیے مقفل کرنے یا کسی اور صورت پر مصالحت کرنے کے امکان کو تقریباً ختم کردیا ہے- اس لیے کہ اس فیصلے سے جیسے ہندو فریق کے منہ میں خون لگ گیا ہے اور صلح کے بجائے قبضہ پر اس کا اصرار بڑھ گیا ہے-اس فیصلے کو بعض مبصرین سیاسی فیصلہ بھی کہہ رہے ہیں- ان کا اشارہ کانگریس کی اس میٹھی چھری کی طرف ہے، جس سے وہ ہمیشہ مسلمانوں کی قربانی کا نیک فریضہ انجام دیتی رہی ہے-
فیصلے پر رد عمل:اس فیصلے کا ہندوستانیوں کو شدت سے انتظار تھا- آخری وقت تک عدلیہ کے انصاف اور ہندوستانی عوام کی طرف سے فساد کی توقع لگائی جاتی رہی، لیکن نتیجہ دونوں صورت میں خلاف توقع نکلا- عدلیہ نے اپنے سیکولر کردار کو مشکوک قرار دے دیا، جب کہ ہندوستانی عوام نے اپنے بالغ نظری، تعلیمی ذہن، پختہ شعور اور سنجیدہ مزاج کا ثبوت فراہم کردیا- اس ضمن میں سب سے قابل تعریف کردار ہندوستانی مسلمانوں کا رہا- ان کے خلاف فیصلہ آنے کے باوجود ان کی طرف سے پورے ملک میں کوئی ایک بھی خلاف قانون قدم نہ اٹھایا جانا، ان کی سنجیدگی، مثبت طرز عمل اور بالغ شہریت کا کھلا اشاریہ ہے- مسلمانوں کی طرف سے اس پر جو بیانات آئے وہ بھی بہت ہی مثبت اور درست تھے- تقریباً تمام مسلم تنظیموں، نمائندوں اور افراد نے متفقہ طور پر یہی بات کہی کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی جائے گی اور قانونی جنگ جاری رہے گی- اس ذیل میں استثناکے طور پر بعض ”دانشوران ملت“ کے بیانات ایسے آئے جو سیکولر اسٹیٹ کے کسی پختہ ذہن سے متوقع نہیں ہوسکتے- ان میں ایک معروف اسکالر مولانا وحیدالدین خان اور دوسرے معروف صحافی جناب عزیز برنی سرفہرست ہیں-فیصلہ آنے کے بعد ایک ٹیلی ویژن چینل کے نمائندے نے جب مولانا وحیدالدین خان سے یہ دریافت کیا کہ اسلامی قانون کے مطابق مسجد کی تعمیر کہاں ہونی چاہیے؟ اس پر خاں صاحب نے حسب توقع اپنا جواب مرحمت فرمایا: ”مسجد غصب کی ہوئی زمین پر نہیں بنائی جاسکتی- ویسے یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ اس کا فیصلہ اسلامی قانون سے نہیں دیاجاسکتا- یہ معاملہ حکومت کے حوالے کردینا چاہےے- حکومت ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے-“ ظاہر ہے مولانا نے اپنے جواب میں سوال سے زیادہ اور غیرمتعلقہ باتوں کو شامل کرلیا- اس میں ایک طرف اس بات کا اشارہ اور اعتراف گناہ ناکردنی ہے کہ بابر نے زمین غصب کر کے مسجد کی تعمیر کی، جو بات اب تک کوئی ہندو نمائندہ بھی کہنے کی جرات نہیں کرسکا ہے، دوسری طرف اسلامی قانون سے بے وجہ دست برداری اور جدید حالات میں اس کی عدم نارسائی کی بات کی گئی ہے، جب کہ اسلامی شریعت میں تمام حالات کے لیے مسائل کاقابل انطباق حل موجود ہے،حتیٰ کہ اضطرار اور مجبوری کاحل بھی اسلامی شریعہ فراہم کرتی ہے- نہ اس ٹی وی نمائندے نے یہ سوال کیا تھا کہ اس مسئلے کا حل اسلامی شریعت میں کیا ہے؟ یا یہ کہ اسلامی شریعت سے اس مسئلے کا حل ممکن ہے یا نہیں؟ اس نے مسجد کی جائے تعمیر کے سلسلے میں ایک سادہ سوال کیا اور اس کی امید سے زیادہ حوصلہ افزا جواب عنایت فرما کر مولانا نے شاعر مشرق کے ان اشعار کی یاد تازہ کردی، جو دور غلامی میں مسلم ذہنیت کی تصویر کھینچتے ہیں:
از نگاہش دیدنی ہا در حجاب
قلب او بے ذوق و شوق انقلاب
سوز مشتاقی بکردارش کجا
نور آفاقی بگفتارش کجا
مذہب او تنگ چو آفاق او
از عشا تاریک تر اشراق او
زندگی بار گراں بر دوش او
مرگ او پروردہ آغوش او
۱- اس کی نگاہ سے تمام حسین مناظر اوجھل ہیں اور اس کا دل ذوق انقلاب سے محروم ہے-
۲- اس کے کردار سے اشتیاق و جستجو کی گرمی کہاں پیدا ہوسکتی ہے اور اس کی باتوں میں آفاقیت کا نور کہاں آسکتا ہے؟
۳- اس کا مذہب اس کی سوچ کی طرح تنگ ہے اور اس کی صبح اس کی رات سے بھی زیادہ تاریک ہے-
۴- زندگی اس کے کندھے پر ایک بھاری بوجھ ہے اور اس کی موت اسی کی آغوش کی پروردہ ہے-
فیصلے پر جناب عزیز برنی نے اپنے خلاف توقع اور استثنائی رد عمل کا اظہار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے اپنے طویل کالم میں ۲اکتوبر ۰۱۰۲ءکو ”کیا ضروری ہے سپریم کورٹ جانا- ذرا غور کریں!“ کے عنوان سے لکھا ہے- موصوف اس فیصلے کو ”تاریخ ساز“ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”میں اپنی اس تحریر کی معرفت اپنے قارئین کی خدمت میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ بھی میرے لیے اتنا ہی مشکل فیصلہ ہے، جتنا کہ اس تاریخ ساز فیصلہ کو انجام دینے والے جسٹس ایس یو خان، جسٹس دھرم ویر شرما اور جسٹس سدھیر اگروال کے لیے مشکل رہا ہوگا-“
اس کے بعد جو بات انہوں نے کہی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ تاریخ ساز اس لیے ہے کہ اگر اس کے خلاف، آستھا کو رد کرتے ہوئے قانون کی روشنی میں فیصلہ آتا تو ہندوستان کا امن و اتحاد غارت ہوجاتا- اگر ہم اس فیصلہ کو تسلیم کرکے ہندوں کے ساتھ مندر تعمیر میں تعاون کرتے ہوئے ہم خود اپنی مسجد تعمیر کرتے ہیں تو اس سے ایک اچھا تاثر جائے گا نیز ایک جگہ مسجد اور مندر کا وجود ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر سامنے آئے گا- برخلاف اس کے اگر ہم سپریم کورٹ جاتے ہیں تو ایک تو فیصلے کے ساتھ ہماری عدم رضامندی کا اظہار ہوگا- ثانیاً ہم اگلی نسل کو پھر اسی مسئلے میں الجھا دیںگے اور پھر ایک لمبی مدت کے بعد اگر فیصلہ ہمارے حق میں آتا بھی ہے تو اس کے بعد جو صورت حال پیدا ہوگی، اس سے نمٹنا آسان نہ ہوگا- خون خرابہ یقینی ہوگا- امن غارت ہوگا اور مسلمانوں کا خون بہے گا- نیز فیصلے کا نفاذ بھی مشکل ہوگا- دونوں فریق میں کشیدگی الگ بڑھتی رہے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر فیصلہ وہاں سے بھی یہی آتا ہے یا اس سے بھی برا آتا ہے تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیںگے-
برنی صاحب نے جو کچھ کہا ہے، اس کے لیے ہم ان کی نیت پر شبہ نہیں کرسکتے- اپنی بات کو جن دلائل سے مستحکم کیا ہے، ان کی داد دیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے، لیکن اس کے باوجود یہاں چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو قابل نظرانداز نہیں ہیں-
