Home / Socio-political / خوا بوں کی جواں مرگی

خوا بوں کی جواں مرگی

سمیع اللہ ملک، لندن

میں پچھلے کئی ما ہ سے یہ بری طرح محسوس کر رہا ہوں کہ و اقعی کو ئی زور دار بد دعا ہما رے تعاقب میں ہے کہ نہ پو ری قوم کی د عا ئیں رنگ لا رہی ہیں اور نہ ہی تہجد گزاروں کا گریہ نیم شب کا م آ رہا ہے۔ما یوسی سا ون کی ہریالی کی طرح وطن عزیز میں اپنا زور بڑھا تی جا رہی ہے۔بے دلی اور بے زاری جسم و خوں میں اس طرح گھل مل گئی ہے کہ ز ندہ ر ہنے کی ا منگ اور آس ختم ہو تی جا رہی ہے۔مو جو دہ حکمر ا نوں کی پا لیسیوں کے رد عمل میں بے یقینی کی آکا ش بیل ذہن و فکر کو ا پنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور نا ا میدی کا ز ہر یلا شیش نا گ دن میں کئی مرتبہ آپ کے خوا بوں کو ڈستا ہے۔دن اور رات جیسے آگ کے ا لاوٴ میں بھسم ہو کر رہ گئے ہیں لیکن اس کے با وجود کچھ دوست اب بھی امید کی قندیل جلائے کسی صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہے ہیں۔

ا مید اند ھی ہوتی ہے اور یقین بھی دلیل نہیں مانگتا۔ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو جا ئے گا اور انشاء اللہ حالات بھی ٹھیک ہو جا ئیں گے لیکن حا لات کی حقیقت سے آنکھیں چرا کر ہم اپنے آپ کو دھوکا تودے سکتے ہیں لیکن ان خطرات کو ٹال نہیں سکتے۔صرف بارش کی امید سے دہکتی تمازت بھری د ھوپ کی ا ذیت نا کی سے تو بچ نہیں سکتے۔اس دور دیس میں بھی و طن کی مٹی نے اس قدر اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے کہ شب و روز اس کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں حالانکہ ہر روز خوا بوں کی جواں مرگی کی اطلاع موصول ہوتی ہے۔پا کستان جو وجود کا ایک قیمتی حصہ ہے جہاں ہماری آبرو کو تحفظ اور سروں کی سلامتی کی ضمانت ملی تھی اب خاک میں ملانے کی تدبیریں ہو رہی ہیں (خاکم بد ہن)۔

افغانستان کے مصائب سے جان چھڑانے کیلئے خود تو قصرِ سفید مذاکرات کیلئے بے چین نظر آرہا ہے اورمذاکرات کیلئے طالبان کی شرائظ کو مان کر گھٹنے بھی ٹیک چکا ہے لیکن ہمیں کسی طور بھی ان مصائب سے جان چھڑانے کیلئے مذاکرات کی اجازت نہیں۔اس سے پہلے ہم نے جب بھی مزاحمت کا روں کو مذاکرات کی دعوت دیکر کسی امن معاہدے کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی تو فوراً ایک ہرکا رہ کان مروڑنے کیلئے بے د ھڑک ہمارے سروں پر کھڑا ہو کر غرانا شروع کردیتا تھااورہم فوراً اس ا من معاہدے سے منہ مو ڑ لیتے تھے‘ان داتا کا حکم مان لیتے تھے جس کے جواب میں آج تک قبا ئلیوں نے امن معاہدے کی خلاف ورزی پر اپنی مزاحمتی تو پوں کا رخ اپنی پو ری طاقت کو مجتمع کرکے ہما ری سیکور ٹی فورسز کی طرف پھیرے رکھا اور گاہے بگاہے اپنا دا ئرہ کار خود کش حملہ آوروں کی شکل میں شہروں میں منتقل کرتے رہے لیکن اب جب سے ڈرون حملوں میں کمی آئی ہے دوسری طرف سے بھی کسی خودکش حملے یاسیکورٹی فورسزکے ساتھ کسی مقابلے کی خبرنہیں آئی ۔جونہی اندرون خانہ پاکستانی طالبان سے امن مذاکرات کی خبریں منظرعام پرآنی شروع ہوئیں توفوی طورپر رحمٰن ملک نے نہ صرف اس کی تردید شروع کردی بلکہ اپنے آقاؤں سے وفاداری کاثبوت دیتے ہوئے اس سارے عمل کوسبوتاژکابیڑہ بھی اٹھالیاہے۔

یہ صورت حال آخر کب تک چلے گی‘ قبا ئلی مزاحمت کا ر آپ سے سنبھا لے جا تے ہیں نہ قصر سفید کا فرعو ن آ پ کی با ت سنتا ہے۔ا مریکہ مذاکرات کیلئے تیار نہیں اور اس جنگ کو ہما ری سرحدوں سے ہما رے ملک کے اندر لا نے کیلئے بے تاب بیٹھا ہے امر یکہ کے نمک خوار سرخ استقبالی قا لین لئے بے چینی سے ا نتظار کی گھڑیاں گزار رہے ہیں۔وہ آئے دن سلطنت ِنمرود کی گود میں بیٹھ کر سیاسی آگ کے شعلہ نواز بیا نوں سے ملک کو جلانے کا سا ماں تیار کر رہے ہیںآ پ کے پاس ان تمام خطرات سے بچاوٴ کی عملی تدا بیر نہیں‘حکمت عملی یا سٹریٹجی موجود نہیں‘صرف اپنی حاکمیت ا علیٰ کی دہا ئی دے رہے ہیں جو ”این آر او“کے عوض کب کی مضروب اور زخموں سے چور ہو کر قصر سفید کے فرعون اور نمر ود کے قدموں میں دم توڑ چکی ہے۔

عوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہوتے سلطا نی جمہور کے آفتاب و ما ہتاب کی نما ئندگی کر نے وا لے پاکستانی وزارت داخلہ کے ذمہ دار رحمان ملک کی گفتگو سنیں تو یہی پیغام ملتا ہے کہ اس بد نصیب پا کستانی قوم کی کم نصیبی کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تو مو سم گل کی آمد میں کا فی د یر ہے۔جس دن اس بد نصیب پا کستانی قوم کا و زیر خا رجہ پہلی مرتبہ وا شنگٹن میں شہزادی کو نڈا لیز ا رائس کے دربار میں شرف با ریابی حا صل کرکے با ہر نکلا تھاتو پہلا خوشامدی بیان اپنی حاکمیت ا علی ٰکے دفاع کی بجا ئے مذاکرات کو بہت بے تکلفانہ‘دیانتدارانہ اور حقیقت پسندا نہ قرا ردیکر اپنی غلامی کی سند حاصل کررہا تھاحا لا نکہ و زیر خا رجہ کو شہزادی کو نڈا لیز ا رائس سے ملا قات سے قبل ا مریکی سرپر ستی میں نیٹو افواج کے اس مکروہ حملے کی ا طلاع دی جا چکی تھی جس کا اعلان پاکستانی سپاہ کے تر جمان میجر جنرل اطہر عباس دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سا منے کر چکے تھے کہ امریکی حملہ میں پا کستانی علا قے انگور اڈہ کی فو جی چوکی پر پاکستانی سپاہ کے کم از کم چھ سیکو رٹی اہلکار شدید زخمی کر دیئے ہیں جبکہ نیٹو کی افواج کے پاس غلطی اور لا علمی کی گنجائش اس لئے نہیں تھی کہ نیٹو کی افواج کو اس علا قے میں قا ئم تمام پاکستانی چوکیوں کے قیام کی نقشوں کے ذریعے پیشگی ا طلاع دی جا چکی تھی۔

اس وقت بھی عام توقع تو یہ تھی کہ و زیر خا رجہ عظیم الشان و ا ضح عوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہونے وا لے نئے جمہوری پا کستان کی تر جما نی کر تے ہوئے اس تو ہین آمیز ا مر یکی رو یے پر بھر پور ا حتجاج کر یں گے۔پا کستانی اورغیر ملکی ذرائع ا بلاغ کے نما ئندے بڑی شدت سے منتظر تھے کہ و زیر خا رجہ کا تعلق ایک عوا می جذبات اور ا حسا سات کی علمبر دار جماعت سے ہے اس لئے وہ دبنگ لہجے میں صدائے ا حتجاج بلند کریں گے اور ا مریکی ایوا نوں کو مطلع کریں گے کہ اب یہ مشرف کا نہیں بلکہ سولہ کروڑ با غیرت پا کستانیوں کی سر زمین ہے جو اپنی خود مختاری کی حفاظت کا سلیقہ جا نتی ہے۔اگر ایسا حملہ ہوا تو وہ اس نام نہاد “وار آن ٹیرر“سے نکل آئیں گے اور اپنا راستہ اپنی آزادانہ مرضی سے چنیں گے لیکن اس ۴۵ منٹ کی ملا قا ت کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ جب اس نمک کی کان سے با ہر تشریف لائے تو نمک بن چکے تھے۔

و زیر خا رجہ نے شہزادی کو نڈا لیز ا رائس کے سا تھ اپنی ملا قات کو جب بہت بے تکلفانہ‘دیانتدارانہ اور حقیقت پسندا نہ قرا ردیاتو پا کستانی اور غیر ملکی ذرائع ا بلاغ کے نما ئندوں نے پا کستانی علا قے انگور اڈہ کی فو جی چوکی پر چھ پاکستانی سیکو ر ٹی ا ہلکا روں کے شدید زخمی ہو نے کو ”غیر دوستانہ ا قدام“Unfriendly Actsسے تعبیر کیا تو ہما رے و زیر خا رجہ نے فو ری طو ر پر اس کی تصحیح فرمائی اور ا پنے فدویانہ بیان میں شیرینی کی حلاوت گھو لتے ہو ئے فر مایا تھاکہ اس طرح کے “Harsh” (سخت)ا لفاظ استعمال نہ کریں۔شا ئد وہ پاکستانی سیکو ر ٹی ا ہلکا روں کے شہدا اورشدید زخمی ہو نے کے عمل کو دو ستانہ چھیڑ چھاڑ ‘بے تکلفانہ ہنسی مذاق یا محبو با نہ نا ز و انداز سے تشبیہ دینا چا ہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ سلسلہ درازسے درازترہوتاگیااوراب سلالہ کی چوکی پربے رحمانہ حملے نے ہمارے ۲۴سپوت کوادھیڑکررکھ دیا۔

اس خفیہ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ممکن تھاکہ ا مریکیوں کو کو ئی بڑا تحفہ بھی مل جا تالیکن میموسکینڈل پربروقت سپریم کورٹ نے جواقدامات اٹھائے ہیں اورایبٹ آبادکمیشن نے ۲مئی کے اقدامات کی تحقیقات کے دائرہ کوجووسعت دی ہے اس سے محسوس یہ ہورہاہے کہ اس عمل کوسبوتاژکرنے کیلئے کوئی ایسا غیرمعمولی قدم اٹھایاجاسکتاہے جوآئندہ پاکستان کی تاریخ کوایک مرتبہ پھرتاریکی کی طرف دھکیل دے۔ شنیدیہ ہے کہ ا مریکی طیارہ بردار جہاز“ابر ا ہام لنکن“ کو خلیج سے بحیرہ عرب کی طرف بڑھنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔قصر سفید کے فر عو ن بش نے ا پنی پا لیسی ساز ادارے میں تقریر کر تے ہوئے صاف صاف کہا تھا” آ ئند ہ اصل چیلنج عراق اور افغانستان کی بجا ئے پا کستان ہو گا“ ۔کیااوبامہ اسی پالیسی کوآگے بڑھارہے ہیں؟

کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قومی اسمبلی کا ہنگا می ا جلاس بلا کر عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی جما عت“این آر او“ کا شکنجہ توڑ کروار آن ٹیرر“ پر تین حرف بھیج کرقصر سفید کے فر عو ن کو وا ضح پیغام دے کہ وہ اس “ اس سے الگ ہورہی ہے۔ اگر ایسا کرنے کی ہمت نہیں تو پھر ہما رے و زیراعظم کو اس اعتراف کے سا تھ قوم کو بتا دینا چا ہئے کہ وہ بھی زرداری کے “این آر او“ کی بد ولت انہی بتوں کے سا منے سجدہ ریز ہو گئے ہیں جہاں اس سے پہلے مشرف ،زرداری اور ان کے حواری ایم کیو ایم کے الطاف اپنا سب کچھ قربان کر چکے ہیں۔

*****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *