Home / Socio-political / حمایت ِدین کیلئے امام احمد رضا کی صحافتی بصیرت و تدابیر

حمایت ِدین کیلئے امام احمد رضا کی صحافتی بصیرت و تدابیر

حمایت ِدین کیلئے امام احمد رضا کی صحافتی بصیرت و تدابیر

غلام مصطفی رضوی

            بیسویں صدی میں میڈیا کی بڑھتی ہوئی قوت و اہمیت نے دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کی مسلسل ترقی اور نئے آفاق کی تلاش نے میڈیا پر بھی نمایاں اثر ڈالا۔ اکیسویں صدی میں حال یہ ہے کہ اس کی دست رس سے دنیا کا کوئی خطہ باہر نہیں، ہر جگہ میڈیا کی چھاپ ہے، ہر شعبۂ حیات اس کی بندش میں جکڑا ہوا ہے۔ اَبلاغ اور میڈیا درج ذیل امور کے ذریعے ترقی کی منزل پر پہنچا:(۱)  پریس (اُمور طباعت و اشاعت) (۲)  کمپیوٹر (۳)  سٹیلائٹ (۴)  انٹر نیٹ/تھری جی (۵)  ٹیلی ویژن (۶)  ایف ایم، ریڈیو…وغیرہ

            الیکٹرانک میڈیا بڑا برق رفتار واقع ہوا ہے لیکن پرنٹ میڈیا نے بھی اپنی اہمیت برقرار رکھی اور اس سلسلے میں اخبارات و جرائد کی اشاعت ہر روز بڑھ رہی ہے۔ ان کے توسط سے جہاں لادینی نظریات، صہیونی افکار و خیالات عام ہو رہے ہیں، یہودی سازشیں اپنا دائرہ وسیع کر رہی ہیں وہیں بہ نام اسلام وجود میں آنے والے باطل اور گستاخ فرقوں کے گم راہ کن نظریات آن کی آن میں مسلم معاشرے میں پھیلتے جا رہے ہیں، ان کے جرثومے میڈیا اور صحافت کے ذریعے پنپ رہے ہیں اور فضا مسموم ہوئی جاتی ہے۔ ایک صدی پیش تر ( ۱۳۳۰ھ / ۱۹۱۱ء میں)جب کہ میڈیا اور صحافت کی اہمیت اجاگر نہیں ہوئی تھی مفکر اسلام اعلیٰ حضرت امام احمدرضا محدث بریلوی (م۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) نے اشاعتِ دین، اَبلاغِ حق اور دینِ متین کے فروغ کی غرض سے اسلامی صحافت کے قیام و استحکام پر زور دیا تھا، اعلیٰ حضرت کے افکار کا اہم نکتہ یہ تھا:

            ’’آپ کے مذہبی اخبار شایع ہوں اور وقتاً فوقتاً ہر قسم کے حمایتِ مذہب میں مضامین تمام ملک میں بہ قیمت و بلا قیمت روزانہ یا کم از کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں۔‘‘  ۱؎

            پریس کی قوت کو آغاز ہی میں سمجھ لینا بڑی بات ہے، بندۂ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ بے پناہ بصیرت سے مالا مال ہوتا ہے۔ اُس کی دانشِ نورانی مستقبل کے خطرات محسوس کر لیتی ہے، اُس کی تجاویز میں قوم کے عروج و اقبال کا فلسفہ مستور ہوتا ہے:

کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبارِ جہاں

نگاہِ شوق اگر ہو شریکِ بینائی

            قوم کی بے توجہی و بے پروائی کہ صحافت کے تئیں مسلسل اور مستقل بے داری نہیں رہی جب کہ یہود و نصاریٰ اِس کی اہمیت بھانپ گئے تھے اور اُسی وقت کام شروع کر دیا تھا۔ یہودی خفیہ دستاویز کا ایک نکتہ یہ ہے کہ:’’آج کی دنیا میں پریس(Press) ایک عظیم طاقت ہے، پریس کے حقیقی رول کو در اصل بہت کم سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، ریاستیں اِس بے پناہ طاقت کا صحیح استعمال نہیں جانتیں اور اب یہ طاقت ہمارے قبضہ میں ہے، پریس کی قوت سے پس پردہ رہتے ہوئے سارے عالَم پر اثر انداز ہونے کی قوت حاصل ہو گئی ہے۔‘‘  ۲؎