۱-برنی صاحب جو بات آج کہہ رہے ہیں یہ تو انہیں سالوں پہلے کہنی چاہیے تھی- اس لیے کہ قانون کے مطابق فیصلہ آنے کی صورت میں جن خدشات کا اظہار فیصلے کے بعد کیا ہے، ان کا اظہار پہلے ہونا چاہیے تھا تاکہ ان خدشات کے مطابق متوقع فیصلے کے ضرر سے مسلمانوں کو بچایا جانا ممکن ہوجاتا اور مسلمان سالہا سال تک اپنی انرجی لاس کرنے سے بچ جاتے- زمین فریق مخالف کے حوالے کردیتے اور خود پر امن زندگی گزارتے-
سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے تو کیا کیے؟
۲- موصوف فیصلے کو تسلیم کرنے کی صورت میں جن خوش گوار خیالی مناظر سے خود کو لطف اندوز کر رہے ہیں انہیں کون بتائے کہ اگر مسلمان ان کا مشورہ تسلیم کربھی لیتے ہیں جب بھی ان مناظر کی زیارت سے ان کی آنکھیں محروم ہی رہیںگی- برنی صاحب کی یہ تحریر ۲ اکتوبر کو چھپی ہے جسے یقینی طور پر انہوں نے یکم اکتوبر کو لکھا ہوگا، مگر حیرت ہے کہ ان جیسے وسیع نظر صحافی سے یکم اکتوبر کے اخبار جو ۰۳ستمبر کے فیصلے کے فوراً بعد چھپا ہے، کی پہلے صفحے کی یہ خبر کیسے اوجھل رہ گئی؟
Though the Hindu side claimed to have won, it declared its intention to go in appeal to the Supreme Court, arguing that since Ram Janamasthan hav been accepted, the entire desputed site at Ayodhya should be handed over for the construction of a temple.(Times of India, New Delhi)
”گرچہ ہندو فریق نے فتح کا اعلان کردیا ہے، ساتھ ہی اس نے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اپنا عندیہ بھی ظاہر کردیا ہے تاکہ وہ یہ بات کہہ سکے کہ چوں کہ رام جنم استھان تسلیم کرلیا گیا ہے، اس لیے اجودھیا کی پوری متنازع زمین مندر تعمیر کے لیے حوالے کردینا چاہیے-“
خود برنی صاحب کے اخبار میں ان کے اس کالم کے ساتھ یہ خبر بھی چھپی ہے: ”اجودھیا کے مقدمہ میں ایک فریق ہندو مہاسبھا نے آج کہا کہ پوری متنازع زمین رام للا کی ہے اور یہاں مسجد کی تعمیر قابل قبول نہیں ہوسکتی ہندو مہاسبھا کو متنازع مقام کی تقسیم قبول نہیں ہے اور وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گا-“
۳- برنی صاحب نے قانونی فیصلے کی صورت میں جن خدشات کا اظہارکیا ہے، وہ ممکن ضرور ہیں یقینی نہیں- پھر قیام امن کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے جو تیاریاں کی تھیں، وہ بڑی حد تک اطمینان بخش تھیں- پھر یہ حکومت کی اپنی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی عدالت کے قانونی فیصلے کو قانونی طور پر نافذ کرے اور اس کے خلاف شرپسندوں کی سازش کو ناکام بنائے- فیصلہ کرنے میں یا اس کو نافذ کرنے میں مسلمان کہیں سے کہیں تک نہیں تھے کہ انہیں مورد الزام ٹھہرانا درست ہو-
۴- سپریم کورٹ میں جانے کو صرف اس پہلو سے دیکھنا کہ اس سے عدالتی فیصلے سے عدم رضا مندی کا اظہار ہوتا ہے اور اگلی نسل کو اس مسئلے میں الجھانا ہے، یہ درست نہیں ہے- اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمان سیکولر ریاست میں اپنے قانونی حق کا استعمال جانتا بھی ہے اور کرتا بھی ہے اور ایسا کرنا اگلی نسل کو الجھانا نہیں ہے، بلکہ اسے انصاف کی لڑائی کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا ہے اور اس کے سامنے خود اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہونا ہے کہ اگلی نسل کہیں ہمیں بے وقوفی، جہالت اور بزدلی کا طعنہ نہ دے-
۵- فیصلے کے بعد جو ہندوستانیوں کا رد عمل آیا وہ ان کے شعور کی پختگی اور ان کی سنجیدگی کا واضح اشاریہ ہے- آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی زبان سے بھی یہ الفاظ نکلے کہ ”اس فیصلے کو کوئی فتح و شکست کے طور پر نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی ایسی بات کہے، جس سے دوسرے فریق کی دل آزاری ہو-“ یہ بات اس چیز کا واضح ثبوت ہے کہ ہندوستانی ذہن پہلے کی بہ نسبت زیادہ Mature، سنجیدہ اور حقیقت پسند ہوا ہے- اس لیے اگر مستقبل میں سپریم کورٹ سے قانون کی جیت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے ۶دسمبر کے دہرائے جانے کی توقع بہت ہی کم ہوگی- انتظام و انصرام کے حوالے سے حکومت کی حساسیت اس پر مزید ہے-
۶-ہر کیس میں اور ہر عدالت میں فتح و شکست دونوں امکانات ہوتے ہیں- یہی دونوں امکان سپریم کورٹ میں جانے کی صورت میں بھی ہیں- لہٰذا اس امکان کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ نہ جانے کی وکالت انتہائی حد تک سادہ لوحی ہے- یوں تو ہر شخص کو یہ مشورہ دینا پڑے گا کہ کسی بھی معاملے میں اور کسی بھی صورت میں تم عدالت کا رخ نہ کرو کہ اس سے تمہارے فریق سے کشیدگی بڑھے گی پھر یہ کہ ممکن ہے کہ تمہارے حق میں فیصلہ نہ ہو- پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ سے بہرحال قانون کی جیت متوقع ہے، لہٰذا وہاں جانا قطعا حماقت نہیں ہے- یہ سوچ کر رک جانا حماقت ہے کہ اگر فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آیا تو کیا ہوگا؟
۷- برنی صاحب فیصلے کی دوسری صبح کے اپنے ہی اخبار کی یہ خبر بھی پڑھ لیں اور اپنی وسعت نظری کے تناظر میں کچھ اس کا حل بھی بتادیں:
”وشو ہندو پریشد نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ کورٹ نے کروڑوں ہندوں کے عقیدے کا احترام کیا ہے اور یہ ہندوستانیوں کے لیے فخر کا موضوع ہے- آچاریہ گری راج کشور نے کہا ہے کہ مسلمان بھائیوں کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ ماضی کی باتیں بھول کر کاشی اور متھرا کا دعویٰ بھی چھوڑ دیں، جب کہ وی ایچ پی کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیا نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ہندو سماج کو انصاف ملا ہے سنی وقف بورڈ کو ایک تہائی زمین دینے کے فیصلے پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے فیصلے کے اس حصے کا مطالعہ کیا جائے گا، اس کے بعد پھر کوئی فیصلہ کیا جائے گا-“
(روزنامہ راشٹریہ سہارا، دہلی، یکماکتوبر ۰۱۰۲ئ)
۸- اس فیصلے کو اگر مسلمان بہ آسانی تسلیم کرلیتے ہیں تو آستھا پر کیا جانے والا یہ فیصلہ ایک نظیر بن جائے گا اور اس کی وجہ سے مستقبل میں مسلمانوں کو بہت سے حقوق اور عمارتوں سے دست بردار ہوجانا پڑے گا- برنی صاحب اس پہلو کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شری رام جنم بھومی ایک ہی ہوسکتی ہے- ہم دیگر مساجد کے لیے اس معاملہ کو نظیر کیوں سمجھیں- پھر بھی اگر خدشہ ہو تو اس سمت میں مناسب پیش رفت کریں-“
(روز نامہ راشٹریہ سہارا، ۲ اکتوبر۰۱۰۲ئ)
برنی صاحب کے حضور اپنی طرف سے کچھ نہ کہہ کر ان کے اخبار کی اسی اشاعت میں چھپنے والے سنتوش بھارتیہ کے مضمون کا یہ اقتباس نذر کرتے ہیں:”اس فیصلے نے ایسے سوال کھڑے کیے ہیں، جن کا حل نکلنا ضروری ہے، وگرنہ ملک میں ایک نئے فرقہ وارانہ دور کی شروعات ہوجائے گی- جماعتیں عقیدت کے نام پر مسجدوں، بودھ مٹھوں اور جینیوں کے مندروں کے خلاف عدالت میں جائیںگی اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو نظیر کی شکل میں استعمال کریںگی-“
زیر بحث فیصلے کی تین رکنی کمیٹی میں شامل جناب صبغت اللہ خان کاایک بیان ۲اکتوبر کے تقریباً تمام اخبارات نے چھاپا ہے، جس میں انہوں نے (اپنے) اس فیصلے کو صلح حدیبیہ سے تشبیہ دی ہے، جو صلح مسلمانوں کی طرف سے بظاہر دب کر ہوئی تھی اور دعوت اسلام کی وسیع اشاعت کا سبب اور بعد میں ظہور پذیر ہونے والی فتح مبین کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تھی- جناب صبغت اللہ خان کے بقول یہ موقع ہے کہ مسلمان اپنی مظلومیت کو پیش کر کے دعوت اسلام کا زبردست کام کریں-
جسٹس صبغت اللہ خان نے مسلمانوں کے حضور اپنی صفائی کے لیے دراصل ایک درست واقعے سے ایک نادرست نتیجہ نکالنے کی غلطی کی ہے- اس واقعے کو صلح حدیبیہ کی نظیر اس لیے قرار نہیں دیاجاسکتا کہ صلح حدیبیہ سے جہاں دعوت اسلامی کی عام اشاعت اور مکة المکرمہ میں آمد و رفت کا آغاز ہو رہا تھا، وہیں مستقبل قریب میں پیش آنے والی فتح مبین کو نگاہ نبوت دیکھ رہی تھی- یہاں پر ایسا کوئی نیا امکان مسلمانوں کے لیے پیدا نہیں ہورہا ہے کہ اس فیصلے کو صلح حدیبیہ کی نظیر قرار دیا جائے، بلکہ اس کے برخلاف اس فیصلے کو نظیر بتا کر زندگی کا حصار ان کے گرد مزید تنگ سے تنگ کردیا جائے گا- آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوہندو پریشد اور اس طرح کی بی جے پی کی ذیلی شرپسند تنظیمیں ایک کیس کے بعد دوسرے کیس کے شور الرحیل بلند کرنے کے لیے ہمہ دم تیار ہیں- بس ایک صورت ہے کہ اس تناظر میں اس واقعے کو ایک حد تک صلح حدیبیہ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تنظیموں کی شرپسندی سے نجات کی ضمانت کو یقینی بنادیا جائے، جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد اہل مدینہ اہل مکہ کی شرپسندی سے محفوظ ہوگئے تھے، مگر کیا یہ ممکن ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے بعد ہر سال ایک مسجد ہندوں کے حوالے کر کے مسلمانوں کو ایک نئی صلح حدیبیہ کرنی پڑے؟ صلح حدیبیہ کا نام لینے والے اس پہلو پر بھی سوچیں!
فیصلے کے بعدآنے والے چند ممتاز سیکولر ہندوں کے بیانات کو یہاں نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا-
ملائم سنگھ یادو:- اس فیصلہ میں قانون اور ثبوت پر عقیدت کو ترجیح دی گئی ہے اور اس فیصلہ سے مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم طبقہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ جائے گا جہاں ثبوتوں اور قانون کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا-
رام ولاس پاسوان:- اجودھیا میں بابری مسجد-رام جنم بھومی زمین کے مالکانہ حقوق کے تعلق سے کورٹ کے فیصلے سے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے، بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وی ایچ پی اسے اپنی جیت کے طور پر نہ دیکھیں- اس فیصلے سے مسلمانوں کو یقینا مایوسی ہوئی ہے، لیکن اسے وہ آخری فیصلہ نہ سمجھیں کیوں کہ فریق سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی تیار کر رہی ہے-
پرشانت بھوشن(سینئر وکیل سپریم کورٹ):- سوال صرف عقیدے ہی کا نہیں ہے- یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے- اگر حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا کہ کس کو کتنی جگہ دینی ہے تو وہ یہ فیصلہ ضرور کرسکتی تھی، لیکن کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے- یہ فیصلہ قانون کے نظریہ سے سپریم کورٹ میں نہیں ٹک سکتا- اگر عقیدے کی بنیاد پر فیصلے آنے لگے تو آگے چل کر ملک کے سیکولر تانے بانے کو بہت خطرہ لاحق ہوگا-
راجیو دھون(ماہر قانون):- یہ کچھ اس طرح کا فیصلہ ہے جیسا پنچایتیں سناتی ہیں-
مسلم قائدین اور بابری مسجد کیس کا مستقبل:- الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر تمام مکاتب فکر اور میدان زندگی سے وابستہ مسلم قائدین اور نمائندوں کا تقریباً متفقہ رد عمل یہ رہا کہ ہمیں انصاف کے لیے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینی چاہیے- یہ مسلمانوں کی طرف سے ہونے والا نہایت قابل تعریف اور مثبت رد عمل تھا- بابری مسجد کیس میں بالخصوص اور دیگر مشترکہ مسائل میں بالعموم اگر مستقبل میں مسلمانوں کا یہی رویہ رہتا ہے، جس کی توقع بھی ہے، تو ہندوستانی مسلمان حکومت و عدالت کے سامنے اپنا وزن اور وقار قائم رکھنے میں یقینی طور پر کامیاب رہیںگے اور سپریم کورٹ سے بابری مسجد معاملے میں انصاف کی امیدیں بھی مضبوط ہوجائیںگی-
قانونی جد و جہد کو جمہوری سیکولر ریاستوں میں بنیادی حق کے بطور تسلیم کیا گیا ہے- مسلمانوں کو اس حق کے دانش مندانہ استعمال میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے- پوری دنیا میں مسلمان کہیں حجاب کے لیے تو کہیں اسلامی سینٹرز اور مساجد کی تعمیر کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہیں نہ تو کوئی بری نظر سے دیکھ رہا ہے اور نہ وہ احساس کمتری کا شکار ہیں- دنیا کی عظیم جمہوریہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی اپنے اس حق کے استعمال میں جی جان سے اور فہم و فراست سے لگ جانا چاہیے- قانونی چارہ جوئی کوئی دہشت گردی یا تشدد نہیں، بلکہ بالغ شہریت کی علامت ہے اور جب قانونی چارہ جوئی ہی کی بات ہے تو سپریم کورٹ ہی کیا، اگر اس کے بعد بھی کوئی قانونی آپشن اور امکان باقی رہے تو مسلمانوں کو اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے- اس چیز کو بہت لوگ منفی طور پر لیتے ہیں کہ اس طرح تو سارے مسلمانوں کو ایک مسئلے میں ایک طویل مدت تک الجھائے رکھنا ہوگا- ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ معاملات اور اصولوں کو مثبت طور پر دیکھنے کے عادی بنیں- یہ بات غلط ہے کہ اس میں سارے مسلمان الجھے رہیں گے- اس معاملے کو سنی وقف بورڈ اور مسلم پرسنل لابورڈ کے چند افراد دیکھیںگے، بلکہ وہ بھی ایک مشورہ کر کے معاملات کو وکلا کے حوالے کردیںگے جیسے دیگر قانونی مسائل میں ہوتا ہے- باقی ہندوستان کے تمام مسلمان اپنی اسی روز مرہ کی زندگی میں لگے رہیں گے- کسی کا کوئی کام معطل نہ ہوگا- یہ بہکاوے کی بات ہے کہ سارے مسلمان اس میں الجھے رہیں گے- اس سے مسلمانوں کی زندگی کا سفر رکے گا اور نہ ہی ان کے ارتقا کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوگی، پرابلم صرف منفی سوچنے والوں کے ذہن میں، ان کی خود ساختہ ہے-
ایسے افراد ذہنی طور پر احساس کمتری کا شکار ہیں- وہ خود کو بادشاہی دور سے محروم اور عہد غلامی میں محبوس محسوس کررہے ہیں- انہیں کون بتائے کہ آج کا مسلمان اگر ہندوستان کا بادشاہ نہیں ہے تو غلام بھی نہیں ہے- وہ سیکولر اسٹیٹ کا باشندہ ہے، جو من وجہٍ حکم راں اور شریک اقتدار ہے- سیکولر اسٹیٹ انہیں قانونی طور پر عدل و انصاف کی ضمانت دیتا ہے اور وہ پر امن جد و جہد اور احتجاج کے ذریعے انصاف اور حق پانے کے مجاز ہیں، اس میں دو رائے نہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ قانونی اور سیاسی سطح پر اب تک بہت سی ناانصافیاں ہوئی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انصاف کی جنگ بند کردیں یا وہ خود سپردگی پر آمادہ ہوجائیں- خودسپردگی کبھی بھی حل نہیں ہے- جو لوگ صلح حدیبیہ کو یک طرفہ طور سے خودسپردگی کا نام دیتے ہیں،وہ معاملات کو صرف ایک پہلو سے دیکھنے کے عادی ہیں-
ہندوستانی مسلمانوں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے ساتھ اب تک جو قانونی اور سیاسی ناانصافیاں ہوئی ہیں، ان میں اکثریتی فرقہ کے متعصبانہ برتاو کے علاوہ خود ان کے اندر معاملہ فہمی، اعلیٰ تعلیم، عزم و ارادہ، صحیح سمت میں کوشش، صحیح طرز فکر و عمل اور مخلصانہ جہد مسلسل کا فقدان بھی ایک بڑا سبب رہا ہے- جدید ہندوستان کے اکثریتی فرقے میں تعصب کم ہو رہا ہے، بہت سے ہندو مسلمانوں کو انصاف دینے کی باتیں کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے علاوہ سیکولر ریاست میں باوقار زندگی کے اسرار سے بھی واقف ہوگئی ہے- نئی نسل میں فکر و شعور اور عزم و ارادہ بھی بڑھا ہے- غلامانہ ذہنیت اور حاکمانہ غرور اس کے دماغ سے دور ہورہا ہے اور وہ آزادانہ اور منصفانہ غور و فکر کرنے لگی ہے، اس لیے حقوق کی بازیافت کے لیے قانونی چارہ جوئی وقت اور حالات کے عین مطابق ہے- حیرت ہے کہ ۲فیصد سکھ تو قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، انہیں ان کا حق مل رہا ہے، وہ تعلیمی اور اقتصادی ترقیات سے بھی بہرہ ور ہو رہے ہیں اور۵۱ فیصد مسلمانوں پرخوف اور بزدلی ایسی طاری ہے کہ یا تو وہ قانونی جنگ سے بھاگنے کو تیار ہیں یا انہیں قانونی جنگ کا سلیقہ ہی نہیں معلوم- مسلمانوں کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ سیکولر ریاست میں قانونی بے انصافی کا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے قانونی چارہ جوئی- وہ جنگ نہ کریں، تشدد پر آمادہ نہ ہوں، لیکن پرامن احتجاج اور قانونی چارہ جوئی جو سیکولر ریاست انہیں حق کے طور پر عطا کرتی ہے اس سے کبھی بھی دست بردار نہ ہوں- یہ ایک ساتھ بزدلی بھی ہے اور حماقت بھی-