پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
آج سے کوئی ساٹھ برس قبل ہمارے اسلاف نے یہ سوچا تھا کہ اب ہندستان آزاد ہواتو ہماری اصل تاریخ سامنے آئے گی اور ہماری میراث آنے والی نسلوں تک پہنچ سکے گی ۔ اور مسخ شدہ ہندستانی تاریخ کو از سر نو ترتیب دی جائے گی مگر یہ امیدحسرت ہی بنی رہی ۔بقول شین اختر:
‘‘چند ایک روشن خیال افراد کو چھوڑ کر ہا ری تاریخ کا جائزہ لینے والوں نے نئی تاریخیں گھڑ لیں اور اپنے پُرکھوں کے جنازے سے کفن چوری کر لیا اور انھیں برہنہ چھوڑ کر اپنی فرقہ پرستی اور درندگی کا ثبوت فراہم کیا، اپنی ذات، برادری، ہم مذہب سیاسی رہنماؤں اور آزادیٔ وطن کی خاطر شہید ہونے والوں کی یادمیں مجسمے بنائے ، تصویریں بنائیں ، جنم دن منائے ، شہر وں ، گلیوں ، محلوں اور دانش گاہوں کے نئے نام رکھے۔اسکولوں اور کالجوں میں ان کے اسمائے گرامی لٹکائے ۔ اس طرح اپنی عصبیت اور تنگ نظری کی صلیبیں بنا کر ان کے سینوں پر چپکا دیں۔’’(باغی کی وراثت)
سچائی یہی ہے کہ ہندستانی تاریخ اور سیاست نے اپنے جان نثاروں کو بھُلا دیا۔ بلکہ یہ کہیں کہ جن کو ہماری سیاست نے چاہا ملک کی تاریخ میں زندہ رکھا اور جس کو چاہا اس سرے سے تاریخ کے صفحات سے غائب کر دیا ۔جو کل کے ہیرو تھے انھیں کوئی جانتا بھی نہیں لیکن جو بُردہ فروش تھے ان کی تاریخیں گھڑی جارہی ، جنھوں نے ساز باز کر کے پوری امت اور علما کو بدنام کر نے کی کوشش کی انہی کو جنگ آزادی کا سپہ سالار کہا جارہا ہے، ان پر لکھی جانے والی کتابیں مزین اوراق میں شائع ہورہی ہیں ۔جن کی انگریز نوازیوں نے ملک و قوم کے ساتھ غداری کی وہ آج کے ہیرو ہیں۔ متعصب اور تساہل پسند مؤرخوں کے حوالوں میں بھی وہی ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں ۔صرف ایک جماعت اور ایک فرقہ کا نام تاریخ میں درج کر کے سچے وطن پرست اور جانبازوں کو تاریخ سے مٹا دینے کی ایسی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملے گی۔لیکن صرف غیروں پہ ماتم کر کے اس کی تلافی نہیں کی جا سکتی ۔بات یہ ہے اس غیر اخلاقی رویے کے لیے جس قدر متعصب تاریخ نویس ذمہ دار ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ہم نے کبھی اپنی تاریخ کو نہ سمجھنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کی حفاظت کا کوئی اہتمام کیا۔جب ہمارا ہی یہ حال ہوگا تو دوسروں کی شکایت ہی بے جا ہے ۔ لیکن ایک بات ہے جس کی شکایت ہی نہیں احتجاج بھی کی جانی چاہیے۔آپ کو معلوم ہے کہ ہندستان میں جنگ آزدی سے متعلق جتنی بھی شخصیات ہیں ان کے نام سے سڑکیں ، اسکول ، کالج اور اور نہ جانے کیا کیا ہیں ۔ اور ہر سال ان کا جنم دن اور برسی بڑے دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔آپ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ۲۰۰۷ میں ہندستان کی حکومت پہلی جنگ آزادی کا ڈیرھ سو سالہ جشن منا یاگیا ۔ مگر اس بات پر کسی کو تعجب نہیں ہو ا کہ اس جنگ کے ہیرو اور قائد کی برسی ۷ نومبر۲۰۰۷ ء کو تھی۔ اس نام کے بغیر جنگ آزادی کی کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ۔مگر معاف کیجئے گا ، نہ صرف ہم نے بھُلایا بلکہ ہماری حکومت نے بھی اس طرح بھلایا کہ پورے ملک کی بات تو چھوڑئیے ، جس لعل قلعے پر ہم فخر کرتے ہیں اس لعل قلعے کے شہر ، دہلی نے بھی بہادر شاہ ظفر(۷نومبر ۲۰۰۷)کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کو فراموش کر دیا۔ آپ خود غور کریں کہ ایک طرف ہم ملک میں پہلی جنگ آزادی کی ڈیڑھ سو سالہ تقریب منا یاگیا ،مگر اسی جنگ کے ہیرو کی برسی پر کوئی تقریب نہیں ہوتی۔ اب اِ سے آپ تعصب کہیں ، مسلم تاریخ کُشی کہیں یا جو چاہیں کہیں سب روا ہے۔ مگر کچھ کہہنے سے پہلے یہ بھی سوچ لیں کہ کیا ہم خود بھی بے حِسی کے شکار نہیں ہیں ؟
آج کی صیہونی طاقتیں صرف انھیں اقوام کو اپنا نشانہ بنا رہی ہیں جن کی تاریخیں سب سے زیادہ روشن اور جن کے اقدار سب سے اعلیٰ رہے ہیں ۔آج کے گلوبل ورلڈ میں سب سے بڑی لڑائی یہی ہے۔ جب کسی قوم کی تاریخ تیزی آگے بڑھی ہے اس کو اسی تشدد سے ختم کرنے کی سازش بھی ہوئی ہے۔اس ملک میں سب سے پہلے انگریزوں نے مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنایا ۔انگریزوں کی دو کوششیں تھیں جس میں وہ کامیاب ہوئے اور آج تک وہ لعنت ختم نہیں ہوئی ۔
۱۔ ہندو مسلم نفاق
۲۔ مسلمانوں کے خلاف سازش
انگریزوں کے ذریعے ہندستان میں فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کا جو بیج بویا گیا آج وہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔فرقہ پرستی کی لعنت شباب پر ہے اور مسلمانوں کی خلاف عالمی سطح پر جو سازیشیں کی جارہی ہیں ،اس میں کہیں نہ کہیں ہندستان کی بھی شراکت ہے۔ایسے میں اگر ہم نے خود آگے بڑھ کر اپنی تاریخ اور اسلاف کے میراث کی حفاظت نہیں کی تو جو بھی بچی کھچی تاریخ ہے اسے بھی مِٹنے میں بہت وقت نہیں لگے گا۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں وہی قومیں اور نسلیں عزت ووقار کے ساتھ زندہ رہتی ہیں جو اپنی تاریخ کو اپنے لیے نہ صرف سرمایۂ افتخار سمجھتی ہیں بلکہ اسے وقیع ترین میراث بھی سمجھتی ہیں۔جس قوم نے اپنی تاریخ کو اپنے سینے سے لگایا وہی قوم سرفراز اور سر بلند رہتی ہے۔ اگر کسی قوم کو اس دنیا سے ختم کرنا ہے تو اس کے لیے تلوار و تفنگ کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اس کی تاریخ کو مٹا دو وہ قوم ایک صدی بھی نہیں گذرے گی کہ خود بخود ختم ہو جائے گی۔آج عالمی سطح پر اسی طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ صارفیت کا تصور بھی تقریباً یہی ہے کہ ایک ایسا نظام متعارف کرایا جائے کہ جس کی چمک دمک کے آگے تمام اقوام اپنے اقدار کو بھی بھول جائیں ۔آج ہو یہی رہا ہے کہ صارفیت اور عالم کاری کے پس پردہ مغربی کلچر کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے ۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اس کلچر کو عام کرنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سائنسی دور میں مذہب کو ہمارے سماج سے کو ئی واسطہ نہیں ہے مگر اس مغربی تہذیب کو دیکھیں تو اس میں تمام تر رسومات کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے عیسائی مذہب سے ہے ۔ اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جو عام لوگوں کی نظر وں میں ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ جس طرح ہماری ہندستانی تہذیب پر حملے ہو رہے ہیں اسی طرح ہماری تاریخ پر بھی کاری ضرب لگائی جا رہی ہے۔لیکن کم اہل نظر ہیں جواس حوالے سے اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ہندستانی تاریخ کو جس طرح سے غیر ملکیوں نے تباہ کیا ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی ، جن انگریزوں نے اس ملک کو لوٹا وہی اس کی تاریخ بھی لکھ رہے تھے اور آج کے فیشن پرست معاشرے میں انھیں کی کتابوں کو سب سے معتبر سمجھا جاتا ہے۔اسی لیے اس ملک کی تہذیبی اور تمدنی تاریخ پڑھ کر ہمیشہ تشنگی کا احساس ہوا ۔ کیونکہ ہندستان میں انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے سب سے زیادہ خطرہ انھیں مسلمانوں سے ہی تھا ۔ چنانچہ انھوں نے ایک طرف سب سے زیادہ مظالم بھی مسلمانوں پر ہی ڈھایا اور شعوری طور پر ان کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی ۔پھر اس کے بعد عہد جدیدکے تاریخ نویس بھی علمی دیانت داری سے کام نہیں کر سکے کیونکہ اس عہد کی زبان اردو اور فارسی تھی ۔لہٰذا تما م بنیادی مواد اسی زبان میں موجود تھے اور یہ تاریخ نویس ان سے ناواقف بھی تھے اور واقف ہونا بھی نہیں چاہتے تھے۔اس لیے رفتہ رفتہ جدیدہندستان کی تاریخ سے مسلمانوں کا نام ونشان کم ہوتا گیا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جب بھی حکومت جنگ آزادی کی بات کرتی ہے یا جب کوئی ایسی تقریب منائی جاتی جس میں بڑے تزک واحتشام کے ساتھ جنگ آزادی کے ہیروز کی تصویریں شائع کی جاتی ہیں تو ان میں مسلمان چہرے کم ہی ہوتے ہیں ۔چند نام جو ٹریڈ مارک کی حیثیت رکھتے ہیں ، انہی ناموں اور تصویروں کو ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں ۔ حالانکہ سچائی بالکل اس کے بر عکس ہے۱۷۵۷ سے ۱۸۵۷تک اور ۱۸۵۷سے ۱۹۴۷تک کی تاریخی سچائیوں کو کھنگالنے کی کو شش کریں تو معلوم ہوگا کہ اس طویل اور تاریخی جنگ میں جس طرح علمائے کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اس طرح کسی اور مذہبی جماعت نے وہ کردار ادا نہیں کیا ۔ایک طویل فہرست ہے جس کے لیے کئی دفاتر کی ضرورت ہے ۔لیکن جس طرح دوسروں نے ہماری قربانیوں اور وطن پر جاں نثاریوں کو بھلا دیا اس سے زیادہ ہم نے بھی غفلت کا ثبوت دیا ہے۔ایک اور پہلو پر بھی غور کریں کہ تاریخ نویس اتمام حجت کے لیے اگر علما کا نام لیتے بھی ہیں تو وہ وہابی تحریک سے شروع کرتے ہیں اور وہیں ختم بھی کر دیتے ہیں ۔جو تاریخ کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔
۱۸۵۷کے واقعے نے ایک طرف ملک کا سارا نظام بدل ڈالا تو دوسری جانب خود ہندستانیوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔صدیوں سے بنی بنائی قدروں کو لمحوں میں مسمار کردیا۔مشرقی تہذیب پرمغربی یلغار نے دانشوروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔عیسائیت کو حکومت کی سرپرستی میں فروغ دینے کی منضبط کوششوں نے ایک نیا محاذ کھول دیا ،وہ جو دوسروں کی کفالت کرتے تھے اب خود ہی دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہوگئے اس معاشی پست حالی نے ہندستانیوں کی کمر توڑ دی۔چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لیے انھیں یہ خدشہ تھا کہ اگر یہ دوبارہ متحد ہوگئے تو ہم سے نہ صرف حکومت چھین لی جائے گی بلکہ ہمارا نام ونشان بھی مٹا دیا جائے گا۔اس لیے ان کا One Pointپروگرام تھا کہ انھیں نفسیاتی اعتبار سے اتنا کمزور کردو کہ یہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں ۔اسی منصوبے کے تحت انھوں نے مذہبی منافرت کا بھی سہارا لیا اور ہر محاذ پر خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی یا علمی انھیں محرومیوں کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔وہ محب وطن جو وطن کی خاطر اپنی جان و مال کی بھی پرواہ نہیں کر رہے تھے ، ایسے جاں نثاروں کی، ان کے پاس ایک طویل فہرست تھی ، حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد انھیں ایسی عبرتناک سزائیں دیں کہ دیکھنے والا ان کی مخالفت کی سوچ بھی نہ سکے۔اس اندوہناک صورت حال میں سب سے بڑی ضرورت تھی کہ عوام کو محرومی کے احساس سے نکالا جائے اور نفیساتی اعتبار سے ٹوٹے بکھرے لوگوں کو ہمت و حوصلہ فراہم کیا جائے۔اُس وقت کسی بھی اقدام سے عوام الناس کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہونا تھا ، جتنا کہ اس اقدام سے ہواجسے علمائے کرام، اردو کے دانشوروں ،ادیبوں ، شاعروں ،صحافیوں اور نے کیا۔، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان ناموں میں ایک طبقے کو سرے سے نظر انداز کر دیا جا تا ہے اور وہ ہے علمائے کرام کی تحریریں ۔ ۱۸۵۷کے حوالے سے اردو ادب کا ذخیرہ بہت ہی وقیع ہے مگر المیہ ہے کہ ہم تعصبات کے شکار ہیں ۔ ہم نے علما کی تحریروں کو یکسر نظر انداز کیا ہے اور اسے ادب کے دائرے سے ہی خارج کر دیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود اپنا سرمایہ ہم اپنے ہاتھوں سے ضائع کر رہے ہیں۔لیکن ابھی بھی جو کچھ موجود ہے اس میں بھی علما اور مذہبی شخصیات کی تحریریں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔ ۱۸۵۷کی ناکام جنگ کے بعد ادیبوں کی جانب سے طرح طرح کے ردعمل سامنے آئے ۔ ۱۸۶۰ہی میں فغان دہلی کے نام سے شاعری کا مجموعہ سامنے آیا جس میں بیشتر ایسے شاعروں کا کلام ہے جو خود اس جنگ میں عملی طورپر شریک رہے اور جن جن شاعروں کے نام ہیں ان میں بیشتر وہ علمائے کرام ہیں جن کو ہمارے تاریخ نویس شاعر تو کہتے ہیں مگر عالم کہنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ الہٰ آباد میں شورش کے موقعے پر جو اشتہار بنام شاہ اودھ اور دیگر مقامات قرب و جوار میں مشتہر کیے گئے تھے ان میں سے دو پنڈت کنہیا لال نے محاربۂ عظیم(صفحہ ۳۰۰) میں نقل کیا ہے۔ یہ دونوں اشتہار اردو میں ہیں، ایک نثر میں ہے اور ایک نظم میں ۔ نظم کا اشتہار اس طرح ہے۔
واسطے دین کے لڑنا نہ پئے طمع بلاد اہل اسلام اسے شرع میں کہتے ہیں جہاد
ہے جو قرآن و احادیث میں خوبیٔ جہاد ہم بیاں کرتے ہیں تھوڑا سا اسے کر لو یاد
فرض ہے تم پہ مسلمانوجہاد ِ کفار اس کا سامان کرو جلد اگر ہو دیندار
جو نہ خود جاوے لڑائی میں نہ خرچے کچھ مال اس پہ ڈالے گا خدا پیشتر از مرگ وبال
جو راہِ حق میں ہوئے ٹکڑے نہیں مرتے ہیں بلکہ وہ جیتے ہیں جنت میں خوشی کرتے ہیں
حق تعالیٰ کو مجاہد وہ بہت بھاتے ہیں مثل دیوار جو صف باندھ کے جم جاتے ہیں
اے مسلمانو سنی تم نے جو خوبیٔ جہاد چلو اب رن کی طرف مت کرو گھر بار کو یاد
کب تلک گھر میں پڑے جوتیاں چٹخاؤگے اپنی سستی کا جزا افسوس نہ پھل پاؤگے
مومن خان مومن دہلوی بھی اس یورش کے عینی شاہدین میں سے ہیں ۔ انگریزوں کی بڑھتی طاقت کے پیش نظر انھیں دہلی اور لعل قلعہ کی تباہی کا منظرصاف دیکھائی دے رہا تھا ، اسی لیے انھوں نے بھی وہی باتیں کہیں جو اس وقت تمام علما ، مفتیان اور دانشوروں نے کہی تھی، ان کے مطابق انگریزوں سے لڑنا ایک طرح کا جہاد تھا۔اور لوگ جہادسمجھ کر ہی اس میں شریک ہورہے تھے۔ آج کا معاملہ یہ ہے کہ اس لفظ کو اس قدر بے حرمت کر دیا گیا ہے کہ جہاد کے نام سے لوگ مسلمانوں کو گویا دشنام دیتے ہیں (یہ بحث طلب موضوع ہے جس پر گفتگو ہونی چاہیے)۔ لیکن آپ یہ ملاحظہ فرمائیں کی اس وقت ملک کی حفاظت کے لیے اسی جذبۂ جہاد نے لوگوں کو مجتمع کیا اور اپنے ملک کی حفاظت میں خون کا ایک ایک قطرہ بھی نچھاور کر دیا۔انگریزوں کے خلاف اسی جہاد کے متعلق علامہ فضل حق خیر آبادی نے جامع مسجد کے منبر سے جہاد کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی اور جہاد کا فتویٰ صادر کر کے علما سے اس پر دستخط لیے ۔ دستخط کرنے والے تین سو علما میں زیادہ تر اہلسنت کے علما تھے۔پھر اس کے بعد ہر طرف انگریزو ں کے خلاف جہاد کے نعرے گونجنے لگے ۔جس کے حوالے اس عہد کے دستاویزات میں موجود ہیں ۔اس کا چرچہ اتنا عام ہوا کہ اردو کے شعرا نے بھی اسے اپنا موضوع سخن بنایا۔اسی جہادکی تلقین کرتے ہوئے مومن نے’’ مثنوی جہادیہ ‘‘لکھی جس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
عجب وقت ہے یہ جو ہمت کرے حیات ابد ہے جو اس دم مرے
سعادت ہے جو جانفشانی کرے یہاں اور وہاں کا مرانی کرے
الہٰی مجھے بھی شہادت نصیب یہ افضل سے افضل عبادت نصیب
سچائی یہی ہے کہ ۱۸۵۷ کی جنگ کو مہمیز کرنے میں علامہ فضل حق کا ہی بڑ ا نام ہے ۔ علامہ کے فتویٔ جہاد سے پہلے انگریزوں کے خلاف تمام ہندستانیوں بالخصوص مسلمانوں میں غم و غصہ تو ضرور پایا جاتا تھا مگر کوئی ایسا نقطۂ اتحاد نہیں تھا جہاں متحد ہوکر منصوبہ بند طریقے سے انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوسکتے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی اس وقت بہادر شاہ ظفر جو ہندستان کے بادشاہ تھے ان کی بادشاہت کی حقیقت یہ تھی کہ‘ از دہلی تا پالم’ ایسے میں وہ جنگ کی کیا حکمت عملی بناسکتے تھے ؟ ایک بات اور یہ بھی تھی کہ جنگ کو مضبوطی دینے کے لیے محض علامتی طور پر اس جنگ کا پرچم ان کے نام کیا گیا تھا ورنہ در حقیقت یہ علمائے اسلام ہی تھے جنھوں نے اس کو جہاد کا نام دے کر مسلمانوں اور ہندستانیوں کو متحد کیا اور مسلم علما نے قائدانہ رول ادا کیا۔ اس کی پیش رفت کے حوالے سے علامہ فضل حق کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا ۔ اس کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ آج تک کسی گوشے سے اور کسی بھی مورخ کی جانب سے یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ انھوں نے غلط کیا ۔ یہ اپنے آپ میں اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ علامہ فضل حق نے اس وقت جو فتویٰ دیا وہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ اس فتوی کے مضمرات میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی حفاظت اور اس کی نگہبانی مذہبی اصولوں میں سے ایک ہے ۔ آج جو ہر طرف مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے کہ مسلمان ملک کے تئیں وفا دار نہیں تو یہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے کہ جب ملک پر آفت آئی تو یہ علما ہی تھے جنھوں نے عملی طور پر اس جنگ میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ اس کی قیادت بھی کی ۔ اس جنگ آزادی کو جنگ کہنے کاخوشگوار فرض بھی علامہ فضل حق نے ہی ادا کیا ۔ اس فتوی سے قبل انگریزوں کے خلاف غصہ تو ضرور تھا مگر اس کو جنگ کا نام نہیں دیا گیا تھا ۔جب علامہ نے اس کو جہاد کہا تب ہی اس میں تیزی آئی اور منظم اور منصوبہ بند طریقے سے محاذ آرائی کی گئی جسے بعد میں جنگ آزادی کا نام دیا گیا ۔ اس لیے ۱۸۵۷کی جنگ آزادی کو آگے بڑھانے کے نام پر آج اگرچہ ہزاروں سر ایسے ہیں جو سہرا باندھنے کو تیار ہیں لیکن تاریخی حقائق یہ کہتے ہیں کہ یہ سہرا توصرف علامہ فضل حق کے سر ہی بندھے گا ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس عظیم کارنامے کے بعد بھی ہندستانی تاریخ نویسوں اور سیاست نے علامہ کے کردار کو حاشیے میں رکھ دیا ہے ۔ وہ لوگ جن کا دور دور تک اس جنگ سے کوئی واسطہ نہیں تھا ، جو انگریزوں کی مخبری کر کے جنگ آزادی کے ہیرو بنے گھوم رہے ہیں ، ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ :
مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن ميں ذر اور صحرا نا م ہو جائے
لیکن سب سے بڑ ا المیہ یہ ہے کہ اپنوں نے بھی اس سمت میں کوئی کوشش نہیں کی ، تاریخ لکھی جاتی رہی بردہ فروش جنگ آزادی کے ہیرو بنتے رہے لیکن ہمیں اس وقت ہوش آیا جب تاریخ مسخ ہوچکی تھی ۔حد تو اس وقت ہوئی جب اس ملک میں جنگ آزادی کا ڈیڑھ سو سالہ جشن منایا گیا تو دور دور تک اس جنگ آزادی میں کلیدی کردار ادا کرنے والوں کی تصویریں تو دور ان کا نام بھی نہیں آیا ۔ یہ واقعی ایسا افسوسناک پہلو ہے جس کی امید ہندستانی سیاست دانوں سے نہیں کی جاسکتی تھی۔لیکن مقام شکر ہے اب ہم تاریخ کو نئے سرے سے مرتب کرہے ہیں اور اس سلسلے میں تین اہم شخصیات علامہ یٰسین اختر مصباحی ، اسید الحق قادری اورخوشتر نورانی ہیں جنھوں نے علامہ فضل حق کی نئے سرے سے بازیافت کی ہے۔
یہ تاریخی ناانصافی اور بھی علمائے سلف کے ساتھ ہوا ان میں امام بخش صہبائی جو ایک بڑے عالم دین بھی تھے،نے اس جنگ میں عملی طور پر شرکت بھی کی اور انگریزوں سے معتوب بھی ہوئے،انھوں نے دلی کے لُٹ جانے کے بعد کے درد کو جس انداز میں اپنے اشعار میں پیش کیا ہے وہ انتہائی کرب انگیز ہے انھوں نے ذیل کے اشعار میں ان شہزادیوں اور رئیسوں کی بدحالی کا ذکر کیا ہے کہ جنھوں نے کبھی کوئی تکلیف نہیں دیکھی آج ان کا کیا حال ہے ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیں:
زیور الماس کا بھی جن سے نہ پہنا جاتا بھاری جھومر بھی کبھی سرپہ نہ رکھا جاتا
گاج کا جن سے دو پٹہ نہ سنبھالا جاتا لاکھ حکمت سے اوڑھتے تو نہ اوڑھا جاتا
سر پہ وہ بوجھ لیے چار طرف پھرتے ہیں
دو قدم چلتے ہیں مشکل سے تو پھر گرتے ہیں
طبع جو گہنے سے پھولوں کے اذیت پاتی مہندی ہاتھوں میں لگا سوتے تو کیا گھبراتی
شام سے صبح تلک نیند نہ ان کو آتی ایک سلوٹ بھی بچھونے میں اگر پڑ جاتی
ان کو تکیہ کے بھی قابل نہ خدا نے رکھا
سنگ پہلو سے اٹھایا تو سرہانے رکھا
روز وحشت مجھے صحرا کی طرف لاتی ہے سر ہے اور جوش جنوں سنگ ہے اور چھاتی ہے
ٹکڑے ہوتا ہے جگر جی ہی پہ بن جاتی ہے مصطفی خان کی ملاقات جو یاد آتی ہے
کیونکہ آزردہ نکل جائے نہ سوادئی ہو
قتل اس طرح سے بے جرم جو صہبائی ہو (فغان دہلی)
منیر شکوہ آبادی بھی جنھیں صرف لوگ شاعر کے طور پر جانتے ہیں ، لیکن یہ ایک عالم دین تھے (مولانا یٰسین اختر مصباحی نے اپنی کتاب میں ان کا تفصیلی ذکر کیا ہے)جنھوں نے اس ہنگامے کو نہ صرف دیکھا تھا بلکہ اس سے متاثر بھی ہوئے۔یہ نواب باندہ کے مصاحب تھے ، ان کی گرفتاری کے بعد مرزا ولایت حسین کے ساتھ فرخ آباد میں قید کر لیے گئے اور ان پر مقدمہ چلتا رہا۔ اس کی تفصیل خود ان کے اشعار میں ملاحظہ فرمائیں:
فرخ آباد اور یاران شفیق چھٹ گئے سب گردش تقدیر سے
آئے باندے میں مقید ہوکے سو طرح کی ذلت و تحقیر سے
کوٹھری تاریک پائی مثل قبر تنگ تر تھی حلقۂ زنجیر سے
پھر ا لہٰ آباد لے جائے گئے ظلم سے تلبیس سے تزویر سے
جو الہٰ آباد میں گذرے ستم ہیں فزوں تقریر سے تحریر سے
پھر ہوئے کلکتے کو پیدل رواں گرتے پڑتے پاؤں کی زنجیر سے
ہتھکڑی ہاتھوں میں بیڑی پاؤں میں ناتواں تر قیس کی تصویر سے
سوئے مشرق لائے مغرب سے مجھے تھی غرض تقدیر کو تشہیر سے
یہ اور اس طرح کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ظاہر ہے اس کا یہاں موقع نہیں اور نہ گنجائش ہے ۔لیکن نئے تاریخ نویسوں سے یہ امید ضرور کرتا ہوں کہ وہ تاریخ کو نئے سرے سے دیکھیں اور تاریخ نویسی میں مبالغہ اور دروغ سے احتراز کرتے ہوئے بنیادی مآخذ سے براہ راست استفادے کے بعد ہی تاریخ لکھیں تب ہی وطن پر قربان ہونے والوں کا قرض اتر سکتا ہے۔
٭٭٭٭
Tags war of independence جنگ ٓزادی ، ۱۸۵۷، 1857