میڈیا کا منفی کردار: ایک صدی قبل امام احمد رضا نے قوم کو با خبر کر دیا تھا، جاگنے کا پیغام دیا تھا، اسلام کی اشاعت کے لیے صحافت اور جدید ذرایع اَبلاغ (جو شریعت کے دائرے میں ہوں) کے استعمال کی دعوت دی تھی۔ قوم کی بے خبری کا یہ حال کہ آج صحافت کے تقریباً ہر شعبے پر اسلام دشمن لابی حاوی ہے۔ ہمارے ملک کا میڈیا زعفرانی فکر کا شکار ہے۔ دو سال پیش تر کی ہی مثال سامنے ہے۔ ہیمنت کرکرے نے تشدد اور دہشت گردی کے جن چہروں سے پردہ اٹھایاتھا، دلائل کے باوجود تنگ نظر میڈیا نے مجرم کی حمایت کی اور صداقت کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی حالاں کہ مکروہ چہرے یکے بعدد یگرے بے نقاب ہوتے چلے جا رہے ہیں، دنیا دیکھ رہی ہے انسانیت کا دشمن کون ہے؟ اور دوسری سمت حال یہ کہ بھول سے کسی واردات میں کسی مسلم کا نام آجائے تو اُسے اسلام سے جوڑ کر پروپے گنڈے کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے۔ انصاف و دیانت کے تمام اصول بالاے طاق رکھ دیے جاتے ہیں۔ اسلام دشمنی کا مظاہرہ کھل کر دیکھنے کو ملتا ہے ۔

صحافت کی عمومی تعبیر: میڈیا رفتہ رفتہ ایک مستقل فن کی صورت میں سامنے آیا۔ اِس کے کینوس میں جو وسعت ہے اُس کا اندازا  Exploring Journalism کے مرتبین کی رائے میں اس طرح ہے:’’صحافت جدید وسائل اَبلاغ کے ذریعے عوامی معلومات، راے عامہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔‘‘ جب کہ موجودہ صحافت کا معاملہ اجاگر ہے کہ وہ اِس تعبیر سے کس قدر دور ہے اور اِس کی غیر متوازن پالیسی بھی واضح ہے۔

متوسلینِ رضا کا صحافتی پس منظر: فکرِ رضا کے صحافتی نکتے پر عہدِ رضا میں متوسلینِ رضا اور وابستگانِ رضا نے کسی قدر توجہ مرکوز کی اور عملاً کام بھی کیا۔ امام احمد رضا نے اسلامی صحافت کی آبیاری خود بھی کی اور اِس کی رگوں کو تازہ خون بھی فراہم کیا۔ متوسلینِ رضا جنھوں نے صحافت کی وادی کو زرخیز بنایا اور اپنے اخبارات و رسائل کے توسط سے اشاعتِ دین و اصلاحِ مسلمین کا کام لیا، ان کی ایک مختصر فہرست اس طرح ہے:

(۱)   ہفت روزہ دبدبۂ سکندری، رام پور (۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء میں جاری ہوا، کام یابی کے ساتھ قریب ایک صدی جاری رہا۔ اس نے قوم و ملت کی بڑے خدمت کی اور اسلامی فکر کی ترجمانی کرتا رہا۔)(۲)  اخبار روز افزوں، بریلی (برادرِ رضا مولانا حسن رضا خاں کی سرپرستی میں جاری ہوا۔) (۳)  اخبار الاسلام افریقا (۱۳۲۲ھ/۱۹۰۸ء میں خلیفۂ رضا مولانا احمد مختار میرٹھی نے جاری کیا، اخبار کا مزاج داعیانہ تھا۔ اس میں نو مسلم افراد کی تربیت کے لیے بھی کافی مواد شامل ہوتا۔) (۴)   ہفت روزہ الفقیہ امرت سر (۱۹۱۸ء میں خلیفۂ رضا مولانا محمد شریف کوٹلوی نے جاری فرمایا۔) (۵)   ہفت روزہ اہل فقہ امرت سر(۱۳۲۴ھ میں جاری ہوا۔عقائد اہل سنت کی ترجمانی میں پنجاب میں اِس کا اہم رول رہا ہے۔) (۶)  ماہ نامہ الرضا بریلی(صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی کے زیر اہتمام اورمولانا حسنین رضا کی ادارت میں ۱۳۳۸ھ میں جاری ہوا۔کتبِ رضا کی سلسلہ وار اشاعت اِس کا اہم پہلو ہے۔) (۷)  ماہ نامہ انجمن نعمانیہ لاہور (انجمن نعمانیہ کے صدر ثانی مولانا شاہ محرم علی چشتی ،امام احمد رضا سے قلبی وابستگی رکھتے تھے، دینی و قومی اور فکری معاملات میں رہ نمائی لیتے تھے۔) (۸)  ماہ نامہ السوادُالاعظم مرادآباد (۱۳۳۸ھ میں خلیفۂ رضا مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی نے جاری فرمایا، اسلامی اُصولوں پر سیاسی رہ نمائی کی اور حمایتِ دین میں نگارشات کی اشاعت کا فریضہ انجام دیا ساتھ ہی دیابنہ اور آریاؤں کے اعتراضات کے بروقت جوابات شایع کیے۔)

