سمیع اللہ ملک
ماہ ذوالحج اپنی رحمتوں اوربرکتوں کے ساتھ ہمارے دلوں کوروشن کرنے آگیاہے ۔ساری دنیاسے حجاج کرام اپنے مولاوآقاکی رضاحاصل کرنے کیلئے حرمین میں ڈیرے لگائے ہوئے ہیں۔ہرصبح وشام ہا تھ دعا کو اٹھتے ہیں‘الفاظ لبوں پر مچلتے ہیں‘آنکھیں پر نم ہوتی ہیں‘سجدے طو یل سے طویل تر ہورہے ہیں‘ما نگنے والے وہ کچھ ما نگ رہے ہیں جو ان کے دل میں ہے۔ا پنے گنا ہوں کی معافی‘رب کی مغفرت و رحمت‘دنیا میں آرام و آسا ئش اور آخرت کی نجات، ما نگنے وا لے پا کستان کی سلا متی اورامن ،مسلم امت کااستحکام ‘ سلا متی ‘ خیر‘شر سے پناہ‘اسلام اور مسلمانوں کی نصرت ، کفر اور شر کی قوتوں کے اضمحلال کی دعائیں ما نگ رہے ہیں اوردنیابھرمیں جہاں جہاں مسلمان مقیم ہیں،کعبہ کی طرف منہ کرکے اپنے کریم رب سے مناجات میں مصروف ہیں۔
امجھے یاد ہے چار سال پہلے ایساہی ایک سورج طلوع ہواتھاجب پاکستانی قوم نے یوم برأت منایاتھااور قوم کو صدر پرویز مشرف سے نجات مل گئی تھی۔دینے والے نے ما نگنے والوں کا دامن مراد بھر دیاتھا،جسے خدا ہونے کا یقین تھا ‘جو اپنے کما نڈو ہونے پر فخر کرتا تھا ۔جو کہا کرتا تھا کہ”آخری مکا“میرا ہو گا اور جب ”آخری مکے“کا وقت آیا تو ”مک مکا“پر اتر آیا‘اور ”ٹکا کر“جواب دینے کی بجائے ”ما تھا ٹکا“کر پتلی گلی سے نکلنے میں اپنی عافیت جانی اورملک سے فرارہوگیا۔ا قتدارکے ہر جا ئی ”ہما “ نے سر تبدیل کر کے اقتدار کی بے وفا کرسی خود سپردگی کے ساتھ آصف زرداری کے سپرد کر دی ۔تاریخ گواہ ہے کہ یہ عمل باربار پھر دہرایا جا ئے گا ،کچھ وقت گزرے گا ‘اقتدار توبہ شکن انگڑائی لے گا ‘نرت بھاوٴ دکھا ئے گا‘اور تخت نشین بھول جا ئے گا کہ جو شخص اس سے پہلے تخت نشین تھا اس کو بھی خدا ہو نے کا اتنا ہی یقین تھا۔
ایوان صدراورجی ایچ کیوسے پرویزمشرف کی رخصتی کا جشن اسی فاسق کمانڈوپر ویز مشرف کے عطا کردہ آزاد میڈیا نے خوب نشرکیا‘ لیکن کیا یہ پہلا جشن مسرت تھا؟۱۹۶۹ء میں ایوب خان نے اعلان کر دیا کہ وہ آئندہ الیکشن نہیں لڑیں گے ۔جمہوری قوتیں ان سے اس اعلان پر مطمئن ہو نے کی بجائے ان کے استعفے کا مطا لبہ کرتی رہیں‘اور بالآخر ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا۔لیکن اس دوران فوج نے اقتدار سنبھا لنے کی تیاریاں مکمل کر لیں اور یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا۔۱۹۷۷ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ۔پی پی میں بھی سیاست دان تھے اور پی این اے میں بھی‘یہ سیاستدان آپس میں الجھتے رہے اور بالآخر فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔قوم نے جشن بھی منایااور مٹھا ئیاں بھی تقسیم کیں‘لیکن قوم کو کیا ملا؟پھا نسیاں ‘کوڑے‘لا شیں اور منا فق سیاستدان۔
۱۹۸۸ء میں ضیا ء الحق کی ”موت“کے بعد فوج اسی طرح غیر جا نب دارانہ انداز میں علیحدہ ہو کر کھڑی ہو گئی تھی جس طرح آج غیر جا نب کھڑی نظر آتی ہے۔بے نظیر بھٹو نے مرزا اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت تو دے دیا لیکن ہما رے سیاستدان ملک کو جمہوریت نہ دے سکے۔بے نظیر گئیں ‘نوازشریف آ گئے۔لیکن جب ان کی رخصتی کی با تیں ہونے لگیں تو انہوں نے ا کیلے جانے سے انکار کر دیا۔ان دیکھی قوتوں کے انتظام کے تحت صدر پاکستان غلام اسحاق بھی مستعفی ہو گئے۔بے نظیر آ ئیں‘انہوں نے پا رٹی کے جیالے فاروق لغاری کو ملک کا صدر بنا دیا۔پھر اپنے جیالے بھائی کے ہا تھوں رخصت پر مجبور ہوئیں۔بات یہاں ختم نہیں ہوئی ‘ بے نظیر کو رخصت کر نے والے فاروق لغاری بھی رخصت ہونے پر مجبور کر دئیے گئے۔
نواز شریف آئے تو اپنا صدر ساتھ لائے۔لیکن اپنے رویوں کی وجہ سے پا رلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت اور اپنا صدر رفیق تارڑبھی ا نہیں نہیں بچا سکے ۔پر ویز مشرف نے پہلے نواز شریف کو رخصت کر کے و زیر اعظم کے اختیارات سنبھالے اور پھر رفیق تارڑ کو رخصت کر کے صدر کے منصب پر قبضہ کر لیا۔چیف آف آرمی سٹاف تو وہ پہلے ہی تھے ۔اختیارات سہہ آتشہ ہوئے تو” خدا“ بن بیٹھے۔انہیں بھی سیاستدانوں کی ایک بڑی ٹیم میسر آئی اور صحا فیوں کی بھی۔جب پرویز مشرف بھی رخصت ہو گئے تو پرویز مشرف کے تمام غلط اقدامات کا دفاع کر نے والے”نذیر ناجی“بھی ان کی رخصتی پر بر سر ٹی وی اظہار مسرت کرتے ہوئے نظر آئے۔جی ہاں یہ وہی ”نذیر ناجی“ ہیں جنہوں نے اقتدار کی سیڑھی پر قدم جمانے کیلئے پیپلز پارٹی کا سہارا لیا‘بعد میں نواز شریف کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلا کر اپنے ذاتی مفادات کادائرہ کار بڑھا تے رہے۔نواز شریف کی پرویز مشرف کے ہاتھوں جبری رخصتی پر فوراً پینترہ بدلا اور پرویز مشرف کی شکل میں ملک کا مرد آہن ڈھونڈ لیاتھا اورآجکل مرد حر زرداری انکے منظور نظرہیں‘ جس طرح زرداری نے مشرف کے خلاف تحریک مواخذہ میں کراچی کی ایک لسانی جماعت کے بھتہ خور الطاف حسین کا شکریہ ادا کیا۔
جی ہاں!الطا ف حسین کا‘جو ۲۰۰۱ء سے لیکر ان کی رخصتی تک پرویز مشرف کے سب سے بڑے حاشیہ بردار اور کاسہ لیس رہے ۔جن کی مدد سے پر ویزی قوتوں نے ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو کراچی میں چیف جسٹس کی آمد کے موقع پر اہل کراچی کو خون میں نہلا دیا تھا اور جن کے اس بہیمانہ عمل کو پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کی سیا سی قوت کا اظہار قرار دیا تھا۔جب پرویز مشرف کے خلاف صوبائی اسمبلیوں میں قرار دادیں منظور ہونے لگیں تو لوگوں کا خیال تھا کہ سندھ اسمبلی میں گھمسان کا ر ن پڑے گا ۔ایم کیو ایم تو تحریک کی مخالفت کرے گی ہی ‘ شائد وہ پی پی کے کچھ با غیوں کو بھی ساتھ ملا لے ‘لیکن ہوا کیا؟ ان دنوں ٹی وی پر ایک مباحثہ میں مجھے بھی اسی موضوع پر دعوت دی گئی تھی جس میں میری رائے سے سب نے اختلاف کیا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ ایم کیو ایم پرویز مشرف کو تنہا چھوڑے‘لیکن میرا یہی کہنا تھا کہ” اقتدار کی غلام گردشوں میں مشرف تنہا رہ گئے ہیں اور اس جہاز میں سب سے پہلے ایم کیو ایم ہی سوراخ کرے گی۔ایم کیو ایم کو اقتدار کے خون کی چاٹ لگ چکی ہے ‘اس نے بہت پہلے اپنے بیرونی آقاوٴں کے حکم کے مطابق زرداری کی پیپلز پارٹی سے سندھ میں اشتراک اقتدار بھی اسی لئے قبول کیا تھا اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بحالی کی تحریک میں میاں نواز شریف کووفاق میں اقتدارکی شراکت سے الگ ہوناپڑے گا اوراس طرح مرکز میں بھی ایم کیو ایم کی مرادبر آئے گی“۔
وہی ہوا‘ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے یہ موقع فراہم کیا کہ سندھ اسمبلی سے پرویز مشرف کے خلاف متفقہ قرار دادمنظور ہو سکے۔بلوچستان میں مسلم لیگ ”ق“نے انتخابات میں کا میابی حاصل کی تھی لیکن مسلم لیگ ”ق“کے سارے سیاستدان پی پی کی حکمرانی قبول کر نے کیلئے آما دہ ہو گئے ۔سندھ کے بعد بلوچستان میں بھی پرویز مشرف کے خلاف متفقہ قرار داد منظور ہو گئی۔انتخابات سے مواخذے کے اعلان تک پرویز مشرف کے سبھی حامی بھر بھری ریت کی طرح بکھرتے رہے ‘پی پی اور مسلم لیگ ”ن“ کی قیادت سے ملتے اور حمائت کا یقین دلاتے رہے۔کوئی ہے جو میاں نوازشریف یا آصف زرداری سے پوچھے کہ پنجاب میں اپنی حکومت کوقائم رکھنے کیلئے توپیپلزپارٹی کے ساتھ تعاون جائزاور ۸ سال تک پرویز مشرف کا ساتھ نبھا نے والے مسلم لیگ ”ق“ کے صوبائی اسمبلی کے ممبران آخرا پنی کس خوبی ‘کس قربانی اور کس کارنامے کی بنیاد پر ”پوتر“قرار دئیے گئے۔کوئی ہے جو زرداری سے پو چھے کہ مسلم لیگ ”ق“جوکبھی قاتل لیگ تھی اب حکومت کی سب سے ب بڑی حلیف کیسے بن گئی اور۸ سال تک پر ویز مشرف کو قوت فراہم کر نے والے الطاف حسین سے یہ محبت کیسی جوانہیں بارباربلیک میل بھی کرتی ہے اور․․․․․․․․؟
مجھے یادہے کہ فاسق کمانڈوکی رخصتی پرمجھے بیشمارٹیلیفون کالزاور ایس ایم ایس موصول ہوئے تھے ‘ پہلا ایس ایم ایس کر اچی سے ضمیر شاہ کا ملا اور پھر تو تا نتا بندھ گیاتھا:”پاکستان کا آمر ر خصت ہو گیا‘یہ ا فغان مجا ہدین سے بد عہدی کا انجام ہے‘لال مسجد اور جا معہ حفضہ کے شہداء کا خون رنگ لایا ہے‘یہ فاٹا میں ہو نے والے مطالم کا نتیجہ ہے‘یہ اکبر بگٹی کا خون ہے‘یہ عافیہ صدیقی پر ہو نے والے مظالم ہیں جو رنگ لا رہے ہیں“۔یہ اپنے گھروں اور دفاتر سے اٹھا ئے گئے اور غائب کر دئیے لوگوں اور ان کے اہل خانہ کی بد دعاوٴں کا نتیجہ ہے“اورمیں سوچ رہا تھاایوان صدر سے پرویز مشرف کی رخصتی بہت خوش آئند ہی سہی لیکن اب اس کے بعد کیا ہو گا؟
زرداری صاحب اپنے آپ کو بھٹو کا بہت بڑا جیالا کہتے ہیں‘بالکل اسی طرح جس طرح سندھ کے گورنر ہاوٴس میں الطاف حسین کا جیالاعشرت العباد بیٹھا ہوا ہے اور پی پی کے اس جیالے زرداری کو اے این پی ‘ایم کیو ایم نے ایوان صدرتک پہنچایا اور در پردہ مو لا نا فضل الر حمان بھی اپنی شرائط کے ساتھ حاضر خدمت رہے۔کو ئی مجھے سمجھا ئے کہ پی پی پی‘اے این پی ‘ایم کیو ایم‘ مو لا نا فضل الرحمان اورپر ویز مشرف میں کیا فرق ہے؟مٹھا ئیاں با نٹنے‘خوشیاں منا نے اور ایس ایم ایس کر نے والو! مجھے آج یہ تو بتاوٴکہ کیا پی پی پی‘اے این پی ‘ ایم کیو ایم پر مشتمل حکمران کا اتحادکاجہاد افغان پر موٴقف پرویز مشرف سے مختلف ہے؟؟کیا ان لوگوں نے لال مسجد اور مدرسہ حفضہ پر حملے اور کار وائی کی مخاالفت کی تھی؟کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حمائت میں آواز بلند کی ؟کیا ہمارے قبائلی علاقوں اور فاٹا میں کاروائیاں رک گئی ہیں؟کیا گمشدہ افراد واپس اپنے گھروں کو آگئے ہیں؟ہم نے ”گو فلاں گو“ کے فلک شگاف نعرے بلند کر تے اور خوشیاں منا تے ۶۴سال گزاردیئے ہیں لیکن ہم آج تک یہ طے نہیں کر سکے کہ کس طرح کے لوگ
ہما رے مسائل مسائل حل کر سکتے ہیں ۔ہمارا حال یہ ہے کہ :
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ پہچا نتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اعلیٰ عدلیہ کے احکام کاکھلے عام مذاق اڑانے والی حکومت اب عدلیہ کے ہاتھوں شہیدہونے کی تمنالئے ہوئے ہے تاکہ قوم کے سامنے ایک مرتبہ پھرمظلوم بن کرکرپشن کی نئی تاریخ رقم کرسکے اورملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکمران جماعت اب خودمکل میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اورکرپشن کے خلاف ریلی نکال کراگلے الیکشن کی تیاریوں کا بگل بجارہی ہے ۔آخر بحیثیت قوم ہمیں کب سمجھ آئے گی؟؟