(۹)  ماہ نامہ تحفۂ حنفیہ پٹنہ (اِس کا اِجرا خلیفۂ رضا مولاناقاضی عبدالوحید فردوسی نے ۱۳۱۵ھ میں فرمایا، ادارت کے فرایض مولانا ابوالمساکین محمد ضیاء الدین نے انجام دیے، اس رسالے نے عقائد اہل سنت کی حمایت میں موثر کردار ادا کیا، امام احمد رضا کی درجنوں علمی و تحقیقی تصانیف کی با ضابطہ اشاعت کی۔)  ۳؎

            اِن رسائل و اخبارات نے اسلامی صحافت کو فروغ دیا، بر صغیر میں انگریز کے زیر اثر وجود پانے والے لا دینی نظریات کا دنداں شکن جواب دیا۔ لیکن افسوس کہ اپنوں کی بے اعتنائی نے اِن کی رگوںکو خونِ تازہ فراہم نہیں کیا، اِن میں کچھ تو کم مدت میں دم توڑ گئے اور بعض کافی آگے تک پہنچے اور ہندوستان میں اسلامی صحافت کی ایک مثال قائم کر گئے۔اخبار دبدبۂ سکندری میں شایع ایک تحریر میں امام احمد رضا فرماتے ہیں:’’عوام میں اشاعتِ خیالات کا سہل ترذریعہ اخبارات ہیں، بہ استثنا بعض وہ خود آزادی کے دل دادہ ہیں۔ بد مذہبی بلکہ لامذہبی کے خیالات آئے دن شایع ہوں وہ نہ جھگڑا ہے نہ نفسانیت، مگر حق کی تائید اور اِس کے لیے اپنا کوئی صفحہ دینا جھگڑے میں پڑنا اور نفسانیت پر اڑنا ہے۔‘‘  ۴؎

حمایتِ دین کے لیے جذبۂ خیر: اعلیٰ حضرت نے اخبارات کی اشاعت کا بنیادی مقصد دین کی اشاعت قرار دیا،معاصر اخبار الفقیہ امرت سر نے جب آپ سے قلمی تعاون مانگا تو قلمی تعاون کے ساتھ ہی مالی تعاون سے بھی نوازا، تنبیہ بھی فرمائی کہ دین کی اشاعت ہی محورِ نگاہ ہو،مولانا مقبول احمد مصباحی لکھتے ہیں:’’الفقیہ امرت سر‘‘ اخبار کا اجرا ہوا۔ اخبار کے مدیر نے امام احمد رضا سے اس کی اعانت و ترقی کے لیے اپنی نگہِ عنایت کو منعطف کرنے کی درخواست کی۔ امام احمد رضا نے اپنے اہلِ خانہ سے بارہ افراد کو اِس کا سالانہ ممبر بنا دیا اور تین روپے سالانہ فی کس کے حساب سے ۳۶؍ روپے ارسال کر دیے۔ اور یہ صراحت بھی تحریر فرمادی کہ ’’ہمارا یہ تعاون اخبار کے ساتھ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اخبار خالص اسلامی فکرو عقیدہ اور اہلِ سنت کے عقائد کی ترجمانی کرتا رہے گا۔ جوں ہی اس میں فرق آئے گا احمد رضا قلم کے ساتھ ساتھ اپنا ہاتھ بھی کھینچ لے گا۔‘‘   ۵؎

            عہد رضا کے اخبار دبدبۂ سکندری رام پور نے بھی حمایتِ دین کی غرض سے مخلصانہ خدمت انجام دی۔ اِس اخبار نے فتنۂ ارتداد ’’شدھی تحریک‘‘ جسے فرقہ پرستوں نے اسلام کے خلاف بڑے خفیہ طریقے سے میدان میں اتارا تھی اُس کی سرکوبی میں اہم کردار ادا کیا، فتنۂ شدھی تحریک کو کچلنے کے لیے اعلیٰ حضرت کے حکم پر جماعت رضائے مصطفی نے وہ سرگرمی دکھائی جو ہماری جماعت کی تاریخ کا نقشِ جمیل ہے۔ جماعت کی روداد اور ارکان کی داعیانہ سرگرمیوں کی پل پل کی رپورٹ دبدبۂ سکندری میں شایع ہوتی تھی۔ گویا متوسلینِ رضا نے فکر ِرضا پر اُسی دور میں عمل بھی کر دکھایا۔ یہ موضوع تحقیقی ورک کی احتیاج رکھتا ہے۔

پیش منظر: آج کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ اخبارات الا ماشاء اللہ کس طرح سے بے راہ روی کا شکار ہیں، اشاعت ِحق میں بعض ہی مخلص ہیں، اکثر مغربیت، جدیدت، لادینیت اور ماڈرنائزیشن سے مرعوب ہیں، اب تو اُردو صحافت بھی شفافیت سے عاری ہوتی جارہی ہے۔ پھر یہ پہلو بھی لایق تردد ہے کہ صحافت پر اغیار چھائے ہیں جس کا سبب بھی ہماری اپنی بے اعتنائی اور لاپروائی ہے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے یہاں اصحابِ قلم کی کمی ہے بلکہ باعثِ تردد یہ امر ہے کہ ہمارے اصحابِ قلم میں اخبارات کے لیے لکھنے کا رجحان کم ہے۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ اِس میں مالی فائدہ نہیں لیکن دین کی اشاعت اور مسلک حق کے فروغ کے لیے اِسے نظر انداز کرنا غیر دانش مندانہ بات ہے،اِس لیے میں آج یہاں موجود اربابِ علم و دانش سے عرض کروں گا کہ وہ نوجوان نسل کے اصحابِ قرطاس و قلم کی حوصلہ افزائی کریں، اُن میں اسپرٹ پیدا کریں کہ وہ موجودہ صحافت کے شانہ بشانہ مسلکِ حق کی اشاعت کے لیے سرگرمِ عمل ہو جائیں، اِس طرح فکرِ اعلیٰ حضرت کی اشاعت بھی ہوگی اور باطل فرقوں کے فریب سے قوم کے تحفظ کا سامان بھی ہوگا۔

            آخری نکتہ یہ بھی پیش کیے دیتا ہوں کہ الحمدللہ! صحافت جس کا مقصد ترسیل و اَبلاغ ہے ہمارے یہاں ۱۴؍صدی پہلے سے اِس کا صالح نظام قائم ہے، اشاعتِ دین کا پورا نیٹ ورک اور دعوتِ حق کا معاملہ در اصل ہمارا کامیاب صحافتی محاذ ہے، مساجد کے منبر بھی دعوتِ حق کے لیے اہم مقام ہیں ، اِنھیں بھی اِسی رُخ سے دیکھا جا سکتا ہے، ہمیں قرآن مقدس نے جو یہ حکم دیا کہ ’’اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں، اور یہی لوگ مراد کو پہنچے‘‘۶؎ (کنزالایمان)اِس میں بھی ترسیلِ حق کی جو ترغیب ہے یہ در اصل دعوتِ دین کی غرض سے میڈیا کے درست استعمال پر ہمیں غور و فکر کی دعوت بھی ہے۔

            ضرورت اِس بات کی ہے کہ امام احمد رضا کے افکار پر عمل کر کے قوم کی صحیح رہ نمائی اور فکری تربیت کی جائے ،ذرایع اَبلاغ کا استعمال اسلام کی اشاعت کے لیے کیا جائے تو فکر کے گلستاں میں بہار آجائے گی اور عقیدہ و ایمان تازہ ہو اٹھیں گے۔

حواشی وحوالہ جات:

(۱)  فتاویٰ رضویہ، ج۱۲،ص۱۳۴ (۲)  یہودی پروٹوکول، بہ حوالہ ماہ نامہ ضیاے حرم لاہورجولائی۱۹۷۲ء (۳)  یہ فہرست مولانا عبدالسلام رضوی کے تحقیقی مقالہ ’’عہد رضا میں وابستگان رضا کی صحافتی خدمات‘‘ مشمولہ یادگار رضا ممبئی ۲۰۰۹ء سے لی گئی ہے تفصیل مقالہ میں دیکھیں۔ (۴)  کلیات مکاتیب رضا، دوم، ص۳۴۵ (۵)   مہمان اداریہ ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور مئی ۲۰۰۶ء، ص۳،بہ حوالہ کلیات مکاتیب رضا (۶)   سورۃ آل عمران:۱۰۴

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *